فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
14 - 180
مسئلہ ۴۰:ـکیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک مکان اپنے دولڑکو ں عمرو وبکر کے نام سے بحصہ مساوی کیا اور اس کا بیعنامہ بھی انھیں دونو ں کے نامو ں سے ہے، ان میں عمر و بالغ ہے اور بکر نابالغ ، بعد ازا ں زید نے اسی مکان میں سے ایک ربع اپنے بھائی خالد کو اس طرح دلایا کہ عمرو سے بیعنامہ لکھا دیا تو بقیہ مکان میں عمرو وبکر کاحصہ شرعا کس طرح رہا؟ بینوا توجروا
الجواب: شرع میں گفتگوئے خریدوفروخت کا اعتبار ہے اس کے آگے بیعنامہ کا اعتبارنہیں ، اگر زبانی خریداری لڑکوں کے نام نہ ہوئی یعنی یہ نہ کہا کہ مکان عمرو بکر کے ہاتھ بیع کردے،اس نے کہا میں نے ان کے ہاتھ بیع کیا بلکہ صرف اپنے نام زبانی خریدا یا زبانی خریدم فروختم( میں خریدتاہو ں اور میں فروخت کرتاہو ں ۔ت) میں کسی کانام نہ آیا تو اس صورت میں شرعا وہ مکان زید کاہوا، پھر زید نے جو اپنے بیٹو ں کے نام بیعنامہ لکھا یا یہ ان کے نام ہبہ ہوا اور ہبہ مشاع بلا تقسیم ہے لہٰذا عمرو بکر اس کے مالک نہ ہوئے، بیعنامہ کہ بنام خالد جانب عمرو سے ہے لغو ہے کہ غیر مالک کی طرف سے ہے مگریہ بیع اجازت زید پر موقوف رہی کہ اصل مالک زید ہے جبکہ زید نے اسے جائز رکھا تو بیع نافذ ہوگئی، چہارم مکان خالد کا ہوا تین ربع بدستور زید کے ہیں ، ہا ں اگر اصل خریداری زبانی ہی بنام عمرو بکر ہوئی یا زبانی خریدم فروختم کے الفاظ ان کے معنی اداہی نہ کئے گئے صرف قیمت کی گفتگو ہوکریہ ٹھہرا کہ بیعنامہ بنام عمرو بکر کردو، تو یہ بیع بنام عمرو بکرہوئی، تام ہوگئی اور دونو ں لڑکے کے باپ کا قبول کافی تھا، عمرو نے بھی اسے مقبول رکھا تو اس کے نام بھی بیع تام ہوگئی، اور دونو ں لڑکے اس مکان کے مالک ہوگئے، اب کہ اس کا ربع عمرو نے بیع کیا وہ نصف حصہ عمرو بیع ہوا باقی مکان میں ایک ثلث عمرو کا رہا دو ثلث بکرکے، واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۴۱: از کمہر ڈاکخانہ گھٹیامرسلہ وصی علی صاحب معرفت مولوی قاسم علی صاحب طالب علم مدرسہ منظر الاسلام ۲۸ عید الفطر ۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زانیہ نے زنا کے روپے سے کوئی چیز خریدکی اب اس کا خریدنا جائز ہے یانہیں ؟
الجواب
جائز ہوگا کہ اگر اس چیز پر عقد ونقد جمع نہ ہوئے ہو ں ورنہ خریدنا نہ چاہئے، مثلا اس نے وہ حرام روپیہ مشتری کو دکھا کر کہااس کے بدلے فلا ں شے دے دے، اس نے دے دی، اس نے وہی حرام روپیہ قیمت میں دیا تو اب وہ شیئ خبیث ہے
(جیسا کہ امام کرخی کا مفتی بہ قول ہے جیسا کہ تنویر وغیرہ میں ہے، ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الغصب مطبع مجتبائی دہلی ۲/۰202)
مسئلہ ۴۲: مسئولہ محمد حسین خان ولد امین خان ساکن ریاست رامپور محلہ سٹن گنج ۷جمادی الاولٰی یکشنبہ ۱۳۳۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص مسمی جھاؤ سنگ نے اپنا حصہ ۸ بسوئے بیگہ ۶بسوانسی ۱۳ کچوانسی ۱۳ طنوانسی ۱۳ ننسوانسی کسر زائد یعنی بارھوا ں حصہ ازکل ملک معافی لاخراجی تعدادی ۱۶ بسوہ لیا ہے جس کا کہ وہ مالک وقابض تھا بالعوض مبلغ دوسواڑسٹھ روپےکے بدست تھان سنگھ بیع قطعی کیا لیکن قبضہ تھان سنگ کا نہ ہوا ور جاؤسنگھ فوت ہوگیا جاؤسنگھ کے مرنے کےبعد اس کے ورثاء اس پرقابض رہے بعد ازا ں تھان سنگھ نے خرید شدہ اراضی بالعوض مبلغ چھ سو روپے کے بدست محمد حسین خا ں بیع قطعی کردی، آیا تھان سنگھ کا بدست محمد حسین خا ں بلاقبضہ کئے ہوئے بیع کرنا شرعا جائز ہے یاناجائزَ؟ اور تھان سنگھ نے (مار مہ سہ) بابت قیمت اراضی جھاؤسنگھ کو دے دئیے ہیں فقط
الجواب: جائز ہے تنویر الابصارمیں ہے : صح بیع عقار لایخشی ھلاکہ قبل قبضہ ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ جس مال غیر منقولہ کے تلف ہونے کا خطرہ نہ ہو اس کو قبضہ میں لینے سے پہلے اس کی بیع جائزہے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۲؎درمختارشرح تنویر الابصار کتاب البیوع فصل فی التصرف مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۷)
مسئلہ ۴۳: مسئولہ شوکت علی صاحب محلہ شاہ آباد بریلی ۲۸ جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شیئ سربند بکس میں ہے جس کاوزن مثلاچارمن معین ہے، زید نے خریدکی، بعد خریدنے کے جب کھولا گیا تو بھرا ہوانہ تھا بلکہ قریب نصف کے نکلا، دیکھتے ہی فورا بائع کو اطلاع کی کہ یہ کم نکلا یا تو بقدر مال کے قیمت کرویا واپس لو۔ اس صورت میں بائع پر اس شیئ کا پھیرلینا لازم ہے یانہیں ۔ بیتوا توجروا
الجواب: جبکہ وزن معین ہے او روہ شے نصف نکلی تو مشتری نصف قیمت دے اس سے زیادہ کا بائع کو اختیار نہیں ،
ردالمحتار میں ہے : اذا کان طعاما فی حب فاذا نصفہ تبن یأخذہ بنصفہ الثمن لان الحب دعاء یکال فیہ فصار المبیع حنطۃ مقدرۃ وشمل مااذا کان المسمی مشروطا بلفظ اوبالعادۃ ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب ایک گھڑا طعام خریدا اور نصف اس میں بھوسہ نکل آیا تو اب مشتری اس کو آدھی قیمت کے بدلے لے گا کیونکہ گھڑا ایک ایسا برتن ہے جس سے کیل کیا جاتاہے چنانچہ مبیع ایک معین مقدار میں گندم ہوگیا اور یہ ضابطہ ان دونوں صورتو ں کو شامل ہوگا یعنی چاہے تو مسمی لفظ مشروط ہویا عادتا، واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۳۰)
مسئلہ ۴۴ تا ۴۵: مرسلہ حاجی مولا بخش صاحب جفت فروش ازمین پوری ۲۱صفر ۱۳۳۵ھ
(۱)کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے فصل پر غلہ خرید کیا اوریہ نیت کی کہ فلان مہینہ میں اس کی کچھ نرخ ہو فروخت کردو ں گا تو اس صورت میں زید غلہ کی خریداری کرسکتاہے یانہیں ، اور اس کے اوپر کوئی الزام شرعی تو عائد نہیں ہوتا ہے؟
(۲) زید نے بکر کو بضرورت بکر کچھ روپیہ نقد مال کے خریدنے کو دیا کہ تم اپنی مرضی کا مال دساور سے خریرکر لاؤ اور اس کو ہمارے نام روانہ کردو، اور پھر ہماری دکان سے اس مال کو ایک آنہ روپیہ منافع دے کر خریدلو، اگر مال راستہ میں کل کسی وجہ سے ضائع ہوجائے تو زید ذمہ دار ہے اور اگر نقصان کچھ ہوجائے گا تو بقاعدہ دکانداری وہ نقصان اورخرچ راہ مال پر ڈال کر اور اس کے اورپر اپنا منافع لگا کر بکر کے ہاتھ فروخت کردیا اور اگر نقصان نہ ہوا تو جو خرچ اس مال کے لانے میں بکر کا پڑگیا وہ خرچ ہی اس مال پر ڈال دیا جائے گا توایسی بیع وشرائط زید کو جائزہے یانہیں ؟ بینواتوجروا۔
الجواب
(۱) ایسی تجارت جائز ہے اور ایسی نیت ہی میں کوئی حرج نہیں اور اسے اپنے مال کا اختیار ہےدفعۃ بیچے خواہ متفرق یا اس سے
قبل خواہ بعد، لان الملک مطلق للمتصرف مالم ینہ الشر ع
(کیونکہ ملک تو مطلق تصرف کے لئے ہوتا ہے جب تک شرع منع نہ کرے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲) معمولی خرچ جوحسب عادت تجار مال پرڈالا جاتاہے اس کے ڈالے جانے میں تو شبہ نہیں رہا کچھ نقصان اس میں اگر عام عادت تجار مال پر ڈالنے کی ہے ڈالیں گے ورنہ نہیں ،
درمختارمیں ہے :
کل مایزید فی المبیع او فی قیمتہ یضم، درر، واعتمدا العینی وغیرہ عادۃ التجار بالضم ولایضم مایؤخذ فی الطریق من الظلم الا اذا جرت العادۃ بضمہ ھذا ھوا الاصل کما علمت فلیکن المعمول علیہ کما یفیدہ کلام الکمال ۱؎ اھ (ملتقطا)، واﷲ تعالٰی اعلم۔
جو چیز مبیع میں یا اس کی قیمت میں زیادہ ہو وہ ملائی جائے گی ، درر، اور عینی وغیرہ نے تاجرو ں کے ملانے کی عادت پراعتماد کیا ہے، اور نہیں ملایاجائےگا اس کو جو راستے میں ظلم سے لیاجاتاہے مگر اس وقت ملایا جائے گا جب رواجب میں اس کے ملانے کی عادت ہویہی اصل ہے جیسا کہ تو جان چکا ہے لہٰذا اسی پراعتماد ہونا چاہئے جیسا کہ کمال کا کلام اس کا فائدہ دیتاہے اھ (ملتقطا) واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع باب المرابحۃ والتولیۃ مبطع مجتبائی دہلی ۲/ ۳۵)
مسئلہ ۴۶: از لاہور مسجد سادھوا ں مرسلہ پیر جی عبدالغفار صاحب زید لطفہ ۲۵ صفر المظفر ۱۳۳۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید وعمرو دو حقیقی اب وام بھائی ہیں ، والدین کی حیات میں زید جو عمر میں بڑا ہے عمرو سے نسبتہ کم آمدنی رکھتاہے اور عمرو زید سےکثیرالاولاد ہے،لیکن دونوں بھائی جو کچھ کماتے ہیں والدین کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور والدین اپنے اختیار سے جس طرح چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں ،ز ید وعمرو کے کل اخراجات کے ان کے والدین ہی کفیل ہیں اور زید وعمرو کے اہل وعیال کاخرچ سب ان کے ما ں باپ اٹھاتے ہیں ، او ربچو ں کو جو کچھ وہ خرچ کے واسطے دیتے ہیں تو بالسویہ دیتے ہیں یعنی اگر ایک بچے کو پانچ روپے دیں تو