Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
101 - 151
قسم دوم میں یعنی جہاں جہاں شرعاً اسے اختیار دیا گیا ہے تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ وہ انجمن کسی وقف سے متعلق ہو اور یہ امر دائر شروط واقف میں داخل۔ اس صورت میں جو شرط واقف کا مقتضی ہو اس پر عمل کیا جائے خواہ رائے صدر یا اراکین یا بعض کے موافق ہو یا سب کے خلاف کہ شرط واقف مثل نص شارع واجب الاتباع ہے
کما نصواعلیہ الافیما استثنی وھو مفصل فی الاشباہ والغمز وحواشی الدر وغیرھا
 (جیسا کہ انہوں نے کااس پر نص فرمائی ماسوائے ان استثنائی صورتوں کے جن کی تفصیل اشباہ غمز اور حواشی الدر وغیرہا میں ہے۔ت) دوم چندہ سے اس کی کارروائی ہو اور امر دائر متعلق بمال، اس صورت میں چندہ دہندوں کی رائے کا اتباع ہے صدر واراکین ان کے خلاف اجازت صرف مال کے مختار نہیں
لان المال فی ھذہ الصورۃ لایخرج عن ملک المعطین کما حققناہ فی کتاب الوقف من فتاوٰنا
 (کیونکہ عطیہ دینے والوں کی ملکیت سے اس صورت میں مال خارج نہ ہوگا جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی کی کتاب الوقف میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) جیسے قسم اول سے دو صورتیں ملتحق بقسم دوم ہوئی تھیں یوہیں قسم دوم سے یہ صورتیں راجع بہ قسم اول ہیں کہ معارض وقف وملک غیران میں جانب شرع سے تحدید ہوگئی تخییر نہ رہی۔ سوم ان دونوں کے علاوہ یعنی وقف ہو تو امر دائر کو کسی شرط واقف سے تعلق نہ ہو یا چندہ کا کام ہو تو امر دائر متعلق بمال نہ ہو یا چندہ دہندوں کی طرف سے انجمن کو اذن عام ہو حقیقتاً یہی صورتیں قسم دوم ہیں یہاں اگر اس امر میں صدر ذی راء نہیں اور اراکین جیسا کہ سوال میں ہے ماہر فن، جب توظاہر کہ وہاں سے اپنی رائے پر وثوق بے معنی ہے غایت یہ کہ کسی خاص معاملہ میں کسی وجہ سے رائے اراکین میں اسے کوئی شبہ ہے تو اور متدین ماہروں سےتفتیش کرکے اطمینان کرلے،
بالجملہ یہ صورت شکل سوم کے مقارب اور اصالۃً یہاں ویسی ہی طرز عمل مناسب، یوہیں اگر صدر خود بھی اس امر کا ماہر ذی رائے ہے تو یہ صورت شکل اول کے مشابہ ہوگی مگر از انجا کسی طرف کوئی مطالبہ شرعی نہیں، بہر صورت یہاں مصلحۃً صدر کو یہی مناسب ہے کہ کثرت رائے پر عمل کرے کہ باعث وحشت و بددلی اراکین وبد انتظامی مجلس نہ ہو، علماء نے تشریع مشورہ و نزول کریمہ
وشاورھم فی الامر۱؎
کی ایک مصلحت یہ بھی لکھی ہے (عہ) ۔
عہ:  اصل کی عبارت پڑھی نہ جاسکی پھر بھی مطلب میں خلل نہیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۳ /۱۵۹)
معالم میں ہے :
قال قتادۃ و مقاتل فان ساداۃ العرب کانوا اذالم تشاور فی الامر شق ذٰلک علیہم فامر اﷲ تعالی نبیہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم ان یشاورھم فان ذٰلک اعطف لھم واذھب لاضغانھم واطیب لنفوسھم۲؎۔
حضرت قتادہ اور مقاتل نے فرمایا: عرب سرداروں سے جب مشورہ نہ ہوا تو ان کی یہ بات گراں گزری اس لئے اﷲ تعالٰی نے اپنے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ان سے مشورہ کا حکم فرمایا کیونکہ اس سے ان پر شفقت کا اظہار اور ان کے دل کی خلش دور، اور ان کے نفوس مطمئن ہونے کا سامان ہوگا۔(ت)
 (۲؎ معالم التنزیل علٰی ہامش تفسیر الخازن    تحت آیۃ وشاورھم فی الامر    مصطفی البابی مصر    ۱ /۴۳۹)
اور شک نہیں کہ ابتداءً ترک مشورہ میں وہ ایحاش نہیں جو بعد مشورہ رائے اکثر پر عمل نہ کرنے میں ہے اور رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
بشرواولا تنفروا۳؎
 (خوشخبری دو اور نفرت پیدا نہ کرو۔ت)
 (۳؎ صحیح مسلم     کتاب الجہاد        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۸۲)

(صحیح البخاری    کتاب العلم    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۶)
ہاں اگر خلاف میں کوئی مصلحت اس  مصلحت سے اعظم اور اس کے ترک میں کوئی مفسدہ اس مفسدہ سے اشد ہو تو
من ابتلی ببلیتین اختار اھو نھما۴؎
 (جو دو مصیبتوں میں مبتلا ہو تو آسان کو اپنائے۔ت) پر عمل کرے۔
 (۴؎ الاسرار المرفوعۃ     حدیث ۸۵۲  دارالکتب العلمیۃ بیروت    ص۲۱۵)
ھذا کلہ ماظہر لی اخذا من کلما تھم وارجو ان یکون منتھی المقال فی ھذا المقام وباﷲ التوفیق۔
یہ تمام بحث وہ ہے جو میں نے ان کے کلام سے ظاہر پاکر حاصل کی،تو مجھے امید ہے کہ اس مقام میں یہ بحث کی انتہا ہے، اور توفیق صرف اﷲ تعالٰی کی طرف سے ہے۔(ت)
تنبیہ:کسی امر کو قسم دوم سے ٹھہرانے میں احتیاط بلیغ ونظر غائر درکار ہے، مسلمانوں کے کم کام ایسے نکلیں گے جن میں شرع مطہر کی طرف سے ابتداعاً خواہ بوجہ عارض کوئی تحدید نہ ہو،اب یہیں دیکھئے کہ خالص قسم دوم میں طبائع اکثر اہل زمانہ کے سبب تنفیر کا اندیشہ پیدا ہوکر ایک تحدید شرعی نکل آئی تو حکم کے لئے علم و فہم کامل سے چارہ نہیں اور حق یہ کہ مسلمان بے علم دین ایک قدم نہیں چل سکتا اﷲ عزوجل علم دے اس پر عمل دے اس کو قبول فرمائے
بجاہ حبیبہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم وعلٰی اٰلہ وصحبہ اجمعین والحمد للہ رب العٰلمین، واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter