Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
100 - 151
معین الحکام میں ہے:
فاذا اجتمع فقہاء البلد علی شیئ وکان رأیہ خلاف ذٰلک فلاینبغی ان یجعل بالحکم حتی یکتب فیہ الی غیرھم ویشاورھم ثم ینظر الی احسن ذلک فیعمل بہ، لان المشورۃ بالکتاب من الغائب بمنزلۃ المشورۃ بالخطاب من الحاضر، فان خالف رأیہ رأیھم قضی برأی نفسہ، لان رأیہ اصوب عندہ ورأی غیر لیس بصواب ۱؎۔
جب شہر کے فقہاء کا کسی رائے پر اتفاق ہو اورقاضی کی رائے کے خلا ف ہو تو قاضی کو جلد مناسب نہیں حتی کہ دوسروں سے خط وکتابت اور مشورہ کرے پھر ان آراء میں غور کرکے بہتر رائے کو عمل میں لائے کیونکہ خط و کتابت کے ذریعہ غائب شخص سے مشورہ ایسے ہی ہے جیسے خطاب کے ذریعہ حاضر شخص سے مشورہ ہے اس کے باوجو د اگر اس کی رائے ان کی رائے سے مختلف ہوتو اپنی رائے پر عمل کرے اور فیصلہ دے کیونکہ اس کے لئے اپنی رائے پر عمل درست ہے او دوسرے کی رائے اس کے ہاں درست نہیں ہے۔(ت)
(۱؎ معین الحکام     الرکن الثانی من ارکان القضاء المقضی بہ     مصطفی البابی مصر    ص۲۸، ۲۷)
یہ دلائل پر کلام تھا، رہاحکم فاقول وبااﷲ التوفیق، اس میں تفصیل کثیر ہے، معاملہ دائرہ دو قسم ہے: شرعی یا اس کا غیر۔ یہاں شرعی سے مراد وہ امر ہے جس سے حکم و تحدید شرعی متعلق ہو اختیار مکلف پر نہ چھوڑا گیا ہو، اور غیر سے وہ جسے شرع نے ہمارے اختیار پر رکھا ہے مثلاً چاندی چاندی کے عوض بیچنے میں مساوات لازم فرمادی ہے  کمی بیشی کا اختیار نہیں اور سونا چاندی کے عوض بیچنے میں کوئی حد مقرر نہ فرمائی، عاقدین کو اختیار ہے کہ پندرہ کی اشرفی ہزار روپیہ کولیں دین خواہ ایک پیسے کو،
لقولہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم اذااختلف النوعان فبیعو اکیف شئتم ۲؎۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی وجہ سے کہ جب دو مختلف جنس ہوں تو پھر جیسے چاہو فروخت کرو۔(ت)
(۲؎ نصب الرایہ لاحادیث الہدایہ     کتاب البیوع    المکتبۃ اسلامیہ ریاض    ۴ /۴)
توپونڈ کی قیمت پندرہ روپے ہونا حکم شرعی نہیں لیکن روپے کو بدلے سواگیارہ ہی ماشے چاندی ہونا حکم شرعی ہے۔ قسم اول میں پھر دو صورتیں ہیں، کتب میں اس کا حکم مصرح ہے  یا حادثہ جدیدہ ہے کہ اس کا حکم نصوص فقہی سے نکالنا محتاج نظر تفقہ ہے پھر جس کا حکم مصرح ہے وہ ایک ہی حکم ہے جس سے تجاوز ناجائز یا دونوں طرح کے حکم ہیں اور مکلف کو روا ہے ان میں جس چاہے عمل کرے، پہلی صورت یہ کہ حکم واحد متفق علیہ ہو، یا اگرچہ اختلاف ہے مگر قول راجح و معتمد ایک ہی ہے خواہ یوں کہ فتوٰی ایک ہی جانب دیا گیا یا دوسرے جانب کی ترجیح ان وجوہ پر کہ خادم فقہ جانتا ہے ضعیف و مضمحل ہے بہر حال دوسرا قول ناقابل اخذ ہے،
فان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جھل وخرق للاجماع ۱؎درمختار عن تصحیح القدوری للعلامۃ قاسم۔
تو بالتحقیق فتوی اور فیصلہ مرجوح قول پر کرنا جہالت ہے اور اجماع کے خلاف ہے، یہ درمختار میں علامہ قاسم کی تصحیح القدوری کے حوالہ سے ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار     مقدمۃ الکتاب     رسم المفتی     مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۵)
اس صورت میں اسی حکم کا اتباع واجب ہے خواہ وہ رائے صدر ہو یا رائے اراکین کل یا بعض ہو یا سب کے خلا ف ہو
اذ لا حکم لاحد مع الشرع المطہر
 (شریعت مطہرہ کے مقابلہ میں کوئی حکم معتبر نہیں۔ت) اور دوسری صورت یہ کہ دونوں قول بلا ترجیح آراء ہوں یا ترجیح دونوں طرف متکافی ہو یہ صورت قسم دوم سے ملتصق ہے کہ ایسی حالت میں مکلف مختار ہے جس پر چاہے عمل کرے۔ 

درمختار میں ہے :
فی وقف البحر وغیرہ متی کان فی المسألۃ قولان مصححان جاز القضاء والافتاء باحدھما۲؎۔
بحروغیرہ وقف میں ہے، جب کسی مسئلہ میں دو مختلف قول ہوں اور وہ صحیح قرار دئے گئے ہوں تو ان میں ایک پر فتوٰی اور قضاجائز ہے۔(ت)
(۲؎درمختار     مقدمۃ الکتاب     رسم المفتی     مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۱۴)
ردالمحتار کتاب القضاء میں ہے:
ومثلہ یقال فی المقلدین فیما لم یصرحوا فی الکتب بترجیحہ واعتمادہ۳؎
کتب میں جس مسئلہ پر ترجیح نہ ہو تو دو مقلدوں کے متعلق یہی بات کہی جائے گی (ت)
 (۳؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۳)
او رجس کا حکم کتب میں نہیں تو اب چار صورتیں ہیں یا تو صدر وار اکین سب فقیہ متفقہ صاحب نظر و تصرفات صحیحہ ہیں یا صرف صدر یا صرف اراکین کل یا بعض کوئی نہیں، بہر حال اس میں جو ایسا نہ ہو اس کی رائے کا کچھ اعتبار نہیں صدر ہو یا رکن تو شکل چہارم میں صدر واراکین سب کی رائے امر شرعی میں مہمل ومعطل ہے اگرچہ ایک ہی رائے پر متفق ہوں بلکہ ان پر فرض ہے کہ اہل علم فقیہ متفقہ کی طرف رجوع اور اس کے ارشاد پر عمل کریں۔
قال اللہ تعالی
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون۔ ۱؎
اللہ تعالی نے فرمایا : اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھو۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۲۱ /۷)
درمختار میں ہے :
ولا یخلوا الوجود عمن یمیز ھذا حقیقۃ لاظنا وعلی من لم یمیز ان یرجع لمن یمیز لبراء ۃ ذمتہ۔۲؎
ظنی نہیں حقیقی علم والوں سے وجود  خالی نہیں  علاوہ ازیں اگر خود تمیز نہ کرسکے تو براءت ذمہ کے لئے تمیز والوں کی طرف رجوع کرے ۔(ت)
(۲؎درمختار     مقدمۃ الکتاب     رسم المفتی     مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۱۵)
اور شکل دوم میں جبکہ صدر متفقہ اور اراکین خالی ہیں تو اس پر واجب ہے کہ جو حکم وہ کتب معتمدہ سے بعد غور کامل اور فحص بالغ سمجھا اس پر حکم دے رائے اراکین کی کثرت بلکہ اجماع کا بھی اصلا لحاظ نہ کرے اور خود اراکین کو روا نہیں کہ اس کا خلاف کریں کہ یہ علم کا مقابلہ جہل سے ہوگا اور وہ جہل مرکب ہے ۔
قال اللہ تعالی
فلم تحاجونی فیمالیس لکم بہ علم ۳؎.
اللہ تعا لی نے فرمایا : مجھ سے اس معاملہ میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا تمھیں علم نہیں ہے (ت)
(۱؎ القرآن الکریم     ۳ /۶۶)
اور شکل سوم میں صدر کی رائے کوئی چیز نہیں پھر اگر اراکین میں جو متفقہ ہیں ایک رائے پر متفق ہیں اسی پر حکم کرے  اور مختلف ہیں تو جسے ان میں افقہ و اورع سمجھے اس کا اتباع کرے
کما قدمناہ عن المحیط و الھندیۃ
(جیسا کہ ہم نے پہلے محیط اور ہندیہ سے بیان کیا ہے ت)
سراجیہ پھر تنویر و در میں ہے :
اذا اختلف مفتیان  فی جواب حا دثۃ اخذ بقول افقھھما بعد ان یکون اور عھما۔۴؎
جب کسی حادثہ میں دو مفتیوں میں اختلاف ہو توان میں  افقہ اور پرہیزگار کے قول کو اختیار کرے (ت)
 (۴؎درمختارشرح تنویر الابصار       کتاب القضاء          مطبع مجتبائی دہلی   ۲ /۷۲)
اور اگر تفقہ میں متقارب اور ورع میں یکساں ہیں تو اب کثرت رائے کی طرف میل کرے
فان مظنۃ الاصابۃ فیھا اکثر عند من لا یعلم وھو اعذر لہ عند ربہ عزوجل
(کیونکہ اکثریت کی رائے میں  درستگی کا احتمال زیادہ ہے یہ چیز نہ جاننے والے کے لئے عنداللہ بڑا عذر ہے ۔ت) اور اگر کثرت بھی کسی طرف نہ ہو مثلا چار متفقہ ہیں دو ایک طرف دو ایک طرف ، تو جس طرف دل گواہی دے کہ یہ احسن یا احوط فی الدین ہے اس طرف میل اولی ہے ۔ ورنہ مختار ہے جس پر چاہے عمل کرے اور اب یہ صورت قسم دوم کی طرف راجع ہوجائے گی ۔ 

معین الحکام میں ہے:
ذکر الحسن بن زیاد فی ادب القاضی لہ الجاھل بالعلم اذا استفتی فقیھا فافتاہ بقول احد اخذ بقولہ ولا یسعہ ان یتعدی الی غیرہ ، وان کا ن فی المصر فقیھان کلاھمارضا یأخذ عنھما ، فان اختلفا علیہ فلینظر ایھما یقع فی قلبہ انہ اصوبھما وسعہ ان یاخذ بہ ، فان کانوا ثلثۃفقھاء واتفق اثنان اخذ بقولھما ولا یسعہ ان یتعدی الی قول الثالث۔۱؎
حسن بن زیاد نے اپنی ادب القاضی میں ذکر کیا ہے کہ کوئی جاہل جب کسی فقیہ سے سوال کرے اور وہ اسے کسی ایک قول پر فتوی دے تو وہ اس فتوی کو اپنائے اور غیر کی طرف جانے کی اس کو  اجازت نہیں ۔ اگرشہر میں دو مساوی فقیہ ہوں تو دونوں سے چاہے رجوع کرے ، اگر دونوں میں اختلاف ہو تو اسے چاہئے کہ غور کرے جس کی بات دل میں درست سمجھے اس کو اپنائے تو یہ جائز ہے اور اگر شہر میں تین فقیہ ہوں اور دو کی رائے متفق ہو تو ان کی بات کو اپنائے اور تیسرے کی طرف رجوع کی گنجائش اسے نہ ہوگی(ت)
 (۱؎ معین الحکام     الرکن الثانی من ارکان القضاء المقضی بہ     مصطفی البابی مصر    ص ۲۷)
رد المحتار میں ہے :
قال فی الفتح وعندی انہ لواخذ بقول الذی لا یمیل الیہ  قلبہ جاز لان ذلک المیل وعدمہ سواء ۲؎الخ۔ اقول: عارضہ ماذکر الامام الحسن بن زیاد وھو من ائمتنا المجتھدین تلامذۃ امامنا الاعظم فالاخذبہ اولی من بحث المحقق۔
فتح میں کہا ہےکہ اگر اس قول کو اپنایا جس کی طرف قلبی میلان نہیں تو میرے نزدیک جائز ہے کیونکہ اس کا میلان اور عدم میلان برابر ہیں (ت) اقول(میں کہتا ہوں امام حسن بن زیادکا ذکر کردہ   قول اس کے معارض ہے جبکہ وہ ہمارے امام اعظم  رضی اﷲتعالٰی عنہ کے مجتہد تلامذہ میں سے ایک امام ہیں تو محقق صاحب کے قول کے مقابلہ میں اس امام کے قول کو اپنانا بہتر ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب القضاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۰۳)
شکل اول میں صدر متفقہ کو اپنی رائے پر عمل چاہئے کثرت رائے خلاف پر نظر نہیں
کما قدمناہ عن معین الاحکام والمحیط والعالمگیریۃ
 (جیساکہ ہم پہلے معین الحکام، محیط اور عالمگیریہ سے اس کا ذکر کرآئے ہیں۔ت) ہاں اگراراکین میں کوئی اس سے افقہ واعلم ہے اور اس کے خلاف کے سبب اس کی رائےمیں تزلزل آگیا تو رواہے کہ اس افقہ کا اتباع کرے خواہ اب بھی اپنی ہی رائے پر قائم رہے، یہ صورت بھی قسم دوم سے ملتحق ہوجائے گی، 

محیط وہندیہ میں ہے:
ان اشار ذٰلک الرجل الی شیئ ورأی القاضی بخلاف رأیہ فالقاضی لایترک رأی نفسہ فان اھتم القاضی برأیہ لما ان ذٰلک الرجل افضل وافقہ عندہ لو قضی برأی ذٰلک الرجل ارجو ان یکون فی سعۃ من ذٰلک وان لم یھتم القاضی برأیہ لاینبغی لہ ان یترک رأی نفسہ۱؎۔
اگر یہ شخص قاضی کو کسی چیز کا مشورہ دے اور قاضی کی رائے اس کے خلاف ہو توقاضی اپنی رائے کو ترک نہ کرے اور اگر قاضی اپنی رائے کو اس بنا پراہم نہ سمجھے کہ وہ شخص اس سے افقہ اور افضل ہے تو اس بناپر اگر اس شخص کی رائے پر عمل کرلے تو مجھے امید ہے قاضی کو یہ گنجائش ہے اور اگر قاضی اس شخص کی رائے کو اہم نہیں سمجھتا تو اسے اپنی رائے کا ترک مناسب نہیں ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب آداب القاضی     الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۳۱۴)
درمختار میں ملتقط سے ہے:
قضی بما راٰہ صوابالابغیرہ الا ان یکون غیرہ اقوی فی الفقہ ووجوہ الاجتہاد فیجوز ترک رأیہ برأیہ۲؎۔
اپنی رائے پرقاضی فیصلہ دے مگر جب غیر کی رائے کو فقہ اور وجوہ اجتہاد میں اقوی قرار دے تو اس کے مقابلہ میں اپنی رائے کا ترک قاضی کوجائز ہے۔(ت)
(۲؎ درمختار     کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۲)
ردالمحتار میں ہے:
لکن ھذااذااتھم رأی نفسہ ففی الھندیۃ عن المحیط۱؎ونقل ماذکرناہ بمعناہ۔
لیکن یہ تب جائز ہے کہ اپنی رائے کو اس کے مقابلہ میں اہم نہ جانے، تو ہندیہ میں محیط سے معناً وہ نقل کیا جس کو ہم نے ذکر کیا ہے۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۳)
یہ احکام قسم اول کے تھے۔
Flag Counter