فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
1 - 151
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
کتاب الشہادۃ
(گواہی کا بیان)
مسئلہ۱: از دولت پور ضلع بلند شہر مرسلہ رئیس بشیر محمد خان صاحب ۵شعبان ۱۳۲۹ھ
ازروئے شرع شریف کے شاہد کی کیا تعریف ہے اور کون سی شہادت شرع شریف میں مانی جاتی ہے بتفصیل ارقام فرمائیں۔
الجواب: شاہد وہ جو مجلس قضا میں بلفظ اشھد یا گواہی میدہم (میں گواہی دیتا ہوں۔ت) یا گواہی دیتا ہوں کسی حق کے ثابت کرنے کی خبر دے، اور قبول شہادت کےلئے شاہد کا عاقل،بالغ صحیح یاد والا، انکھیارا اور مدعا علیہ پر اپنی گواہی سے الزام قائم کرنے کی لیاقت والا ہونا لازم ہے، اور یہ کہ اسی شہادت میں بوجہ قرابت ولادت یا زوجیت یا عداوت وغیرہا اس پر تہمت نہ ہو، اورفاسق کی گواہی بھی مردود ہے اور قبول کرنے والا گنہگار، اورتفصیل تام کتب فقہ میں ہے،
درمختار میں ہے:
اخبار صدق لاثبات حق بلفظ الشہادۃ فی مجلس القاضی شرطھا العقل الکامل والضبط والولایۃ فیشترط الاسلام لوالمدعی علیہ مسلما وعدم قرابۃ ولاد او زوجیۃ اوعداوۃ دنیویۃ اودفع مغرم اوجرمغنم۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کسی حق کو ثابت کرنے کےلئے مجلس قاضی میں لفظ شہادت کے ساتھ سچی خبر دینا(شہادت شرعی ہے) شہادت کی شرطیں یہ ہیں شاہد کا عاقل، بالغ صحیح یا دداشت والا اور مدعا علیہ پر ولایت رکھنے والاہونا چنانچہ اگر مدعا علیہ مسلمان ہو تو شاہد کا مسلمان ہونا شرط ہوگا(نیز یہ بھی شرط ہے کہ) شاہد کو مشہودلہ کے ساتھ ولادت یا زوجیت کے اعتبار سے قرابت حاصل نہ ہو اور نہ ہی کوئی دنیوی عداوت ہو،اور شاہدکو اس گواہی سےدفع تاوان یا حصول منفعت جیسی سہولت بھی حاصل نہ ہوتی ہو۔(ت )
(۱؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۰)
مسئلہ۲:ازرامپور مرسلہ مولانا ظہور الحسن صاحب ومولوی ارشد علی صاحب ۲۸ذوالقعدہ ۱۳۱۹ھ
سوال از حضرت مولونامولوی احمدرضاخان صاحب، فتوی محررہ مولوی منور علی صاحب دربارہ مقدمہ فردوس بیگم مدعیہ میں جو جناب والانے یہ لفظ تحریر فرماکرمہر کی ہے: اگر شہادت شہود مندرجہ سوال جامع شرائط شہادت ہے توفیصلہ بحق مدعیہ ہونا چاہئے،آیا شرائط شہادت میں سے تعیین مشہود بہ ساتھ حدود بیان کرنے کے اگر مشہود بہ اراضی یا مکان ہو ہے یا نہیں؟اور صرف مکان متنازعہ بول دینا بلا بیان حدودصحت شہادت کے واسطے کافی ہے یانہیں؟اور تعیین مشہود علیہ ومشہور لہ ساتھ ذکر اسم اب وجد کے اگر مشہورین میں سے نہ ہوں شرط شہادت ہے یانہیں؟اور لفظ اشھد شہادت کے لئے ضروری ہے یانہیں ؟اگر یوں شہادت لی جاتی ہو کہ گواہ سے اول یوں حلف لیا اشھد باﷲ سچ کہوں گا بعدہ اس سے دریافت کیا فلاں مقدمہ میں کیا جانتے ہو اس نے بیان شروع کردیا اور اس بیان میں اشھد یا شہادت دیتا ہوں یا گواہی دیتا ہوں کہ ایسا ہے نہ کہا تو یہ شہادت قابل قبول ہے یانہیں؟اور ایسی شہادت کی بناپر اگر قاضی فیصلہ کردے تو وہ فیصلہ قابل نفاذ ہے یانہیں؟بینواتوجروا(بیان کیجئے اور اجر دئے جاؤگے۔ت)
