مسئلہ۲۹ تا۳۳: ازاودے پور میواڑ راجپوتانہ مرسلہ سید احمد علی صاحب مہتمم مدرسہ نظامیہ عربیہ اسلامیہ ۶شعبان المعظم ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ایسی صورت میں کہ خالد نے ایک مدرسہ عربیہ دینیہ قائم کیا چندہ سے۔ اور شہر کے لوگوں سے خالد کا چندہ بھی زائد ہے اور نقل بیع نامہ جو ہمسلک ہذا ہے اس میں خالد نے علاوہ اپنے چھ نام دیگر برائے قائمی مدرسہ درج کرائے یعنی خالد، مولوی شمس الدین صاحب، چڑوہ رحیم بخش صاحب، حاجی محمد فاضل صاحب، رسالدار حسن خاں صاحب، مہاوت موتی خاں صاحب، الہ بخش صاحب، منجملہ ان کے رسالدار حسن خاں صاحب اور حاجی محمد فاضل صاحب مرچکے، محمد فاضل صاحب کا جزوی روپیہ تھا
اور رسالدار حسن خاں صاحب اور مہاوت موتی خاں صاحب کا چندہ کچھ نہیں صرف احتیاطاً نام درج بطور اطمینان کردئے گئے کہ کوئی مدرسہ کو ذاتی ملکیت نہ بنالیوے۔ الہ بخش جی کا بھی تھوڑا روپیہ تھا وہ اور رحیم بخش جی اور فاضل جی کا تعلیم میں صرف ہوگیا زمین جو برائے مدرسہ خریدی گئی وہ سب باہر کے چندہ آوردہ خالد اور خالد کے ذاتی چندہ سے خرید کی گئی، جو عمارت مدرسہ اس وقت موجود ہے وہ باہر کے چندہ آوردہ خالد اور احباب خالد سے تعمیر ہوئی ہے تو خالد کا حق دوسروں کے مقابلہ میں اس مدرسہ پر کس قدر ہے فتوی عطا ہو۔
(۲) صورت مسطورہ بالا میں واقف کل کون ہوا اور اگر وقف مشترکہ مانا جاوے تو واقف اعظم کون ہوا صاف حکم فرمایا جائے، خالد حدیث شریف
الدال علی الخیر کفاعلہ۱؎
(نیکی بتانے والا نیکی کرنے والے کی مانند ہے۔ت) سے بھی فائدہ پائے گا یانہیں؟
(۱؎ جامع الترمذی باب ماجاء ان الدال علی الخیر کفاعلہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۹۱)
(۳) ایسے چندہ مسطورہ بالا سے جو ہر سال آمد ہو کر تعمیر اور تعلیم میں صرف ہوتا رہا کیا وقف ہوسکتا ہے کل آمد سالانہ ہو وہ صرف ہوجائے یعنی مدرسہ وقف مانا جائے گا یا کیا۔
(۴) اگرخالد وقف بھی کرنا چاہے تو وقف مانا جائے یا کوئی صورت عارض ہوگی حالانکہ خالد نے چندہ شہر اور باہر سے خدا واسطے مانگ کر لایا اور لگایا اور اپنا وقت سفر اور حضر بلا معاوضہ صرف کیا خالد جو کہ اول سے بانی اور متولی مدرسہ ہے بلاوجہ شرعیہ گروہ جہال جنہوں نے چندہ دیایانہ دیا ہو الگ کرسکتے ہیں ذاتی عداوت سے۔
(۵) سواد اعظم میں گروہ جہال مانے جائیں گے یا پڑھے لکھے پابند اسلام؟
نقل بیعنامہ
تحریر از طرف پٹھان حسن خاں وحاجی محمدخان پسران خواجو خاں سکنہ شہر بنام جملہ انجمن والان مسمی رحیم بخش جی چڑوہ رنگریز، مولوی سید شمس الدین جی، مہاوت موتی خاں جی، الہ بخش جی، رسالدار حسن خاں جی، قاضی احمد علی، حاجی محمد فاضل جی شہر والوں کے روپیہ (ال سالہ للعہ ۱۶۴۱) اودے پوری دینا جس کے بدلہ میرے باپونیکی جگہ نیم سیم سمیت مع چبوترہ وجملہ حقوق بخشش کردئے اور قابض ومتصرف بھی کرادیا روپیہ اس طرح پر لئے (۱ل معہ معہ۱۰۷۷)تو پٹھان عمر خاں نیاز محمد خان کو رہن کے آپ نے چکائے وتحریرات رہن آپ نے لے لی اور مبلغ (مال مہ معہ ۲۷۵) چوڑی گر محمد علی کو بابت دعوٰی دیوانی کے آپ چکا ناکم دو یا زیادہ اور مبلغ (مال لعہ لہ ۲۸۹) ہم نے نقد آپ سے وصول کرلئے غرضکہ (ال سال للعہ ۱۶۴۱) کل بھر پائے فیس نقشہ ورجسٹری وغیرہ سب آپ کے ذمہ ہے اس جگہ بابت ہمارے بھائی گرایہ وغیرہ کوئی دعوٰی جھگڑا کریں گے نہیں، اگر کریں گے تو ان کا من میں مناؤں گا لہذایہ تحریر بیعنامہ سنداً لکھ دی کہ وقت ضرورت کام دے۔
