فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ ) |
اقول: وان کانت تعبیرات العلماء فی ذٰلک لم ترد علی نسق واحد فمنہم وھم بالفساد ومنہم من عبر بالبطلان والفساد ھوالمرادلانہما لفظان متعاوران یرد کل واحد منہما مشرب صاحبہ کما لایخفی علی الناظر فی کلمات القوم وقال القہستانی فی بیان الباطل کثیرا مایطلق الفاسد علیہ وبالعکس ۲ اھ، ومن اقوی الدلیل علی ذٰلک کلام الامام الہمام فقیہ النفس فخر الدین خان القاضی اذاقال فی الخانیۃ البیع انواع باطل وفاسد و موقوف ولازم ومکروہ ۳؎ ثم عقد فصلا فی البیع الباطل وذکر مسألۃ ثم قال باب البیع الفاسد المفسد للبیع انواع وھذا الباب یشتمل علی فضولی، الفصل الاول فی فساد البیع الجہالۃ احد البدلین وفیہ الجمع بین الموجود والمعدوم والجمع بین المال وغیر المال ۱؎ اھ فہذا کما تری نص صریح لا یقبل صرفا و لاتاویلا قلت وبہ اوضح عمدۃ المذہب امامنا المجتہد سیدنا محمد فی المحیط و المبسوط وغیرہ فی غیرہما کما فی جماع الرموز والکفایۃ وعلیہ یدور کلام الامام البرھان الدین المرغینانی فی الہدایۃ والعلامۃ المحقق علی الاطلاق فی الفتح والفاضل زین الدین المصری فی الاشباہ والسید احمد الحموی فی غمز العیون والعلامۃ نوح آفندی والفاضل سید احمد الطحطاوی وغیرہم رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم اجمعین فعلیہ المعول وبہ الاعتماد کما حققتہ فی فتاوی الملقبۃ بالعطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ خلافا لما فہم العلامۃ ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ الغزی من وقوع لفظ البطلان فی بعض کلمات القوم اواستظہرہ سیدی محمد اٰمین الدین اٰفندی اٰمرا بالتامل فلا محیط الاالی المقام بعد مااتضح وتحقق ومن اراد فعلی ایراد الدلیل۔
میں کہتاہوں کہ اگر چہ اس میں علماء کی تعبیریں ایک طرز پر واقع نہیں ہوئیں، ان میں سے بعض نے اس کو فساد قرار دیا اور بعض نے بطلان سے تعبیر کیا جس سے مراد فساد ہی ہے کیونکہ ان دونوں لفظوں یعنی فساد و بطلان میں سے ہر ایک دووسرے کی جگہ استعمال ہوتارہتا ہے جیسا کہ کلمات قوم کو مدنظر رکھنے والے پر مخفی نہیں اورقہستانی نے باطل کے بیان میں کہا کہ بسااوقات اس پر فاسد کا اطلاق ہوتا ہے او راسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی فاسدپر باطل کا اطلاق ہوتا ہے اھ اس پر قوی ترین دلیل امام ہمام فقہ النفس فخر الدین خان قاضی کاکلام ہے کیونکہ انھوں نے فتاوٰی خانیہ میں فرمایا بیع کی کئی قسمیں ہیں باطل، فاسد، موقوف، لازم اور مکروہ پر بیع باطل کے بارے میں فصل قائم کی اور اس میں بیع باطل کے مسائل کوذکر کیا، بعد ازاں بیع فاسد کا باب قائم کرکے فرمایا کہ مفسدات بیع متعدد قسموں کے ہیں اوریہ باب کئی فصلوں پر مشتمل ہے، پہلی قسم بدلین میں سے کسی ایک کی جہالت کی وجہ سے فساد بیع کے بارے میں ہے اور اس میں معدوم و موجود کو اور مال وغیرمال کو عقد واحدمیں جمع کرنا داخل ہے الخ تو یہ جیسا کہ تو دیکھ رہا ہے صریح نص ہے جو مجاز وتاویل کو قبول نہیں کرتی میں کہتاہوں اوراسی کو واضح فرمایا ہے عمدۃ المذہب امام مجتہد ہمارے سردار امام محمد نے محیط اورمبسوط میں اور دیگر ائمہ نے دوسری کتابوں میں جیساکہ جامع الرموز اور کفایہ میں ہے، اور اسی پر دائر ہے امام برہان الدین مرغینانی کا کلام ہدایہ میں، امام علامہ محقق علی الاطلاق کاکلام فتح میں، فاضل زین الدین مصری کاکلام الاشباہ میں ، سید احمد حموی کا کلام غمز العیون میں ، اور اسی پر دائر ہے علامہ نوح آفندی اور فاضل سید احمد طحطاوی وغیرہ ائمہ کا کلام ، اللہ تعالٰی ان تمام پر رحمت نازل فرمائے، پس اسی پر بھروسہ اور اعتماد ہے جیسا کہ اس کی تحقیق میں نے ''العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ'' کے لقب سے ملقب فتاوی میں کردی ہے، برخلاف اس کے جو بعض کلمات قوم میں لفظ بطلان کے واقع ہونے سے علامہ ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ غزی نے سمجھایا تأمل کاحکم دے کہ سیدی محمد امین الدین آٖفندی نے احتیاط برتی، چنانچہ وضاحت و ثبوت کے بعد مقام تحقیق کی طرف رجوع کئے بغیر چارہ نہیں اور جو اس کے خلاف کا ارادہ کرے اس کے ذمے پر دلیل پیش کرنا ہے۔ (ت)
(۲؎ جامع الرموز کتاب البیوع فصل البیع الفاسد مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۳/ ۳۲) (۳؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیع نولکشور لکھنؤ ۲ /۳۳۵) (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیع نولکشور لکھنؤ ۲/ ۳۳۵)
اور مبیع بالبیع الفاسد بعد القبض مملوک ہوجاتی ہے کما فی عامۃ الکتب (جیسا کہ عام کتابوں میں ہے۔ ت) ہاں حق مشتری میں اس کی خباثت رہتی ہے لہٰذا تفاسخ واجب ہے، مگر اس کی بیع کے بعد مشتری ثانی کے لئے وہ بھی نہیں رہتی،
فی الدرالمختار بخلاف بیع الفاسد فانہ لایطیب لہ لفساد عقدہ ویطیب للمشتری منہ لصحۃ عقدہ ۱؎۔
درمختارمیں ہے بخلاف بیع فاسد کے کہ اس میں مشتری کو حلال نہیں اس عقد کے فساد کے سبب سے اور جس نے اس سے خریدا اسے حلال ہے بسبب اس کی صحت عقدکے، (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع البیع الفاسد مجتبائی دہلی ۲9 / ۲)
پس بہرحال اب یہ مکان بالیقین مملوک عمرو ہے زید یا زوجہ زید یا قرضخواہان زید کا اس میں کچھ حق نہیں، نہ قرضہ زید اس سے کوئی وصول کرسکتا ہے ھذا ینبغی التحیق واﷲ ولی التوفیق، واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (یونہی تحقیق چاہئے اور اللہ ہی توفیق کامالک ہے، اور اللہ سبحٰنہ وتعالٰی خوب جاننے والا ہے اور اس کا علم اتم واحکم ہے۔ ت)
مسئلہ ۳۰: از کمپ لال کرتی مرسلہ شیخ کریم بخش صاحب ۸ رمضان ۱۳۱۳ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدکے مکان میں ایک درخت فالسہ کا تھا اور بکر کے ہاتھ فروخت کئے ہوئے ایک مہینہ گزرگیا، بعدہ، زید کے مکان میں آگ لگ گئی، درخت مذکور جل گیا، قیمت اس کی بکر کو واپس دینا چاہئے یانہیں؟ فقط
الجواب بعد استفسار واضح ہوا کہ گھنڈ ساریوں کے ہاتھ فاسلہ کی ٹہنیاں بیچی جاتی ہے وہ انھیں کاٹ لیتے ہیں اور پیڑ بدستور قائم رہتا ہے، یہ بیع بھی انھیں ٹہنیوں کی تھی اور مشتری ہنوز کا کاٹنے نہ پایا تھا کہ مکان میں آگ لگ گئی پیڑ جل گیا، اس صورت میں قطع نظر اس سے کہ صرف ٹہنیوں کی بیع جائز وصحیح ہونے میں بہت نزاع طویل ہے۔
وانما حکم من حکم بالجواز مستنداالی التعامل اوان کان موضع القطع معلوما بالعرف کما فصلہ فی الدر وحواشیہ ۱؎۔
اور جس نے جواز کا حکم کیا اس نے تعامل کی بنیاد پر جواز کاحکم کیا یا اس بنیاد پر کہ ازروئے عرف کاٹنے کی جگہ معلوم ہو جیسا ک درر اور اس کے حواشی میں اس کی تفصیل ہے (ت)
(۱؎ درمختار کتاب البیوع باب البیع الفاسد مجتبائی دہلی ۲ /۲۴)
جب شیئ مبیع قبل قبضہ مشتری دست بائع میں ہلاک ہوگئی بیع جاتی رہی اور جو قیمت لی تھ وہ واپس دینی واجب،
فی درالمختار عن الفتح والدرالمنتقی لوھلک المبیع بفعل البائع اوبفعل المبیع اوبامرسماوی بطل البیع ویرجع بالثمن لومقبوضا ۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ردالمحتارمیں بحوالہ فتح اور در منتقٰی ہے کہ اگر فعل مبیع یا فعل بائع یا کسی امر سماوی سے مبیع (بائع کے ہاتھ میں) ہلاک ہوجائے تو بیع باطل ہوجائے گی اور ثمنوں پر اگر بائع قبضہ کرچکا ہے تو لوٹائے جائیں گے، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۲)
مسئلہ ۳۱: از شہر کہنہ ۲محرم الحرام ۱۳۱۶ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدنے اپنا مکان مسکونہ بعوض دین مہر زوجہ کے ساتھ بیع کردیا اور رجسٹری وغیرہ کی تکمیل کرادی، بعدہ، باجازت عورت تاحیات یعنی سوابرس اس مکان میں رہتا رہا پس بسبب رہنے زید کے اس مکان میں تکمیل بیعنامہ جائز ہے یانہیں ؟ بینوا توجروا
الجواب بیع مذکور تام وکامل ہے اور زید کا رہنا بے اجازت عورت ہوتا تاہم اصلا تمامی بیع میں خلل نہ لاتا
فان غایتہ الغصب والبیع اذا تم افاد الملک والملک بالغصب لایزول علی ان الغصب لایتحقق فی العقاد والبیع لیس کالہبۃ حتی یشترط فیہ القبض والتخلیۃ وھذا ظاھر جدا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ غایت اس کی غصب اور بیع جب تام ہوجائے تو مفید ملک ہوتی ہے اور غصب سے ملک زائل نہیں ہوتی، علاوہ ازیں غصب غیر منقولہ اشیاء میں متحقق نہیں ہوتا اور بیع ہبہ کی مثل نہیں حتی کہ اس میں قبضہ اور فارغ کرنا شرط قرار دیا جاتا اور یہ خوب ظاہر ہے، واللہ اعلم۔ (ت)