فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
12 - 180
(۱) زید وہندہ نے بروقت خواستگاری یعنی مگنی پسر خود مسمی بکر کے ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء میں ایک تحریر بدیں مضمون لکھی کہ پندرہ روپیہ چار آنہ ماہوار کہ بعد مایان بحصہ برخوردار بکر رسید سے بعد وفات ہمارے جو حصہ بکر میں پہنچیں گے اور ایک منزل مکان بحدود اربعہ بعوض مبلغ پنجاہ ہزار روپیہ ازجملہ مہرش کہ کفیل وضامن اس کے ہم ہیں مسماۃ ہاجرہ کو دیا ہم نے اور اس پر قابض ومتصرف کر دیا ہم نے مگر ا س تحریر کے ایک سال آٹھ ماہ کے بعد مئی ۱۹۰۴ میں نکاح ہاجرہ کا بکر کے ساتھ ہوا، جلسہ نکاح میں تکمیل تحریر مسطور بالا کی نہیں ہوئی ورنہ دستخط قاضی وقت کے کہ جس نے نکاح پڑھایا اس پرہوئے ہیں ، نہ تاریخ یوم نکاح ہی ،نہ منظور شدہ زوج ہی، پس ایسی حالت میں اگر زوجہ بکر اس تحریر کی رو سے زید وہندہ یا بکرپردعوٰی کرے تو عندالشرع اس جائداد منقولہ وغیر منقولہ کے پانے کی مستحق ہے یانہیں ؟ اور قبضہ بھی اس جائداد پر مسماۃ ہاجرہ کو مالکانہ نہ اصالتاً نہ وکالتاًدلایا گیا کیونکہ زید وہندہ ۱۹۰۲ء سے ابھی تک بقید حیات ہیں اسی جائداد منقولہ وغیر منقولہ پر خود قابض ومتصرف ہیں پس ایسی حالت میں ہاجرہ شرعا اس جائداد مذکورہ کے پانے کی مستحق ہے یانہیں ؟
(۲) زید نے تنخواہ عطیہ شاہی جو کہ آئندہ آنے والی ہے اس کوبنام مسماۃ ہاجرہ بالعوض مہر بیع وہبہ کی اور قبضہ بھی نہیں دیا تو ایسی آنے والی تنخواہ کا بیع وہبہ ازروئے شرع شریف معتبر ہے یانہیں ؟ بینوا توجروا۔
الجواب
(۱)ہاجرہ اس جائداد کا اصلا مطالبہ نہیں کرسکتی، ظاہر ہے کہ زید وہندہ کی طرف سے یہ تصرف مہر کے عوض ایک جائداد دینا ہے اورتملیک عین بالعوض ، اگرچہ بلفظ ہبہ یاعطا ہوابتداء وانتہاء ہر طرح بیع ہے۔
درمختارمیں ہے اگر کہا میں نے تجھے اس چیز کے بدلے ہبہ کیا تو یہ ابتداء اور انتہاء بیع ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الہبتہ باب الرجوع فی الہبۃ مجتبائی دہلی 164/ 2)
اور بیع مبادلہ مال بمال ہے کما فی الکنز والملتقی وغیرہما (جیسا کہ کنزاور ملتقی وغیرہ میں ہے۔ ت) اورمال عین ہے یادین، اور مہر قبل از نکاح نہ عین ہے نہ دین، تو اصلا مال ہی نہیں ، تو اس کے عوض کسی شیئ کا دینا محض باطل ہے۔
وصار کالبیع بالدم اوالمیتۃ اوالتراب بل ادون لانہا اشیاء وان لم تکن اموالا وھذا لیس بشیئ اصلا۔
اوریہ خون یا مردار یامٹی کے بدلے بیع کی مثل ہوگیا بلکہ اس سے بھی کمتر کیونکہ یہ چیزیں اگرچہ مال تو نہیں مگر اشیاء تو ہیں جبکہ مہر قبل از نکاح تو شیئ ہی نہیں ۔ (ت) انعقاد سبب وجوب سے پہلے ادا باطل ہے۔
فی فتح القدیر لایجوز تعجیلہ لانہ یکون قبل السبب ۱؎۔
فتح القدیر میں ہے کہ اس کی تعجیل جائز نہیں کیونکہ اس طرح سبب پر اس کا مقدم ہونا لازم آئے گا۔ (ت)
(۱؎ فتح القدیر کتاب الزکوٰۃ فصل ولیس فی الفصلان الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر 157/ 2)
عنایہ میں ہے :
تقدیم الحکم علی السبب لایجوز ۲؎۔
حکم کو سبب پر مقدم کرنا جائز نہیں ۔ (ت)
(۲؎ العنایۃ علی ہامش فتح القدیر کتاب الزکوٰۃ فصل ولیس فی الفصلان الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۱۵۷)
علماء تصریح فرماتے ہیں کہ دین معدوم کے بدلے رہن لینا بھی جائز نہیں ۔
