Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
103 - 151
شرط سوم: وہ ضرر ثابت و متحقق ہو محتمل و متوقع معتبر نہیں مثلا چھت کے قریب بلند دیوار میں تابدان ہیں کہ اگر سیڑھی لگا کر اوپر چڑھ کر جھانکے تو ہمسایہ کے زنانے کا سامنا ہو اس کا اعتبار نہ ہوگا اور وہ روشندان بند نہ کئے جائیں گے۔ 

عقود الدریہ میں ہے :
سئل فی رجل لہ قاعۃ رفیعۃ البناء ملا صقۃ لدار جارہ ففتح فی اعلاھا بالقرب من سقفہا قمریتین للضوء فقط لیس فیہما اشراف علی حریم الجار الابالصعود الیہما بسلم عال قام جارہ الاٰن یکلفہ سدھما بدون وجہ شرعی فہل یمنع الجار من ذٰلک، الجواب نعم۲؎۔
ان سے ایک شخص کے متعلق سوال ہوا کہ اس کا بڑا بلند مکان ہو اس کے ساتھ ملا ہوا پڑوسی کا مکان ہے تو بلند محل والے اس شخص نے روشنی کےلئے چھت کے قریب اپنے مکان میں دوروشندان پڑوسی کی طرف نکالے جبکہ ان روشندانوں سے پڑوس کے اہل خانہ کوجھانکنے کا کوئی ذریعہ نہیں ماسوائے اس کے کہ بلند سیڑھی لگا کر ان سے جھانکا جائے تو اب پڑوسی ضد کرکے ان روشندانوں کو کسی شرعی وجہ کے بغیر بند کرائے تو کیا پڑوسی کو اس سے روکا جائیگا جواب دیا کہ ہاں پڑوسی کو اس مطالبہ سے منع کیا جائے گا۔(ت)
 (۲؎ العقود الدریہ کتاب القضا    باب الحبس، مسائل شتی ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱ /۳۳۰)
شرط چہارم: وہ ضرر ناممکن الاحتراز ہو یعنی جس تصرف سے پیدا ہوابے اس کے ازالہ کے اور کوئی چارہ کار نہ ہو ورنہ منع تصرف لازم نہ ہوگا۔ 

بحرالرائق میں کتاب الاستحسان امام ابوبکر رازی سے ہے :
الدار اذاکانت مجاورۃ للدور فارادصاحبھا ان یبنی فیہا تنورا للخبز الدائم کما یکون فی الدکاکین او رحی للطحین او مدقات للقصارین لم یجز لان ذلک یضر بجیرانہ ضررافاحشا لایمکن التحرز عنہ، فانہ یاتی منہ الدخان الکثیر الشدید، و رحی الطحن ودق القصارین یوھم النباء بخلاف الحمام فانہ لایضر الا بالنداوۃ ویمکن التحرز عنہ بان یبنی حائطا وبین جارہ وبخلاف التنور الصغیرالمعتاد فی البیوت۱؎۔
ایک مکان دوسرے مکان سے ملا ہو ا ہو تو ایک مکان والا اپنے مکان میں دائمی کاروباری تنور روٹیوں کےلئے یا آٹا پیسنے کے لئے چکی یا دھوبی گھاٹ بنائے تو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس سے پڑوس کو کھلا ضرر ہے جس سے بچنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کثیر وشدید دھواں وہاں سے آئے گا اور چکی اور دھوبی گھاٹ سے پڑوس والے مکان کی عمارت کمزور ہوتی ہے اس کے برخلاف حمام ہوتو جائز ہے کیونکہ اس سے رطوبت کا نقصان ہے لیکن اس سے بچنا ممکن ہے کہ اپنے اور پڑوس کے درمیان دیوار بنادے، اسی طرح گھریلو تنور جو کہ عادتاًگھروں میں ہوتا ہے وہ بھی جائز ہے(ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتب القضاء   مسائل شتی     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۳۳،۳۳)
جب یہ اصل منقح ہولی مسئلہ دائرہ کی طرف چلئے، یہ تو پہلے معلوم ہولیا کہ ہمارے جملہ ائمہ مذہب رضی اﷲ تعالٰی  عنہم کے مذہب مہذب مصحح مرجح پر تو دعوی بکر سرے سے بے بنیاد ہے اور بہت اکابراس صورت کو فتوائے متاخرین سے بھی جدا مانتے ہیں اور اس پر وہی اصل حکم ائمہ جانتے ہیں کہ بالا خانے میں دروازہ ودریچہ نکالنے سے اصلاً منع نہ کیا جائے گا جس کی بے پردگی ہو وہ اپنا پردہ بنالے اپنی دیوار اونچی کرلے۔ امام عمادالدین نے فصول میں باآنکہ قول متاخرین اختیارکیا، اس مسئلہ میں عدم منع ہی کو موید فرمایااور محقق علی الاطلاق نے اسے مقرر رکھا، 

فتح میں بعد نقل مسئلہ مذکور فتاوٰی  امام سمر قندی میں فرمایا :
قال فی فصول العمادی وعلی قیاس المسألۃ المتقدمۃ وھی ان لایمنع صاحب الساحۃ من ان یفتح صاحب العلوکوۃینبغی ان یقال فی ھذہ لیس للجارحق المنع من الصعود وان کان بصرہ یقع فی دارجارہ، الاتری ان محمد ارحمہ اﷲ تعالٰی  لم یجعل لصاحب الساحۃ حق منع صاحب البناء عن فتح الکوۃ فی علوہ مع ان بصرہ یقع فی الساحۃ۱؎۔
فصول عمادی میں فرمایا: پہلے مسئلہ پر قیاس کے طور اور وہ یہ کہ صحن والا بالاخانے والے کو روشندان اور کھڑکی نکالنے سے منع نہیں کرسکتا اس بناء پر یہ حکم مناسب ہے کہ پڑوسی کو یہ حق نہیں کہ دوسرے کو اپنے مکان پر چڑھنے سے منع کرے اگرچہ چھت پر جانے سے پڑوسی کے گھر نظر پڑتی ہو، آپ دیکھتے نہیں کہ امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی  نے صحن والے کو حق نہیں دیا کہ وہ بالاخانہ والے کوکھڑکی  نکالنے سے منع کرے حالانکہ ظاہر ہے کہ اوپر کھڑکی سے صحن میں نظر پڑتی ہے۔(ت)
(۱؎ فتح القدیر  مسائل منثورۃ من کتاب القضاء  مطبع نوریہ رضویہ سکھر ۶/ ۴۱۵)
کتاب الحیطان امام حسام شہید و بحرالرائق و خلاصہ ووجیز کردری وانقرویہ وغیرہا میں ہے:
لو فتح صاحب البناء فی علوبنائہ بابا او کوۃ لایلی صاحب الساحۃ منعہ بل لہ ان یبنی مایستر جھتہ۲؎۔
اگر عمارت والا اپنے بالاخانے سے کھڑکی یا دروازہ نکالے تو صحن والے کو حق نہیں بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی طرف کوئی پردہ لگائے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی  انقرویہ     کتاب القضاء     مسائل الحیطان     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱ /۳۶۶)

(فتاوٰ ی بزازیۃ علی ہامش الفتاوٰی  الہندیۃ     کتاب الحیطان     الفصل الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۶/ ۴۱۴)
ارباب الفتوٰی  میں ہے:
رجل وکل وکیلا عن زوجتہ باع لھا قطعۃ ارض لجارہ، لہ ان یفتح طیاقا مطلۃ علی حوش الموکلۃ المذکورۃ ولیس لہا ان تمنعہ فان استضرت منہ تبنی جدارا فی ارضھا۳؎اھ ملخصا۔
ایک شخص نے اپنی بیوی کی طرف سے وکیل بنایا تاکہ بیوی کی زمین کا کچھ حصہ پڑوسی کو فروخت کرے، اگر پڑوسی نے وہاں سے کھڑکی نکالی جس سے مؤکلہ عورت کی چار دیواری میں نظر پڑتی ہو تو عورت اسے منع کرنے کا حق نہیں رکھتی اگر وہ اس سے ضرر محسوس کرتی ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی زمین میں پردہ کےلئے دیوار بنالے اھ (ت)
(۳؎ ارباب الفتوی)
ان کے حکم سے بھی بکر کو کچھ اختیار دعوٰی  نہیں۔ رہا قول مضمرات وغیرہا جس میں اس صورت کو داخل فتوائے متاخرین مانا اور بیشک ہمارے بلاد میں یہی اوفق وارفق ہے اس قول پر بھی بکر کو اصلاً راہ دعوٰی  نہیں کہ جب ان پر جست کے سائبان جڑوادئے جن کے بعد صرف سڑک کا سامنا رہا توضرر کثیر فاحش درکنارسرے سے بکر کا ضرر ہی نہ رہا، اس قول میں یہ ہے کہ:
اذاکانت الکوۃ لنظر وکانت الساحۃ محل الجلوس للنساء یمنع وعلیہ الفتوی۔
اگر کھڑکی دیکھنے کی غرض سے بنائی اور پڑوسی عورتوں کی نشست گاہ صرف وہی صحن والا برآمدہ ہے تو اس صورت میں کھڑکی بنانے سے منع کیا جائے گا اور اسی پر فتوٰی  ہے(ت)
یہاں وہ کہ نظرآتا ہے محل جلوس زنان نہیں سڑک ہے اور وہ کہ محل جلوس زنان ہے نظر نہیں آتا تو نہ دریچہ دریچہ نظر ہوا نہ محل محل نساء۔
عقود الدریہ میں ہے :
سئل فی رجل لہ طبقۃ فی دارہ لہا ثلاث شبابیک مطلات علی الشارع فقط قام رجل من اھل المحلۃ یعارضہ فی اعادۃ الشبابیک المذکورۃ فہل لیس لہ معارضۃ فی ذٰلک الجواب نعم۔۱؎
سوال ہوا کہ ایک شخص کی حویلی میں اس کا بالاخانہ ہے جس میں تین کھڑکیاں ہیں جن سے صرف سڑک پر نظر پڑتی ہے تو اہل محلہ میں سے ایک شخص اٹھ کر مذکورہ کھڑکیوں پر اعتراض کرے تو کیا اس معترض کو حق اعتراض تو نہیں؟الجواب ہاں اسے حق نہیں ہے۔(ت)
 (۲؎ العقود الدریہ     کتاب القضاء ،باب الحبس ، مسائل شتی ارگ بازار قندھار     ۱ /۳۳۰)
بالجملہ صورت مسئولہ میں دعوی بکر ہمارے ائمہ متقدمین وعلمائے متاخرین کسی کے قول پر اصلاً قابل سماعت نہیں نیز بیان مذکور سے ظاہر ہوا کہ اس حالت میں اس کا انسداد چاہنا شرط چہارم سے مردود ہے کہ ضرر ممکن التحرز تھا اوراس کا چارہ کار عمرو نے کردیا جسے حسب بیان سائل بکر نے بھی قبول کیا اور تین سال تک اس پر راضی رہا اور یہ گمان کہ اگرچہ سائبان قبضوں سے جڑدئے گئے مگر قبضے اکھڑ واسکتے ہیں اور ایسا کیا تو پھر بے پردگی ہوگی شرط سوم سے مردود ہے کھلے ہوئے طاقچے تک سیڑھی لگا کر چڑھ جانا آسان ہے یا جڑے ہوئے قبضے اکھیڑ کر سائبان اٹھادینا جب اس صورت کا احتمال قریب مسموع نہ ہوا یہ احتمال بعید کیونکر مسموع ہوسکے گا اور اگر ایسے مہمل احتمالات مان لئے جائیں تو دریچے مٹی یا چوکوں سے بند کردینا کیا نافع ہوگا جو مضبوط جڑے ہوئے قبضے اکھیڑ کر سائبان اٹھاویگا کیا وہ مٹی کی چھاپ میں روزن نہیں کرسکتا یا ایک آدھ چوکا نہیں نکال سکتا بلکہ غالباً یہ اس سے آسان تر ہوگا تو دعوٰی  انسداد محض تعنت ہوا اور متعنت کا دعوی مسموع نہیں ہوسکتا یہ توحکم، رہا بکر کا وہم اس کا علاج اور نیز اس سے زیادہ استحکام کے سوال کا جواب وہی ہے جومحرر مذہب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے کتاب الاصل میں باب قسمۃ الدار سے کچھ پہلے فرمایا :
لو فتح صاحب البناء فی علوبنائہ بابالم یکن لصاحب الساحہ منعہ ولصاحب الساحۃ ان یبنی فی ملکہ ما یستر۱؎۔
اگر عمارت والا اپنی عمارت کے بالائی حصہ میں دروازہ بنائے توصحن والے کو منع کا حق نہیں بلکہ ا س کو چاہئے کہ وہ اپنی ملکیت میں پردے کا انتظام کرے۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر   بحوالہ الاصل  قبیل باب قسمۃ الدار  مسائل شتی من کتاب القضاء  مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۴۱۴)
یعنی عمرو کو اجازت دی جائے کہ اپنے دریچوں پر سے سائبان بالکل اتار کردریچے پورے کھول دے اور بکر سے کہا جائے کہ تو اپنے مکان کا پردہ بنالے کہ عمرو کو اس پر اینٹیں نکال کر جھانکنے کا قابو نہ ہوگا اور بے پردگی کا وہم جاتا رہے گا اور اگر اب بھی اندیشہ ہوکہ بکر نے اپنی دیوار اونچی کی تو عمرو اپنے ملکان کو سہ منزلہ کرکے اس میں دریچے نکالے گا اور پھر بے پردگی ہوگی تو قاطع ہر گونہ وہم پر ہے کہ بکر اپنے صحن پر جست کی چادریں ڈال کر پاٹ لے کہ پھر عمرو تو عمرو آسمان کی نظر سے بھی تحفظ ہوجائے گا
ولاحول ولا قوۃ الاباﷲالعلی العظیم وصلی اﷲ تعالٰی  علی سیدنا ومولٰینا محمدواٰلہ وصحبہ اجمعین اٰمین، واﷲ تعالٰی  اعلم۔
Flag Counter