فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
5 - 180
مسئلہ ۲۰: از پیلی بھیت ۵ذیقعدہ ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور فضلائے شرع مبین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک عورت زینب کو بمواجہ چند عورات مستورات اور چند مرد مان کرکے کچھ روپیہ اس وعدہ پر دیا کہ ہم فلاں مکان یا زمین اسی عورت زینب کا اس قدر تعداد روپیہ لیں گے اور بقدر عہ /بیس روپیہ مثل بیعانہ دئے ہیں اور اس عورت زینب نے اس روپیہ کو لے کر صرف مایحتاج کرلیا اور سب گواہان کے سامنے اقرار کردیا بعداقرار کے کچھ دنوں بعد زینب فوت ہوگئی لہٰذا شرعا بیع ہوئی یانہیں؟ اور ازروئے شرع شریف کے زید اپنا قبضہ کرسکتا ہے یانہیں؟ فقط
الجواب: ''لیں گے'' صرف وعدہ ہے اور وعدہ کوئی عقد نہیں، نہ وفائے وعدہ پر خود وعدہ کرنے والے کو جبر کیا جاسکتا ہے کما نص علیہ فی الہندیہ ۱؎ والخیریۃ وغیرہما من الکتب الفقہیۃ (جیسا کہ ہندیہ اور خیریہ وغیرہ کتب فقہ میں اس پر نص کی گئی ہے۔ ت) تواس کی موت کے بعد وارثوں پر کیا جبر ممکن ہے پس زید کو قبضہ کرنے کا اصلا اختیار نہیں وہ صرف ان روپوں کا مستحق رہا جو اس نے پیشگی دئے تھے ترکہ زینب سے قبل تقسیم ورثہ وصول کئے جائیں، واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الاجارۃ الباب السابع فی اجارۃ المستاجر نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۴۲۷)
(العقود الدریۃ مسائل وفوائد شتی من الحظر والاباحۃ ارگ بازار قندھار افغانستان ۲/ ۳۵۳)
مسئلہ ۲۱: ۲۵ ربیع الآخر شریف ۱۳۱۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدنے اپناحق حقوق ۲بسوانسی کچھ کچوانسی بکر کے ہاتھ فروخت کیا مبلغ (ما سہ مہ۱۵۸ ) روپیہ کو اور بیع نامہ لکھ کر اپنے دستخط کئے اور بیعانہ لیا اور رجسٹری کرادینے کا معاہدہ کیا اور بعد کو خالد اپنے چچا زاد بھائی کو (سا مہ لعہ ۳۹۵ ) روپیہ کا بیعنامہ لکھ کر رجسٹری کرادی، اب بکر کہتا ہے کہ درحقیقت یہ بیعنامہ مصنوعی لکھا ہے شفیع کے ڈر سے اور یہ حقیقت اصل میں وہی (ما صہ مہ ۱۵۸) کو بموجب بیع بکر کے فروخت کی ہے، اور بکر یہ بھی کہتا ہے کہ میں اس میں شفیع ہوں کیونکہ میری پندرہ بستے ہیں، تو اس صورت میں بکر بموجب شرع شریف کے شفاعت سے اس حقیت کو اورنیز بموجب معاہدہ کے اس قیمت کوپاسکتا ہے یانہیں؟ فقط
الجواب
بیع عقد لازم ہے بعدتمامی ہر گز بائع کو اختیار نہیں کہ دوسرے کے ہاتھ بیع کردے جب وہ بدست بکر بیچ چکا بیعنامہ لکھ دیا اس پر اپنے دستخط کردئے، تو تمامی عقد میں اصلا کوئی شبہ نہ رہا۔ رجسٹری نہ شرعا ضروریہ نہ اسے تکمیل عقد میں اصلا کچھ دخل، بلکہ شرعا تو صرف ایجاب وقبول کانام بیع ہے اگرچہ بیعنامہ بھی نہ لکھا جائے تونہی تنہا بیعنامہ بطریق معروف ومعہود لکھ کر دسختط کرنا مشتری کا اسے قبول کرلینا بھی عقد تام وکافی ہے، اگر چہ زبانی الفاظ مقررہ خریدم وفروختم (میں نے خریدا، میں نے بیچا۔ ت) کا ذکر نہ آیا ہو۔
اشباہ میں ہے :
الکتابۃ یصح البیع بہا قال فی الہدایۃ والکتاب کالخطاب ۱؎۔
تحریر سے بیع صحیح ہوجاتی ہے، ہدایہ میں ہے فرمایا تحریر کلام کی مثل ہے۔ (ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث احکام الکتابۃ ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۱۹۶)
ان عقود میں معنی کا اعتبار ہوتا ہے اسی لئے بڑھیا اور گٹھیا چیزوں میں بیع تعاطی منعقد ہوجاتی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ باہمی رضامندی متحقق ہوتی ہے۔ (ت)
(۲؎ الہدایہ کتاب البیوع مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۲۵۔ ۲۴)
غرض حقیقت مذکورہ ملک زید سے خارج ہوکر ملک بکر میں داخل ہوگئی، زید بکر سے صرف( ما سہ مہ۱۵۸ )کا مطالبہ کرسکتا ہے بیع ثانی کہ بدست خالد کی، بے اجازت بکر مردود ہے، بکر کو اپنی ملک میں دعوٰی شفعہ کی کوئی حاجت نہیں، واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ ۲۲: علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ زید کی دو زوجہ ہیں، اب زید اپنا حق حقوق ایک زوجہ کے نام بیع کرتا ہے، تو زید کو اپنی حیات میں بیع کرنے کا اختیار ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب:اگریہ بیع زیدسے قبل مرض موت کے بحالت صحت نفس وثبات عقل واقع ہوئی تو قطعا نافذ ہے واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک زوجہ اور ایک ہمشیرہ اور ایک بھتیجا وارث اور تین بسوہ جائداد متروکہ چھوڑ کر انتقال کیا زوجہ نے وہ کل حقیت اپنی طرف سے بدست خالد فروخت کی مگر وہ بیعنامہ سب ورثاء کی اطلاع سے لکھا گیا اور وہ سب بالغ ہیں اور سب نے اپنی گواہیاں اس بیعنامہ پر لکھیں اوریہ کہہ دا کہ یہ بیع صحیح ہے اس میں کچھ دعوٰی مبیع نہیں ہے کل زرثمن مشتری نے اداکردیا اور سب ورثاء نے باہم تقسیم کرلیا، اب بعد نو دس برس کے ہمشیرہ زید مدعیہ ہے کہ یہ بیع میں نے نہیں کی فقط زوجہ زید نے بطور مالکانہ کل حقیت بیع کی حالانکہ وہ کل کی مستحق نہیں، اس صورت میں وہ بیع شرعا صحیح ونافذ، اور دعوٰی مدعیہ ناحق وباطل قرار پائے گا یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب:صورت مستفسرہ میں وہ بیع صحیح ونافذ ہے اور دعوٰی مدعیہ محض ناحق وباطل کہ اگر چہ زوجہ زید کل حقیت کی مالک نہ تھی اور اس نے ساری جائداد اپنی طرف سے بیع کی مگر یہ جبکہ یہ امر باطلاع ورثاء دیگر واقع ہوا اور انھوں نے پسند رکھا اورانکارنہ کیا یہاں تک کہ زر ثمن سے حصہ لیا اور وہ سب بالغ تھے تو اب وہ بیع ایسے ہی قرار پائےگی کہ گویا ان سب نے خود اپنا اپنا حصہ بیع کیا او رثمن لیا اب کسی طرح سے انھیں محل دعوٰی واعتراض باقی نہیں
فی تنویر الابصار والدالمختار اخذ المالک الثمن اوطلبہ من المشتری اجازۃ ۱؎ اھ ملخصا واما ماوقع فی البحر ثم الدر ر من البطلان ان باع الفضولی لنفسہ موہم مخالف للفروع المذھبیۃ ومضاد للظاہر الروایۃ کما حققہ المولی خیرالملۃ والدین الرملی ثم العلامۃ الشامی اٰفندی فلیتنبہ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
تنویر الابصار اور درمختار میں ہے کہ مالک کا مشتری سے ثمن وصول کرلینا یا اس سے ثمن مانگنا اجازت بیع ہے اھ ملخصا، او وہ جو بحر پھر درر میں آیا ہے کہ بیع باطل ہے اگر فضولی نے اپنے لئے بیع کی وہ وہم ہے اور فروع مذہبیہ کے مخالف اور ظاہر الروایہ کے خلاف ہے جیسا کہ حضرت مولانا خیرالدین رملی پھر علامہ شامی آفندی ن تحقیق فرمائی، پس اس سے باخبر ہونا چاہئے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع فصل فی الفضولی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۲)
مسئلہ ۲۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جب غلہ بازار میں نقدوں ۱۶ سیر کا ہو تو قرضوں ۱۵ یا ۱۲ سیر کا بیچنا جائز ہے یا حرام یامکروہ؟ بینوا توجروا
الجواب: یہ فعل اگر چہ نرخ بازار سے کیساہی تفاوت ہو حرام یاناجائز نہیں کہ وہ مشتری پر جبر نہیں کرتا نہ اسے دھوکا دیتا ہے اور اپنے مال کاہر شخص کو اختیار ہے چا ہے کوڑی کی چیز ہزار روپیہ کودے، مشتری کو غرض ہولے، نہ ہونہ لے۔
ردالمحتار میں ہے اگر کسی نے کاغذ کا ٹکڑا ہزار کے بدلے میں بیچا تو جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے، واللہ تعالٰی اعلم ۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الکفالۃ مطلب فی بیع العینۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۷۹)
مسئلہ ۲۵:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ شیخ خضروی وکریم اللہ ومحمد بشارت وشاہ محمد چار بھائیوں نے ایک جائداد بشمول ہمدگر پیدا کی اور تادم مرگ خورد نوش ان کا یکجاررہا، بعدۃ خضری نے دو دختر فجو اور اجو اور ایک پسر محمد بخش جس کی وارث اس کی زوجہ امرین ہے، اور دوسری فجو جس کے ورثاء اس کے زوج کلو اور علی بخش وحسین بخش وسلیمن اولادہیں، اور شاہ محمد نے زوجہ نورن وابن محمد علی وبنت بلاقن اورکریم اﷲ نے زوجہ منگو اور ابن یاد علی اور امیرن منیرن ، بگا، بنات اور محمد بشارت نے زوجہ چھوڑی، اور محب اللہ وکلن پسران اور عمدہ دختر اپنے اپنے ورثاء چھوڑ کر وفات پائی، بعدا ن کے اتنقال کے ان سب وارثوں نے وہ جائداد مشترکی غیر منقسمہ ایک عقد میں ایک شخص کے ہاتھ بعوض آٹھ سو روپیہ کے بیع کی اور اسے قابض ومتصرف کرادیا مگر کلن اور علی حسین اور حسین بخش اور سلیمان وقت بیع نابالغ تھے کہ ان کی ماں کلو نے ولایۃ ان کی جانب سے بھی بیع کی اور یاد علی کی بی بی نے بے اجازت و اطلاع یاد علی باختیار خود حصہ اس کا مالکانہ بیچ ڈالا ، اب یہ پانچوں وارث دعوٰی کرتے ہیں اور نقض بیع چاہتے ہیں پس اس صورت میں بیع مذکور صحیح ونافذ اور حصہ ان ورثاء کا انھیں واپس ملے گا یانہیں؟
الجواب: صورت مسئولہ میں اگر یادعلی سے بعد از علم بالبیع کوئی قول یا فعل ایسا صادر ہوا کہ دال اجازت وتسلیم بیع پر تھا تو وہ بیع صحیح ونافذ ہوگئی، اور دعوٰی اس کا ہر گز نہ سنایا جائے گا، اور جو قولا وفعلا کوئی امر ایسا نہ ہوا کہ اجازت پر دلالت کرے اگر چہ بعد خبر پہنچنے بیع کے چپ رہا، او رکچھ نہ کہا تو اس صورت میں دعوٰی اس کا مسموع اور بیع بقدر اس کے حصہ کے ناجائز مشتری حصہ اس کا واپس کرے اورمابقی بقدر اس ثمن کے کہ مقابل اس کے ہے مقبول رکھے خواہ اسے بھی بالعین رد کردے اور اپنا کل ثمن پھیرلے اور اگر جائداد اولاد صغار بیع کردی گئی تو یہ بیع ہر گز صحیح نہ ہوگی اور مشتری اس کاکسی طرح مالک نہیں ہوسکتا مشتری اس جائداد میں سے کلن وعلی حسین وحسین بخش وسلیمن کو بقدر ان کے حصص کے واپس کردے اور مابقی کی نسبت مختار ہے چا ہے سب بیع ترک کردے اور کل ثمن واپس لے لے یا بیع نسبت مابقی کے قائم رکھے اور اس قدر حصہ ثمن کا کہ مقابل جائداد رد شدہ کے تھا پھیرلے ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