فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۷(کتاب البیوع، کتاب الحوالہ، کتاب الکفالہ ) |
مسئلہ ۱: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس صورت میں کہ زید نے کہا میں اپنا مکان بھیجتاہوں ، عمرو نے کہا میں خریدوں گا، دونوں آپس میں راضی ہوئے قیمت قرار پاگئی، زیدنے عمرو سے بیعانہ بھی لے لیا اور کاغذ واسطے تحریر بیعنامہ کے خرید کرلایا، اس صورت میں شرعا بیع تمام ہوگئی یا ناتمام رہی؟ بینوا توجروا (بیان کیجئے اجر پائے۔ ت)
الجواب ہر چند صورت مستفسرہ میں الفاظ ایجاب وقبول نہ پائے گئے کہ خرید کروں گا صیغہ استقبال ہے اور یہاں درکار ماضی یاحال، لکین اگر متعارف ان بلاد وامصار یوں یوں ہے کہ بعد گفتگو ئے مساومت وقرار داد قیمت بیعانہ اورلینا مستلزم تمام بیع ٹھہرتا ہے اور بعد اس کے تنہا ایک عاقد عقد سے رجوع نہیں کرسکتا اگر چہ الفاظ ایجاب وقبول درمیان نہ آئے ہوں تو بیع تمام ہوگئی کہ مقصود ان عقود میں معنی ہیں نہ کہ لفظ، اور اصل مدار تراضی طرفین قولا ظاہر ہو خواہ فعلا ، اس لیے تعاطی مثل ایجاب وقبول لزوم بیع کا سبب قرار پائی، گویا عاقدین زبان سے کچھ نہ کہیں کہ عادت محکم ہے اور تعارف معتبر، اور جوحکم عرف پر مبنی ہوتا ہے اس کے ساتھ دائر رہتا ہے، جب یہ فعل مثل الفاظ مظہر تراضی ہوا تو انھیں کی طرح موجب تمام بیع ہوگا.
فی الہدایۃ والمعنی ھو المعتبر فی ھٰذہ العقود ولہذا ینعفد بالتعاطی فی النفیس والخسیس ھوا لصحیح لتحقق المراضاۃ ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم۔
ہدایہ میں ہے کہ ان عقود میں معنی ہی کا اعتبار ہوتا ہے اسی لئے بڑھیا اور گھٹیا چیزوں میں بیع تعاطی منعقد ہوجاتی ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ باہمی رضامندی متحقق ہے، واللہ تعالٰی اعلم وعلمہ اتم (ت)
(۱؎ الہدایہ کتاب البیوع مطبع یوسفی لکھنؤ ۳/۲۴، ۲۵)
مسئلہ۲: از ریاست رامپور محلہ سبزی منڈی مرسلہ سید مقبول حسین صاحب وکیل ۲۱ محرم ۱۳۳۲ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ زید نے ایک مکان متروکہ چھوڑا، مسمی عمرو اس کا پسر وارث مع الحصر مگر وہ نابالغ تھا دیگر شخص غیر وارث نے بہ زمانہ نابالغی مسمی عمرو مکان مذکور کو اپنی ملکیت قرار دے کر بدست بکر بیع کردیا بکرنے قبضۃ کرلیا، بعد بلوغ مسمی عمرو نے بحالت غیر قابض مکان مذکور بدست خالد بیع کردیا خالد بذریعہ دستاویز بیعنامہ اقراری عمرو بنام بکر ونیز عمرو دعویدار تخلیہ و دخلیابی مکان مذکور ہے عمرو کو بیع کردینا تسلیم ہے اور دعوٰی سے اقبال ہے بکر قابض مکان بیع موسومہ خود کو حجت گردان کر منکر دعوٰی ہے اور مسئلہ شرعی مقدور التسلیم کا عذر کرتا ہے، کیا صورت مذکورہ بالا میں مسئلہ مقدور التسلیم شرعا متعلق ہوسکے گا اور مسئلہ مذکور کے حقیقی معنی اور اس کی مثال بھی تحریر فرمائے تاکہ عام فہم ہوجائے ۔ بینوا توجروا۔
الجواب عمرو نے جس وقت خالد کے ہاتھ بیع کی اگر عمرو اس وقت گواہان عادل شرعی اس امر پر رکھتا تھا کہ یہ مکان میری ملک ہے بکر وبائع بکر غاصب ہے جبکہ تو بیع عمرو بدست خالد صحیح وتام ونافذ واقع ہوئی مکان ملک خالد ہوگیا، خالد کا دعوٰی صحیح ہے بوجہ وجود بینہ عادلہ، عمرو کو حکما قدرۃً علی التسلیم حاصل تھی اور اسی قدر صحت ونفاذ بیع کے لئے کافی ہے حقیقۃ مقدور التسلیم فی الحال ہونا کسی کے نزدیک ضرور نہیں، غلام کو کسی کام کے لئے ہزار کوس پر بھیجا اور یہاں اسے بیع کردیا، بیع صحیح ہوگئی کہ عادۃً اس کا واپس آنا مظنون ہے اگرچہ احتمال ہے کہ سرکشی کرے اور بھاگ جائے، کبوتر ہلے ہوئےکہ صبح اڑائے جاتے اور شام کو گھر پلٹ آتے ہیں، ان کی غیبت میں بیچے بیع صحیح ہے کہ رجوع مرجوع ہے تو قدرۃ علی التسلیم حکما حاصل ہے یوں ہی جب بیّنہ عادلہ موجود ہے تو ڈگری ملنے کی امید قوی ہے تویہاں بھی قدرۃ حکمیہ حاصل ، اوریہی بس ہے، اسی طرح اگر غاصب مقرغصب وملک مالک ہوتا جب بھی بیع مالک صحیح ونافذ ہوتی کہ اقراربھی حق مقر میں مثل بیّنہ حجت ملزمہ ہے بلکہ ا س سے بھی اقوی، ولہٰذا اگر منکر بعد اقامت بیّنہ اقرار کردے حکم بربنائے اقرار ہوگا نہ کہ بربنائے بیّنہ ، ہاں اگروقت بیع عمرو نہ بکر مقر ملک عمرو تھا، نہ عمرو کے پاس بیّنہ شرعیہ، تو اب ضرور مسئلہ اشتراط قدرۃ علی التسلیم عائدہ ہوگا، ظاہر ہے کہ اس صورت میں عمرو کو نہ حقیقۃ قدرۃ التسلیم ہے نہ حکما کہ بے اقرار وبیّنہ ڈگری ملنا ہر گز مظنون نہیں، تو یہ غلام آبق کی مانند ہوا جو سرکشی کرکے بھاگ گیا اور غائب ہے، مالک اگر اسے بیع کرے گا ہر گز صحیح نہ ہوگی، یونہی نیا کبوتر کہ اڑگیاوہ ہلہ ہوا نہیں کہ واپس مظنون ہو اس کی بیع بھی جائز نہیں کہ قدرۃ التسلیم مفقود ہے، اگریہ صورت تھی تو خالد کو دعوٰی کا کوئی حق نہیں ، قدرۃ التسلیم میں ہمارے ائمہ کے دو قول ہیں، دونوں باقوت، اول یہ کہ وہ شرط انعقاد ہے ک بے اس کے بیع باطل محض ہے، دوم شرط صحت بیع ہے، کہ بے اس کے بیع فاسد ہے، پہلے قول پر تو ظاہر ہے کہ نہ خالد مشتری ہے نہ عمرو بائع، اجنبی محض کودعوٰی کا کیا اختیار، اور قول ثانی پر جبکہ بیع فاسد ہے اور بیع فاسد میں مشتری بے قبضہ مالک نہیں ہوتاپھر جبکہ فساد بوجہ عدم قدرۃ التسلیم ہے اور بیع فاسد میں ارتفاع مفسدبیع کو صحیح کردیتا ہے تو صحت بیع اس پر موقوف ہوئی کہ بکر مقر ہوجائے یا کوئی بیّنہ عادلہ ہاتھ آئے لہٰذا یہ بیع موقوف بھی ہوئی جیسے بیع مکروہ کہ فاسد بھی ہے اور موقوف بھی اور بیع موقوف بھی مفید ملک مشتری نہیں ہوتی تو بہر طور اس صورت میں خالد کے لئے مکان میں ملک نہیں، نہ اسے مکان پر دعوٰی پہنچے،
عالمگیریہ میں ہے :
اذا باع المغصوب من غیر المغاصب فھو موقوف ھوا لصحیح فان اقرالغاصب تم البیع ولزمہ، وان جھدو للمغصوب منہ بینہ فکذلک کذا فی الغیاثیۃ وان لکم یکن لہ بیّنۃ ولم یسلمہ حتی ھلک انتقض البیع کذا فی الذخیرۃ ۱؎۔
مالک نے مغصوب کوغاصب کے غیر کے ہاتھ بیچا تو صحیح یہ ہے کہ وہ بیع موقوف ہوگئی، اگر غاصب نے اقرار کیا توبیع تام ولازم ہوگئی، اگر اس نے انکار کیا اور مغصوب منہ کے پاس گواہ موجود ہیں تب بھی یہی حکم ہے یونہی غیاثیہ میں ہے اگر اس کے پاس گواہ موجود نہیں اور وہ مبیع کو مشتری کے حوالے نہ کرسکا حتی کہ مبیع ہلاک ہوگیا تو بیع ٹوٹ گئی یونہی ذخیرہ میں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب البیوع الباب التاسع الفصل الثالث نورانی کتب خانہ پشاور ۳ /۱۱۱)
درمختار میں ہے :
وقف بیع المالک المغصوب علی البیّنۃ اواقرار الغاصب ۲؎۔
مالک کا مغصوب کو فروخت کرنا غاصب کے اقرار یا گواہوں کے موجو دہونے پر موقوف ہوگا (ت)
(۲؎درمختار کتاب البیوع فصل فی الفصولی مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۳۱)
خانیہ میں قبیل فصل شروط مفسدہ ہے :
باع المغصوب من غیر الغاصب ان کان الغاصب جاحدا یدعی انہ لہ ولم یکن للمغصوب منہ بینۃ لایجوز بیعہ وان کان لہ بینۃ جازبیعہ ۱؎۔
مالک نے مغصوب کی بیع غیر غاصب کے ہاتھ کردی درانحالیکہ غاصب منکر غصب ہے اور اپنی ملکیت کا دعویدار ہے اور مغصوب منہ کے پاس گواہ بھی نہیں ہیں تو بیع جائز نہیں اور اگر اس کے پاس گواہ موجود ہیں تو بیع جائز ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب البیوع فصل فی البیع الباطل مطبع نولکشور لکھنؤ ۲/ ۳۴۲)
تنویر الابصارمیں ہے :
فسدبیع طیر فی الہواء لایرجع وان یطیر ویرجع صح ۲؎۔
ہواء میں اس پرندے کی بیع فاسد ہے جو واپس نہ آئے اور اگر وہ اڑتا ہے اور پھر واپس آجاتا ہے تو ہواء میں اس کی بیع جائز ہے۔ (ت)
(۲؎ الدرالمختار شرح تنویر الابصار کتاب البیوع فصل فی باب البیع الفاسد مطبع مجتبائی دہلی ۲/۲۴)
ردالمحتارمیں ہے :
قال فی الفتح لان المعلوم عادۃ کالواقع وتجویز کونہا لاتعود او عروض عدم عودھا لایمنع جواز البیع کتجویز ھلاک المبیع قبل القبض ثم اذاعرض الھلاک انفسخ کذا ھنا اھ وفی النہرفیہ نظر لان من شروط صحۃ البیع القدرۃ علی التسلیم عقبہ ولذا لم یجز بیع الاٰبق اھ قال ح فرق مابین الحمام و الاٰبق فان العادۃ لم تقض بعودہ غالباً بخلاف الحمام، وماادعاہ من اشتراط القدرۃ علی التسلیم عقبہ ان ارادبہ القدرۃ حقیقۃ فھو ممنوع والا لاشترط حضور المبیع مجلس العقد واحد لایقول بہ، وان ارادبہ القدرۃ حکما کما ذکرہ بعد ھذا فما نحن فیہ کذالک لحکم العادۃ بعودہ اھ قلت وھو وجیہ فھو نظیر العبد المرسل فی حاجۃ المولی فانہ یجوز بیعہ وعللوہ بانہ مقدرو التسلیم وقت العقد حکما اذا لظاہر عودہ ۱؎۔
فتح میں فرمایا اس لئے کہ معلوم عادی واقع کی مثل ہے محض اس بات کا امکان کہ وہ (پرندے) واپس نہ آئیں گے یاعدم رجوع کا انھیں عارض ہوجانا جواز بیع سے مانع نہیں جیساکہ قبضہ سے قبل ہلاک بیع کا امکان مانع بیع نہیں، پھر اگر مبیع کو ہلاکت عارض ہوگئی تو بیع فسخ ہوجائیگی، ایساہی یہاں بھی ہوگا، اھ اور نہر میں ہے کہ اس میں نظر ہے کیونکہ صحت بیع کی شرطوں میں سے ہے کہ بیع کے بعد تسلیم مبیع پر قدرت ہو، اسی لئے بھاگے ہوئے غلام کی بیع ناجائز ہے اھ، ح نے فرمایا کہ صاحب نہر نے کبوتر اور غلام میں فرق کیا ہے کہ عادت بھاگے ہوئے غلام کےواپس آنے کا حکم غالبا نہیں کرتی بخلا کبوتر کے، اور بیع کے بعد بیع کے مقدور التسلیم ہونے کے اشتراط کا جو دعوٰی صاحب نہر نے کیا ہے اس سے مراد اگر وقت تسلیم حقیقتا ہے تو یہ ممنوع ہے ورنہ مبیع کا مجلس عقد میں حاضر کرنا ضروری ہوگا حالانکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے اگر حکما ہے جیساکہ بعد خود انھوں نے ذکر کیا تو ہمارا زیر بحث مسئلہ بھی ایساہی ہے کیونکہ عادت کبوتر کے لوٹ آنے کاحکم کرتی ہے اھ میں کہتاہوں یہ قوی ہے پس یہ اس غلام کی نظیر ہے جسے مالک کے کام کے لئے کہیں بھیجا گیا ہو کیونکہ ا س کی بیع جائز ہے،اور فقہاء نے اس جواز کی علت یہ بیان کی ہے کہ وہ غلام بوقت بیع حکما مقدو التسلیم ہے کیونکہ ظاہر اس کالوٹ آنا ہے ۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب البیوع باب البیع الفاسد داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۱۰۷)