Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
102 - 151
مسئلہ ۱۱۳: ازریاست رامپور محلہ پیپلا تالاب مرسلہ مولوی ہدایت الرسول صاحب ۲۰/ربیع الآخر شریف ۱۳۳۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں، عمرو نے پختہ مکان بنایا جس کا دروازہ شارع عام پر واقع ہوا، اس مکان پر بالاخانے بھی تعمیر کئے، ان بالاخانوں میں اسی شارع عام کی طرف چار چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں بھی ضرورۃً رکھی ہیں، اسی سمت میں شارع عام سے فاصلہ پر بکر کا مکان واقع ہے، ان کھڑکیوں کی وجہ سے بکر کو اپنی بے پردگی کی شکایت واقع ہوئی اور اہل محلہ سے کہا کہ ان کھڑکیوں کے سامنے آڑ کرادینا چاہئے جس سے ہمارے مکان کا سامنا نہ رہے۔عمرو نے اہل محلہ کے کہنے سے ان روشندانوں پر جستی چادر سے ایسا سائبان ڈال دیا کہ سوا نیچے کی سڑک کے اور کچھ نظر نہیں آتا پھر روشندانوں میں لوہے کی سلاخیں لگادیں اور اڑنگوں سے خوب مضبوط جڑوادیا کہ کسی طرح وہ چادر اٹھ نہ سکے، اب بحالت موجودہ ان سے کسی کے مکان کا سامنا مطلقاً نہ رہا، یہ سب کچھ کرکے بکر کو دکھایا گیا جس کو اچھی طرح جانچ کر بکر نے اہل محلہ کے سامنے اپنی رضامندی ظاہر کی اور بتراضی طرفین وہ کھڑکی نما روشندان قائم ہوگئی جو عرصہ ۳ برس سے بدستور قائم ہیں فی الحال بکر نے ایک رنجش تازہ کی وجہ سے ان سہ سال قائم شدہ روشندانوں کی مسدودی کادعوی اس بے اصل اور خلاف واقعہ اظہار پر کیا ہے کہ مذکورہ کھڑکیوں کے سائبان اٹھاکر اس کے مکان کی بے پردگی کی جاتی ہے حالانکہ وہ سائبان مطابق بیان بالا نہایت مضبوط جڑے ہوئے ہیں جن کا اٹھانا ناممکن ہے، چنانچہ اس کا معائنہ حاکم عدالت کو بھی کرادیا گیا ہے اور نیز اگر موجودہ استحکام سے اور کوئی زیادہ استحکامی حالت تجویز کیجائے تو عمرو اس کےلئے بھی تیار ہے۔ عرض یہ ہے کہ بکر اندر سے سائبان اٹھاکر جھانکنے کا وہم بے اصل رفع کرلے۔ اس واقعہ صحیحہ کو عرض کرکے امید وار حکم شرعی کا ہوں۔بینواتوجروا۔
الجواب

جب صورت واقعہ یہ ہے کہ سوال میں مذکور ہوئی تو اس صورت میں بکر کا دعوٰی باطل ونامسموع اور ہمارے ائمہ متقدمین و متاخرین کے اجماع سے مردود و مدفوع ہے، ہمارے جمیع ائمہ کرام رضی اﷲ عنہم کا اصل مذہب تو یہ ہے کہ ہر شخص اپنی ملک خاص میں جس سے دوسرے کا حق متعلق نہ ہو ہر قسم تصرف کا اختیار رکھتا ہے اگرچہ اس سے بالتبع دوسرے کا ضرر لازم آتا ہو، بہت اکابر نے اسی پر فتوٰی دیا۔ 

درمختار میں ہے:
ظاہر الروایۃ عدم المنع مطلقا وبہ افتی طائفۃ کالامام ظہیرالدین و ابن الشحنۃ ووالدہ ورجحہ فی الفتح وفی قسمۃ المجتبٰی  وبہ یفتی واعتمدہ المصنف ثمہ فقال وقد اختلف الافتاء وینبغی ان یعول علی ظاہر الروایۃ۱؎۔
ظاہر روایت مطلقاً عدم منع پر ہے اسی پر ایک جماعت مثلاً امام ظہیر الدین، ابن شحنہ اور ان کے والد کا فتوٰی ہے اور فتح میں اسی کو ترجیح دی ہے اور مجتبٰی کی قسمت کی بحث میں ''بہ یفتی یعنی اس پر فتوٰی ہے''فرمایا، اور مصنف نے اسی پر اعتماد کرتے ہوئے وہاں فرمایا کہ فتوٰی مختلف ہے اور مناسب یہی ہے کہ ظاہر روایت پر اعتماد کیا جائے۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب القضاء     مسائل شتی     مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۶)
