Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
6 - 180
الجواب الثانی بالتفصیل: مال اولاد نابالغ میں ماں کو کسی طرح کی ولایت حاصل نہیں سوا اس کے کہ حفظ ونگہبانی کرے یا ضروری چیزیں انھیں خرید دے۔
فی الاشباہ والنظائر لاولایۃ للام فی مال الصغیر الا الحفظ وشراء مالا بدمنہ للصغیر ۱؎اھ وفی فتاوی قاضیخاں من کتاب الحظر والاباحۃ باب مایکرہ من النظر والمس للرجل ان یختن ولدہ الصغیر ویقبض لہ الہبہ ویشتری و یبیع ولایجوز ذٰلک لوصی العم الا انہ یقبض لہ الہبۃ وکذا الام ۲؎ اھ ملخصا۔
الاشباہ والنظائر میں  ہے کہ نابالغ اولاد کے مال میں ماں کو سوائے حفاظت واشیاء ضروریہ کی خریداری کے کوئی ولایت حاصل نہیں اھ، فتاوٰی قاضی خاں کتاب الحظر والاباحۃ باب مایکرہ من النظر والمس، میں مذکور  ہے کہ مرد کو اپنے نابالغ بیٹے کے ختنے کرنے، اس کے لئے ہبہ پر قبضہ کرنے اور اس کے لئے خرید وفروخت کا اختیار  ہے اور چچا کے وصی کے لئے یہ جائز نہیں سوائے اس کہ اس کے لئے ہبہ پر قبضہ کرسکتا ہے اور یہی حکم ماں کا بھی  ہے اھ  (ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث   احکام المحارم   ادارۃ القرآن والعوم الاسلامیہ کراچی   ۲ /۱۸۸)

(۲؎ فتاوٰی قاضی خان   کتاب الحظروالاباحۃ      فصل فیما یکرہ من النظر والمس  نولکشور لکھنؤ  ۴ /۷۸۳)
پس کلو  نے کہ جائداد اور کلن اور علی حسین اور حسین بخش اورسلیمن نابالغوں کی ان کی جانب سے بیچ ڈالی، بیع فضولی قرار پائے گی، اور اس سبب سے کہ حالت عقد کوئی مجیز یعنی قابل اجازت نہ تھا محض ناجائز وباطل ہوگی کہ اگر نابالغان مذکورین بعد ازبلوغ اجازت دیتے تاہم صحیح نہ ہوتی کہ باطل کسی کی اجازت پر موقوف نہیں رہتا اور اس کی تصحیح غیر متصور۔
فی الدر المختار من فصل الفضولی کل تصرف صدر منہ ولہ مجیز ای لھذا التصرف من یقدر علی اجازتہ حال وقوعہ انعقد موقوفا ومالا مجیز لہ حالۃ العقد لاینعقد اصلا ۱؎ اھ ملخصا، وفیہ وقف بیع مال الغیر لو الغیر بالغا عاقلا فلوصغیرا او مجنونا لم ینعقد اصلا کما فی الزواھر معزیا للحاوی ۲؎ اھ۔
درمختار میں فضولی میں  ہے کہ جو تصرف فضولی سے صادر ہوا اور درانحالیکہ اس تصرف کے وقوع کے وقت کوئی ایسا شخص موجود ہو جو اس تصرف کی اجازت دے سکتاہو توا کا انعقاد اس شخص کی اجازت پر موقوف ہوجائے گا اور اگربوقت تصرف فضولی کوئی ایسا اجازت دینے والا موجودنہ ہو تو یہ تصرف سرے سے منعقد ہی نہ ہوگا اھ ملخصا۔ اسی  میں  ہے کہ مال غیر کی بیع موقوف ہوتی  ہے اگر وہ غیر عاقل وبالغ ہو اور اگر وہ غیر نابالغ یا مجنون ہو تو بیع سرے سے منعقد نہ ہوگی جیسا کہ حاوی کی طرف منسوب کرتے ہوئے زواہر میں  ہے اھ (ت)
 (۱ و ۲؎ درمختار  کتاب البیوع  فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۳۱)
پس سہم نابالغان مذکورین کہ کل جائداد مبیعہ کے دسویں حصہ سے کچھ زائد  ہے یعنی چہارم جائداد کہ متروکہ کہ شیخ خضری تھی اس ایک سوبانوے سہام سے ستترسہام مشتری پر لازم  ہے کہ ان نابالغوں کو واپس کردے اور (سہ ۳/۴ پے) زرثمن ان سہام کا ان کی ماں کلو  سے وصول کرلے اسی طرح حرمت زوجہ یاد علی نے کہ ان کا سہام بلا اذن اس کے اپنی جانب سے بطریق مالکانہ بیچ ڈالا حسب حکم بدائع وبحرالرائق واشباہ وظاہر متن تنویر الابصار بیع باطل وغیرصالح اجازت  ہے۔
فی الدرالمختار بیعہ لنفسہ باطل کما فی البحر والاشباہ عن البدائع وعبارۃ الاشباہ بیع الفضولی موقوف الااذا باع لنفسہ فباطل بدائع ۳؎ اھ مع التلخیص بالتغیر وفیہ ایضا وقف بیع مال الغیر ان باعہ علی انہ لما لکہ اما لوباعہ علی انہ لنفسہ فالبیع باطل اھ ۴؎ ملخصا۔