دستخط حسن خاں وحاجی محمد خاں مع گواہان
مکرر یہ کہ زمین زیادہ قیمت کی تھی مگر مسطورہ بالاروپیہ میں آپ کو فروخت کرکے بخشش کردی کہ پھر کوئی دعویدار نہ ہوسکے( سمہ ۱۹۶۳) بکرمی کے بیساکھ بدی۷،
الجواب
ہبہ بالعوض بیع ہے بیع جتنے اشخاص کے نام ہوئی سب مالک ہوئے اگرچہ روپیہ ایک ہی دیتا وہ اوروں کے حصے کا زرثمن ادا کردینے میں متبرع ہے جبکہ ان سے واپسی قرار نہ پائی ہو جیسا یہاں ہے ہم نے اپنے فتاوٰی کتاب الوقف میں ثابت کیا ہے کہ زر چندہ چندہ دہندوں کی ملک پر رہتا ہے اور محصل کا ان کے اذن عرفی سے غلط کرلینا اسے مالک نہ کردے گا اور جبکہ انہوں نے مدرسہ بنانے کے لئے خالد کو چندہ دیا تو اسے شراء زمین وتعمیر کا ماذون کیا اور ان کا روپیہ ان کے اذن سے اس نے شراء وتعمیر میں صرف کیا تو وہ زمین و عمارت تمام مشتریوں اور چندہ دہندوں کی ہوئی جس کا ایک پیسہ چندہ ہو اور جس کا ہزار روپے سب شریک ہیں، اور جبکہ دینی مدرسہ نفع عام مسلمین کے لئے بنانا مقصود تھا اس میں کسی کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ میں کسی جز کا مالک رہوں اور اس سے انتفاع ایک مدت محدود تک ہو پھر میری ملک میں واپس آئے جبکہ اپنی ملک سے خارج کرکے ہمیشہ کے لئے نفع مسلمین کے واسطے کردینا مقصود ہوتا ہے اور یہی حاصل وقف ہے تو اگرچہ نصاً وہ سب لفظ وقف نہیں کہتے عرفاً دلالۃً وقف کرتے اور وقف ہی سمجھتے ہیں،
ذخیرہ وخانیہ وعالمگیریہ میں ہے:
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امرقوماان یصلوا فیہا بجماعۃ فان امرھم بالصلٰوۃ فیہا ابدا نصاًبان قال صلوا فیہا ابدااوامرھم بالصلٰوۃ مطلقا ونوی الابد صارت الساحۃ مسجدا وان وقت بالشھراوالسنۃ لاتصیر مسجدا۔۱؎
ایک شخص نے اپنے خالی میدا ن میں لوگوں کوباجماعت نما ز پڑھنے کی صراحۃً ابدی اجازت دی یا مطلقاً کہہ دیا کہ اس میں نماز پڑھو اور نیت ابدی کرلی تو وہ میدان مسجد قرار پائے گا اور اگرمہینے یا سال کے لئے نمازپڑھنے کو کہا تو وہ مسجد نہ قرار پائے گا۔(ت)
(۱؎ الفتاوٰی الہندیۃ کتاب الوقف الباب الحادی عشر فی المسجد نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۳۵۵)
تو وہ ایک مکان ہے جس کی زمین وعمارت سب ان سب کی ملک مشترک ہو کر ان سب کی طرف سے وقف ہوئی اور حق کہ واقف کو وقف پر ہوتا ہے سب کو بروجہ کمال یکساں حاصل ہو ااس میں کمی بیشی چندہ پر لحاظ نہ ہوگا کہ یہ حق متجزی نہیں اور حق غیر متجزی ہر شریک کے لئے کاملاً حاصل ہوتا ہے ۔
اشباہ والنظائر میں ہے:
ماثبت بجماعۃ فھو بینھم علی سبیل الاشتراک الافی مسائل، الاولی ولایۃ الانکاح للصغیروالصغیرۃ ثابتۃ للاولیاء علی سبیل الکمال لکل(الی ان قال) والضابط ان الحق اذاکان ممالایتجزی فانہ یثبت لکل علی الکمال فالاستخدام فی المملوک ممالایتجزی۱؎۔
جو چیز پوری جماعت کے نام ہوتو وہ ان سب میں مشترک ہوگی ماسوائے چند مسائل کے، جن میں سے ایک نکاح دینے کی ولایت جو تمام اولیاء کو نابالغ لڑکے اورلڑکی پر حاصل ہے اور یہ ہر ایک کو مستقل حاصل ہے (آگے یہاں تک فرمایا ) اس کا ضابطہ یہ ہے کہ اگر حق غیر متجزی ہوتو یہ ہر ایک کو مستقل ہوگا، تو مشترکہ غلام سے خدمت لینا ہر ایک کو مستقل حق ہے کیونکہ یہ بھی غیر متجزی ہے (ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر کتاب النکاح ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۱/ ۴۵۔۲۴۴)
خالد بشرط حسن نیت وقبول حضرت عزت
الدال الخیر کفاعلہ۲؎
(نیکی بتانے والا نیکی کرنے والے کی مانند ہے۔ت) کافائدہ روز جزائے پائے گا ۔
(۲؎ جامع الترمذی باب ماجاء ان الدال علی الخیر کفاعلہ امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی ۲/ ۹۱)
خالد اب اسے جدید وقف کرکے واقف کل نہیں بن سکتا وقف دوبارہ وقف نہیں ہوسکتا نہ خالد مالک کل ہے اور وقف کی شرط ملک ہے، خالد کومدرسہ سے جدا کرنے کی اگر کوئی وجہ شرعی نہ ہوتو جہال ہوں یا علماء بلاوجہ محض نفسانیت سے جو کریں مسموع نہیں ہوسکتا جبکہ خود حاکم قاضی کو کسی صاحب وظیفہ تک کا بے گناہ معزول کرنا نہیں پہنچتا۔
بحرالرائق پھر ردالمحتار میں ہے:
استفید من عدم صحۃ عزل الناظر بلا جنحۃ عدمھا لصاحب وظیفۃ فی وقف بغیر جنحۃ وعدم اھلیۃ۳؎۔
بغیر جرم نگر ان کی معزولی کی عدم صحت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ وقف کا کوئی نگران باوظیفہ ہوتو بھی بغیرجرم اور نااہلیت کے بغیر معزول نہیں کیا جاسکتا(ت)
لازمی طور پر معزول کیا جائے، بزازیہ۔ اگرچہ واقف ہی کیوں نہ ہو، درر۔ توغیر بطریقِ اولٰی جب وہ ناقابل اعتماد نااہل، یا اس کا فسق ظاہر ہوچکا ہو مثلاشرابی ہونا وغیرہ فتح۔(ت)
(۴؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۸۳)
سواداعظم اہلسنت ہیں فرعیات میں حکم شرع کے خلاف کثرت وقلت جماعت پرنظر نہیں امور انتظامی جن میں شرع مطہر کی جانب سے کوئی تحدید نہ ہو ان میں کثرت رائے کا لحاظ ہوتا ہے اس میں ہرذی رائے مسلمان سنی کی رائے ملحوظ ہوگی اگرچہ عالم نہ ہو کہ معاملہ شرعیات سے نہیں بلکہ بارہا تجربہ کار کم علموں کی رائے کسی انتظامی امر میں ناتجربہ کار ذی علم کی رائے سے صائب تر ہوسکتی ہے
انتم اعلم باموردنیاکم۱؎
(تم اپنے دنیاوی امور کوبہتر جانتے ہو۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب امتثال ما قالہ شرعاً الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۶۴ )
مسئلہ۳۴:مسئولہ مولوی ظہور حسین صاحب ساکن بریلی محلہ کنگھی ٹولہ۲۴رجب المرجب ۱۳۲۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نے اپنی حیات میں ایک جزو زمینداری معہ ایک قطعہ مکان موسوم امام باڑہ بغرض امورات مذہبی بشرائط ذیل بنام خدائے برتر وقف کرکے وقف نامہ مصدقہ رجسٹری لکھ دیا اور قبضہ دخل جزواً و کلاً اٹھاکر خدا کی ملک میں دے دیا اور کوئی تعلق اپنا کسی قسم کا نہ رکھا اور دو متولی مقرر کرکے عمل درآمد باضابطہ کرادیا اغراض وقف کے شرائط مجوزہ ہندہ واقفہ یہ ہیں:
اول یہ کہ جو منافع خالص رہے اس میں سے محفل میلاد شریف حضرت خاتم الانبیاء صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وحضرت علی مرتضی کرم اﷲ وجہہ ونذر ونیاز وغیرہا سید الشہداء امام حسن وامام حسین علیہما السلام وفاتحہ برسی اموات ومرمت شکست و ریخت امام باڑہ باہتمام متولیان ہو۔
دوسرے یہ کہ اگر متولیان مذکور بلا کسی کو متولی یا قائم مقام اپنا کئے فوت ہوجائیں تو اولاد ذکور لائق متولیان ہندہ سے متولی ہوگی کوئی شخص مستحق تولیت کا نہ ہوگا بلکہ یہ سلسلہ خاندانی تاقیام زمانہ نسلاً قائم رہے گا کوئی کمیٹی و انجمن موقوفہ میں دست انداز نہیں ہوسکتی کیونکہ محاصل اس وقف کا بنا براجراء کارِ خیر ونذر ونیاز رکھاگیا ہے تاکہ نام میرا دنیا وآخرت میں ہمیشہ کو رہے اور ثواب ملتا رہے۔ ایساوقف اور یہ اصراف اوقاف شرعی یعنی بموجب شرع محمدی کے جائز ہے یانہیں ؟بینواتوجروا۔
الجواب
جبکہ وہ جائداد اوریہ مکان اس وقف کرنے کے وقت ہندہ کی ملک تھی اور اب اس نے مصارف خیر مذکورہ کے لئے وقف کردئے وقف جائز وصحیح ولازم ہوگیا اور مصارف مذکورہ شرعاً جائز ہیں۔
ہدایہ میں ہے :
ووقف المشاع جائز۲؎ قال فی الدرر وبہ یفتی۱؎۔
غیر منقسم جائداد کا وقف جائز ہے، درر میں ہے کہ اسی پر فتوٰی ہے۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲ /۶۱۸)
(۱؎ الدررالحکام فی شرح غرر الاحکام کتاب الوقف مطبعہ احمد کامل الکائنہ ۲ /۱۳۴)
اور وقت وقف اس کا مالک ہونا ضروری ہے،
شامی ج ۳ص۵۵۵میں ہے:
شرطہ شرط سائر التبرعات افاد ان الواقف لابدان یکون مالکالہ وقت الوقف ملکاتاما۲؎۔
اس کی شرط وہی ہے جو تمام تبرعات کی شرط ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ واقف کا بوقتِ وقف کامل مالک ہونا ضروری ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۵۹)
وقف کے لئے کتابت ضروری نہیں زبانی الفاظ کافی ہیں،خیریہ میں ہے:
یہ کہ جہت وقف لکھی جائے اور دفتری کتب میں لکھائی تو یہ شرط شرعاً لازم نہیں بلکہ شرعی طریقہ کے مخالف ہے کیونکہ صرف لفظی طور پر کہہ دینا کافی ہے اور اس سے زائد شرعاً کوئی ضروری نہیں۱ھ(ت)
(۳؎ فتاوی خیریۃ کتاب الوقف دارالمعرفۃ بیروت ۱ /۲۱۶)
اور ولایت کو اپنے خاندان میں شرط کر دینا بھی صحیح ہے اور وہ اسکا متولی رہے گا جب تک کہ اس کی خیانت یا عجز یا فسق ظاہر نہ ہو ورنہ اس سے ولایت لے لی جائے گی اگر متولی خود واقف ہی ہو،
درمختار صفحہ۵۹۴میں ہے:
وینزع وجوبا لوکان المتولی غیرمامون او عاجزاً وظہربہ فسق وان شرط عدم نزعہ او ان لاینزعہ قاض ولاسلطان لمخالفتہ لحکم الشرعی فیبطل کالوصی۴؎اھ ملخصاً ومختصرا۔
اور متولی غیر معتمد علیہ ہو، یانالائق ہو، یا اس کا فسق ظاہر ہوچکا ہو تو اس کو معزول کرنا ضروری ہے اگرچہ معزول نہ کرنے کی شرط کی ہو، یا یہ کہ قاضی اور سلطان بھی نہ معزول کرے گا، تو شرع کے مخالف ہونے کی وجہ سے یہ شرط باطل ہے جیسا کہ وصی کے متعلق حکم ہے ۔اھ ملخصاً مختصراً (ت) واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