Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
13 - 180
فتاوی خیریہ میں ہے :
العبرۃ بما تلفظ بہ الواقف لالما کتب الکاتب ۲؎۔
اعتبار اس کا ہے جو واقف نے زبان سے کہا، نہ اس کا جو کاتب نے لکھا۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریہ  کتاب الوقف   دارالمعرفۃ بیروت    ۱ /۴۰۔ ۱۳۹)
تو اگر گواہان عادل سے ثابت ہوجائے کہ عقد زبانی میں فی گز ۶ کی تصریح تھی اور اسی حساب سے ۲۴ گز(۹لعہ) روپے کو بیع ہوئی تو اگر ۲۴ گز مبیع کی تعبین سمت بھی ہوگئی تھی جیسا کہ اب عرضی دعوٰی کے بعض بیانو ں سے مستفاد ہے تویہی ۲۴ گز جانب غربی سے بیع ہوئی باقی پر مشتری کا قبضہ باطل ہے اور اگر تعیین نہ تھی جیسا کہ بیان بیع میں کہ عرضی دعوٰی میں ہے اس وقت تک نہیں تو یہ بیع بوجہ جہالت فاسد ہوئی۔
لان الذراع انما یحل فی المعین فھو معین لکنہ مجہول الموضع لامشاع کما فی ردالمحتار ۳؎۔
  اس لئے کہ زراع تو معین میں جاری ہوتاہے اور مذروع معین ہے لیکن مجہول الموضع ہے نہ کہ غیر معین جیسا کہ ردالمحتارمیں ہے (ت)
 (۳؎ ردالمحتار    کتاب البیوع    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۲۔ ۳۱)
تنویر الابصارمیں ہے :
فسد بیع عشرۃ اذرع من مائۃ ذراع من دار ۴؎۔
گھر کے سوگز میں سے دس گز کی بیع فاسد ہے۔ (ت)
 (۴؎ الدرالمختارشرح تنویر الابصار    کتاب البیوع     مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۸)
ہاں اگرمجلس عقدکےاندرتعیین کردی تھی تو بیع صحیح ہوگئی لان المجلس یجمع الکلمات (کیونکہ مجلس جامع کلمات ہوتی ہے۔ ت) اسی طرح اگر بعد مجلس اس عقد فاسد کو ترک کرکے ایک طرف سے ۲۴ گز معین بائع نے مشتری کودئے اور اس نے لئے تو بھی صحیح ہوگئی،
درمختار میں ہے :
 وینبغی انقلابہ صحیحا لو فی المجلس ولو بعدہ فبیع بالمقاطی ، نہر ۱؎۔
  اور لائق ہے کہ بیع صحت کی طرف منقلب ہوجائے اگر تعیین مجلس عقد میں ہو اور اگر تعیین مجلس کے بعد ہو تو بیع بالتعاطی ہوگی۔ نہر (ت)
 (۱؎ الدرالمختار   کتاب البیوع   مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۸)
ان صورتو ں میں بھی وہی ۲۴ گز معین ہوئی باقی پر مشتری کا قبضہ باطل ہے یہ سب یعنی بائع سے گواہ لینا اور ان کی گواہی پر اعتماد کرنا اس حالت میں ہے کہ بقیہ ۷۲ گز میں مشتری ثانی کے تصرفات مدت دراز سے بائع نے دیکھ کر سکوت نہ کیا ہو، اور اگر ایسا ہے جیسا مشتری ثانی کا یبان ہے کہ اسی وقت سے اس نے دالان اور کھپریل اور چبوترہ کل زمین میں بنوالیا اور بائعو ں نے خود کھڑے ہوکر بنیاد وغیرہ قائم کرادی جس کوعرصہ قریب آٹھ سال کا ہوگیا تو اس صورت میں دعوٰی بائع اصلا قابل سماعت نہ ہوگا۔
لما افتی بہ العلماء قطعا للتزویر والاطماع الفاسدۃ کما فی العقود الدریۃ ۲؎ ومعین المفتی وغیرہما، واﷲ تعالٰی اعلم۔
علماء کے اس فتوٰی کی وجہ سے جوانھو ں نے دھوکہ دہی اور فاسد خواہشو ں کو منقطع کرنے کے لئے دیا ہے جیسا کہ عقود الدریہ اور معین المفتی وغیرہ میں ہے، واللہ تعالی اعلم۔ (ت)
 (۲؎ العقود الدریۃ   فی تنقیح الفتاوٰی الحامدیہ کتاب الدعوٰی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲/ ۳)
مسئلہ ۳۷: از پیلی بھیت محلہ محمد شیر مسئولہ جناب قمر الدین صاحب ۱۷ صفر المظفر ۱۳۳۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص اپنا مال آڑھت میں دے کر دکان میں بیچنا چاہتاہے اور اس سے روپیہ مال جمع شدہ کا پیشگی چاہتاہے اور کہتاہے کہ جب فروخت ہوجائے گا تو اس وقت کاہم اور تم حساب کئے لیں گے، یہ روپیہ پیشگی دیناجائزہے یانہیں ؟
الجواب

اگر علی الحساب بطور قرض لیتاہے تو دکاندار کی مرضی سے لے سکتاہے اس پر جبر نہیں کرسکتا اور اگر دکاندار سے اس مال کی قیمت لیتا اور یہ شرط کرتاکہ فروخت پر کمی بیشی کا حساب ہوجائے گا تو یہ حرام ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
مسئلہ ۳۸: مسئولہ نواب وزیر احمد خان صاحب بہاری پور بریلی ۱۴ جمادی الآخر ۱۳۳۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی شے کا بیعنامہ معمولی رواجی الفاظ کے ساتھ تحریر ہوکر آخر میں یہ فقرہ لکھ دیا جائے کہ نفاذ اس بیع نامہ کا فلا ں مدت کے بعد عمل میں آئے گا مشتری کو قبضہ لینے اور داخل خارج کرنے کا مجاز بعد انقضائے مدت مذکورہ حاصل ہوگا اگر مشتری درمیان اس مدت کے قبضہ لے کر داخل خارج کرائے گا تو اس مدت کا ماحصل توفیر زرثمن کے علاوہ اداکرنے کا مستوجب ہوگا تو درمیان دستاویز میں جو "بعت" لکھ چکاہے وہ غالب رہےگایاآخر کایہ فقرہ؟ بینواتوجروا
الجواب

دونو ں جملے اپنا اپنا عمل کرینگے، "بعت" کا یہ عمل ہوا کہ بیع ہوگئی اور اس شرط فاسد کا یہ عمل ہوا کہ بیع فاسد وحرام ہوئی ان دونو ں پر واجب ہے کہ اسے فسخ کریں اگر نہ کریں گے توحاکم شرع جبرا فسخ کرادے گا، نہ مشتری مبیع لے سکتاہے نہ بائع ثمن، اور اگر بائع کی رضا سے مشتری مبیع پر قبضہ کرلے تو بحکم جملہ اولٰی اس کامالک ہوجائے گا، مگر بحکم جملہ ثانیہ وہ ملک خبیث ہوگی اور اب بھی اس پر واجب ہوگا کہ بیع فسخ کرے اور مبیع واپس  کردے ہا ں اگر مشتری بعد قبضہ برضائے مبیع کسی دوسرے کے ہاتھ بیع صحیح یا ہبہ یادین یا وقف یا وصیت کردے تو اگر چہ مشتری گنہگار ہوگا مگر اب وہ بیع نافذ ہوجائے گی اور اس کا فسخ نہ ہوسکے گا اور اب بھی مشتری اس سے مبیع کے ثمن کا مستحق نہ ہوگا یعنی جو معاوضہ باہم قرار پایا تھا بلکہ قیمت لے گا یعنی بازار کے بھاؤ سے وہ مال جتنے کا ہو مثلا ایک شے ساڑھے پانچ ہزار کو خریدی ااور بازار کے نرخ سے وہ چار ہزار کی ہے تو چار ہزار ہی دینا آئیں گے بائع اس سے زائد نہیں لے سکتا یہ سب اس صورت میں ہے کہ اصل بیع اسی شرط پر ہوئی ہو اور اگر پہلے فروختم خریدم زبانی ہولئے تھے اور اس میں یہ عدم نفاذتا مدت مذکورہ کی شرط تھی بعد کو کاغذ بیعنامہ میں لکھی گئی ہو تو اس کا کچھ اعتبار نہیں بیع صحیح ونافذ ولازم ہوگئی فورا وقت عقد اس کا نفاذ ہوگیا اسی وقت سے مشتری کو اختیار ہوگیا کہ زرثمن جتنا باہم قرار پایا ہے دے کر مبیع پر قبضۃ کرلے اگر چہ بائع کی رضانہ ہو اور وہ شرط کہ اتنی مدت کی توفیر دینی آئے گی محض باطل ومردود ونامسموع ہے زرثمن سے زیادتہ ایک کوڑی دینی نہ ہوگی، واللہ اعلم
مسئلہ ۳۹: از سرنیا ں ضلع بریلی مرسلہ امیر علی صاحب قادری    ۲ رجب ۱۳۳۱ھ

سودا خریدنے میں حجت کرکے بھاؤ بڑھانا کیساہے؟
الجواب          بھاؤ کے لئے حجت کرنا بہترہے بلکہ سنت، سوا اس چیز کے جوسفر حج کے لئے خریدی جائے اس میں بہتر یہ ہے کہ جو مانگے دے دے، واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter