Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
104 - 151
رسالہ 

الھبۃ الاحمدیۃ فی الولایۃ الشرعیۃ والعرفیۃ(۱۳۳۳ھ)

(شرعی اور عرفی ولایت کے بارے میں احمدی ہبہ)

بسم اﷲالرحمٰن الرحیم
مسئلہ۱۱۴: ازگولڑہ ضلع راولپنڈی     مرسلہ قاری عبدالرحمٰن صاحب ۷/ جمادی الاخرہ ۱۳۳۳ھ

جناب عالی مدظلہ العالی ان دونوں فتووں کی نسبت جناب کی کیا رائے ہے یعنی واقعی غیر مسلم مسلمانوں کا قاضی ہوسکتا ہے جیسا کہ مفتی عبداﷲ صاحب نے تحریر فرمایا ہے ، والتسلیم (نقل فتوی مطبوعہ(عہ)مستشار العلماء)
عہ:  مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی سید عبدالسلام، ۲۹/ جون جمع کردہ لطف الرحمٰن ساکن کرنال متعلق ابطال وقف نواب عظمت علی خاں جاگیر دار کرنال جن کو ڈپٹی کمشنر کرنال نے بحیثیت جج دیوانی حکماً محجور کردیا تھا، اس کے بعد انہوں نے وقفنامہ مورخہ ۲۵/اگست ۱۹۰۸ء رجسٹری شدہ ۲۵/ستمبر ۱۹۰۸ء لکھا، اس فتوے میں یہ ثبوت دینا چاہا ہے کہ جج انگریز قاضی شرع ہے اور اس کے احکام مثل قاضی شرع مثبت احکام شرعیہ ہیں، اس کے ساتھ دوسرا فتوٰی اسی مستشار العلماء کاچھپا ہے کہ جب جج قاضی شرع ہے اور قاضی کاحجر جائز تو عظمت علی خاں محجور ہوگئے اور وقف باطل ہے۱۲۔
سوال: کیافرماتے ہیں علمائے حنفیہ اس بات میں کہ ہندوستان میں جج عدالت دیوانی کا جو انگریز ہو شرع محمدی کے بموجب قاضی ہے یانہیں؟ بینواتوجروا

الجواب: حنفیہ مذہب کی روسے ملک ہندوستان کی موجودہ حالت میں دیوانی عدالت کا جج مسلم بمنزلہ شرعی قاضی کے ہے اور اس کے فیصلے اسی طرح شرعاً قابل نفاذ ہوں گے جس طرح ایک مسلمان قاضی کے ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ فیصلے مذہب اسلام کے مطابق اور شریعت محمدی کے موافق ہوں۔

ثبوت: حنفی مذہب کی کتابوں میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قاضی کا منصبی فرض اور بحیثیت قاضی ہونے کے اس کا اصلی کام یہ ہے کہ وہ بذریعہ اس طاقت اور قوت کے جو بادشاہ کی طرف سے اسے حاصل ہو عام اس سے کہ وہ بادشاہ مسلم ہو یا غیر مسلم، حقدار کی حق رسی کردے جبکہ اس کا حقدار ہونا اسلامی احکام اور شرعی قوانین کے مطابق ثابت ہو، پھر یہ ثبوت قاضی کو خود اپنے علم سے حاصل ہو یعنی جبکہ وہ خود اسلامی مسائل اور شرعی احکام سے پورا واقف ہو یا یہ بات بذریعہ کسی لائق مفتی کے فتوٰی دینے کے اسے حاصل ہو یعنی جبکہ وہ خود اسلامی مسائل اور شرعی احکام سے واقف نہ ہو۔
 شیخ الاسلام برہان الدین مرغینانی فرماتے ہیں :
فالصحیح ان اھلیۃ الاجتہاد شرط الاولیۃ فاما تقلید الجاہل فصحیح عندنا خلافا للشافعی رحمہ اﷲ وھو یقول ان الامر بالقضاء یستدعی القدرۃ علیہ ولا قدرۃ دون العلم ولنا انہ یمکنہ ان یقضی بفتوی غیرہ ومقصود القضاء یحصل بہ وھو ایصال الحق الی مستحقہ۱؂۔ ھدایۃ ج ۶ص۳۶۰۔
تو صحیح یہ ہے کہ اجتہاد کی شرط اولٰی ہونے کی ہے لیکن جاہل کا تقرر تو ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے امام شافعی رحمہ اﷲ تعالٰی کا اس میں اختلاف ہے وہ فرماتے ہیں قضاء کا معاملہ اس پر قدرت کا متقاضی ہے جبکہ علم کے بغیر قدرت اس پر نہیں ہوسکتی اور ہماری دلیل یہ ہے کہ جاہل کو دوسرے کے فتوٰی پر عمل ممکن ہے اور قضاء کا مقصد اس سے حاصل ہوجاتا ہے اور وہ حقدار کو حق دینا ہے۔ ہدایہ ج ۶ص۳۶۰(ت)
 (۱؎ الہدایہ     کتاب ادب القاضی    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۳۲)
محقق شیخ ابن الہمام فرماتے ہیں:
وقد اختلف فی قضاء الفاسق فاکثر الائمۃ علی انہ لاتصح ولایتہ کالشافعی وغیرہ کما لاتقبل شہادتہ، وعن علمائنا الثلاثۃ فی النوادر مثلہ لکن الغزالی قال اجتماع ھذہ الشروط من العدالۃ والاجتہاد وغیرہما متعذر فی عصرنا لخلوالعصر عن المجتہد والعدل فالوجہ تنفیذ قضاء کل من ولاہ سلطان ذو شوکۃ وان کان جاھلا فاسقا وھو ظاہر المذہب عندنا، فلو قلد الجاہل الفاسق صح ویحکم بفتوی غیرہ۱؂۔ فتح القدیر جلد ۶ص۳۵۷۔
فاسق کی قضامیں اختلاف ہے اکثر ائمہ کرام کی رائے ہے کہ یہ صحیح نہیں مثلاً امام شافعی رحمہ اﷲ وغیرہ فرماتے ہیں کہ جس طرح فاسق کی شہادت قابل قبول نہیں اسی طرح اس کی ولایت بھی صحیح نہیں ہے اور ہمارے تینوں ائمہ کا نوادر میں یہی قول ہے لیکن غزالی نے فرمایا کہ عدالت ، اجتہاد اور دیگر شرائط کا جمع ہونا ہمارے زمانہ میں دشوار ہے کیونکہ یہ زمانہ عدل واجتہاد سے خالی ہے تو صحیح طور پر یہ ہے کہ صاحب شوکت سلطان جس کو بھی ولایت سونپ دے اس کی قضاء نافذ ہوگی اگرچہ وہ جاہل فسق ہو اور ہمارا ظاہرمذہب یہی ہے تو اگر وہ سلطان ، جاہل فاسق کا تقرر کردے تو صحیح ہوگا اور وہ قاضی دوسرے کے فتوے پر فیصلے دے گا۔ فتح القدیر جلد۶ ص۳۵۷۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر     کتاب ادب القاضی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۳۵۷)
نیز محقق موصوف فرماتے ہیں:
 فالصحیح انہا لیست شرطا للولایۃ بل للاولویۃ، فاما تقلید الجاہل فصحیح عندنا، ویحکم بفتوی غیرہ خلافا للشافعی ومالک واحمد وقولھم روایۃ عن علمائنا نص محمد فی الاصل ان المقلد لایجوز ان یکون قاضیا ولکن المختار خلافہ علیہ قالواالقضاء یستدعی القدرۃ علیہ ولاقدرۃ بدون العلم قلنا یمکنہ القضاء بفتوی غیرہ ومقصود القضاء و ھوایصال الحق الی مستحقہ ورفع الظلم یحصل بہ فاشتراطہ ضائع۱؂۔ فتح القدیرجلد۶ص ۳۵۹۔
تو صحیح یہ ہے کہ اجتہاد ولایت کی شرط نہیں ہے بلکہ اولٰی ہونے کی شرط ہے لیکن جاہل کا تقرر تو ہمارے نزدیک یہ صحیح ہے اور غیر کے فتوے پر فیصلے دے گا۔ امام شافعی ، امام مالک اور امام احمدرحمہ اﷲ تعالٰی کا موقف اس کے خلاف ہے اور ہمارے ائمہ سے بھی یہ قول مروی ہے ،امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے اصل (مبسوط) میں اس پر نص فرمائی ہے کہ کوئی مقلد قاضی نہیں بن سکتا لیکن مختار اس کے خلاف ہے، ائمہ فرماتے ہیں کہ قضا کا منصب اس پر قدرت کا متقاضی ہے جبکہ علم کے بغیر قدرت نہیں ہوتی، ہمارا جواب یہ ہے کہ بے علم کو دوسرے کے فتوی پر فیصلے دینا ممکن ہے جبکہ قضاء کامقصد صرف مستحق کو عطا کرنا اور ظلم کا دفاع کرنا ہے اور وہ اس طریقہ سے حاصل ہوسکتا ہے ، لہذا اجتہاد کی شرط بے مقصد ہے۔فتح القدیر جلد۶ص۳۵۹(ت)
 (۱؎فتح القدیر     کتاب ادب القاضی     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۶۰۔۳۵۹)
کتاب فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
ویکون من اھل الاجتہاد والصحیح ان اھلیۃ الاجتہاد شرط الاولویۃ کذا فی الھدایۃ حتی لو قلد جاہل وقضی ھذا الجاہل بفتوی غیرہ یجوز کذا فی الملتقط۔۲؎جلد ۳ص۳۰۷
قاضی اہل اجتہاد سے ہو جبکہ صحیح یہ ہے کہ اجتہاد کی شرط صرف اولٰی ہونے کے لئے ہے۔ ہدایہ میں ایسے ہے حتی کہ اگر جاہل کا تقرر کیا گیا اور وہ دوسروں کے فتوی پر فیصلے دے تو جائز ہے جیسا کہ ملتقط میں ہے۔ جلد ۳ص۳۰۷(ت)
(۲؎ فتاوی ہندیہ کتاب ادب القاضی     الباب الاول     نورانی کتب خانہ کراچی    ۳ /۳۰۷)
عبدالرحمٰن آفندی مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر میں فرماتے ہیں:
وفی الشمنی اجتماع ھذہ الشرائط من الاجتہاد والعدالۃ وغیرہما متعذر فی عصرنا لخلوالعصر عن المجتہد و العدل فالوجہ تنفیذ قضاء کل من ولاہ سلطان ذوشوکۃ وان کان جاہل فاسقا۳؎۔ جلد ۲ص۱۵۱۔
شمنی میں ہے کہ اجتہاد ، عدالت وغیرہ کی شرائط کا جمع ہونا ہمارے زمانہ میں دشوار ہے کیونکہ یہ زمانہ اجتہاد اور عدل سے خالی ہے، تو صحیح وجہ یہ ہے کہ جس کو بھی صاحب شوکت سلطانی قاضی مقرر کردے اس کی قضاء نافذ ہوگی خواہ وہ فاسق جاہل ہی کیوں نہ ہو۔ (ت) جلد۲ص۱۵۱۔
 (۳؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۱۵۱)
علامہ ابن عابدین کتاب ردالمحتار میں فرماتے ہیں:
قولہ والفاسق اھلھا سیأتی بیان الفسق والعدالۃ فی الشہادات وافصح بھذہ الجعلۃ دفعا للتوھم من قال ان الفاسق لیس باھل للقضاء فلا یصح قضاؤہ لانہ لایؤمن علیہ لفسقہ وھو قول الثلاثۃ واختارہ الطحاوی، قال العینی وینبغی ان یفتی بہ خصوصا فی ھذاالزمان اھ
اقول: لو اعتبر ھذا لانسد باب القضاء خصوصا فی زماننا فلذاکان ماجری علیہ المصنف ھو الاصح کذا فی الخلاصۃ وھو اصح الاقاویل کمافی العمادیۃ نھر۱؎۔ جلد ۴ص۳۳۰۔
ماتن کا قول کہ فاسق قضاکا اہل ہے تو شہادات کے بیان میں فسق اور عدالت کی بحث آئے گی ، ماتن نے یہ قول یہاں اس لئے بیان کیا تا کہ ان لوگوں کا تو ہم ختم ہو جو یہ کہتے ہیں کہ فاسق قاضی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا لہذا اس کی قضا صحیہح نہیں ہے کیونکہ فسق کی وجہ سے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا یہ قول تینوں اماموں کا ہے جسے طحاوی نے اختیار کیا ہے، امام عینی نے فرمایا اس قول پر فتوٰی مناسب ہے خصوصاً موجودہ زمانہ میں، اھ،
میں کہتا ہوں کہ اگر اس قول کا اعتبار کیا گیا تو پھر قضا کا دروازہ بند ہوجائے گا خصوصاً ہمارے اس زمانہ میں، لہذا مصنف جس قول پر قائم ہے وہی اصح ہے، خلاصہ میں ایسے ہے اور یہ سب سے اصح قول ہے جیسا کہ عمادیہ میں ہے، نہر۔ جلد ۴ص۳۳۰(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۲۹۹)
Flag Counter