Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
16 - 180
مسئلہ ۴۸: از شہر بازار شہامت گنج مسئولہ نقش علی    ۲۸ جمادی الاولٰی ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے عمرو کو روپے دے اور کہا تم مال خرید لاؤ، عمرو نے خرید کر زید کوقبضہ کرادیا، بعد کو مال زید سے عمرو نے کچھ نفع دے کر خرید لیا نقد یا قرض بموجب شریعت کے یہ حیلہ جائز ہے یانہیں ؟
الجواب	   جائز ہے نقد ہو خواہ قرض ، اور کنتے ہیں نفع پر ہو سب رواہے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۹: از کانپورمسٹن روڈ مرسلہ شیخ محمد عمر محمد عتیق صاحبان ۹شوال ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین زید وبکر کی شرکت میں ایک تجارت تھی بعد شرت روپیہ اور مال تقسیم ہوا، اپنی اپنی ملک پر قابض ہوگئے، پھر بکر نے اپنا مال بیچنا چاہا، زید نے چاریا دس روپے کم پر لینا چاہا اور بوقت خریداری کہہ دیا کہ اگر منظور ہوتو دو ورنہ روپیہ دے کر مال واپس لے لو، بکر نے مال دے دیا روپیہ لے لیا، آیا یہ خریداری زید کو جائز ہے یانہیں ؟ زید کو خطاوار کہنا کیساہے؟
الجواب:یہ خریداری جبکہ برضائے بائع ہو بیشک جائز ہے اگرچہ ہزاروپے کم کو خریدارہوا سے اس وجہ سے خطاوار کہنے والا خطاوار ہے :
قال اﷲ تعالٰی الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
     اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: مگر ہو تجارت تمھاری باہمی رضامندی سے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم   ۴/ ۲۹)
مسئلہ ۵۰: مسئولہ حاجی لعل خا ں صاحب یکم صفر ۱۳۳۴ھ

تنقیح سوالات حسب بیان مسماۃ حبیبن بی بی وصبیحن بی بی دختران شیخ امیر بخش صاحب مرحوم
سوال سوم، والدہ ماجدہ نے کچھ جائداد خاص اپنی رقم سے خریدی تھی اور کچھ جائداد والدہ مرحومہ کے دین مہر کے روپیہ سے، یہ دونو ں جائداد والد صاحب کی ملک قرار پائیں گی یاکہ دوسری جائداد والدہ صاحبہ کی ملک کہی جائیں گی، اگردونو ں جائداد والد صاحب کی ملک قرار پائیں  تو والدہ کے سونے کے کڑے جس کی قیمت مبلغ آٹھ سوروپیہ تھی اور اس سے والد صاحب نے جائداد خرید کی وہ بذمہ والد صاحب دین واجب الاداہے یا نہیں ؟ ونیز والدہ مرحومہ کی سونے کی بالیا ں جس کی قیمت سوروپیہ تھی اور فروخت کرکے تجارت میں شامل کردی گئی اس کا عوض والد صاحب کے ذمہ باقی ہے یانہیں ؟
الجواب

مورث نے جو جائداد اپنے روپیہ سے خریدی وہ ظاہر ہے کہ اسی کی ہے اور جو دوسرے کے روپے سے خریدی وہ اگر اپنے لئے خریدی یعنی عقد بیع دوسرے کے نام نہ کرایا تو وہ بھی اسی مشتری کی ہے
لان الشراء متی وجد نفاذاعلی المشتری نفذ۱؎
 (اس لئے کہ خریداری جب مشتری پر نفاذ کے طورپر پائی جائےتو نافذہوجاتی ہے۔ ت)
 (۱؎ الاشباہ النظائر    الفن الثانی کتاب البیوع        ادارۃ القرآن کراچی      323 /1)

(ردالمحتار     کتاب البیوع   باب المتفرقات    داراحیاء التراث العربی بیروت    220 /4)
پھرا س صورت میں اگر ثابت ہوکہ یہ روپیہ دوسرے نے اسے بطور تملیک دے دیا تھا تو روپیہ کا بھی مطالبہ اس پر نہ تھا ورنہ اگر باجازت تھا قرض تھا، بے اجازت تھا غضب تھا، بہرحال اس پر ضمان لازم ہے، یہ دوسرے کے روپے سے جائداد خریدنے کاحکم تھا، سائل کے لفظ یہ ہیں کہ ''کچھ جائداد والدہ مرحومہ کے دین مہر کے روپے سے'' اس کے اگر یہ معنی ہیں کہ دین مہر ادا کردیا تھا اور بعد قبضہ زوجہ اس سے جائداد خریدی جب تو وہی صورت ہے جو اوپر مذکورہوئی اور اگر دین مہر ادانہ کیا تھا تو اس کے روپے سے خریدنا یونہی ہوگا کہ وہ کہے کہ تیرا مہر جو کچھ مجھ پر آتا ہے اس کے عوض یہ جائداد خریدتاہو ں ، یو ں اگر خریدی تو وہ جائداد ملک زوجہ ہوئی، یا یو ں ہوگا کہ عورت کہے میرامہر تجھ پر آتاہے اس کے عوض مجھے جائداد لے دے، اور اس نے خریدی تو یو ں بھی جائداد ملک زوجہ ہوگی اور قبضہ زوجہ پرشرط نہ ہوگا نہ اصل بائع سے عقد بیع میں زوجہ کانام لینا ضرور ہوگا کہ خریدکر اس کے مہر کا معاوضہ کردینا ا س کی طرف سے بنام زوجہ بعوض مہر بیع ہوگی اور بیع میں قبضہ شرط ملک نہیں ، یایو ں ہوگا کہ زوجہ نے اس سے کہا میرا مہر جو تم پر آتاہے اس سے اپنے لئے جائداد خرید لو تو جائداد ملک شوہر ہوگی اور اس پر روپے کا مطالبہ بھی نہ رہا کہ وہ اجازت اقتضاءً ھبۃ الدین ممن علیہ الدین (مدیون کودین کا اقتضاء ہبہ ہے۔ ت) تھی اور یہ جائزہے۔ اور اگر نہ مہرا ادا کیا تھا نہ اس قسم کا کوئی تذکرہ مابین زوجین آیا تو اسے دین مہر کے روپے سے خریدنا کیونکر کہا جاسکتاہے، سونےکے کڑو ں سے جائداد خریدنا وہی زرغیر سے شراء ہے جس کا حکم اوپر گزرا  اگر عورت کی طرف سے کوئی دلالت تملیک پائی گئی تو اس کا کوئی معاوضہ ذمہ شوہر نہیں ورنہ ہے، یو ں ہی بالیا ں کہ بیچ کر تجارت میں لگائی گئیں اگر دلالت تملیک پائی گئی شوہر پر عوض نہیں اوراگر تجارت میں شرکت کے لئے عورت نے دیں اور اس نے قبول کیا تو وہ شریک تجارت ہوئی ورنہ ادنٰی متعین ہے یعنی قرض اور عوض لازم، واللہ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۵۱:  کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ آجکل دکاندار عموما ہر چیز کی قیمت بڑھاکر کہتے ہیں اور پھر اس سے کم پر بیچ ڈالتے ہیں یہ شرعا جائز ہے یا نہیں ؟ ہر ایک کا چار پیسے کی چیز کا دگنی یاتین گنی قیمت پر فروخت کرناجائز ہے ؟ بینوا توجروا
الجواب:دونو ں باتیں جائز ہیں جبکہ جھوٹ نہ بولے، فریب نہ دے، مثلاکہا یہ چیز تین یا چار پیسے کی میری خرید ہے، اور خرید پونے چار کو تھی، یاکہا خرچ وغیرہ ملاکر مجھے سوا چار میں پڑی ہے اور پڑی تھی پونے چارکو، یاخریر وغیرہ ٹھیک بتائے مگر مال بدل دیا یہ دھوکاہے، یہ صورتیں حرام ہے ں اورنہ چیز ں کے مول لگانے میں کمی بیشی حرج نہیں رکھتی ، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter