مسئلہ ۳۵: ازسورت عید روس منزل خانقاہ عید روسیہ مرسلہ حضرت سید علی بن زید بن حسن عید روس سجادہ نشین خانقاہ مذکور۲۳ذیقعدہ ۱۳۲۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین حسب ذیل مسئلہ میں کہ مسلمانوں کے اوقاف جو ثواب کی نیت سے بترغیب حکم رب العالمین وقف کئے جاتے ہیں وہ اوقاف کل کے کل مذہبی ہیں یا مذہب کے غیر یا بعض مذہبی اور غیر مذہبی؟ بینواتوجروا۔
الجواب
اوقاف جائزہ مطلقاً اگرچہ بے نیت ثواب کئے جائیں اگرچہ وقف کرنیوالے مسلمان بھی نہ ہوں خواہ ہمارے مذہبی تعلیم اعمال، عبادات کے لئے ہوں یا غریبوں کی مدد، تعلیم، طبی امداد وغیرہا کےلئے علی العموم سب مذہبی ہیں اور ان میں دست اندازی مذہبی دست اندازی، نیت وعدم نیت یا اسلام و کفرواقف سے یہ فرق پڑتا ہے کہ واقف اگرمسلمان ہواور ثواب کی نیت سے کرے(جیسا کہ عام اوقاف میں مسلمانوں کی یہی نیت ہوتی ہے) تو وہ اس کے لئے قربت و عمل صالح وباعث ثواب وقرب رب الارباب بلکہ اطلاق عام میں عبادت الٰہی ہے اور ایسا نہ ہوتو واقف کو ثواب نہ ملے گا مگر وقف فی نفسہ ضرور ہمارادینی مذہبی کام ہی رہے گا ولہذا اس میں دوشرطیں مطلقاً لازم ہیں:
ایک یہ کہ وہ کام جس کےلئے یہ وقف ابتداءً ہوا یا آخر میں اس کے لئے قرار پائے گا واقف کے نزدیک کار ثواب ہو وہ اس ثواب کی نیت کرے یا نہ کرے یہ اس کا فعل ہے کام مذہبی حیثیت سے ثواب کا ہونا چاہئے، جیسے غرباء کی امداد اگرچہ دواوغیرہ سے ہو۔
دوسرے یہ کہ وہ کام خود ہمارے مذہب اسلام کی روسے کارِ ثواب ہو اگرچہ وقف کرنے والا مسلمان نہ ہو۔
(۱) اسی لئے اگر اغنیا کے چائے پانی کے لئے ہوٹل بناکر وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ کوئی ثواب کا کام نہیں۔
(۲)کافر نے مسجد کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ اس کے خیال میں کارثواب نہیں۔
(۳)کافر نے ایک مندریا شوالے کے لئے وقف کیا وقف نہ ہوگا کہ یہ واقع میں کارِ ثواب نہیں۔
(۴)کافر نے ایک شوالے پر وقف کیا اس شرط پرکہ جب تک یہ باقی ہے وقف کی آمدنی اس میں خرچ ہواور جب شوالہ ٹوٹ کر ویران ہوجائے تو اس کے بعد یہ آمدنی محتاجوں پر صرف ہوا کرے وقف صحیح ہوجائے گا کہ اس کا آخر ایک ایسے کام کےلئے رکھا جو کار ثواب ہے یعنی امدا د مساکین، اور آج ہی سے اس کی ساری آمدنی امداد مساکین میں صر ف ہوگی شوالہ کو ایک پیسہ نہ دیا جائے گا، اور اس قسم کے بکثرت مسائل کتب معتمدہ میں مذکور ہیں، تو ثابت ہوا کہ وقف جائز کیسا ہی ہو کسی نے کیا ہو کسی طرح کیا ہو مطلقاً ہم مسلمانوں کا دینی مذہبی ہے، کام دو ہی قسم ہیں: دینی یا دنیوی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دنیوی کام میں ان دونوں شرطوں سے کوئی شرط نہیں، نہ یہی ضرور کہ فاعل کے نزدیک وہ کارِ ثواب ہو،نہ یہی لازم کہ مذہب اسلام نے اسے کارِ ثواب مانا ہو اور وقف میں مطلقاً یہ دونوں شرطیں لازم ہیں، تو ظاہر ہوا کہ وہ ہر گز دنیوی کام نہیں بلکہ خاص دینی ومذہبی ہے، اور یہی ہمیں ثابت کرنا تھا، اور اس پر ایک صریح دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمان اگر کیساہی وقف کسی غرض کاکرے اور پھر معاذاﷲ اسلام سے پھر جائے تو فوراً اس کا ہر وقف باطل ہوجاتا ہے وہ اس کے وارثوں پر مالکانہ تقسیم کردیےجاتے ہیں، یہاں تک کہ اگر مرتد ہوکر پھر اسلام لے آئے وقف عود نہ کرے گا جب تک بعد اسلام پھر از سر نو وقف نہ کرے اور یہ حکم عام ہے جس میں کسی وقف کی تخصیص نہیں تو کوئی وقف اگر ایسا بھی ہوتاجو مذہبی نہ ہو تو مذہب بدل جانے سے وہ کیوں باطل ہوجاتا تو معلوم ہوا کہ وقف کیسا ہی ہو مطلقاً مذہبی ہے، اب ان تمام مسائل پر عبارات کتب ملاحظہ کیجئے،
ردالمحتار مطبع قسطنطنیہ جلد دوم ص۴۲۳:
العتق والوقف والاضحیۃ ایضا عبادات۱؎۔
وقف، عتق اور قربانی بھی عبادات ہیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۲۵۸)
ہدایہ مع فتح القدیر مطبع مصر جلد پنجم ص۵۷:
الوقف ازالۃ الملک الی اﷲ تعالٰی علٰی وجہ القربۃ ۲؎۔
اپنی ملکیت کو عبادت کے طور پر زائل کرنا اﷲ تعالٰی کے لئے، اس کو وقف کہتے ہیں(ت)
(۲؎ الھدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیہ کراچی ۲ /۶۲۳)
فتح القدیر جلد مذکور ص۵۷ :
محاسن الوقف ظاہرۃ لما فیہ من ادامۃ العمل الصلاح کمافی الحدیث المعروف اذا مات ابن اٰدم انقطع عملہ الامن ثلث صدقۃ جاریۃ۳؎، الحدیث۔
وقف کے محاسن ظاہر ہیں کہ اس میں نیک عمل کا دوام ہے جیسا کہ معروف حدیث میں ہے کہ انسان کے فوت ہونے پر اس کے عمل تین کے ماسوا سب منقطع ہوجاتے ہیں، ان میں ایک صدقہ جاریہ ہے،الحدیث(ت)
(۳؎ فتح القدیر کتاب الوقف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۵ /۴۱۶)
درمختار مع شامی مطبع استنبول جلد سوم ص۵۵۴:
سببہ ارادۃ محبوب النفس فی الدنیا ببرالاحباب وفی الاٰخرۃ بالثواب یعنی بالنیۃ من اھلھا لانہ مباح بدلیل صحتہ من الکافر۱؎۔
دنیا میں احباب سے بھلائی او رآخرت میں ثواب کیلئے نفس کو خوش کرنا اس کا سبب ہے یعنی ثواب کی نیت اہل نیت سے، ورنہ مباح ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ وقف کرنا کافر کو بھی جائز ہے(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۷)
ایضاً صفحہ ۴۵۶ :
شرطہ ان یکون قربۃ فی ذاتہ۲؎۔
شرط یہ ہے کہ وہ اپنی ذات میں قربت ہو۔(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۷)
فتاوٰی عالمگیری مطبع احمدی جلد سوم ص۱۱۴ :
بیان شرائط وقف منھا ان یکون قربۃ فی ذاتہ وعند المتصرف۳؎۔
وقف کے شرائط کا بیان ایک شرط یہ ہے کہ فی نفسہ قربت ہو اور تصرف کرنے والے کے ہاں بھی قربت ہو(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۳۵۳)
ردالمحتار جلد سوم ص۵۵۲ :
فی النھر عن المحیط لو وقف علی الاغنیاء وحدھم لم یجز لانہ لیس بقربۃ امالو جعل اٰخرہ للفقراء فانہ یکون قربۃ فی الجملۃ۴؎۔
نہر میں محیط سے منقول ہے اگر صرف اغنیاء کےلئے وقف ہو تو صحیح نہیں کیونکہ یہ قربت نہیں، اگرآخر میں فقراء کے لئے کردیا تو فی الجملہ قربت ہوجائے گا۔(ت)
(۴؎ ردالمحتارکتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۵۷)
فتاوٰی ہندیہ جلد سوم ص۱۱۵ :
لوجعل ذمی دارہ مسجداللمسلمین ثم مات یصیر میراثالورثتہ وھذاقول الکل کذافی جواھر الاخلاطی ولوجعل ذمی دارہ بیعۃ اوکنیسۃ اوبیت نار فی صحتہ ثم مات یصیر میراثا ھکذاذکر الخصاف فی وقفہ وھکذاذکر محمد من الزیادات کذافی المحیط۱؎(ملخصا)۔
اگر ذمی نے اپنے گھر کو مسلمانوں کےلئے مسجد بنایا پھر فوت ہوگیا تو وہ اس کے وارثوں کے لئے میراث ہوگی اور یہ سب کا قول ہے یونہی جواہر اخلاطی میں ہے، اور اگر ذمی نے اپنا گھر بیعہ یا کنیسہ، یا آتشکدہ اپنی تندرستی میں بنادیا پھر فوت ہوا تو میراث قرار پائے گا۔ یوں خصاف نے اپنے وقف اور امام محمد نے زیادات میں بیان کیا، محیط میں ایسے ہی ہے(ملتقطا)(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۳۵۳)
فتح القدیر جلد پنجم ص۳۸ و ردالمحتار جلد سوم ص۵۵۷ :
لووقف الذمی علی بیعۃ مثلا فاذا خربت یکون للفقراء، کان للفقراء ابتداءً ولولم یجعل اٰخرہ للفقراء کان میراثا عنہ نص علیہ الخصاف فی وقفہ ولم یحک خلافا۲؎۔
اگر ذمی نے بیعہ (یہودی عبادت گاہ) کے لئے وقف کیا مثلاً خرابہ ہوجانے پر فقراء کےلئے کہا تو وہ ابتداء سے فقراء کے لئے ہوگا، اور اگر آخر میں (خرابہ کے وقت) فقراء کےلئے نہ کہتا تو پھر ورثاء کے لئے میراث بن جاتا، اس کوخصاف نے اپنے اوقاف میں بیان کیا اور اس میں خلاف قول ذکر نہ کیا۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۶۱)
اگرذمی نے کہا کہ اس زمین کی آمدن فلاں بیعہ پر وقف ہے اور جب یہ بیعہ خرابہ بن جائے تو زمین کی آمدن فقراء ومساکین کےلئے جاری رہے گی، تویہ آمدن شروع سے ہی فقراء ومساکین پر صرف ہوگی اور بیعہ پر کچھ بھی صرف نہ ہوگا، محیط میں یونہی ہے(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۳۵۳)
درمختار صفحہ۵۵۷ :
ارتد المسلم بطل وقفہ۴؎
(وقف کنندہ مسلمان مرتد ہوجائے تو ا سکا وقف باطل ہوجائیگا۔ت)
(۴؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۷۷)
ردالمحتار صفحہ مذکورہ :
ویصیرمیراثا سواء قتل علی ردتہ اومات اوعادالی الاسلام الا ان اعادالوقف بعد عودہ الی الاسلام۵؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور وہ وقف میراث قرار پائے گا خواہ ارتداد پر قتل ہوجائے یا طبعی موت مرجائے، یا دوبارہ مسلمان ہوجائے، مگر دوبارہ اسلام کی صورت میں اس وقف کو دوبارہ وقف کرے تو وقف رہے گا، واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۵؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۳۶۰)