    درمختارمیں ہےکہ فضولی کی اپنی ذات کے لئے بیع باطل  ہے جیساکہ بحوالہ بدائع، بحر اور اشباہ میں  ہے اشباہ کی عبارت یوں  ہے کہ فضولی کی بیع موقوف ہوتی  ہے مگر جب وہ اپنی ذات کے لئے بیع کرے توباطل ہوگی (بدائع اھ مع تلخیص وتغییر) اسی میں  ہے کہ غیر کے مال کی بیع موقوف ہوتی  ہے جبکہ یہ سمجھ کر بیچے کہ وہ مالک کےلئے  ہے اور اگر اپنے لئے تو بیع باطل  ہے اھ تلخیص۔ (ت)
 (۳ تا ۴؂درمختار کتاب البیوع    فصل فی الفضولی    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۳۱)
مگر مولٰنا محمد بن عبداللہ غزی تمرتاشی مصنف تنویر الابصار اس مذہب کی بوجہ مخالفت فروع مذہب تضعیف فرماتے ہیں فضولی اگر مال غیر کو اپنا ٹھہرا کربیچے تو ظاہر الروایت یہی  ہے کہ مستحق کواختیار اجازت حاصل  ہے یعنی بیع باطل نہ ہوگی اور اجازت مالک پر موقوف ر ہے گی۔
فی الدرالمختار لکن ضعف المصنف الاولٰی (ای بطلان بیعہ اذا باعہ لنفسہ) لمخالفتہا لفروع المذہب لتصریحہم بان بیع الغاصب موقوف، وبان المبیع اذا استحق فللمستحق اجازتہ علی الظاھر مع ان البائع باع لنفسہ لا للمالک الذی ھو المستحق مع انہ توقف علی الاجازۃ ۱؎ اھ ،فی غمز العیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر للعلامۃ الحموی تحت قولہ بیع الفضولی موقوف الا فی ثلث فباطل اذا شرط الخیار فیہ المالک وھی فی التلقیح وفیما اذا باع لنفسہ وھی فی البدائع اھ قولہ وفیما اذا باع لنفسہ یعنی لایتوقف علی اجازۃ المالک لانہ لم ینعقد اصلا قال بعض الفضلاء ویشکل علیہ ماقالوا من ان المبیع اذا استحق لاینفسخ العقد فی ظاہر الروایۃ بقضاء القاضی بالاستحقاق وللمستحق اجازتہ اھ، ووجہ اشکالہ ان البائع باعہ لنفسہ لاللمالک الذی ھوالمستحق اھ ۲؎۔
درمختار میں  ہے مگر مصنف نے صورت اولٰی (یعنی فضولی کی اپنے لئے بیع باطل  ہے) کو فروع مذہب کے مخالف ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ، کیونکہ ائمہ نے تصریح کی کہ غاصب کی بیع موقوف  ہے اور یہ کہ مبیع میں اگراستحقاق ثابت ہوجائے تو ظاہرالروایت پر مستحق کو اجازت کا اختیار حاصل  ہے باوجود یکہ بائع نے اپنے لئے بیع کی نہ کہ اس مالک کے لئے جو کہ مستحق ہیے اس کے باوجود اس کی اجازت پر موقوف ہوگئی اھ، غمز عیون البصائر شرح اشباہ والنظائر تصنیف علامہ حموی میں ماتن کے اس قول ''فضولی کی بیع موقوف  ہے مگر تین صورتوں میں باطل  ہے، جب مالک کے لئے اس میں شرط خیار رکھے اور یہ تلقیح میں  ہے، اور ج ب وہ اپنے لئے بیچے اور یہ بدائع میں  ہے اھ'' کے تحت مذکور ہے، ماتن کا قول کہ جب فضولی اپنے لئے بیع کرے (تو باطل  ہے) یعنی مالک کی اجازت پر موقوف نہ ہوگی کیونکہ وہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوئی، بعض فضلاء نے کہا کہ اس پر مشائخ کے اس قول اشکال وارد ہوتا ہے کہ مبیع میں اگر استحقاق ثابت ہوجائے تو قاضی کے استحقاق کا فیصلہ کردینے کے باوجود بیع فسخ نہیں ہوتی اور مالک مستحق کواسکی اجازت کا اختیار حاصل ہوتا ہے اھ، اشکال کی وجہ یہ  ہے کہ بائع نے اپنی ذات کے لئے بیچا  ہےنہ کہ اس مالک کے لئے جو مستحق  ہے اھ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب البیوع فصل فی الفضولی    مطبع مجتبائی دہلی    ۲/ ۳۱)

(۲؎. غمز العیون البصائر     الفن الثالث کتاب البیوع    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۲۹)
پس اگر قبل اس دعوٰی کے یاد علی سے کوئی قول یا فعل ایسا صادر ہوا ہو جو شرعا اجازت بیع قرار پائے مثلا زرثمن مشتری سے مانگا ہو یا اس کو ہبہ کردیا ہو یا اپنی عورت سے کہا ہو تونے بُرا کیا یا اچھاکیا،
علی مذہب محمد وھو الاستحسان  عالمگیری ۱؎ وھوالمختار فتح القدیر
(مذہب محمد پر اوریہی استحسان  ہے، عالمگیری ، اوریہی مختار  ہے، فتح القدیر۔ ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب البیوع    البا ب الثانی عشر فی احکام البیع الموقوف    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۱۵۲)

(ردالمحتار   کتاب البیوع  داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۱۴۱)
تو اب یہ دعوٰی اس کا نہ سنا جائے گا اور اس کے حصہ میں بیع، نافذ ہوچکی اس کے سہم کا زرثمن کہ (معہ) روپے ہیں اس کی زوجہ کے پاس امانت رہا بشرطیکہ بلاقصور اس کے پاس سے تلف نہ ہوگیا ہو اس سے وصول کرلے اور اگر زوجہ نے حفظ مبلغ میں کچھ تقصیر نہ کی نہ اپنے تصر ف میں لائی اور کسی طرح تلف ہوگیا تو اس سے بھ نہیں لے سکتا کہ وہ امینہ تھی اور امین پر بلا تقصیر فی الحفظ ضمان نہیں۔
فی الدرالمختار ای بیع الفضولی قبول الاجازۃ من المالک اذا کان البائع والمشتری والمبیع قائما وکذا الثمن لوکان عرضا وغیر العرض ملک للمجیز امانۃ فی ید الفضولی ملتقی، وان اخذ المالک الثمن اوطلبہ من المشتری یکون اجازۃ، عمادیۃ، وقولہ اسأت نہر بئس ماصنعت اواحسنت اواصبت علی المختار، فتح، وھبۃ الثمن من المشتری والتصدیق علیہ بہ اجازۃ ۲؎ اھ ملخصا۔
  درمختار میں اور فضولی کی بیع کاحکم مالک کی اجازت کو قبول کرنا  ہے جبکہ بائع، مشتری اور مبیع قائم ہو اور اسی طرح ثمن بھی جبکہ بصورت سامان ہوں اور ثمن سامان نہ ہو ں تو وہ مالک مجیز کی ملک ہیں اور فضولی کے قبضہ میں بطور امانت ہیں، ملتقی، اگر مالک ثمن وصول کرے یا مشتری سے ثمن طلب کرے تو یہ اجازت  ہے، عمادیہ، اور مالک کا یہ کہنا کہ تو نے بُر اکیا، نہر، یا جو تونے کیا برا  ہے یاتو نے اچھا کیایا تونے درست کیا قول مختار کے مطابق، فتح القدیر، اور مشتری کو ثمن ہبہ کردینا یا اس پر صدقہ کردینا اجازت  ہے اھ تلخیص (ت)
 (۲؎ درمختار   کتاب البیوع فصل فی الفضولی   مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۳۲)
اور اگر قبل از دعوٰی کوئی قول یا فعل اس سے صادر نہ ہوا بلکہ بیع کی خبر بھی نہ ہوئی یا سن کر چپ رہا اور کچھ نہ کہا تو دعوٰی اس کا مسموع اور اسے اختیار استرداد حاصل کہ خبر بیع سن کر مالک کا خاموش رہنا شرعا اجازت نہیں۔

فی الفتاوی الھندیۃ بلغ المالک ان فضولیا باع ملکہ فسکت لایکون اجازۃ ۱؎ اھ۔ فتاوٰی ہندیہ میں مالک کو خبر پہنچی کہ فضولی نے تیری مملوک چیز فروخت کردی اور وہ خاموش رہا تو یہ اجازت نہ ہوگی اھ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ  کتاب البیوع الباب الثانی عشر  نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۱۵۳)
اس صورت میں مشتری پر لازم  ہے کہ مثل حصہ نابالغان یاد علی کا حصہ بھی یعنی چہارم جائداد کے چالیس سہام سے چودہ سہم یاد علی کو واپس کردے اور ثمن اس حصہ کا کہ( معہ) روپے  ہے اس کی زوجہ سے وصول کرلے، رہا یہ کہ درصورت اولٰی بعد واپسی صرف نابالغان ودرصورت ثانیہ پس از ردہردوسہم یادعلی ونابالغان جو باقی بچے اس کا کیا حکم  ہے اس کی نسبت بوجہ اس بات کے کہ مبیع ذوات القیم سے اور استحقاق نسبت یادعلی بعد قبض کل واقع ہوا مشتری کو اختیار  ہے خواہ عوض باقی زر ثمن کے کہ پہلی تقدیر پر (لعہ عہ /۱۲ ) ہے اور دوسری تقدیر پر (لعہ للعہ /۱۲ ) ہے اپنے پاس رکھے یا کل مبیع سب بالغوں کو واپس کردے اوراپنے پورے آٹھ سو ان سے وصول کرلے، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter