Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ )
11 - 180
مسئلہ ۳۲: مرسلہ ابوالاثیم محمد ابراہیم بریلی خواجہ قطب     ۱۱محرم ۱۳۲۳ھ یوم دوشنبہ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زیدنے انتقال کیا دو بھتیجے حقیقی اورایک دختر چھوڑی اور بڑا بھتیجا اس لڑکی کا شوہر ہے لیکن باہم زوجین میں ایک مدت سے نااتفاقی ہے حتی کہ نان ونفقہ تک نہیں دیتے، زید نے اپنی حیات میں اپنی کل جائداد دوہزار روپیہ میں اپنی دختر کے ہاتھ بیع کردی لیکن قیمت جائداد تخمینا چھ ہزار وپے ہے اور بیعنامہ بھی قانونی کردیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ روپیہ مشتریہ نے بائع کو کچھ نہیں دیا وہ کہا ں سے دیتی اس کانان ونفقہ بھی باپ کے ذمے تھا، ایک مرتبہ زید نے کسی موقع پر اپنے چھوٹے بھتیجے سے کہا کہ تیری حق تلفی مجھ سے ہوگئی تیرے بڑے بھائی کی وجہ سے وہ میری زندگی میں تواپنی زوجہ (یعنی میری لڑکی)کو کچھ دیتے نہیں ہیں بعد میرے مرنے کے کیا دیں گے، اس کے جواب میں بھتیجے نے یہ کہا کہ آپ میری حق تلفی کیو ں کرتے ہیں ، اس کے جواب میں زید نے یہ کہا کہ جو کچھ ہونا تھا ہوگیا، پس صورت مذکورہ میں اس جائداد وبیع کا کیاحکم ہے؟ آیا دونو ں بھتیجو ں کو بھی شرعی حصہ پہنچتاہے یانہیں ؟ بینوا مع الدلیل و البرہان توجروا عندالحنان المنان (دلیل وبرہان کے ساتھ بیان کرو احسان ومہربانی فرمانے والے سے اجر پاؤ۔ ت)
الجواب

یہ بیع صحیح وتام ونافذ ہوگئی جبکہ زید کی حالت صحت میں تھی،کما ذکر لی السائل بلسانہ وذلک لانہ عقد صدر عن اھلہ فی محلہ فلا مردلہ، جیسا کہ سائل نے مجھے زبانی بتایااوریہ حکم اس لئے ہے کہ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو اہل سے صادر ہوکر محل میں واقع ہوا تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ۔ (ت)
ادائے ثمن شرائط صحت یا نفاذ بیع سے نہیں ولہٰذا اگر بائع بعد تمامی عقد زرثمن تمام وکمال معاف کردے معاف ہو جائے گا اوربیع میں کوئی خلل نہ آئے گا کما نص علی فی فتاوٰی الامام قاضی خا ں وبینہ فی ردالمحتار وحققناہ فی فتاوٰنا (جیساکہ فتاوٰی امام قاضی خا ں میں اس پر نص کی گئی اور ردالمحتار میں اس کو بیان کیا اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کی۔ ت) یہا ں اگر معاف ثابت ہو فبہا اور اگر زید نے وصول پالینے کا اقرار کیا جب بھی مشتریہ پر ثمن کا دعوٰی اسے نہ رہا  لان المرء مواخذباقرارہ (کیونکہ شخص اپنے اقرار سے پکڑا جاتاہے۔ ت) اور یہ قرائن کہ وہ کہاں سے دیتی اس کا نفقہ بھی تو باپ کے ذمہ تھا بینہ ابراء کے مقابل مسموع نہ ہوتا توظاہر اقرار وصول کے سامنے بھی قابل التفات نہیں،
لان المال غاد و رائح وقد یکون لبعض الناس لاسیما النساء مال خفی قل مایطلع علیہ الاخرون وعسی ان یکون لہا من حلی جہازھا وامتعۃ مایفی بذٰلک۔
     کیونکہ مال آنے جانے والی چیز ہے اور کبھی بعض لوگو ں خصوصا عورتو ں کے پاس کچھ پوشیدہ مال ہوتاہے جس پر دوسرے لوگ بہت کم مطلع ہوتے ہیں ، شاید اس عورت کے پاس جہیز کا کوئی زیور یا سامان ہو جس سے وہ ادائیگی کرتی ہو، (ت)
اور جب خو زید کا دعوٰی نہ سنایا جاتا تو ورثاء کہ خلافۃ اسی طرف سے مدعی ہو ں گے ان کا دعوٰی کیونکر مقبول ہوسکتا ہے زید کا ایک بھتیجے سے کہنا کہ مجھ سے تیری حق تلفی ہوگئی صحت بیع کا منافی نہیں بلکہ مؤکد ہے کہ اگر بیع صحیح نہ ہوتی تو حق تلفی کیونکر ہوتی باقی براہ دیانت حق تلفی حکم قضاء میں صحت بیع پر اثر نہیں ڈالتی بیع صحیح ہوگئی، بھتیجو ں کا جائداد میں کچھ حق نہ رہا، ہا ں ثمن کا دعوٰی ممکن ہے اگر زید نے معاف یا وصول یا لینے کا اقرار نہ کیا ہو، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۳۳: از پیگا مسئولہ مولوی حاجی نذیر احمد صاحب    ۲۴ ذی القعدہ ۱۳۲۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید نے نصف اراضی زمینداری عمرو کی جس میں اس کی سیر وخود کاشت کی کچھ زراعت تیار شدہ کچھ تخم ریزی شدہ بھی تھی بایں شرط خرید کی کہ جو اراضی عمرو کی کاشت میں ہے وہ بھی نصف کاشت سے چھوڑدینا ہوگی، عمرو نے اس شرط کو قبول کرلیا تھا اور اس اراضی کی اس پیداوار موجودہ اور مزروعہ کا وقت بیع کے کچھ تذکرہ اور تصفیہ نہ ہوا تھا کہ آیا کُل عمرو کا ہوگا یا نصف زید کا بھی ؟ اب زید نصف پیداوار بھی اس اراضی کی جو عمرو نے کاشت کرائی تھی طلب کرتاہے کہ میرا تو عمرو کی ہر چیز میں نصف ٹھہرا ہے، عمرو کہتاہے میں نے اراضی زمینداری اور حقوق زمینداری بیع کئے ہیں ، نہ حقوق کاشتکاری ، پس حق زمینداری اس اراضی زراعت تیار شدہ اور مزروعہ کا چوتھائی حصہ ہے اس کا نصف لے لو جیسی کہ مخلوق میں اسامیان سے جو نصفی یا چوتھائی یا پیچرو وغیرہ پر کاشت کرتے ہیں حصہ لیا جاتاہے اسی طرح سے ورنہ تمھاری ہر چیز کے اعتبار سے تومیں اثاث البیت وغیرہ بھی دے کرنہ چھوٹو ں گا، لہٰذا استفسار ہے کہ فریقین میں سے زید حق پرہے یا عمرو؟ زید کا مطالبہ کرنا کیساہے اورعمرو کا نہ دینا کیساہے؟ بینوا توجروا
الجواب

زراعت تیار شدہ تمام وکمال ملک عمرو ہے بلکہ اگر وقت بیع تک صرف اسی قدر اُگی ہوتی جسے جانور اپنے لبو ں کے زریعہ سے زمین سے لے سکے بھی اس پر زید کا دعوٰی بالاتفاق باطل تھا، ہا ں اگر پیٹا بالکل باہر نہ آتا جسے جانور چرسکے نری رنگت ہی رنگت زمین پر ظاہر ہوئی ہوتی ایسی حالت میں زمین بیچی جاتی تو ایک قول پرنصف زراعت بھی ملک زیدقرار پاتی تجنیس میں اسی کو صواب اور شرح المجمع ودرمختار میں اصح بتایا اور دوسرے قول پر اب بھی وہ تمام وکمال ملک عمرو رہتی ، فتح القدیر میں اسی کو اوجہ ور سراج الوہاج میں صحیح فرمایا، اور اکثر کا رجحان رائے قول اول کی طرف ہے اور جس قدر میں تخم ریزی ہوئی ہے اسے دیکھا جائے گا کہ آیا ہنوز بیج تازہ پڑا ہے کہ زمین میں گل نہ گیا ہوگا تو اس صورت میں بھی بالاتفاق جو زراعت اس سے پیدا ہوگی تمام وکمال عمرو کی ہوگی اور اگر ایسے وقت بیع ہوئی کہ بیج گل چکا تھا زمین کھود کر اگر اسے نکالنا چاہتے تو کچھ نہ ملتا تو اس صورت میں بھی اختلاف علماء ہے، بعض نے کہا اب نصف زراعت مشتری نصف زمین کی ہوگی، اسی کو امام فضلی وصاحب ذخیرہ نے اختیار فرمایا اور بعض نے فرمایا اب بھی تمام وکمال بائع کی ہے اسی کو امام ابواللیث وامام برہان الدین صاحب ہدایہ نے اختیار فرمایا اور اسی پر درمختار میں اعتماد کیا بلکہ امام فقیہ ابواللیث وامام برہان الدین صاحب ہدایہ کا مختار یہ ہے کہ مطلقا چارو ں صورتو ں میں تمام وکمال زراعت بائع کی ہی ہے خواہ تھوڑی اُگی ہو یا بہت، بیج گل گیا ہو یا نہیں ، اوریہی متون تنویر الابصار وغیرہ کا مفادہے، بالجملہ ان تمام صورتو ں میں زراعت ملک عمرو ہے، زید کا دعوی ٰ نصف باطل ہے مگر صرف اس حالت میں کہ بیع کے وقت زمین سے کھیتی ظاہر توہوئی ہو اور اس قابل نہ ہو کہ جانور اپنے لب سے اسے نکال سکے کہ اس قتدیر پر قول راجح میں آدھی زراعت مشتری نصف زمین کی ہوگی پھر جن صورتو ں میں زراعت صرف عمرو ں کی ٹھہری زید کو اختیار ہے کہ زمین تقسیم کراکر اپناحصہ زراعت عمرو سے خالی کرالے اسے فورا خالی کرنا ہوگا اگر چہ زراعت ہنوز قابل ورد نہ ہوئی ہو اگر برضائے زید باقی رکھی تو حسب دستور زید کو حق زمینداری یعنی جو اتنی زمین کی اس قدر مدت تک استعمال رکھنے کی لگان وغیرہ ہوتی ہے اداکرے،
درمختارمیں ہے :
 (لایدخل الزرع فی بیع الارض بلا تسمیۃ) الااذا نبت ولاقیمۃ لہ فیدخل فی الاصح شرح المجمع، ویؤمر البائع بقطع الزرع وتسلیم الارض عند وجوب تسلیمہا فلولم ینقد الثمن لم یؤمر بہ خانیۃ، وما فی الفصولین الزرع للبائع باجبر مثلھا محمول علی مااذا رضی المشتری نھر اھ ۱؎ ملتقطا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
  زمین کی بیع میں زراعت بغیر نام لئے داخل نہیں مگر جب کھیتی اُگی ہوئی ہو اور بے قیمت ہو تو بیع میں داخل ہوگی اصح قول کے مطابق (شرح المجمع)، بائع کوحکم دیا جائے گا کہ وہ کھیتی کو اکھاڑ کر زمین مشتری کے حوالے کرے جب زمین کی تسلیم واجب ہوچکی ہو اگر مشتری نے ثمن نقد نہ دئے ہو ں تو بائع کو مذکورہ بالا حکم نہیں دیا جائے گا (خانیہ)، اور فصولین میں جو آیا ہے کہ کھیتی بائع کے لئے ہے زمین کی اُجرت مثلی کے ساتھ تو وہ اس صورت پر محمول ہے کہ مشتری اس پر راضی ہو، نہر اھ ملتقطا واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب البیوع       فصل فی مالایدخل فی البیع تبعا الخ مجتبائی دہلی        9 /2 )
مسئلہ ۳۴ و ۳۵: از ریاست جاروہ، ڈونگر پور دروازہ مرسلہ ہدایت نور خان صاحب بردر نواب جاورہ، رمض ان المبارک ۱۳۲۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل ذیل میں  :
Flag Counter