فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
4 - 180
الجواب :بیع خیار شرع میں تو اسے کہتے ہیں کہ بائع ایک چیز اس شرط پر بیچے یا مشتری اس شرط پر خریدے کہ مجھے تین دن تک اختیار ہےکہ بیع قائم رکھوں یا نہیں خواہ دونوں اپنے لئے تین دن اختیار ہونے کی قید لگالیں، یہ اختیار تین دن سے زیادہ کانہیں لگاسکتے اور کم میں ایک دین یا ایک گھنٹہ جو چاہیں مقرر کریں، اس مدت کے اندر ایک یا دونوں جس کا خیار شرط کیا گیا ہے اسے اختیار ہوگا کہ بیع نامنظور کردے وہ فسخ ہوجائےگی اور اگر مدت مقرر کردہ گزر گئی تو بیع لازم ہوجائے گی مگر سائل نے بیع بالوفاء کو بیع بالخیار کہا ہے، اس کی صورت یہ ہوئی کہ زید نے ایک چیز عمرو کے ہاتھ بیچی اور سال دوسال یا کم بیش باہم ایک مدت طے کرلی کہ اس مدت میں زید زرثمن نہ دے گا تو بیع قطعی ہوجائے گی اس صورت میں اکثر تو یہ کرتے ہیں کہ وہ چیز قبضہ مشتری میں دے دیتے ہیں مشتری اس سے نفع حاصل کرتا رہتا ہے بذریعہ سکونت یا کرایہ یا زراعت وغیرہ یہ حرام ہے کہ صحیح ومعتمد مذہب میں بیع وفاء بیع نہیں رہن ہےمشتری مرتہن کو رہن سے نفع حاصل کرنا حرام ہے،حدیث میں ہے :
کل قرض جرمنفعۃ ھو ربٰو ۱؎۔
جو بھی قرض نفع دے وہ سود ہے (ت)
(۱؎ کنزالعمال فصل فی لواحق کتاب الدین حدیث ۱۵۵۱۶ مؤسستہ الرسالہ بیروت ۶/ ۲۳۸)
اور پورے بیباک یہ کرتے ہیں کہ چیز بھی بائع کے قبضہ میں رہتت ہے اور اس سے اپنے روپیہ کا نفع اٹھایا جاتا ہے یہ رہن بھی نہ ہوا کہ رہن بے قبضہ باطل ہے۔
قال اﷲ تعالٰی فرھٰن مقبوضۃ ۱؎
(اللہ تعالٰی نے فرمایا تو رہن ہو قبضہ میں دیا ہوا۔ ت) یہ نفع جو اس پر ٹھہرا کھلا سود اورنرا حرام ومردود ہے۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲ /۲۸۳)
بالجملہ یہ بیع کسی صورت میں نہیں ہے، مشتری کا قبضہ نہ ہوا، جب تو اسے جائداد سے کوئی تعلق ہی نہیں، جتنا روپیہ دےا ہے جب چا ہے واپس لے سکتا ہے میعاد گزری ہو یانہیں کہ بوجہ عدم رہن سادہ قرض رہ گیا اور قرض کے لئے شرعا کوئی میعاد نہیں، اگر مقرربھی کی ہے اس کی پابندی نہیں اس دئے ہوئے روپیہ سے ایک حبہ زائد اس کو حرام ہے، نہ میعاد گزرنے پر اس جائداد میں اس کا کوئی حق ہے، اور اگر مشتری کا قبضہ ہوگیا ہے تو وہ رہن ہے مشتری کو اس سے نفع لینا حرام ہے، اور بائع ہر وقت روپیہ دے کر جائداد واپس لے سکتا ہے اگرچہ میعاد گزرگئی ہو، اور یہ بھی کرسکتا ہے کہ اسی جائداد کا کوئی حصہ باہمی رضامندی سے مشتری کے ہاتھ بیع قطعی بعوض دین کر دے اور باقی جائداد واپس لے لے، رہا بائع یا مشتری کا دوسرا کے ہاتھ جائداد کا کل یا بعض بیچنا، اگرقبضہ مشتری نہیں ہوا ہے جب تو بائع کو اس کا اختیار کامل ہے کہ وہ اس کی ملک خالص ہے، اور مشتری کو اصلا اختیار نہیں کہ اسے جائداد سے کوئی تعلق نہیں، اوراگر قبضہ مشتری ہوگیا ہے تو اگر بائع بیچے تو یہ بیع مشتری کی اجازت پر موقوف ر ہے گی کما ھو حکم بیع المرھون (جیسا کہ مرہون کی بیع کاحکم ہے۔ ت)
سوال اخیر کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں نہ بیع ہے نہ رہن ہے قائم کس چیز کو رکھا جائے اور بیع قطعی کرنا نہ کرنا بائع کو اختیار ہے مشتری کو اپنے روپیہ کے سوا کوئی دعوٰی ا س پر نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۷: از شہر محلہ سبزی منڈی بازار مرسلہ ولایت حسین صاحب مورخہ ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۷ھ
زید بکر کے پاس آیا اور یہ کہا کہ ایک صاحب کو کپڑا کی ضرورت ہے اور اس کو کچھ کپڑا سلوانا بھی ہے، بکر سلائی کا کام بھی کرتا ہے، بکر نے تین دکانات پر سے مختلف قسم کے پارچہ مالکان مال سے ان کی قیمت طے کرکے زید کے ساتھ صاحب کے یہاں چلا گیا، زید نے یہ کہا کہ میں ان صاحب کو کپڑا دکھانے جاتاہوں اور وہ کپڑے کو لے کر چلا گیا، بکر نہ وہ شخص ملانہ کپڑا ملا، اب مالکان مال کو شرعا بکر سے اس پارچہ کی قیمت لینے کا حق ہے یانہیں؟ فقط
لجواب : بیچنے والے اپنے کپڑوں کا تاوان بکر سے لے سکتے ہیں،
لان المقبوض علی سوم الشراء مضمون ، واﷲ تعالٰی اعلم
جس چیز پر بھاؤ طے کرنے کے لئے قبضہ کیا جائے وہ قابل ضمان ہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۱۸: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی حیات میں کسی وارث کو بیعنامہ اپنی جائداد کا مثل باغ یا اراضی وتالاب وغیرہا کے لکھ دیا اس کی موت کے بعد دوسرا وارث اگر فسخ بیع چا ہے تو اسے شرعا اختیار ہے یانہیں؟ اور بائع کو بوجہ خیار عیب یا رؤیت اختیار فسخ حاصل ہے یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب:صورت مستفسرہ میں بیع اگر مرض موت میں نہیں تو بعد لزوم وتکمیل بائع اور اس کے ورثاء کو کسی طرح اختیار فسخ نہیں اور خیار رؤیت خاص مشتری کے لئے ہے اور خیارعیب اگر بائع کو حاصل بھی ہے تو صرف بایں معنی کہ ثمن ناقص جید سے بدل سکتا ہے نہ یہ کہ اس کی وجہ سے فسخ بیع کرسکے، پس خیار رؤیت مطلقا اورخیار عیب کہ سبب فسخ ہے مشتری کےلئے خاص ہیں بائع کو ہر گز حاصل نہیں،
فی الدرالمختار واذا وجدا لزم البیع بلاخیار الا لعیب اورؤیۃ ۱؎، فی الہدایۃ ومن باع مالم یرہ فلا خیار لہ وکان ابوحنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول اولا لہ الخیار اعتبارا بخیار العیب و خیار الشرط ۲؎،
درمختار ہے جب ایجاب وقبول دونوں پائے گئے تو بیع بلاخیار لازم ہوگئی سوائے خیار عیب اور رؤیت کے، ہدایہ میں ہے جس نے ایسی چیز کو بیچا جسے اس نے دیکھا نہیں تو اسے خیار رؤیت نہیں، امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پہلے کہاکرتے تھے کہ اسے خیار رؤیت ہے اور وہ اس کو خیار عیب اور خیار شرط پر قیاس کرتے تھے،
(۱؎ درمختار کتاب البیوع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۵)
(۲؎ الہدایہ کتاب البیوع باب خیارالرؤیۃ مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۴۱۔ ۴۰)
فی العنایۃ اعتبارا بخیار العیب فانہ لایختص بجانب المشتری بل اذا وجد البائع الثمن زیفا فھو بالخیار ان شاء جوز وان شاء ردہ کالمشتری اذا وجد المبیع معیبا لکن العقد لاینفسخ بردالثمن وینفسخ برد المبیع لانہ اصل دون الثمن ۱؎ والعلم عند واھب العلوم عالم کل سر مکتوم۔
عنایہ میں ہے کہ خیار عیب پر قیاس کرنا اس لئے درست ہے کہ وہ فقط مشتری کے ساتھ مختص نہیں بلکہ اگر بائع ثمنوں کو کھوٹا پایا تو اسے اختیار ہے چا ہے تو جائز قرار دے دے اور چا ہے تو رد کردے جیسا کہ مبیع کو معیوب پاکر مشتری کو اختیار ہوتا ہے لیکن ثمن کر رد کرنے سے عقد فسخ نہیں ہوتا اور مبیع کو رد کرنے سے عقد فسخ ہوجاتا ہے کیونکہ مبیع اصل ہے نہ کہ ثمن، اور علم درحقیقت علم عطا فرمانے والے کے پاس ہے جو ہر چھپے راز کو جاننے والا ہے۔ (ت)
(۱؎ العنایہ علی ہامش فتح القدیر کتاب البیوع باب خیار الرؤیۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر533 / 5)
مسئلہ ۱۹: ۱۱رجب ۱۳۰۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ معاہدہ مابین زید وعمر کے قرار پایا اور زید نے عمرو کو عہ/ بیس روپے بطور بیعانہ کے دئے اب زید اپنی بدنیتی سے بلا قصور عمر کے معاہدہ مذکورہ سے منحرف ہوگیا تو اس صورت میں زید واپسی زر مذکور کا مستحق ہے یانہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
بیشک واپس پائے گا، بیع نہ ہونے کی حالت میں بیعانہ ضبط کرلینا جیسا کہ جاہلوں میں رواج ہے ظلم صریح ہے،
قال اﷲ تعالٰی لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل ۲؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ، (ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۸۸)
ہاں اگر عقد بیع باہم تمام ہولیا تھا یعنی طرفین سے ایجاب وقبول واقع ہولیا اور کوئی موجب تنہا مشتری کے فسخ بیع کردینے کا نہ رہا، اب بلاوجہ شرعی زید مشتری عقد سے پھرتا ہے توبیشک عمرو کو روا ہے کہ اس کا پھر نانہ مانے او ر بیع تمام شدہ کو تمار ولازم جانے، اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مبیع ملک زید اور ثمن حق عمرو،
درمختار کے باب الاقالہ میں ہے :
من شرائطہا رضا المتعا قدین ۳؎۔
اقالہ کی شرطوں میں سے بائع ومشتری کا باہم رضامند ہونا ہے۔ (ت)
(۳؎ درمختار کتاب البیوع باب الاقالۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۳)
یہ کبھی نہ ہوگا کہ بیع کو فسخ ہوجا مان کر مبیع زید کو نہ دے اور اس کے روپے اس جرم میں کہ تو کیوں پھر گیا ضبط کرے، ھل ھذا الا ظلم صریح (کیا یہ ظلم صریح نہیں ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