فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
8 - 180
مسئلہ ۲۷: از ستار گنج ۲۶ ربیع الآخر ۱۳۱۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر باغ وجائداد منقولہ وغیرہ منقولہ سرکار نیلام کرتی ہے اس کا خریدنا جائز ہے یا ناجائز ہے اور اشیاء روبرو ہے فقط۔
الجواب
جو نیلام باجازت مالک ہو مطلقا جائز ہے یا بعد بیع مالک اجازت دے دے مثلا سو روپے قرض تھے ایک سودس میں نیلام ہوا دس کہ زائد تھے مالک کو دئے گئے اس نے قبول کرلئے تویہ اب جائز ہوگیا اگر چہ ابتداءً ناجائز تھا
فان الاجاۃ اللاحقۃ کالوکالۃ السابقۃ ۲؎
(کیونکہ اجازت لاحقہ، وکالت سابقہ کی مثل ہے۔ ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع فضل فی الفضولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۰۔ ۱۳۹)
اور جہاں یہ دونوں صورتیں ہ ہوں وہ عقد فضولی ہے اجازت مالک پر موقوف ر ہے گا اگر جائز کردے جائز ہوجائے گا رد کردے باطل ہوجائے گا، اور جب تک اجازت نہ دے اس شے میں مشتری کو تصرف حلال نہ ہوگا،
فان العقد الموقوف لایفید الحل، کما نص علیہ فی ردالمحتار وغیرہ۔
کیونکہ بیع موقوف مفید حل نہیں ہوتی جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ یمں اس پر نص کی گئی ہے۔ (ت) پھر یہ بھی اس صورت میں ہے کہ اس عقد کے ہوتے وقت کوئی ایسا شخص قائم ہو جسے شرعا اس کی اجازت کا اختیار ہے نہ دوسرے سے باطل ہوگا مثلا نابالغ کا مال نصف قیمت کا نیلام کیا گیا کہ اسے تمام دنیا میں اجات دینے والا کوئی نہیں تو ایسا عقد موقوف نہ ر ہے گا ابتداء باطل ومردود ہوگا،
فان تصرف الفضولی حیث لامجیز باطل اصلا ۱کما نص علیہ فی الدر وغیرہ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
کیونکہ فضولی کا تصرف جہاں اس کی اجازت دینے کا اختیار رکھنے والا کوئی نہ ہو سرے سے باطل ہے جیسا کہ اس پر دروغیرہ میں نص کی گئی ہے واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۱)
مسئلہ ۲۸: ۱۱ذی الحجہ ۱۳۱۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جس ڈگری میں اصل روپیہ اس کا سود بھی شامل ہے اس میں اگر کوئی جائداد حاکم ہندہ جو فی الحال ہے نیلام بغرض ادائے دین وسود کرے تو اس جائداد کو خریدنا شخص مسلمان کو جائز ہے یانہیں؟ جائز ہے تو بقدر زر اصل کے ہے یا بالکلیہ؟ بینوا توجروا
الجواب
مشتری جب عقد صحیح شرعی سے کوئی شے خریدے تو بائع کے فعل کا کہ وہ اس زر ثمن کو اطاعت میں خرچ کرے گا یا معصیت میں مشتری سے کچھ مطالبہ نہیں،
لاتزر وازرۃ وزرا خری ۲؎۔
کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں آٹھائے گا۔ (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۶۴)
زر ثمن کا معاذاللہ سود مں دیا جانا تمامی عقد بیع کے بعد ہوگا تو مشتری سے کیا تعلق اورا س وقت اگر ہے تو بائع کی نیت کہ ثمن لے کر وہاں دے گا، اس نیت کو بھی عقد سے علاقہ نہیں، بہرحال مشتری اس الزام سے بیر ہے لتخلل فعل فاعل مختار (کہ درمیان میں فاعل مختار کا فعل ہے۔ ت) ہاں اگر کوئی صورت خاصہ ایسی ہو کہ بائع سود وغیرہ مصارف حرام میں صرف کرنے کے لئے بیچتا ہے اور مشتری شراء سے نیت کرے کہ اس امر حرام میں اس کی اعانت کرے تو فساد نیت کے باعث خود اپنے وپر الزام شرعی لے گا شمول ربا کا جواب تویہ ہے کہ مگریہاں محل نظریہ امر ہے کہ نیلام ایک بیع ہے اور بیع بے رضائے مالک شرعا جائز نہیں،
قال اﷲ تعالٰی یایھاالذین اٰمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ سوائے اس کے کہ تمھارے درمیان باہمی رضامندی سے تجارت ہو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۸۸)
پس اگر نیلام جائز صحیح شرعی خود مال کرے یا باذن مالک ہو تو اس کے جواز میں کلام نہیں وہ بیع فضولی ہے کہ اگر اس وقت اس کا کوئی نافذ کرنیوالا نہیں مثلا نابالغ کا مال نصف قیمت کونیلام ہوا کہ اسے تمام جہاں میں کوئی نافذ نہیں کرسکتا جب تو وہ بیع سرے سے باطل وبے اثر ہے اور خریدار حرام اور اگر نافذ کرنے والا ہے مثلا بالغ کا مال کتنی ہی کم قیمت کونیلام ہوا تو ہ عقد اس کی اجزت پر موقوف ر ہے گا، اگر رد کردیا یاباطل ہوگیا، اوراگر جائز کردیا نافذ ہوگیا، اور اجازت کی صورت میں ایک یہ بھی ہے کہ زرثمن قدر مطالبہ سے زائدقرار پایا مثلا پانسو روپے کی ڈگری میں یا ہزار کامال پانسو دس روپے کو نیلام ہوا پانسودائن کو گئے دس مالک کو دئے اس نے لے لئے تو یہ لینابیع کونافذ کردینا ہوگا لان قبولہ تنفیذ کما نصواعلیہ (کیونکہ مالک کا قبول کرنا اس کی طرف سے نافذ کرنا متصور ہوتا ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۹:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہ سواروں میں نوکر تھا اس نے اپنے زوجہ ہندہ کے مہر میں بحالت صحت مکان اور اپنی اسامی دے دی اور دستاویز میں دونوں چیزون کا ذکر لکھ کرداخل خارج کرادیا، بعدایک عرصہ کے زیدکا انتقال ہوگیا، زوجہ زید نے مکان عمرو کے ہاتھ فروخت کیا، اب خالد جس کا زید پر کچھ قرض آتا تھا اس مکان کو مملوک زیدقرار دے کر اپنا قرضہ اس سے وصول کرایا چاہتا ہے کہ زید نے اسے لکھ دیا تھا اگر میں ادانہ کروں میری جائداد سے وصول کرلے، آیا یہ اقرار شرعا روا اور وہ دستاویز جس میں مکان کے ساتھ اسامی کا بھی ذکر ہے شرعا صحیح اور یہ مکان بوجہ عقد زید مملوک ہندہ پھر بسبب عقد ہندہ مملوک عمرو ہوگیا یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
صورت مستفسرہ میں بیشک وہ مکان بوجہ عقد زید مملوک ہندہ پھر بسبب بیع ہندہ مملوک عمرو ہوگیا، اب سوائے عمرو کسی کا اس میں کچھ حق نہیں، نہ کوئی قرضخواہ زید اس سے اپنا قرضہ وصول کرسکتا ہے ، محل تأمل وامر تنقیح طلب یہاں اس قدر کہ زید نے عقدہ واحدہ میں عین یعنی مکان اور حق مجرد یعنی اسامی میں جمع کیا حالانکہ حقوق مجردہ صالح تملیک ومعاوضہ نہیں، کلیہ فقہ ہے کہ جب عقد اہل سے محل میں بسلامت اراکان واقع ہو تو اس کے عدم بطلان میں کوئی شبہ نہیں اور اپنے ثمرات کو اگر چہ بعد القبض بالیقین مثمر ہوگا مگروقت نظر حاکم کہ وہ عقد جو درمیان زید وزوجہ زید واقع ہوا عام ازیں کہ صلح عن المہر ٹھہرے خواہ ہندہ یازید کی طرف سے ہبہ اور ہبہ ہو تو بالعوض خواہ بشرط العوض اور یہ اختلاف سہ اختلاف عاقدین سے ناشئی ہوگا، بہر تقدیر امر مذکور نفس مکان کے تملیک پھر ہندہ کی صحت بیع میں ہر گز مخل نہیں کہ اگر صورت اخیرہ یعنی ہبہ بشرط العوض تو وہ توابتداء ہبہ ہے اور اسی کے احکام اس پر جاری، اگر چہ انتہاء بدستیاری معاوضہ جانب بیع منقلب ہوجائے اور ہبہ میں اگر شے صالح التملیک وغیر صالح یکجا کی جائیں تو اس کا فساد اسی پر مقتصر رہتااور اس قدر میں ہبہ قطعا صحیح ہوجاتا ہے،
فی الاشباہ والنظائر من قاعدۃ اذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام قال ومنہا الہبۃ وھی لاتبطل بالشرط الفاسد فلا یتعدی الی الجائز ۱؎ اھ۔
الاشباہ والنظائر میں ایک قاعدہ مذکور ہےکہ جب حلال وحرام مجتمع ہوں تو حرام غالب ہوگا فرمایا کہ اسی میں سے ہبہ بھی ہے اور وہ شرط فاسد سے باطل نہیں ہوتا لہٰذا جائز کی طرف متعدی نہیں ہوگا اھ (ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول القاعدۃ الثانیہ ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۱۴۹)
اور صور باقیہ میں اگرچہ یہ عقد لباس ہبہ یاصلح میں ہو مگر معنی بیع وشراء ہے زید بائع ہندہ مشتریہ مکان واسامی مبیع مہر ثمن، امافی الہبۃ بالعوض فظاھر واما فی الصلح فکما فی العالمگیریۃ عن المحیط اذا وقع الصلح عن دین فحکمہ حکم الثمن فی البیع وان وقع علی عین فحکمہ حکم المبیع فمایصلح ثمنا فی البیع اومبیعا یصلح بدلا فی الصلح وما لا لا ۲۔ لیکن ہبہ بالعوض میں تو یہ ظاہر ہے اور صلح اس لئے جیسا کہ عالمگیریہ میں بحوالہ محیط آیا ہے کہ اگر صلح دین پر واقع ہو تو اس کاحکم وہی ہے جو بیع میں ثمن کا ہے اور اگر صلح عین پر واقع ہوتو اس کاحکم وہی ہے جو بیع میں مبیع کا ہے چنانچہ جو چیز بیع میں ثمن یا مبیع بن سکتی ہے وہ صلح میں بدل بھی بن سکتی ہے اور جو بیع میں ثمن یا مبیع نہیں بن سکتی وہ بدل صلح بھی نہیں بن سکتی،۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الصلح نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۲۳۱)