بحرالرائق میں ہے :
وذکر العلامۃ ابن الشحنۃ ان فی حفظہ ان المنقول عن ائمتنا الخمسۃ ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد وزفر والحسن بن زیاد انہ لایمنع عن التصرف فی ملکہ وان اضر بجارہ قال وھو الذی امیل الیہ واعتمدہ وافتی بہ تبعا لوالدی شیخ الاسلام رحمہ اﷲ تعالٰی  ۲؎۔
علامہ ابن شحنہ نے فرمایا کہ میری یاد میں ہےکہ ہمارے پانچوں ائمہ ابو حنیفہ، ابویوسف، محمد زفر اور حسن بن زیادرحمہم اﷲ تعالٰی سے ثابت ہے کہ کسی کو ذاتی ملکیت میں تصرف منع نہیں کیا جائے گا اگرچہ پڑوسی کو ضرر ہو۔ اور فرمایا اسی کی طرف میرا میلان ہے اور اعتماد ہے اور اپنے والد شیخ الاسلام کی اتباع میں میرا یہی فتوٰی ہے۔(ت)
(۲؎ بحرالرائق    کتاب القضاء     مسائل شتی    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۳۳)
محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں فرمایا:
والوجہ لظاہرالروایۃ ۱؎
 (معتبر وجہ ظاہر روایت کےلئے ہے۔ت) اور معلوم ہے کہ فتوٰی جب مختلف ہو تو ظاہر الروایۃ پر عمل واجب ہے۔کما فی البحر والخیریۃ وردالمحتار وغیرہا عامۃ الاسفار۔ جیسا کہ بحر، خیریہ اور ردالمحتار وغیرہا عام کتب میں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر     مسائل منثورۃ من کتاب القضاء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶ /۴۱۴)
اس تقدیر پر تو دعوٰی سرے سے بے بنیاد ہے مگر متاخرین نے بنظر مصلحت وحدیث:
لاضررولاضرار۲؎۔ رواہ احمد عن عباس وابن ماجۃ عنہ وعن عبادۃ رضی اﷲ تعالٰی  عنہم بسند حسن۔
ضرررسانی جائز نہیں۔ اس کو احمد نے عباس سے اور ابن ماجہ نے ان سے اور عبادہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے بسند حسن روایت کیا (ت)
(۲؎مسند امام احمد بن حنبل از مسند عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ  المکتبہ الاسلامی بیروت ۱/ ۳۱۳)
بطور استحسان دفع ضرر بین پر نظر کی ہے اقول:  غیر فقیہ اس سے یہ گمان کرتا ہے کہ بین کے معنی ہیں ظاہر وواضح، تو کیسا ہی ضرر کسی حالت میں ہو جبکہ مخفی نہ ہو مالک کو اپنی ملک میں تصرف سے باز رکھنے کا پروانہ ہے حالانکہ یہ محض وہم وسوئے فہم ہے۔ شرع مطہر نے ملک کی وضع اطلاق تصرف کے لئے فرمائی ہے مالک کو اس کی ملک میں تصرف سے روکنا کیا ضرر نہیں، اور حدیث فرماتی ہے:
لاضرر ولاضرار۳؎
 (ضرر رسانی جائز نہیں۔ت)
 (۳؎ مسند امام احمد بن حنبل از مسند عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہ     المکتبہ الاسلامی بیروت    ۱ /۳۱۳)
تو کیا وجہ ہے کہ مطلقاً دوسرے کے ضرر کو خود مالک کے ضرر پر ترجیح دی جائے حالانکہ یہ ترجیح بلا مرجح بلکہ بارہا ترجیح مرجوح ہے کہ مالک صاحب حق ہے اور صورت یہ مفروض ہے کہ دوسرے کا اس ملک سے حق متعلق نہیں
کما فی السفل لرجل والعلو لاٰخر
 (جیسے نچلا حصہ ایک کا ہو اور بالائی حصہ دوسرے کا۔ت) ایک شخص کے مکان میں نہایت وسیع سایہ دار گنجان  درخت ہے اس کے برابر ایک محتاج کا گھر ہے جس پر سایہ اس درخت ہی کا ہے بلا شبہہ اس کے قطع میں جار کا اضرار ہے مگر ہر گز مالک اس سے ممنوع نہیں ہوسکتا۔ 

فتح القدیر وجامع الفصولین میں فرمایا :
واللفظ للجامع رجل لہ شجرۃ یستظل بھا جارہ اراد قلعھا لایمنع منہ ولو تضرربہ جارہ اذرب الشجرۃ بالقلع یمنعہ عن الانتفاع بملکہ ۱؎
کسی شخص کا درخت ہو اور اس کا پڑوسی اس سے سایہ حاصل کرتا ہے اور مالک درخت اکھاڑ نا چاہتا ہے تو پڑوسی کے ضرر کی وجہ سے مالک کو اکھاڑنے سے نہ روکا جائے گا، ہوسکتا ہے کہ درخت کا مالک اپنی ملکیت سے پڑوسی کو انتفاع سے روکنا چاہتا ہو۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الخامس والثلاثون اسلامی کتب خانہ کراچی     ۲ /۲۶۶)
خادم فقہ سمجھتا ہے کہ یہاں چار شرطیں ہیں جن کے اجتماع سے وہ ضرر بین متحقق ہوگا:
شرط اول:  وہ ضرر کثیر فاحش ہو یعنی دار جار کو گرادے یا بالکل قابل انتفاع نہ رکھے دیوار کمزور کرنا اول میں داخل ہے اور حاجت اصلیہ سے باز رکھنا دوم۔ 

محقق نے فتح میں فرمایا :
قولہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم لاضرر ولاضرار لاشک انہ عام مخصوص للقطع بعدم امتناع کثیر من الضرر کا لتعازیر والحدود ومواظبۃ طبخ ینتشر بہ دخان قد ینجس فی خصوص اماکن فیتضرر بہ جیران لایطبخون لفقرہم خصوصا اذاکان فیہم مریض یتضرر بہ وکما اریناک من التضرر بقطع الشجرۃ المملوکۃ للقاطع فلا بد ان یحمل علی خصوص من الضرر وھو مایؤدی الی ھدم بیت الجار ونحوہ من الضرر البین الفاحش والحاصل ان القیاس ان یفعل صاحب الملک مابدالہ مطلقا لانہ یتصرف فی خالص ملکہ وان کان یلحق الضرر بغیرہ لکن یترک القیاس فی موضع یتعدی ضررہ الی غیرہ ضرراً فاحشا، وھو المرادبالبین وھو مایکون سببا للھدم وما یوھن البناء سبب لہ اویخرج عن الانتفاع بالکلیۃ وھو مایمنع من الحوائج الاصلیۃکسد الضوء بالکلیۃ، واختار واالفتوی علیہ واما التوسع الی منع کل ضرر ما فیسد باب الانتفاع بملک الانسان کما ذکرناقریبا۱؎(ملتقطا)
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد
لاضرر ولاضرار
(یعنی ضرر رسانی جائز نہیں) عام مخصوص البعض ہے کیونکہ بہت سے ضرر ایسے ہیں جن سے یقینا ممانعت نہیں ہے مثلا! تعزیرات اور حدود اور مسلسل آگ سے کچھ پکانا جس سے دھوئیں کا پھیلاؤ بعض جگہ گھٹن پیدا کرتا ہے تو اس سے ایسے پڑوسیوں کو ضرر ہوتا ہے جو اپنے فقر کی وجہ سے کھانا نہیں پکاتے خصوصاًجبکہ پڑوسیوں میں مریض جسے اسکی وجہ سے ضرر پہنچتا ہو، جیساکہ ہم آپ کو مالک کا اپنے درخت کو کاٹنے پر ضرر بتارہے ہیں، تو ضروری ہے کہ مذکور حدیث میں ضرر سے خاص ضرر مراد لیا جائے اور وہ جس سے پڑوسی کے مکان گرنے کا خدشہ ہو، یا اس طرح کا جو کوئی واضح ضرر ہو۔ حاصل یہ ہے کہ قانون کے مطابق ملکیت والا اپنی ملکیت میں جو چاہے تصرف کرسکتا ہے کیونکہ وہ خالص اپنی ملکیت میں تصرف کررہا ہے اگرچہ اس سے دوسرے کو ضرر بھی ہو،تاہم یہ قیاس و قانون ایسی جگہ نافذ نہ ہوگا جہاں پڑوسی کو واضح طور پر ضرر پہنچتا ہو، یہی ضرر جس سے دوسرے کے مکان گرنے یا کمزور ہونے کا خطرہ ہو، مراد ہے یاایسا ضرر کہ دوسرے کو اپنی ملکیت کے انتفاع سے بالکل محروم کردے وہ یہ کہ اس کو اپنی حوائج اصلیہ سے روک دے، مثلاً بالکل روشنی کا ختم ہوجانا فقہاء کرام نے اسی پر فتوٰی کو مختار قراردیا ہے لیکن یہ کہ ہر ضرر کو ممنوع قرار دینے تک توسیع تو انسان کو اپنی ملکیت سے انتفاع سے محروم کردیگی جیسا کہ قریب ہی ہم نے ذکر کیا ہے(ملتقطا)۔(ت) اسی طرح عقود دریہ میں حواشی اشباہ علامہ بیری زادہ سے ہے۔
 (۱؎ فتح القدیر     مسائل منثورۃ من کتاب القضاء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر پاکستان     ۶ /۱۵۔۴۱۴)
شرط دوم: اس ضرر میں اس کا فعل مستقل ہو فعل جار کو اس میں دخل نہ ہو ورنہ اصلاً لحاظ نہ ہوگا مثلاً اس کی چھت سے جار کے زنانہ کا سامنا نہیں مگر زنانہ کے پاس کوئی باغیچہ اور مکان ہے اس کا سامنا ہے یا اس کی چھت سے جار کی چھت ملی ہوئی ہے اور آڑ نہیں کہ عورتیں اس باغیچہ یا اپنی چھت پر آئیں اور یہ اپنی سقف پہ جائے تو بے پردگی ہو یہ ضرر میں محسوب نہیں کہ زنانہ کا سامنا نہیں عورتیں ایسی جگہ کیوں آئیں یہ جار کا فعل ہوا۔ 

تنقیح الحامدیہ میں ہے:
لزید طبقۃ فیہا طاقۃ قدیمۃ مقابلۃ لقصر ورواق حادثین فی دار جارہ عمر وفقام عمروویکلفہ سد الطاقۃ زاعما انھا تشرف علی القصر والرواق المذکورین والحال انھما لیسا محل قرار نسائہ وجلوسھن بل محلہ سفل الدار، فھل لیس لہ تکلیفہ بذٰلک ۲؎۔
زید کے مکان کی دوسری منزل ہے جس میں قدیم کھڑکی ہے اور کھڑکی مقابل پڑوسی عمرو کی حویلی میں جدید برآمدہ اور باغیچہ ہے عمرو ضد کرکے کھڑکی کو بند کرانے پر اس خیال سے مجبور کرے کہ کھڑکی والا باغیچہ اور بر آمدہ مذکورہ کو جھانکتا ہے حالانکہ وہ باغیچہ اور برآمدہ کی مستورات کی آرام گاہ اور نشستگاہ نہیں بلکہ مستورات کی اصل وہ جگہ مکان کی پست جگہ میں ہے تو ایسی صورت میں عمرو کو یہ حق نہیں کہ وہ کھڑکی والے کو بندکرنے پر مجبور کرے۔(ت)
(۲؎ العقود الدریہ     کتاب القضاء     باب الحبس     مسائل شتی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۱ /۳۳۰)
فتاوی امام فقیہ ابوللیث رحمہ اﷲتعالٰی  پھر فتح القدیر وجامع الفصولین میں ہے :
واللفظ لہ لو لا یقع بصرہ فی دار جارہ ولکن یقع بصرہ علیہم لو کانواعلی السطح لایمنعہ اذا استویافی الضرر لانہ این کان یقع بصرہ علیہم یقع بصرھم علیہم ایضا فی السطح کذا۱؎۔
لفظ جامع الفصولین کے ہیں،اگر مکان والے کی نظر پڑوسی کے گھر میں نہیں پڑتی لیکن اگر پڑوس والے چھت پر اور کھلی جگہ ہوں تو نظر پڑتی ہے تو ایسی صور ت میں پڑوسی کو منع کرنے کا حق نہیں ہے جبکہ دونوں اس ضر ر میں برابر ہیں کیونکہ جب ایک کی نظر پڑے گی تو دوسرے کی بھی ان پر نظر پڑے گی جب چھت پر ہوں گے۔(ت) اسی طرح وجیز کردری میں ہے۔
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل الخامس والثلاثون     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۶۸)
Flag Counter