Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
105 - 151
نیز علامہ موصوف فرماتے ہیں:
قال فی البحر وبہ علم ان تقلید الکافر صحیح وان لم یصح قضاؤہ علی المسلم حال کفرہ اھ
 وھذا ترجیح لروایۃ صحۃ التولیۃ اخذ من کون الفتوی علی انہ لاینعزل بالردۃ خلافا لمامشی علیہ المصنف فی باب التحکیم من روایۃ عدم الصحۃ وفی الفتح قلد عبد فعتق جاز قضاؤہ بتلک الولایۃ بلاحاجۃ الی تجدید بخلاف تولیۃصبی فادرک، ولو قلد کافر فاسلم قال محمد ھو علی قضائہ فصار الکافر کالعبد والفرق ان کلامنھما لہ ولایۃ وبہ مانع وبالعتق والاسلام یرتفع، اما الصبی فلا ولایۃ لہ اصلا۱؂۔ ردالمحتار جلد۴صف ۳۲۹۔
بحر میں فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ کافر کا تقرر صحیح ہے اگرچہ ا س کے کفرکی بناء پر مسلمان پر اس کی قضاء صحیح نہ ہوگی اھ، اور یہ اس روایت کی ترجیح قرار پائے گی جس میں کافر کی تولیت کو صحیح کہا گیا ہے یہ اس فتوٰی سے ماخوذ ہے جس میں یہ ہے کہ قاضی کے مرتد ہوجانے پر وہ معزول متصور نہ ہوگا، یہ مصنف کے عدم جواز والے موقف کے خلاف ہے جس کو انہوں نے تحکیم کے باب میں بیان کیا ہے اور فتح میں ہے کہ جب غلام کا تقرر ہوا ہو اور وہ آزاد ہوگیا تو اس پہلی تقرری پر ہی اس کی قضا جائز ہوگی نئی تقرری کی ضرورت نہیں اس کے بر خلاف جب بچے کی تقرری ہوئی اس کے بعد وہ بالغ ہوجائے اگر کافر کی تقرری ہوئی پھر وہ مسلمان ہوجائے امام محمدرحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ وہ پہلی تقرری پر ہی قضاء کرے گا تو یوں کافر عبد کی طرح حکم پائے گا، اور ان دونوں اور بچے میں فرق یہ ہوگا کہ یہ دونوں ولایت کے اہل تھے لیکن ان کاکفر اور غلام ہونا عمل قضا سے مانع تھا اور اب وہ ختم ہوگیا ہے لیکن نابالغ ولایت کا اہل ہی نہیں تھا اس لئے بلوغ کے بعد دوبارہ تقرری ضروری ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۲۹۸)
نیز فرماتے ہیں:
فی الخانیۃ اجمعواانہ اذاارتشی لاینفذ قضاؤہ فیما ارتشی فیہ اھ قلت حکایۃ الاجماع منقوضۃ بما اختارہ البزدوی واستحسنہ فی الفتح وینبغی اعتمادہ للضرورۃ فی ھذاالزمان والابطلت جمیع القضایا الواقعۃ الاٰن لانہ لاتخلو قضیۃ عن اخذالقاضی الرشوۃ المسماۃ بالمحصول قبل الحکم او بعدہ فیلزم تعطیل الاحکام وقدمرعن صاحب النھر فی ترجیح ان الفاسق اھل للقضاء انہ لو اعتبر العدالۃ لانسد باب القضاء فکذایقال ھٰھنا۲؎ ردالمحتار جلد۴ص۳۳۵۔
خانیہ میں ہے کہ فقہاء نے بالاجماع فرمایا کہ قاضی نے جس کیس میں رشوت لی ہے اس میں اس کی قضاء نافذ نہ ہوگی ، میں کہتا ہوں یہ اجماع امام بزدوی کے مختار اس قول سے جس کو فتح میں مستحسن قرار دیا اور(فی زمانہ ضرورت کی بناپر اس پر اعتماد مناسب ہے) سے ٹوٹ جائیگا ورنہ اجماع کے پیش نظر آج تمام فیصلے باطل ہوجائیں گے کیونکہ کوئی کیس بھی قاضی کے اس عنوان کی رشوت جس کو وہ محصول کہتے ہیں، سے خالی نہیں ہے جس کو وہ فیصلہ سے قبل یا بعد وصول کرلیتے ہیں اس تمام فیصلے کا معطل ہونا لازم آئے گا جبکہ صاحب نہر کی یہ روایت گزرچکی ہے جس میں انہوں نے فاسق کی اہلیت قضاء کو ترجیح دی اور کہا ہے کہ اگر عدالت کا اعتبار کیا جائے تو پھر قضاء کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا ، یہاں یہی کہا جاسکتا ہے (ت)
 (۲؎ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۴)
علامہ جمال الدین زیلعی بجواب امام شافعی رحمہ اﷲ جن کے نزدیک جاہل کی قضاء درست نہیں ہے۔

فرماتے ہیں :
ولناان المقصود ایصال الحق الی المستحق وھو یحصل بالعمل بفتوی غیرہ۔ تبیین۱؂ الحقائق ج۴ص۱۷۶۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ قضاء سے مقصود یہ ہے کہ مستحق کو اس کا حق دلایا جائے تو غیر کے فتوی پر عمل سے یہ حاصل ہوجاتا ہے۔ تبیین الحقائق ج۴ص۱۷۶۔(ت)
(۱؎ تبیین الحقائق     کتاب القضاء     المطبعۃ الکبری الامیریہ بولاق مصر    ۴/ ۱۷۶)
شیخ الاسلام علاء الدین خفصکی(عہ) درمختار میں فرماتے ہیں:
ویجوز تقلد القضاء من السلطان العادل والجائر ولو کافرا ذکرہ مسکین وغیرہ الا اذاکان یمنعہ عن القضاء بالحق فیحرم۲؎۔ جلد ۴ص۳۳۹۔
مسکین وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ سلطان عادل ہو یا ظالم ہو بلکہ کافر بھی ہو تو اس کی طرف سے قاضی کی تقرری جائز ہے مگر وہ جب قاضی کو حق پر فیصلہ سے منع کرتا ہو تو پھر تقرری حرام ہوگی۔ جلد ۴ ص۳۳۹۔ (ت)
(عہ: صحیح حصکفی ہے حصن کیفا کی طرف نسبت ۱۲۔)
(۲؎ درمختار        کتاب القضاء    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۳)
علامہ شامی کتاب ردالمحتار میں فرماتے ہیں:
قولہ ولو کافر افی التتارخانیۃ الاسلام لیس بشرط فیہ ای فی السلطان الذی یقلد۳؎۔ج۴ص۳۳۹۔
ماتن کا قول''اگر چہ کافر ہو'' تاتارخانیہ میں ہے کہ قاضی کی تقرری کرنے والے سلطان کیلئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔  ج ۴ ص۳۳۹۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار        کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت     ۴ /۳۰۸)
روایت مندرجہ بالا میں سے روایت نمبر ۱و۳و۸ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کا فرض منصبی یہی ہے کہ حقدار کی حق رسی اور مظلوم سے رفع ظلم کردے جس کےلئے نہ اس کے عالم ہونے کی ضرورت ہے اور نہ مفتی پر ہیز گار ہونے کی، اگر خود عالم ہو تو خیر، ورنہ دوسرے کے فتوٰی دینے سے اپنے اس غرض کو پورا کرے گا اور ظاہرہے کہ ایسا کرنا طاقت کے ذریعہ ہو سکتا ہے جو بادشاہ وقت کاعطیہ ہوا ،  روایت نمبر۵ ،۲سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی میں علم اور اتقا کی شرط اس لئے چھوڑ دی گئی ہے کہ ایسے قاضی کا ملنا جو عالم ہو اور علم کے ساتھ اتقا بھی رکھتا ہو مشکل اور سخت مشکل ہے ، روایت نمبر ۶ ،۸ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ علم اور اتقا کی شرط مان لیجائے تو فیصلوں کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا، روایت نمبر۸ سے بالخصوص یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ رشوت لے کر فیصلہ کیا ہو باوجود بالاجماع باطل ہونے کے متاخرین نے اسلئے جائز اور نافذ مان لیا ہے کہ ایسانہ کرنے میں فیصلوں کادروازہ ہی بند ہوا جاتا ہے کیونکہ قاضی غیر مرتشی کا وجود ہی عنقاء ہے ، روایت نمبر۱۰، ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ قضاء کا عہدہ اور اس کے اختیارات دینے کے لئے دینے والے بادشاہ کا مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔، روایت نمبر ۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم میں قاضی ہونے کی کافی لیاقت ہے اگر چہ مسلمانوں پر اس کے احکام نافذ نہیں ہوتے، جب روایات مندرجہ بالا سے معلوم ہوگیا کہ قاضی کے لئے علم اور پر ہیز گاری کی شرط کو فقہاء متاخرین نے اس لئے چھوڑ دیا ہے کہ اس کے ماننے سے فیصلوں کا دروازہ بند ہوجائے گا تو ظاہر ہے کہ ملک ہندوستان میں اسلام کی شرط ماننے سے بھی فیصلوں کا دروازہ بند ہوجائیگا اور مسلمانوں کے لئے یا کم از کم اسی جگہ کے مسلمانوں کے لئے جہاں کا قاضی(جج) مسلمان نہ ہو حق رسی کی کوئی صورت نہیں رہے گی کیونکہ گورنمنٹ کو تمام اہل مذاہب سے یکساں تعلق ہے اور اس لیے مسلمان قاضی مقرر کرنے کی پابندی نہیں ہوسکتی تو جس جگہ کا قاضی مسلمان نہ ہوگا وہاں یہ مشکل ضرور پید اہوگی اور اس میں کچھ شک نہیں کہ حقدار کی حق رسی کی طاقت اور اس کا عمل میں لانا جو منصب قضاکا اصل مقصود ہے جس طرح ایک مسلمان سے باوجود عالم پرہیز گار نہ ہونے کے ممکن ہے اسی طرح ایک غیر مسلم قاضی سے بھی ممکن ہے ، لہذا اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ہر جگہ مسلمان قاضی کا ملنا متعذر اور سخت مشکل ہے نیز اس بات کو کہ قضا کی اصل غرض ایصال حق کے حاصل ہونے مسلم اور غیر مسلم دونوں یکساں ہیں، شرعاً یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ملک ہندوستان میں دیوانی عدالت کا جج بموجب شرع محمدی کے قاضی ہوسکتا ہے عام اس سے کہ وہ مسلم یا غیر مسلم اور مسلم ہونے کی شرط کا اسی ملک تک محدو د ہونا ضروری ہے جہاں اسلامی گورنمنٹ ہو۔
ھذا مااستقر علیہ رائی
 (یہ وہ ہے جس پر میری رائے ٹھہری۔ت)
واﷲ بالصواب۔
کتبہ العبد المذنب المفتی محمد عبداﷲ عفا اﷲ عنہ

