فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ ) |
مسئلہ ۲۶: ۱۷ جمادی الاولٰی ۱۳۰۳ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک گاؤں میں تین شریک ہیں زید اور خالد اور زید کا بیٹا عمرو، عمرو پر کچہری انگریزی سے ایک معاملہ میں ہندہ کی بقدر آٹھ سو روپیہ کی ڈگری ہوئی ہندہ نے جائداد عمرو نیلام پر چڑھائی کچہری انگریزی سے پانچ بسوہ عمرو کے بتفریق اس طرح نیلام ہوئے کہ ۲۷ رمضان ۱۳۰۱ مطابق ۲۱ جولائی ۱۸۸۴ ء و ۱۳ ساون ۱۲۹۲ فصلی کو تین بسوہ پھر یک صفر ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۰ نومبر ۸۴ء و ۷ا اگہن (مگھر) ۹۲ فصلی کو ایک بسوہ پرھ ۴ جمادی الاولی ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۰ فروری ۱۸۸۵ء و ۲۱ پھاگن ۱۲۹۲ فصلی کو ایک بسوہ اور یہ سب نیلام خود ہندہ ڈگری دار نے خرید لئے، بعدہ، ہفتم رجب ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۳ اپریل ۱۸۸۵ء و ۲۴ بیساکھ ۱۲۹۲ فصلی کو ہندہ نے یہ کل جائداد یعنی پانچوں بسوئے بنام خالد شریک سوم بیع کردئے، خالد نے باحتیاط بحکم شرع اصل مالک یعنی عمرو سے اپنے نام جو انتقال ہوا اس کی اجازت چاہی عمرو نے بخوشی اجازت دی پھر مزید وثوق کے لئے ۱۶ جمادی الاولٰی ۱۳۰۳ ھ مطابق ۲۱ فروری ۱۸۸۶ء و ۳ پھاگن ۱۲۹۳ فصلی کو عمرو مذکور نے ایک دستاویز بدیں مضمون لکھ دی کہ یہ پانچوں بسوہ جو ہندہ مشتریہ نیلام نے بدست خالد بیع کئے میں نے یہ انتقال بخوشی جائز رکھا اور زرثمن خالد کو معاف کیا اور روز نیلام سے کہ ابتدائے زراعت خریف ۱۲۹۲ فصلی تھی ربیع ۱۲۹۲ تک جس قدر توفیر ان پانچوں بسوں کے ہوئی اس کی نسبت صریحا لکھ دیا کہ وہ توفیران پانچوں بسووں کے میں نے خالد مذکور کو اس شرط پر کہ موہوب لہ میرے حق رجوع کے عوض مجھے دس من خادم گندم دے ہبہ کئے خالد اس توفیر کو قبض ووصول کرے اور میں نے گندم مذکور کو خالد سے وصول پالی، اب میرا کوئی حق اس توفیر میں نہیں اورنہ مجھے اس ہبہ سے رجوع کااختیار باقی رہا، اب شرع شریف سے سوال ہے کہ صورت مذکورہ میں اس تمام توفیر کا استحقاق خالد خریدار کو ہے یا زید پدر عمرو کو؟ بینوا توجروا۔
الجواب صورت مستفسرہ میں زید پدر عمرو کسی طرح توفیر کا مالک نہیں بلکہ وہ کل توفیر پانچوں بسوہ کی بابت سال تمام ۱۲۹۲ فصلی کی محض خالد کا حق ہے اور صرف اور صرف اسی کو ملنا چاہئے۔
والفقہ فی ذٰلک ان بیع من یزید الصادرمن حکام الزمان لیس بیع المالک وھو ظاھرولاباذنہ فانہم لایسألونہ ولایسترضونہ بل ربما باعوا مایساوی الفا بمائۃ اواقل ولا باذن الشرع المطہر کما لایخفی علی من لہ ادنی مسکۃ فلا یسوغ تفریعہ علی قول الصاحبین فی بیع القضاۃ مال المدیون کرھا علیہ ان ابی ولابیع المکرہ حتی یجعل فاسدا لان المالک لایتولی الایجاب بل ربما لایشہد العقد وانماھم یبیعون بانفسہم جبراعلیہ فاذن لیس الا کبیع الغاصب ینعقد موقوفا علی اجازۃ المالک فان اجاز جاز والابطل فی الدرالمختار وقف بیع الغاصب