Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
9 - 180
اب یہ کلام مسئلہ اعتیاض عن الوضائف کے طرف مجر ہوگا وہاں ہر چند علماء کواختلاف  ہےاوریہ مبحث معرکۃ الآراء  ہے مگر مرضی جماہیر فحول ونحاریر عدول صحت وقبول  ہے اور وہی ہنگام اعتبار وملاحظہ نظائر ان شاء اﷲ تعالٰی اظہر، اگرچہ دوسرا پلہ بھی بہت ثقیل وگراں  ہے،
فی الدالمختار من الاشباہ المذہب عدم اعتبار العرف الخاص لکن افتٰی کثیر باعتبارہ وعلیہ فیفتی بجواز النزول من الوظائف بمال ۱؎ الخ قال العلامۃ السید احمد الطحطاوی فی حاشیتہ وقد تعارف ذٰلک الفقہاء عرفا قدیما رضیہ العلماء والحکام الی ان قال عن ابی السعود عن السید احمد الحموی من بعض الفضلاء عن العلامۃ بدرالدین العینی ان النزول عن الوضائف صحیح قیاسا علی ترک المرأۃ قسمہا لصاحبتہا لان کل منہما مجرد اسقاط ۲؎ الخ۔
درمختار میں بحوالہ اشباہ مذکور ہے کہ مذہب کہ عرف خاص کے عدم اعتبار کا  ہے لیکن کثیر علماء نے اس کے اعتبار کرنے کا فتوٰی دیا اسی بنیاد پر مال کے بدلے وظائف سے دستبرداری کے جواز کا فتوٰی دیا گیا الخ علامہ سید احمد طحطاوی نے اپنے حاشیہ میں کہا کہ فقہاء نے اس کو عرف قدیم سمجھا اور علماء وحکام نے اس کو پسند کیا یہاں تک کہ علامہ طحطاوی نے کہا کہ ابوسعود نے بعض فضلاء کا قول بحوالہ علامہ بدرالدین عینی سید احمد حموی سے نقل کیا کہ وظائف سے دستبرداری صحیح  ہے قیاس کرتے ہوئے عورت کے اپنی باری اپنی سوکن کے لئے چھوڑ دینے پر، کیونکہ ان دونوں میں سے ہر ایک محض اسقاط  ہے، الخ (ت)
 (۱؎ درمختار   کتاب البیوع   مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۴)

(۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب البیوع    دارالمعرفۃ بیروت        ۳ /۹)
علامہ سید احمد حموی غمز عیون البصائر میں علامہ نورالدین علی مقدسی سے بعض فروع مبسوط سرخسی پر اس مسئلہ کا اعتبار اور صحت کا استظہار نقل کرکے فرماتے ہیں :
فلیحفظ فانہ نفیس جدا ۳؎
 (اس کو یادرکھنا چاہئے کیونکہ یہ بہت عمدہ  ہے۔ت)
(۳؎ غمزعیون البصائر    القاعدۃ الاولٰی   ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/ ۱۳۹)
خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی ردالمحتار میں کلام علامہ بیری شارح اشباہ سے اس کی تائید نقل اور حقوق موصی لہ بالخدمہ وقصاص ونکاح ورق کا حقوق شفعہ وقسم زوجہ وخیار مخیرہ فی النکاح سے بدیں وجہ کہ صور اولٰی میں حق اصالۃ ثابت  ہے تو ان سے اعتیاض جائز  بخلاف اخیرہ کے کہ وہاں ثبوت حق صرف بربنائے ضرر  ہے جب صاحب حق اعتیاض پر راضی ہو ا معلوم ہوا مستضررنہ تھا راسا حق باطل ہوا یہ عوض کیسا فرق بیان کرکے فرماتے ہیں:
ولایخفی ان صاحب الوظیفۃ ثبت لہ الحق فیہ بتقریر القاضی علی وجہ الاصالۃ لاعلی رفع الضرر (ینقل الی ماقال) و ان کان الاظہر فیہا ماقلنا ۱؎۔
اورمخفی نہ ر ہے کہ بیشک صاحب وظیفہ کے لئے حق قاضی کی تقریر سے بطور اصل ثابت ہوانہ کہ رفع ضرر کے طورپر (نقل کرتے ہوئے یہاں تک کہا) اگرچہ اس میں زیادہ ظاہر وہی  ہے جوہم نے کہا۔ (ت)
 (۱؎ ردالمختار   کتاب البیوع مطلب فی النزول عن الوظائف   داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۵)
اس تقدیر پر یہ تو وہ شبہہ کو صفقہ واحدہ میں صالح وغیر صالح کو جمع کیا راسا مقلوع اور اگر مذہب آخر اختیار کیجئے تاہم فقیہ پر روشن کہ کم من شیئ یصح ضمنا ولایصح قصدا (بہت سی اشیاء ضمنا صحیح ہوتی  ہے اور قصدا صحیح نہیں ہوتیں۔ ت) آخر مرو ر وشرب و تعلی بھی تو حقوق مجردہ ہیں اگر بہ تبعیات رقبات طریق ونہر وعلو ان کی بیع بالا تفاق جائز، یہاں بھی اسامی بیچنا صرف اس حق مجرد کے بیع نہیں بلکہ اس کے ساتھ اسپ ولباس بھی  ہے کمالایخفی (جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ ت) پھر استقلال و تمحض کہا جو بطلان مقطعوع ہو معہذا اگر ایک مذہب پر بیع اسامی مطلقا باطل ہی مانی جائے، تاہم اس قدر تو یقینی کہ یہ بطلان مختلف فیہ  ہے، پس صرف اتنا ثابت ہوگا کہ زید نے صفقہ واحدہ میں ایک شے صالح البیع بالاتفاق اور شے دوسری مختلف الصلاحیۃ کو ضم کیا اور ایسی صورت میں قائلین بالبطلان کے نزدیک اگر چہ اس مضمون کی بیع باطل، مگر اس کافساد مضمون الیہ تک ساری نہیں ہوتا اس کی بیع بالاتفاق صحیح رہتی  ہے، خلاصہ یہ کہ مانعین کے نزدیک بھی حل وظیفہ مثل اوقاف  ہے نہ کہ مانند حرومیۃ کہ اس کے بطلان سے بیع مکان بھی فاسد ٹھہرے،
  فی الدرالمختار وقید وا سرایۃ الفساد فی باب البیع الفاسد بالفاسد القوی المجمع علیہ فیسری کجمع بین حرو عبد بخلاف الضعیف المختلف فیقتصر علی محلہ ولا یتعداہ کجمع بین عبدو مدبر ۲؎ الخ وفی الشامیۃالفساد غیر قوی لعدم الاتفاق علیہ فلا یسری ۱؎۔
درمختار میں  ہےکہ فقہاء نے بیع فاسد کے باب میں سرایت فساد کو فساد قوی متفق علیہ کے ساتھ مقید کیا تو وہ فاسد تمام عقدمیں سرایت کرےگا جیسے آزاد اور غلام کو عقد واحد میں جمع کرنا بخلاف فساد ضعیف اختلاف کے کہ وہ اپنے محل پر بندرہتا ہے اور اس سےتجاوز نہیں کرتا جیسے غلام اور مدبر کو عقد واحدمیں جمع کرنا الخ اور شامی میں  ہے کہ یہ فساد غیر قوی  ہے کیونکہ اس پراتفاق نہیں لہٰذا یہ سرایت نہیں کریگا (ت)
 (۲؎ الدرالمختار  کتاب الاجارۃ    مطبع مجتبائی دہلی        ۲/ ۱۶۷)

(۱؎ ردالمحتار    کتاب الاجارہ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/۵)
اور بالفرض اگر اس سے بھی تنزل کیجئے اگرچہ یہ تنزل کے قابل نہیں لیکن تاہم غایت یہ  ہے کہ اس سے بیع مکان میں فساد لازم آئے گا، نہ بطلان کہ وجہ فساد مسئلہ حرومیۃ میں قبول غیر صالح سے مشروط ہوتا  ہے اور بیع شروط فاسدہ سے سے فاسد ہوجاتی  ہے نہ کہ باطل ،
Flag Counter