ہندیہ میں ہے کہ معدوم دین کے بدلے رہن لینا صحیح نہیں کیونکہ رہن کا حکم یہ ہے کہ دین وصول کرنے کی قدرت حاصل رہے اور وصول کرنا وجوب کے بعد ہوتاہے جیسا کہ کافی میں ہے(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الرہن الفصل الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۴۳۱)
تو فی الحال اس کا اداکرنا کیونکر صحیح ہوگا۔ولا یرد مااذا بعث الی المخطوبۃ اشیاء مہرا لہا فانھا تملکہا اذ تزوجت علیہا وذٰلک لان الملک انما یثبت فہا بعد التزوج والامہار اما قبلہا فلا ولذا تردھا ان ابت قائمۃ اوھالکۃ کمافی الدرالمختار وغیرہ۴؎ اما ھٰھنا فالتزوج انما وقع علی الدراہم ثم لم یکن بعد ذٰلک من الکفیلین تعویض وماتقدم لایجدی کما تقدم۔
اور اس پر ان اشیاء کا اعتراض واردنہیں ہوتا جو کسی نے اپنی منگیتر کو بطور مہر بھیجیں کیونکہ ان اشیاء پر نکاح ہونے کی صورت میں وہ عورت ان کی مالک ہوجاتی ہے ________ اور یہ اس لئے کہ یہا ں ان اشیاء میں ثبوت ملک نکاح اور مہر مقرر کرنے کے بعد ہے نہ کہ اس سے پہلے اسی لئے عورت اگرنکاح سے انکاری ہو تو ان اشیاء کو واپس کرے گی چاہے وہ اشیاء موجود ہو ں یا ضائع ہوگئی ہو جیسا کہ دروغیرہ میں ہے، مگریہا ں تو نکاح دراہم پر واقع ہواپھر اس کے بعد دونو ں کفیلو ں کی طرف سے عوض دینا بھی نہیں پایا گیا اور جو کچھ ہوچکا وہ نفع نہیں دے گا جیسا کہ پہلے گزر گیاہے۔ (ت)
(۴؎ درمختار کتاب النکاح باب المہر مجتبائی دہلی ۱/ ۲۰۳)
یہ حال تو مکان کا ہے، رہے وہ پندرہ روپے چار آنے ماہوار، اس سے اگرمراد اپنی کوئی جائداد اتنی توفیرکی ہو تو اس کا حال مثل حال مکان ہےکہ گزرا اور اگر کوئی تنخواہ مراد ہو جوان کو کسی نوکری کی اجرت میں ملتی ہے تو اس کا حال حال مکان سے بدتر ہے کہ وہ خود ہنوز معدوم ہے تو یہ بیع معدوم بالمعدوم ہوئی، اور اگر وہ تنخواہ محض عطیہ حاکم بطور منصب وجاگیر ہے تو اس سے بھی بدتر حالت ہے کہ وہ خود ان کے اختیارہی کی نہیں ، بہرحال یہ معاوضہ باطل محض ہے اور ہاجرہ کو اس کے ذریعہ سے کوئی استحقاق مطالبہ نہیں ، دستاویز کہ زید وہندہ نے لکھی اس کی پوری نقل سائل نے نہ بھیجی جس سے یہ معلوم ہوتا کہ انھو ں مہر کی جو کفالت کی ہے وہ بھی شرعا صحیح ہے یانہیں ، نہ اس سے سائل کا سوال ہے لہٰذا اس سے بحث کی حاجت نہیں ، واللہ تعالٰی اعلم۔
(۲) آئندہ تنخواہ کی بیع وہبہ دونو ں کو باطل کہ وہ معدوم ہے اور معدوم نہ بیع ہوسکتاہےنہ ہبہ، تنویر الابصارمیں ہے:
بطل بیع المعدوم ۱؎
(معدوم کی بیع باطل ہے۔ ت)
(۱؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب البیوع باب البیع الفاسدہ مجتبائی دہلی ۲/ ۲۳)
فتاوٰی خیریہ میں ہے :
وبہذا علم عدم صحۃ ہبۃ ماسیتحصل من محصول القریتین بالاولی لان الواھب نفسہ لم یقبضہ بعد فکیف یملکہ وھذا ظاہر ۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور اس سے معلوم ہوگیا کہ دوقریو ں کی آمدنی سے حاصل شدہ شیئ کا ہبہ بدرجہ اولٰی صحیح نہیں کیونکہ وہ خود واہب نے ابھی قبضہ نہیں کیا تو وہ اس کا مالک کیسے بنا سکتاہے اوریہ ظاہر ہے اللہ خوب جانتاہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریۃ کتاب الہبۃ دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۱۱۱)
مسئلہ ۳۶: از ریاست رامپور محلہ راجدوارہ متصل مسجد مولوی حیدر علی صاحب مرحوم مرسلہ مظہر حسین خاں ولد مولوی عبدالعلی خان مرحوم ۶ رجب ۱۳۲۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس باب میں کہ زید نے ایک قطعہ اراضی تعدادی چوبیس درعہ جس کا طول جنوبا شمالا چھ درعہ وعرض شرقا غربا چاردرعہ اراضی مکسر مملوکہ خود جس کا طول شرقا غربا سولہ گز وعرض جنوبا شمالا چھ گز ہے بقیمت مبلغ نوروپیہ کے بدست عمر بیع کرکے بعینامہ تصدیق کرادیا بوقت تحریر بیعنامہ حد شرعی بجائے بقیہ اراضی بائع کے صریح غلط طورپر دروازہ مکان خالد تحریر ہوگیا حالانکہ دروازہ مکان خالد محکم وصحیح کل قطعہ مملوکہ بائع کی بھی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ منتہائے کل قطعہ اراضی مملوکہ بائع تعداد ی چھیانوے درعہ کے حد پربھی اراضی مرور مکانات ہے، دروازہ مکان خالد بعد اراضی مرور کے ہے اور حد شمالی میں بجائے مرور مکانات صریح طور پر بھی غلط پچھیت مکان خالد دروازہ مکانات ہندہ تحریر ہوگیاحالانکہ پچھیت مکان خالد بعد اراضی مرور کے اور دروازہ مکان ہندہ بہت فاصلہ پرواقع ہے اس غلطی تحریر حدود سے جبکہ بیعنامہ میں پیمائش وعرض وطول اراضی مبیعہ کی صراحت وتعین ہے اور شرح مقام اراضی موجودہ وقت اور اقرار یافتہ کے اس نو روپیہ قیمت صرف چوبیس درعہ کے ہوسکتی ہے نہ کہ چھیانوے درعہ کے اور حدود کے اعتبار سے علاوہ اراضی بائع کے راہ مرور مشترکہ محلہ داران بھی داخل مبیعہ ہواجاتاہے جس کی بیع شرعا جائز نہیں ہے پس صورت بالا شرعا مبیعہ وہی چوبیش درعہ اراضی قرار پائے گی یا کہ کل قطعہ چھیانوے درعہ اراضی مملوکہ بائع مع اراضی مرور شرقی وشمالی محلہ داران ۔ بینوا توجروا۔
الجواب: بیعنامے اور عرضی دعوٰی وجواب ملاحظہ ہوئے، اگر بیعنامو ں پر نظر ہو تو ان میں حدود بالاتفاق یکسا ں صاف صاف مکتوب ہیں ،اور ان میں شرح ۶ گز کا کہیں ذکر نہیں ، ایسی حالت میں کل زمین مذکور کہ بائع اول کو اس کے مامو ں سے وارثۃ پہنچی بیع سمجھی جائے گی، حدود میں اگر مکانات دیگر کے راستے بھی داخل ہوگئے ہیں مالکو ں کی چارہ جوئی پر واگذاشت ہوجائیں گے بائع اس سے استدلال نہیں کرسکتا نہ بیعنامو ں میں مقدار مبیع ۲۴ گز اور اس کا طول ۶ گز عرض ۴ گز لکھاہوناکچھ مفید ہوسکتاہے جبکہ فی گز ۶ کی قید بیعنامہ میں کہیں نہیں ،
درمختارمیں ہے : ان باع المذورع علی انہ مائۃ ذراع اخذ المشتری الاقل بکل الثمن اوترک واخذ الاکثر بلاخیار للبائع لان الذرع وصف لتعیبہ بالتبعیض ضد القدر والوصف لایقابلہ شیئ من الثمن الا اذا کان مقصودا بالتناول کما افادہ بقولہ وان قال کل ذراع بدرہم اخذ کل ذراع ھم اوفسخ ۱؎ (ملتقطا)
اگر مذروع کو اس شرط پر بیچا کہ مثلا یہ سو گز ہے تو مشتری اقل کو پوری قیمت سے لے یا چھوڑدے اور اکثر بلاخیار بائع لے لے گا ذراع یعنی گز وصف ہے کیونکہ سالم نہ رکھنے پر وہ عیب قرار پاتاہے یہ حکم کے مقازبلے میں ثمن کا کوئی حصہ نہیں ہوتا مگر جبکہ وصف تناول سے مقصود ہو جیسا کہ مصنف نے اپنے اس قول سے اس کو بیان فرمایا کہ اگر بائع نے یو ں کہا کہ ہرگز ایک درہم کے بدلے میں ہے تو مشتری ہرگز درہم کے بدلے میں لے لے یابیع فسخ کردے۔ (ملتقطا)(ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۷ و ۸)
مگر شرع مطہر میں عقد معتبروہ ہے جو عاقدین نے باہم زبان سے کہا کاغذمیں اس کے خلاف کچھ لکھا جائے معتبر نہ ہوگا،