المجیب مصیب  		  صح الجواب        				الجواب صحیح

احمد علی عفی عنہ	 محمد حسن عفی عنہ    			 محمد اکرام الحق

الجواب صحیح        		 الجواب نعم الجواب   			 الجواب صحیح

محمد عمر خاں عفی عنہ     محمد یار عفی عنہ امام مسجد طلائی لاہور بقلمہ   غلام رسول مدرس مدرسہ حمیدیہ 

قد اصاب من اجاب محمد عالم مدرس مدرسہ حمیدیہ
اس زمانے میں جج کو بشرطیکہ وہ موافق شرع کے حکم د ے بضرورت قاضی کا حکم دیا جاسکتا ہے ۔

محمد لطف اﷲ مہر سابق مفتی حیدر آباد دکن ساکن علی گڑھ۱۹۹۲ء ۱۲/مئی 

الجواب صحیح محمد امانت اﷲ غفراﷲ مدرس مدرسہ اسلامیہ علی گڑھ۱۲مئی ۱۹۱۲ء
اظنہ صحیحا
ولعل اﷲ یحدث بعد ذٰلک امرا
 (میرے گمان میں صحیح ہے ہوسکتا ہے اﷲ تعالٰی اس کے بعد کوئی صورت پیدا فرمادے ۔ت) الفقیر محمد ابراہیم عفی عنہ نمبر دار کرنال وقاضی تحصیل کرنال بقلم خود۲۷جون ۱۹۱۲ء
Flag Counter