سب بچو ں کو پانچ ہی پانچ دیتے ہیں ، اور جوکوئی جائداد خرید کی جاتی ہے تو وہ بھی والدین کے اختیار سے ، وہ جس کانام چاہیں درج کرادیں ، علاوہ ازیں زید نے بوجہ اپنی ضعیفی اور دورادندیشی کے والدین سے روپیہ لے کر ایک جائداد خرید کی اوراپنے چھوٹے بھائی عمرو کے نام درج رجسٹر کرادی لیکن عمرو نے دوسرے وقت والدین سے روپیہ لے کر اور جائداد خرید کی، اس کی رجسٹری اپنے اور زید کے نام کرادی اور ان سب جائدادوں کی جو آمدنی ہوئی وہ بھی والدین کے قبض وتصرف میں آتی رہی، خلاصہ کلام یہ ہے کہ دونو ں بھائیو ں کی تمام وکمال آمدنی والدین کے قبض وتصرف میں رہی اور اس آمدنی سے جو کچھ جائداد خرید کی گئی بعض کی رجسٹری والدین کے نام ہے اور بعض کی زید وعمرو کے نام ہے اور بعض کی صرف عمرو کے نام ہے اور جملہ آمدنی نقد ہر دو کی اور جملہ آمدنی جائداد خرید کہ وہ والدین کے ہاتھ میں رہی، بعد انتقال پدر مرحوم کے چھ سال اور بعد وفات مادر مشفقہ کے دو سال تک دونو ں بھائی باتفاق حسب دستور زمانہ والدین خرچ کرتے رہے، اب بوجہ پیش آنے بعض امور نفسانی کے دونو ں بھائی انقسام جائداد ومنقولہ وغیرہ منقولہ کا چاہتے ہیں اور سوائے ان دوبھائیو ں کے اور کوئی وارث اور متخاصم نہیں ہےان کا آپس میں ازروئے شرع شریف کیا حصہ ہوگااور کے حصص پر کل جائداد کی تقسیم ہوگی؟ بینوا بالکتاب وتوجروا من ملک الوھاب (کتاب اللہ سے بیان فرمائیں اور اللہ تعالٰی بہت زیادہ عطاکرنے والے بادشاہ سے اجرپائیں ۔ ت)
الجواب
یہ مسئلہ بہت طویل الاذیا ں کثر الاشکال معرض الاشکال ہے ہم بتوفیقہ تعالٰی اسے ایسے طورپر بیان کریں کہ تمام اشکال کا جامع او رہر اشکال کا رافع ہو وباللہ التوفقی اس کے لئے دو بیان لکھیں :
بیان اول: اس کی تحقیق کہ جو جائدادیں زیدیاعمرو یا ان کے والدین نے خریدیں اور ان کے نام ہوئیں ان میں کون سی بیع شرعا کس کے لئے واقع ہوئی۔اقول: : (میں کہتاہو ں ۔ ت) خریداری تین طرح ہوتی ہے:
اول بائع وطالب شرا میں زبانی گفتگو صرف فیصلہ قیمت وتصفیہ ودیگر زوائد کی ہوکر بیعنامہ لکھا جاتاہے اس سے پہلے ایجاب وقبول اشتریت فروختم خریدم یعنی بر کہے میں نے بیچی وہ کہے میں نے خریدی اصلا درمیان میں نہیں آتا بہت ہوتاہے تویہ کہ کتنے کو دو گے اس نے کہا اتنے کو یاا س نے کہا یہ چیزیں تمھارے یہا ں بکاؤ ہے کہا ہے، کہا کیا قیمت ہے ،کہا یہ ، یامیں فلا ں چیز مول لینا چاہتا ہو ں ،کہا بہتر، کہا یہ دوں گا ، کہا اچھا تو کاغذ کر دو،یا اس نے کہا یہ چیز بکتی ہے تمہیں خریدنا ہو تو خریدلو،کہا لیتا ہوں،کہا تو اتنا دینا ہوگا، کہا دو ں گا بیعنامہ لکھ دو، یہ الفاظ اور ان کے امثال ایجاب وقبول نہیں یا قرارداد ہوکر بیعنامہ دے دیا جاتاہے وہ بھی ایجاب وقبول نہیں بلکہ اس اقرار کی توثیق کی شرا سے باز نہ رہے ورنہ جاہل اسے ضبط کرلیتے ہیں اور یہ حرام ہے حدیث میں اس سے نہی فرمائی۔