علی اجازۃ المالک اھ ۱؎ واذا کان الامر کذٰلک فلم یثبت الملک فی المبیع لھندۃ المشتریۃ من احکام فبیعہا من خالد ایضا بیع الفضولی لعدم الملک واذن المالک فیتوقف ایضا علی اجازتہ، فی ردالمحتار بیع المشتری من الغاصب موقوف ۲؎ اھ فایما عقد منہما صادفتہ الاجازۃ نفذ بخصوصۃ، فی الحاشیۃ الشامیۃ عن جامع الفصولین عن المبسوط لوباعہ المشتری من غاصب ثم وثم حتی تداولتہ الایدی فاجاز مالکہ عقدا من العقود جاز ذٰلک العقد خاصۃ لتوقف کلہا علی الاجازۃ فاذا اجاز عقدا منہا جاز ذٰلک عقدا منہا جاز ذٰلک خاصۃ ۳؎ اھ وھٰھنا قد لحقت الاجازۃ العقد الاٰخر فنفذ وثبت الملک لخالد فی المبیع و نمائہ وغلالہ منذ شری من الھندۃ،
اس میں فقہ یہ ہے کہ بولی لگاکر بیع (نیلامی) جیسا کہ آج کل کے حکمران کرتے ہیں وہ مالک کی طر ف سے بیع نہیں اور یہ ظاہر ہے اور نہ مالک کی اجازت سے ہے کیونکہ حکمران نہ تو مالک سے پوچھتے ہیں اورنہ ہی اس کی رضا معلوم کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ہزار کی مالیتی چیز سویا اس سے بھی کم پر فروخت کردیتے ہیں ، اورنہ ہی یہ بیع شرعا مطہر کے اذن سے ہوتی ہے جیساکہ شریعت سے ادنٰی سا تعلق رکھنے والے پر مخفی نہیں ،اور یہ بیع مذکور کو بیع مکرہ اور مدیون کے انکار کے باوجود حکام کی طرف سے جبرا اس کے مال کوفروخت کرنے سے متعلق قول صاحبین پر متفرع کرکے بیع فاسد قرار دینے کی گنجائش نہیں کیونکہ یہاں ملک کی طرف سے ایجاب نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو مالک بوقت عقد حاضرہی نہیں ہوتا بلکہ حکام اس پر جبر کرتے ہوئے از خود بیع کردیتے ہیں لہٰذا یہ تومحض بیع غاصب کی مثل ہے جس کا انعقاد مالک کی اجازت پرموقوف ہوتا ہے اگر اجازت دے دے تو نافذ ورنہ باطل ہوجائیگی، درمختار میں ہے کہ غاصب کی بیع اجازت مالک پر موقوف ہوتی اھ اور جب صورت حال یہ ہے تو حکام سے خریدنے والی ہندہ کی مبیع میں ملک ہی ثابت نہ ہوئی، چنانچہ اس کا خالد کے ہاتھ بیچنا بھی ملک اذن مالک کے نہ ہونے کی وجہ سے بیع فضولی ہوا تو یہ بھی اجازت مالک پر موقوف ہوگا، ردالمحتار میں ہے کہ غاصب سے خریدار کی بیع موقوف ہوتی ہے اھ،تو ان دونوں عقدوں میں سے جس کو اجازت لاحق ہوگئی وہ بطور خاص نافذ ہوگیا۔ حاشیہ شامیہ بحوالہ مبسوط، جامع الفصولین سے منقول ہے کہ اگر غاصب سے خریدنے والے نے کسی کے ہاتھ فروخت کیا اس نے آگے پھر اس نے آگے فروخت کردیا حتی کہ وہ کئی جگہ فروخت ہوا، اب مالک نے ان عقود میں سے کسی ایک عقد کی اجازت دے دی تو خاص وہ عقد نافذ ہوجائے گا کیونکہ یہ تمام عقود مالک کی اجازت پر موقوف تھے تو جس کی اجازت اس نے دی وہی بطورخاص نافذ ہوگیا اھ، اوریہاں (صورت مسئولہ میں) اجازت آخری عقد کو لاحق ہوئی وہ نافذ ہوگیا، چنانچہ مبیع اور اس سے حاصل شدہ آمدنی میں اس دن سے خالد کی ملک ثابت ہوگئی جس دن اس نے ہندہ سے خریدا،
