Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
15 - 180
مالک واحمد وابوداؤد وابن ماجۃ عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما نھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عن بیع العُربان ۱؎۔    امام مالک، احمد، ابوداؤداور ابن ماجہ نے عبداللہ ابن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بیعانہ کی بیع سے منع فرمایا۔ (ت)
 (۱؎ سننن ابوداؤد   کتاب البیوع   آفتاب عالم پریس لاہور        ۲/ ۳۹۔ ۱۳۸)

(سنن ابن ماجہ      ابواب التجارات باب بیع العربان    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۱۵۹)

(مسند احمد بن حنبل    از مسند عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہما    دارالفکر بیروت        ۲/ ۱۸۳)
درمختارمیں ہے :
الایجاب والقبول عبارۃ عن کل لفظین ینبئان عن معنی التملک والتملیک ماضیین اوحالین اواحدہما ماض والاخرحال ۲؎۔
ایجاب وقبول ایسے دولفظو ں کانام ہے جو تملک و تملیک کے معنی کی خبر دیتے ہیں چاہے دونو ں ماضی ہو ں یا دونوں حال ہو ں یا ایک ماضی اور ایک حال ہو۔ (ت)
 (۲؎ درمختار کتاب البیوع   مطبع مجتبائی دہلی  ۲/ ۳۔ ۲)
فتاوٰی امام بزازی وفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
 قال لقصاب کم من ھذا اللحم بدرہم فقال منوین قال زن فاعطی درہما فاخذہ فھو بیع جائز ولا یعید الوزن وان وزنہ فوجدہ انقص رجع بقدرہ من الدرہم لامن اللحم لان الانعقاد بقدر المبیع المعطی ۳؎ اھ فلم یجعل قولہ کم بدرہم قال منوین قال زن بیعابل التعاطی ولذا لم یکن لہ ان یطلب مانقص من الحم ۔
کسی نے قصاب کو کہا کہ یہ گوشت ایک درہم کا کتنا ہے، اس نے کہا دوسیر، اس شخص نے کہا تول دے، پھر ایک درہم قصاب کو دیا اور اس سے گوشت لے لیا تو یہ بیع جائز ہے دوبارہ وزن کرنا ضروری نہیں اور اگر وزن کرنے پر گوشت کودوسیر سے کم پایا تو کمی کے برابر درہم میں سے واپس لے سکتاہے گوشت میں سے نہیں لے سکتا کیونکہ بیع کا انعقاد اسی قدرپر ہوا جتنا اس نے دیا اھ، تو مشتری کے قول کہ ایک درہم کا کتناگوشت ہے جواب میں قصاب کےقول دوسیر اور پھر مشتری کے قول کہ ''تول دے'' کو بیع نہیں بتایا گیا بلکہ تعاطی کو بیع قرار دیا گیا اسی لئے مشتری کویہ حق نہیں کہ اتنا گوشت طلب کرے جتنا قصاب نے اسے کم دیا،
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب البیوع         باب ثانی فصل اول  نورانی کتب خانہ پشاور        ۳/ ۱۰)
وفی الہندیۃ عن التتارخانیۃ عن الیتیمۃ عن الحسن بن علی انہ سئل عن رجل ساوم وکیل البائع السلعۃ باثنین وعشرین دینارا وابی الوکیل الابخمسۃ وعشرین فقال المشتری اترک لی ھذہ الثلثۃ الدنانیر ورضی بذٰلک من غیر ان یوجد منہ قول وھناک شہود علی انہ رضی فطابت نفسہ بذٰلک ھل یکون ذٰلک بیعا فقال ھذا القدر لیس ببیع الا ان یوجد الایجاب والقبول اوما یقوم مقامہا من الفعل ۱؎ اھ، وفیہا عن المحیط عن المجرد عن ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذا قال للحام کیف تبیع اللحم قال کل ثلثۃ ارطال بدرھم قال قداخذت منک زن الی ثم بداللحام ان لایزن فلہ ذٰلک وان وزن فقبل قبض المشتری کل لکل واحد منہما الرجوع فان قبضۃ المشتری اوجعلہ البائع فی وعاء المشتری بامرۃ ثم البیع وعلیہ درہم ۱؎ اھ وفیہا عن السراجیۃ قال الاخر بکم ھذا الوقرمن الحطب فقال بکذا فقال سق الحمار فساقہ لم یکن بیعا الا اذا سلم الحطب وانتقد الثمن ۲؎ اھ اقول:  وینتنی علی اشتراط الاعطاء من الجانبین فی التعاطی والصحیح الاکتفاء لواحد نص علیہ محمد کما فی النھر ۳؎۔
اور ہندیہ میں بحوالہ تتارخانیہ فتاوٰی یتیمہ سے منقول ہے کہ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے بائع کے وکیل سے کسی مال کا بائیس دینار بھاؤ لگایا وکیل نے کہامیں پچیس دینار سے کم پر نہیں دو ں گا، مشتری نے کہا مجھے یہ تین دینار چھوڑدے اس پر وکیل راضی ہوگیا مگر زبان سے کچھ نہ کہا اوراس کے رضامند ہونے پر وہا ں گواہ موجود تھے تو کیا بیع ہے، تو آپ نے جواب دیا محض اس قدر سے بیع نہیں ہوتی سوائے اس کے وہا ں ایجاب وقبول یا اس کے قائم مقام کوئی فعل پایاجائے اھ اور اسی میں بحوالہ محیط مجرد سے منقول ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے قصاب کو کہا گوشت کیسے بیچتے ہو اس نے جواب دیا تین رطل ایک درہم کا، مشتری نے کہا میں نے تجھ سے لیا میرے لئے تول دے، پھر قصاب کی رائے ہوئی کہ وہ نہ تولے تو اس کویہ حق ہے، اور اگر اس نے تول دیا، تو مشتری کے قبضہ کرنے سے پہلے دونو ں میں سے ہر ایک کو رجوع کا اختیار ہے اور اگر مشتری نے قبضہ کرلیا یا اس کے کہنے سے بائع نے اس کے برتن میں گوشت رکھ دیا توبیع تام ہوگئی اور مشتری پرا یک درہم لازم ہوگیا اھ اور اسی میں سراجیہ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے لکڑی فروش کوکہا لکڑی کا یہ گٹھا کتنے کا ہے، اس نے کہا کہ اتنے کا، پھر مشتری نے کہا اپنا گدھا ہانکو، اس نے ہانک دیا، تویہ بیع نہیں ، مگر اس وقت بیع ہوجائیگی جب لکڑیا ں سونپ کرثمن وصول کرلے اھ، اقول:  (میں کہتاہو ں ) یہ بیع تعاطی میں دونو ں طرفو ں پرقبضہ کرنے کے شرط ہونے پر مبنی ہے، حالانکہ صحیح یہ ہے کہ فقط ایک طرف سے قبضہ کا فی ہے اس پر امام محمد نے نص فرمائی ہے جیسا کہ نہر میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب البیوع باب ثانی فصل اول    نورانی کتب خانہ پشاور        ۳ /۶)

(۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب الیوع باب ثانی فصل اول    نورانی کتب خانہ پشاور        ۳ /۱۰۔ ۹)

(۲؎فتاوٰی ہندیہ        کتاب الیوع باب ثانی فصل اول    نورانی کتب خانہ پشاور         ۳ /۱۰)

(۳؎فتاوٰی ہندیہ        کتاب الیوع باب ثانی فصل اول    نورانی کتب خانہ پشاور   ۳ /۹)
ان صورتو ں میں وہ بیعنامہ ہی خودبیع ہوتاہے اور اس کی تسلیم شراءکہ اسی میں لکھا جاتاہے میں نے فلا ں شےفلاں کے ہاتھ اتنے کو بیچی،       اشباہ وہندیہ میں ہے :الکتاب کالخطاب ۴؎(تحریر کلام کی طرح ہے۔ ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب البیوع      باب ثانی فصل اول    نورانی کتب خانہ پشاور   ۳ /۹)
تو یہ بیع اسی کے ہاتھ ہوئی جس کانام بیعنامہ میں ہے مثلا خالد، پھر اگر اسی نے بیعنامہ لکھوادیا جب توظاہر ہے کہ بیع تام ونافذ ہے اور اگر دوسرے نے گفتگو کرکے اس کانام لےکر اس کی بے اجازت کے کاغذ کردیا تو یہ شرائے فضولی ہوا اور اجازت خالد پر موقوف رہا اگرچہ زبانی گفتگوئے خریداری میں نام خالد اصلا نہ آیاہو بلکہ گفتگو کرنے والے مثلا بکر نے خود اپنا نام ظاہرکیا ہوکہ اپنے لئے خریدناچاہتاہو ں ۔
   وذٰلک لان ماجری بینہما من کلام لم یکن عقد اوانما البیع بالکتاب وفیہ الاضافۃ الی خالد۔
اوریہ اس لئے ہے کہ جو کلام ان دونو ں کے درمیان جاری ہوا وہ عقد نہیں بیع توتحریر کے ذریعے ہوئی اور اس میں خالد کی طرف اضافت موجو دہے۔ (ت)
پس اگراخالد جائز کردے گا شیئ مبیع کاخود مالک ہوگا اور رد کردے گا تو بیع باطل ہوجائے گی بہرحال اس کا مالک نہ ہوگا۔لان البیع لم یکن منہ ومن کان منہ لم یقبلہ وھذا الحکم مع ظہورہ قدصرح بہ الفتاوٰی الاسعدیۃ وسیأتی عن الخانیۃ۔

کیونکہ بیع اس سے نہیں ہوئی اور جس سے بیع ہوئی اس نے اس کو قبول نہیں کیااورا س حکم کے ظاہر ہونے کے باوجود  فتاوٰی اسعدیہ میں اس کی تصریح کی گئی اور عنقریب خانیہ کے حوالے سے آرہاہے۔ (ت)
دوم : قبل تحریر بیعنامہ باہم عاقدین میں ایجاب وقبول واقع (جواب یہا ں تک دستیاب ہوا۔ ت)
مسئلہ ۴۷: از شہر بریلی     محلہ بازوران    ۲صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے جو ایک عرصہ سے بحالت پریشانی کرایہ کےمکانات  میں رہ کربسرکرتا رہتا ہے حال میں اس نے ایک اراضی واسطے اپنی سکونت کے خرید کی، بوقت ابتداء تعمیر کام چند صاحبان اہل محلہ بسبب رنجش وبرائےکسی خاص فساد کے اس شخص پر بہ جبر اس کا اثر ڈالتے ہیں کہ وہ اس اراضی کی قیمت جس کا کہ وہ لوگ چندہ سے بنام مسجد اہتمام کرنا چاہتے ہیں لےکر بیع کردے پس ایسی صورت میں مالک اراضی اس کی بیع کردینے پر مجبور ہے یانہیں ؟
الجواب: بیان سائل سے واضح ہوا کہ مسجد موجود ہے اور اسے بڑھانے کی ضرورت شدیدہ نہیں نہ اسے بڑھانے کے لئے وہ لوگ یہ زمین مانگتے ہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اسے کرایہ پر چلا کر مسجد میں اس کاکرایہ لگائیں ،اگرصورت واقعہ یہ ہے  تو مالک اراضی پر ہر گز لازم نہیں کہ اسے بیع کرے اور اسے مجبور کرنا ظلم ہے اور ظلم سے لیں گے تو اس کاکرایہ مسجد میں لگاناحرام ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter