Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
10 - 151
مسئلہ۱۸: ازریاست رامپور کٹے باز خاں مسئولہ غلام حبیب خاں۸محرم ۱۳۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید وبکر ایک باغ میں نصف نصف کے شریک تھے، زید نے اپنا حصہ نصفی بدست خالد سات سوروپے میں بیع کیا اور واسطے اتلاف حق شفعہ بکر بیعنامہ میں بجائے سات سو روپے کےدوہزار لکھا لے گئے سات سو روپے نقد روبروئے رجسٹرار بائع کو دئے گئے اور نسبت تیرہ سو روپے قیمت غیر واقعی کے یہ تحریر کیا گیا کہ میں نے مشتری کو معاف کئے جس کا ثبوت بابت سات سوروپے قیمت واقعی کے بیانات گواہان بکر سے بھی ظاہرہے۔ پس ایسی صورت میں شرعاً کیا ہونا چاہئے؟بینواتوجروا۔
الجواب

اس میں تین شہادتیں ہیں اگر ان کے بیان شرائط کو جامع بھی ہوں تو ان میں دو باقرار خود داڑھی خشخاش کراتے ہیں اور یہ فسق ہے اور فاسق کی شہادت مقبول نہیں،
قال تعالٰی ذواعدل منکم۱؎ وقال تعالٰی ممن ترضون من الشہداء۲؎۔
واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: تم میں سے دو عادل گواہ۔ اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا:ان میں سے جنہیں گواہوں میں سے تم پسند کرتے ہو۔، اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے اور اس کا علم اتم واحکم ہے(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۵/ ۹۵)(۲؎ القرآن الکریم  ۲/ ۲۸۲)
مسئلہ ۱۸تا۱۹: ازرام پور محلہ گنج مرسلہ محمد یونس صاحب۹/ ذیقعدہ ۱۳۱۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ شرع متین میں کہ زید کی اور ہندہ کی آپس میں نااتفاقی ہوئی اس کے دو تین روزکے بعد ہندہ نے مشہور کیا کہ مجھے طلاق ہوگئی، زید نے پوچھا کیسے؟جواب دیا عرصہ تین ماہ کا ہوا میں بوجہ شراب خوری پردہ کرتی تھی اور کہتی تھی کہ سامنے جب آؤں گی شراب چھوڑدو گے، آخر ایک روز آیا اور یہ کہا کہ سامنے کردو میں قسم کھاچکا ہوں، دریافت کیا کیا قسم کھائی؟تو یہ کہا شراب پیوں تو جورو کو طلاق ہے اور تین مرتبہ کہا، اورا س تین ماہ کے عرصہ میں سیکڑوں مرتبہ شراب پی اور تین ماہ تک ہندہ زید کے پاس رہی اور روز ماں باپ کے پاس جاتی رہی، اس تین ماہ کے عرصہ میں کچھ نہیں کہا، جب نااتفاقی ہوئی تو یہ بات مشہور کی، ہندہ سے دریافت کیا گیا تم تین ماہ تک زید کے پاس رہیں جب سے تم نے کیوں نہیں کہا، ہندہ جواب نہ دے سکی، ہندہ کی ماں نے کہا کہ اسے یاد نہ رہی، گواہ ایک ہندہ کی ماں اور ایک ہندہ کا بھتیجا عمر ۱۳یا۱۴برس اور ایک لڑکا خدمت گار عمر دس سال ہے اور اس حالت میں طلاق ثابت ہے یانہیں؟اور زید قطعی انکار کرتا ہے نہ میں نے قسم کھائی ہے نہ میں اس بات سے خبردار ہوں۔
الجواب : اگریہی گواہ ہیں تو طلاق ثابت نہیں کہ نہ ماں کی گواہی بیٹی کے لئے معتبر نہ نابالغ کی گواہی مسموع، ہندہ کا  بھتیجا بھی اگر نابالغ ہے جب تو ایک گواہ بھی نہ ہوا اور اگر وہ بالغ ہے تو ایک ہی گواہ ہوا، بہر حال ثبوت نہیں، مگر اﷲ عزوجل ہر غیب کاجاننے والا ہے،اگر واقع میں اس شخص نے وہ کلمات کہے اور پھر شراب پی تو اﷲ کے نزدیک ضرورعورت پر طلاق ہوگئی اور تین بار کہا تو بے حلالہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی اﷲ تعالٰی سے ڈرے اور عورت سے جدا ہوجائے اگر وہ نہ مانے اور عورت کو تحقیق صحیح طور پر معلوم ہے کہ زید نے وہ کلمات تین بار کہنے کے بعد پھر شراب پی تو عورت پر فرض ہے کہ جیسے جانے اس سے دور بھاگے اسے اپنے اوپر قابو نہ دے، اگر ہندہ اپنی سی کوشش پوری کرے اور اس سے بھاگنے پر قدر ت نہ پائے تو گناہ زید پر رہے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۰: ازدار جلنگ ملٹری کلب گھر مرسلہ شمس الدین بیرا۲۵/رجب مرجب ۱۳۳۱ھ

جناب مولانا صاحب حامی دین متین دام اقبالکم بعد ادائے آداب حضور والا کی خدمت میں عرض کرتا ہوں انجمن اسلامیہ دار جلنگ نے یہ فیصلہ کیا ہے حضور کے دولت خانہ کا انصاف ہونا چاہئے انجمن نے زبردستی طلاق لکھ دیا اور میرے اوپر ڈگری کردیا نقل جو میں نے مانگی تو نقل کا مجھ سے پانچ روپیہ لیا ازروئے شرع شریف انصاف فرمائیں۔
الجواب : فیصلہ انجمن ملاحظہ ہوا، اس صورت میں ہر گز طلاق ثابت نہیں انجمن نے محض غلط وباطل وخلاف شرع فیصلہ کیا۔

(۱) اس نے بنائے طلاق بیان زن پرر کھی شمس الدین نے اپنی زوجہ حبیبن پر انجمن میں درخواست دی تھی کہ اس کے افعال ایسے ہیں میراانتظام کردیا جائے، عورت نے جواب میں طلاق دینا بیان کیا، مجوزوں نے فیصلہ میں لکھا مدعا علیہا کے بیان سے ثابت ہے کہ مدعی نے اپنی بی بی مدعا علیہا کے سامنے اور اخترعلی آبدار و پیر محمد گواہان مدعا علیہا کے روبرو طلاق مختلف اوقات میں تین دفعہ دے دی ہے انجمن نے جسے مدعا علیہا کہا وہ شرع میں مدعیہ ہے کہ طلاق دئے جانے کا دعوی کرتی ہے آج تک کسی نے مدعی کے بیان کو اس کے لئے سند مانا ہے، خانگی مثل مشہورہے:
باطل است آنچہ مدعی گوید
 (باطل ہے وہ جو مدعی کہتا ہے۔ت) یہ بالکل شرع مطہر کے خلاف ہے، 

رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لویعطی الناس بدعواھم لادعی ناس دماء رجال واموالھم۱؎۔
اگر لوگوں کو ان کے دعوٰی کے مطابق دیا جائے تو البتہ کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مال کا دعوٰی کردیں گے۔(ت)
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الاقضیہ     با ب الیمین علی المدعی علیہ     قدیمی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۷۴)
 (۲) اس بنائے باطل پر فیصلہ لکھا حکم شریعت ہے کہ جب طلاق کے متعلق ایک ذرابھی ثبوت پہنچ جائے تو پھر کسی صورت میں بھی شریعت زن وشوہر کو باہم زندگی بسرکرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ محض غلط ہے شریعت نے ایک سے دو طلاق رجعی تک بلا تکلف زن و شوہر کو زندگی بسرکرنے کی اجازت دی ہے

 اﷲ عزوجل قرآن مجید میں فرماتاہے:
الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف اوتسریح باحسان۲؎۔
طلاق دو مرتبہ ہے پھر اچھے طریقے سے روک لینا ہے یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا ہے(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم  ۲/ ۲۲۹)
بلکہ تین طلاق میں بھی یہ کہنا غلط ہے کہ اس کی اجازت کسی صورت میں نہیں، صورت حلالہ میں ضروراجازت ہے،

قرآن عظیم میں ہے:
فان طلقھا فلا تحل لہ من بعدحتی تنکح زوجا غیرہ۳؎۔
پھر اگر تیسری طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس (خاوند سابق) کے لئے حلال نہیں تاوقتیکہ کسی اورسے نکاح نہ کرلے۔(ت)
 (۳؎ القرآن الکریم        ۲/ ۲۳۰)
پھر یہاں تین طلاقوں کا ثبوت مان لینا بھی محض ناواقفی ہے دو گواہ اگر طلاق پر گواہی دیں اور وقت مختلف بتائیں تو اگرچہ یہ اختلاف طلاق میں کہ قول ہے موجب رد شہادت نہیں مگر اس کے یہ معنی ہیں کہ دونوں کی مجموعہ شہادت سے ایک طلاق ثابت ہوگی نہ یہ کہ جداجدا دو طلاقیں ثابت ہوں گی اور تین گواہ ہوں تو تین طلاقیں ثابت ہوجائیں یہ نرابے اصل ہے کہ ان میں سے جداجدا کسی طلاق پر نصاب شہادت کامل نہ ہوئی اور کوئی طلاق تنہا ایک کی گواہی سے ثابت نہیں ہوسکتی۔

درمختارمیں ہے :
نصابھا لغیرہا من الحقوق سواء کان الحق مالا اوغیرہ کنکاح وطلاق رجلان اورجل وامرأتان۱؎۔
حقوق مذکورہ کے سوادیگر حقوق کے لئے نصاب شہادت دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ہے چاہے وہ حق مال ہو یا غیرمال جیسے نکاح وطلاق(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
 (۳) انجمن کے سامنے صرف دو گواہ گزرے ایک پیر محمد خدمتگار ہوٹل اوڈلینڈ دوسرااخترعلی اسی ہوٹل کا آبدار، خدمتگار ان ہوٹل جن کے متعلق شراب وخنزیر وغیرہما حرام ونجس اشیاء کا خریدنا بنانا پکانا کھلانا رہتا ہے ہر گز عادل شرعی نہیں ہوسکتے اور اگر بالفرض یہ لوگ ثقہ بھی ہوں تو اختر علی خود حبیبین مدعیہ کا باپ ہے اور باپ کی گواہی اولاد کے حق میں مقبول نہیں تو پیر محمد اکیلا رہ گیا اور ایک کی گواہی مقبول نہیں،
درمختارمیں ہے:
لاتقبل(ای الشہادۃ) من الفرع لاصلہ وبالعکس للتھمۃ۲؎۔
تہمت کی وجہ سے فرع کی گواہی اصل اور اس کے برعکس یعنی اصل کی گواہی فرع کے حق میں قبول نہیں کی جائے گی۔(ت)
 (۲؎ درمختار     کتاب الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۹۴)
بحرالرائق میں ولوالجیہ سے ہے:
تجوز شہادۃ الابن علی ابیہ بطلاق امرأتہ اذالم تکن لامہ اولضرتھا لانھا شہادۃ علی ابیہ وان کان لامہ او لضرتھا لاتجوز لانھا شہادۃ لامہ۱؎ الخ وقد بسط الکلام ویظہر بھذا ان ھذاھواصح مایعتمد علیہ لشھادۃ مسائل کثیرۃ منقولۃ عن الجامع الکبیر۔
بیٹے کی گواہی باپ کے خلاف کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے جائزہے بشرطیکہ وہ گواہی اس کے بیٹے کی ماں یا اس کی سوکن کے حق میں نہ ہو کیونکہ یہ گواہی باپ کے خلاف ہے (نہ کہ اس کے حق میں جوناجائز ہے) اور اگر وہ گواہی بیٹے کی ماں یا اس کی سوکن کے حق میں ہو تو ناجائز ہے کیونکہ یہ شاہد کی شہادت اس کی ماں کے لئے ہوئی الخ۔ صاحب بحر نے اس پر مفصل کلام کیا اور اس سے ظاہر ہوا کہ یہی اصح اور شہادت کے بارے میں ان مسائل کثیرہ کے لئے معتمد علیہ ہے جو جامع کبیرسے منقول ہے۔(ت)
(۲؎ بحرالرائق     کتاب الشہادات     باب من تقبل شہادتہ الخ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۸۱۔۸۰)
بالجملہ فیصلہ محض بے بنیاد ہے اور طلاق ہر گز ثابت نہ ہوگی ڈگری غلط دی گئی، ہاں اگر واقع میں شمس الدین نے حبیبین کو تین طلاقیں دی ہیں تو عورت اس پر حرام ہوگئی بے حلالہ اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اﷲ عزوجل جانتا ہے ہر ظاہر وپوشیدہ کو۔ اﷲ سے ڈرے اور حق نہ چھپائے، وﷲتعالٰی اعلم۔
Flag Counter