(۱؎ درمختار کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۱) (۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع فصل فی الفضولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۴۲) (۳؎ردالمحتار کتاب البیوع فصل فی الفضولی داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۱۴۲)
فی تنویر الابصار وشرحہ کل مایحدث من البیع کالکسب والولد والعقر ولوقبل الاجازۃ یکون للمشتری لان الملک تم لہ من وقت الشراء بخلاف الغاصب ۱؎ اھ واماما تحصل من المزارع قبل شراء خالد فلا حق لخالد فیہ و لالھندۃ بل لعمر وخاصۃ لانہ بدل منافع ملکہ المعد للاستغلال وھبۃ الدین ممن لیس علیہ باطلۃ الا ان یسلط علی القبض، فی شرح العلائی اما تملیک الدین نم غیر من علیہ الدین فان امرہ بقبضہ صحت لرجوعہا الی ھبۃ العین ۲؎ اھ وفی مسألتنا ھذہ قد وقع التسلیط کما ذکر فی السوال فصحت الھبۃ وصح التعویض،
تنویر الابصار اور اس کی شرح میں ہے کہ جو کچھ مبیع سے حاصل ہو جیسے کمائی ، اولاد اور عقر، تو وہ مشتری کا ہے اگر چہ اجازت سے قبل ہو کیونکہ خریداری کے وقت سے ہی اس کو ملک تام حاصل ہوگئی، بخلاف غاصب کے اھ، اور جو کچھ خالد کی خریداری سے قبل کھیتوں سے حاصل ہو ا اس میں خالد اور ہندہ کا کوئی حق نہیں بلکہ وہ خاص عمرو کا ہے کیونکہ یہ اس کی ایسی ملک کے منافع کا بدل ہے جوغلہ حاصل کرنے کے قبل ہے، اور دین کا ہبہ اس شخص کو جس پر دین نہیں باطل ہے سوائے اس کے کہ اس کوقبضہ کا اختیار دے دے شرح علائی میں ہے کہ ایسے شخص کو دین کامالک بنا یا جس پر دین نہیں، اب اگر صاحب دین نے مدیون کو دین پر قبضہ کا حکم دے دیا تو یہ ہبہ صحیح ہوگیا کیونکہ یہ (ہبہ دین) ہبہ عین کی طرف راجع ہوگا اھ ہمارے زیر بحث مسئلہ میں چونکہ قبضہ کا اختیار دے دیا ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے لہٰذا ہبہ صحیح ہوگیا اور عوض دینا بھی درست ہوگیا
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۲) (۲؎ درمختار کتاب الہبۃ کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۵۸)
فی شرح التنویر عن الجواہر، لایصح الابراء عن الرجوع ولوصالحہ من حق الرجوع علی شیئ صح وکان عوضا عن الہبۃ ۱؎ اھ۔
شرح تنویر میں بحوالہ جواہر منقول ہے کہ کسی کو حق شرع رجوع سے بری کردینا صحیح نہیں اور اگر حق رجوع کے عوض کسی شیئ پر صلح کرلی توصحیح ہے اور یہ ہبہ کا عوض ہوجائے گا اھ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الھبۃ باب الرجوع فی الھبۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۶۱)
بالجملہ: جس روز سے خالد نے وہ جائداد ہندہ سے خریدی اس دن سے تو اس کی توفیر خود ملک خالد ہے اور اس سے پہلے جو توفیر روز نیلام سے اس وقت تک تھی وہ عمرو کے ہبہ کرنے سے اس کا حق ہوگئی اب پانچوں بسوں کی توفیر سال ۱۲۹۲ فصلی میں سوا خالد کے کسی کا حق نہیں، واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم وحکمہ عزشانہ احکم (مہر مولوی عبدالقادر صاح بدایونی) (مہر مولوی عبدالمقتدر صاحب بدایونی)