قال اﷲ تعالٰی واحل اﷲ البیع ۱؎
(اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: اور اللہ تعالٰی نے بیع کو حلال فرمایا۔ ت) بیع کا ناجائز وممنوع ہونا تین صورتو ں میں منحصر ہے، باطل وفاسد ومکروہ تحریمی ،
البیع النہی عنہ ثلثۃ باطل وفاسد ومکروہ تحریما ۲؎ الخ،
جس بیع سے روکا گیا ہے وہ تین قسم پر ہے باطل، فاسد اور مکروہ تحریمی الخ،
(۱؎ القرآن الکریم ۲ /۲۷۵)
(۲؎ البحرالرائق کتاب البیوع باب البیع الفاسد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۶/ ۶۸)
اقول: والمراد صورۃ البیع الحاصلۃ من بعت واشتریب اعم من ان تحقق معناہ الشرعی اولا وذٰلک لان الباطل لیس بیعا منہا عنہ عندنا لان الباطل لیس بیعا اصلا فکیف یکون بیعا منہا عنہ وقد تقرران النھی یقرر المشروعیۃ و بہ ذھبوا الی تقسیمہم البیع الی باطل وفاسد وصحیح ان لم یکن تقسیم البیع الصوری ففیہ مسامحۃ ظاہرۃ۔
اقول: (میں کہتاہو ں ) اس بیع سے مراد بیع کی وہ صورت ہےجویہ کہنے سے حاصل ہوتی ہے کہ میں نے بیچا اور میں نے خریدا عام ازیں کہ بیع کاشرعی معنی متحقق ہو یانہ ہو، اوریہ توجیہ اس لئے کی گئی کہ بیع باطل ہمارے نزدیک ممنوع بیع نہیں کیونکہ وہ سرے سے بیع ہی نہیں تو وہ ممنوع بیع کیسے ہوسکتی ہے، اور تحقیق سے ثابت ہوچکا ہے کہ نہی مشروعیت کو ثابت کرتی ہے اس لئے فقہاء نے بیع کو باطل، فاسد اور صحیح کی طرف تقسیم کیا اگر اس سے مراد بیع صوری کی تقسیم نہ ہو تویہ کھلی چشم پوشی ہے (ت)
باطل وہ ہے جس کے نفس عقد یا محل میں خلل ہو خلل عقد، مثل بیع وشراء مجنون کہ اس کاقول شرعا لاقول ہے تو اس کا بعت یا اشتریت نہ ایجاب ہوسکے نہ قبول ،اور خلل محل مثل بیع بالمیتہ کہ میتہ مال نہیں،
کل ما اورث خللا فی رکن البیع فہو مبطل ۱؎۔
اور جو چیز بیع کے رکن میں خلل پیداکرے وہ بیع کو باطل کرنے والی ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع باب البیع الفاسد مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۲۳)