الجواب: فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اس فتوٰی پر اپنی تحریر جداگانہ لکھی ہے اور اس میں بحکم احتیاط جس کا لحاظ فتوٰی میں خصوصاً اس زمانہ شیوع جہل میں اہم ضروریات سے ہے صراحۃً یہ قید ذکرکی کہ دونوں گواہان مدعیہ اگر جامع شرائط شہادت ہیں اور ان کا بیان حاکم مجوز کے سامنے حسب شرائط ہولیا ہے تو بیع بنام فردوس بیگم ضرور ثابت ہے اس میں تمام شرائط تحمل شہادت وجملہ شرائط ادائے شہادت وجمیع شرائط صحت دعوٰی سب کی طرف اشارہ تھا کہ حقوق العباد میں تقدم دعوٰی خود شرط شہادت ہے تو بے صحت دعوٰی شہادت ہر گز مسموع نہیں، فقیرکو معلوم تھا کہ جہل شائع ہے اور اجتماع شرائط کم متوقع
ومن لم یعرف اھل زمانہ فھو جاہل۲؎
(اور جو اپنے زمانہ والوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ت)
(۲؎ درمختار باب الوتر والنوافل مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۹)
لہذا تصریحاً بالقصد یہ قیود ذکر کردیں اور اس فتوی کی تصدیق وتصحیح پسند نہ کی۔ مشہود بہ جب عقار مثلاً ارض یادار ہو تو شہادت میں کم از کم تین حدوں کاذکر واجب ہے اس کے بغیر شہادت ہر گز قبول نہیں مگر یہ کہ شہود دار کے پاس حاضر ہوکر بمواجہ مدعی ومدعاعلیہ خود قاضی یااس کے دو امینوں کے سامنے اشارہ سے تعیین حدود کی حاجت نہیں
فان تعیین الحاضر بالاشارۃ
(کیونکہ حاضر شے کی تعیین اشارہ سے ہوتی ہے۔ت) یا اگر دار ایسی معروف ومشہور ہے کہ اس کا نام لینا ہی علم کو بس ہے تو صاحبین کے نزدیک تحدید ضرور نہیں امام اب بھی مانتے ہیں اور یہی صحیح ہے مگر اگر قاضی کہ خاص مذہب امام یا مذہب مصحح پرقضا کے ساتھ مقید نہ کیا گیا ہو بلکہ اسے قاضی کرنے والے نے اختیار دیا ہو وہ اگر ایسی مشہور دار میں بے تحدید قبول شہادت کرکے قضا کردے گا نافذ ہوجائے گی
لوقوعہ فی مجتہدفیہ
(بسبب واقع ہونے اس کے مجتہد فیہ میں۔ت) ورنہ باطل ہوگی
لکونہ معزولافیہ کما فی البحر والاشباہ والدروغیرھا
(کیونکہ اس میں وہ معزول ہے جیسا کہ بحر، اشباہ اور دروغیرہ میں ہے۔ت)
درمختار میں ہے:
یشترط التحدید فی دعوی العقار کما یشترط فی الشھادۃ علیہ ولو کان العقار مشہورا خلافا لھما الااذعرف الشہود الدار بعینھا فلایحتاج الی ذکر حدودھا۔۱؎
عقار (غیر منقول جائدا د) کے دعوٰی میں حدود کو بیان کرناشرط ہے جیسا کہ اس پر گواہی میں بیان شرط ہے اگرچہ وہ عقار مشہو رہو بخلاف صاحبین کے مگرگواہان جب دار کوخصوصی طور پر پہچانتے ہوں تو بیان حدود کی حاجت نہیں۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الدعوٰی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۔۱۱۵)
جامع الفصولین وفتاوٰی ہندیہ وعقودالدریہ وغیرہامیں ہے:
شھدابداروقالانعرف حدودہ اذامشینا الیہ لکن لانعرف اسماء الحدود فان القاضی یقبل ذٰلک منھما اذاعدلاویبعثھمامع المدعی والمدعی علیہ وامینین لہ لیقف الشھود علی الحدود بحضرۃ امینی القاضی فاذا وقفا علیہا فقا لاھذہ حدود دار شہدنا بہ لہذا المدعی یرجعون الی القاضی ویشھد الامینان انھما وقفا وشھدا باسماء الحدود فحینئذ یقضی بالدار وکذاالقریۃ والحانوت وجمیع الضیاعات۱؎۔
دو گواہوں نے کسی کے لئے دار کی گواہی دی اور کہا کہ ہم اگر گھر کی طرف جائیں تو اس کی حدوں کو پہچانتے ہیں مگر اس کی حدوں کے نام نہیں جانتے تو قاضی ان کی گواہی کو قبول کرے گابشرطیکہ ان دونوں گواہوں کی تعدیل ہوگئی۔ قاضی دونوں گواہوں کو مدعی، مدعا علیہ اور اپنے دو امینوں کے ساتھ بھیجے گا تاکہ وہ گواہ قاضی کے امینوں کی موجودگی میں گھر کی حدوں کی شناخت کرائیں جب وہ گواہ گھر کی حدوں پر واقف ہوئے اور کہا کہ یہی حدیں ہیں اس گھر کی جس کی گواہی ہم نے اس مدعی کےلئے دی ہے، اب یہ قاضی کے پاس لوٹ آئیں گے اور دونوں امین اس بات کی گواہی دیں گے کہ ان گواہوں نے گھر اور اس کی حدوں پر ہم کو واقف کیا ہے تو قاضی اس گھر کا فیصلہ مدعی کے حق میں کردے گا اور یہی حکم ہے گاؤں، دکانوں اور تمام غیر منقول جائدادوں کا۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل السابع فی تحدید العقارالخ اسلامی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰۲)
جامع الرموز میں ہے:
فیہ رمز الٰی انہ یحدولو مشہورا وھذا عندہ خلافا لھما فلو لم یحد وقضی بصحۃ ذٰلک نفذ۲؎۔
اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مدعی کی جانب سے حدودکو بیان کیا جائے گا اگرچہ (حدود ) مشہور ہو، یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہے بخلاف صاحبین کے، چنانچہ اگر بیان حدود کے بغیر قاضی نے صحت دعوٰی کا فیصلہ دے دیا تو (صاحبین کے نزدیک ) نافذ ہوجائے گا۔(ت)
(۲؎ جامع الرموز کتا ب الدعوٰی مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۴ /۴۶۷)
مگر صرف جامع الفصولین میں اپنی رائے یہ تحریر فرمائی کہ اگر شاہدین ملک متنازع فیہ کی شہادت دیں اور مدعی ومدعاعلیہ کا اتفاق ہو کہ جس دار کی انہوں نے شہادت دی ہے وہی متنازع فیہ ہے تو اصل دار میں شہادت قبول ہونا مناسب معلوم ہوتا ہے اولا برمزف ش فتاوٰی امام رشید الدین سے نقل کیا
شہادتھم بالملک بلا ذکر الحدود لاتقبل۳؎
(حدود کو بیان کئے بغیر ملکیت پر ان کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ت)
(۳؎ جامع الفصولین الفصل السابع فی تحدید العقار اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۰۱)
پھر اپنی بحث ذکرکی کہ اقول:
الغرض ھو التمیز عند القاضی، فینبغی ان یصح حکمہ بحسب ماتمیز فلو شھد ا بملک المتنازع فیہ والخصمان تصادقا علی ان المشھود بہ ھو المتنازع فیہ، ینبغی ان تقبل الشہادۃ فی اصل الدار وان لم یذکرا الحدود لعدم الجہالۃ المفضیۃ الی النزاع فی اصل الدار فلو وقع النزاع فی حدودہ بعد الحکم باصلہ فذلک الامر اٰخر تسمع فیہ الخصومۃ براسہ کما ان الجارین لوتنازعا فی حدود داریہما لافی اصلیھما یسلم لکل منھما اصل دارہ وتسمع الخصومۃ فی الحد، واﷲ تعالٰی اعلم۔۱؎
میں کہتا ہوں غرض تویہ ہے کہ وہ (دار) قاضی کے نزدیک ممتاز ہوجائے لہذا اس کا فیصلہ ممتاز شے کی حد تک صحیح ہونا چاہئے، چنانچہ اگر دو گواہوں نے متنازع فیہ گھر کے بارے میں کسی کی ملکیت کی گواہی دی اور مدعی اور مدعاعلیہ دونوں نے تصدیق کردی کہ متنازع فیہ گھر وہی ہے جس کے بارے میں شہادت دی گئی تو اصل گھر کے بارے میں ان کی گواہی مقبول ہونی چاہئے اگرچہ حدود کو انہوں نے بیان نہ کیا ہو کیونکہ یہاں ایسی جہالت معدوم ہے جو اصل گھر میں جھگڑ ے کا باعث بنے، اگر اصل گھرکے فیصلہ کے بعد اس کی حدوں میں نزاع واقع ہوتو یہ الگ معاملہ ہے جس میں نئے سرے سے خصومت مسموع ہوگی جیسا کہ دو پڑوسیوں میں ان کے گھروں کی حدود کے بارے میں نزاع واقع ہوا نہ کہ اصل گھروں کے بارے میں، تو ہر ایک کا اصل گھر اس کے حوالے کیا جائے گا اور اس کی حدوں کے بارے میں خصومت مسموع ہوگی، واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین الفصل السابع فی تحدید العقار اسلامی کتب خانہ کراچی ۱/ ۰۲۔۱۰۱)