Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
76 - 112
مسئلہ۲۷۲: ازقصبہ حسن پور ضلع مراد آباد تحصیل حسن پور مرسلہ اشرف علی خاں ۲۴ربیع الاول شریف ۱۳۳۶ھ

ایک شخص کے سپرد مسجد کی روشنی کا اہتمام ہے اور اس کو دوسرا شخص تیل کے لئے صرف دیتا ہے اب پہلے شخص نے جس کو روپیہ صرفہ کےلئے دیا جاتا ہے اس نے روشنی میں کمی کرکے یا زیادہ صرفہ لے کر اور کم صرف کیا اور کچھ دام بچا کر وہ اپنے ذاتی صرفہ میں لایا، اور اب وہ شخص جو اپنے صرفہ میں لایا ہے اس مقام سے چلا آیا اور دوسرے مقام پر موجود ہے اب اس کا خیال ہے کہ میں نے جو کچھ بچایاتھا اور صرف کیا وہ اداکردوں اور میرا یہ گناہ معاف ہوجائے تو اب اس کو کیاکرنا چاہئے آیا وہ اسی مسجد میں اسی تیل کو روشنی کے کام دے یا وہ دوسری مسجد میں جہاں وہ اب موجود ہے وہاں پر کسی مسجد شکستہ یا قلعی وغیرہ کیلئے دے دے جس سے اس کا گناہ معاف ہو۔
الجواب: اس پر توبہ فرض ہے اور تاوان ادا کرنا فرض ہے جتنے دام اپنے صرف میں لایا تھا اگر یہ اس مسجد کا متولی تھا تو اسی مسجد کے تیل بتی میں صرف کرے دوسری مسجد میں صرف کر دینے سے بری الذمہ نہ ہوگا، اور اگر متولی نہ تھا تو جس نے اسے دام دئے تھےاسے واپس کرے کہ تمہارے دئے ہوئے داموں سے اتنا خرچ ہوا اور اتنا باقی رہا تھا کہ تمہیں دیتا ہوں،
لانہ ان کان متولیا فقد تم التسلیم والا بقی علی ملک المعطی۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اس لئے کہ اگر وہ متولی ہے تو تسلیم تام ہوگئی ورنہ معطی کی ملک پر باقی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ۲۷۳: ازکانپور مدرسہ امدادالعلوم محلہ بانس منڈی مرسلہ شمس الہدی۲۷ربیع الاول ۱۳۳۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ عورت نے ایک مسجد تیار کرائی حالانکہ وہ اور اولاد سب اس کی سود ورشوت کھاتے ہیں اور قبل ان افعال ناجائز کے وہ مفلس تھے اور ۱۷،۱۸ آدمی جو پرہیز گار ومتقی ہیں اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ مسجد حرام کے مال سے تیار کرائی گئی لیکن بانی مسجد اور اس کے دوچار متبع کہتے ہیں کہ حلال کے مال سے بنائی گئی، بنا بران صورتوں کے چند مسلمانوں نے اتفاق ہوکر دوسرے محلہ میں ایک مسجد جدید بنائی ہے بناءً علیہ کہ اس میں نماز نہیں ہوگی،پس ان صورتوں میں کس میں نماز شرعاًناجائز؟اگر ناجائز تو کون سی ناجائز؟اور کس میں شرعاً بہتر اولٰی؟بینواتوجروا۔
الجواب: اس بارے میں صاحب مال کا قول شرعاً معتبر ہے، اگر وہ کہے یہ مال مجھے وراثۃًملا تھا یا میں نے قرض لے کر لگایا تو مانا جائے گا، اور اس سے کوئی دلیل اس پر طلب نہ کی جائے گی   کما نص علیہ فی العالمگیریۃ وغیرہا   (جیسا کہ عالمگیریہ وغیرہ میں اس پر نص کی گئی ہے۔ت)
 ان سترہ اٹھارہ کا کہنا اگر صرف اس بناء پر ہے کہ ان لوگوں کے پاس مال حرام ہے تو وہی لگایا ہوگا جب تو محض بے دلیل ہے ان کے پاس صرف مال حرام کب ہے، سائل سود کھانا بتاتا ہے سود بلاشبہ حرام ہے مگر اس کیلئے اصل درکار ہے اصل نہ ہوگی تو سود کاہے پر لے گا، سود کے حرام ہونے سے اصل کیوں حرام ہونے لگی، اور بالفرض ان کے پاس صرف مال حرام ہی ہو تو کیا یہ لوگ شہادت دیں گے کہ انکے سامنے ان لوگوں نے  اپنا مال حرام بائعوں کو دکھایا اور ان سے کہا کہ ان روپوں کے عوض ہم کو اینٹ کڑی تختہ دے دو جب انہوں نے دی وہی زر حرام انہوں نے ثمن میں دے دیا اور اس طرح کا اینٹ کڑی تختہ خریداہوا مسجد میں لگایا یونہی مسجد کی زمین اپنا مال حرام بائع کو دکھا کر خاص اس کے عوض خریدی اور وہی ثمن میں دیا اور ایسی خریدی ہوئی زمین کو مسجد کیا، ان سترہ اٹھارہ میں ایک بھی ایسی شہادت نہ دے سکے گا اور جب اس طرح خریداری نہ ہوتو ان کا مال حرام سہی اینٹ کڑی تختہ زمین جو کچھ خریدا حلال تھا،
کما حققہ فی الطریقۃ المحمدیۃ والحدیقۃ الندیۃ بل رجح فوق ذٰلک وقد بیناہ فی فتاوٰنا۔
جیسا کہ طریقہ محمدیہ اور حدیقۃ ندیہ میں اس کی تحقیق (مصنف کتاب نے) فرمائی بلکہ اس کو ترجیح دی اور ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کو مفصل بیان کیا ہے۔(ت)
لہذا اس مسجد کا آباد کرنا مسلمانوں پر لازم، اور وہ دوسری مسجد جو اﷲ عزوجل کےلئے بنائی وہ بھی مسجد ہے۔ 

واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۷۴: ازشہر مرسلہ حافظ چھٹن محلہ ذخیرہ ۲۰ربیع الثانی ۱۳۳۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک ہندو کے مبلغ لعہ۹ روپیہ سود ہے ایک مسلمان پر چاہئے ہیں مسلمان روپیہ دینے سے انکار کرتا ہے کیونکہ اس کے پاس روپیہ نہیں ہے وہ ضامن طلب کرتا ہے ضامن بھی نادہندہے کچھ مسلمانوں نے اس ہندو سے کہا کہ یہ روپیہ مسجد کے نام تو اگر کردے تو ہم وصول کرلیں گے، لہذا یہ روپیہ مسجد میں جائز ہے یاناجائز؟
الجواب

جبکہ اس میں سود بھی شامل ہے تو اتنا تو حرام قطعی ہے اور اگر پہلے یہ کچھ سود میں دے چکاہو تو اتنا اصل میں مجراہونا لازم ہے جتنا باقی رہا اتنا اگر وہ ہندو اپنی خوشی سے کسی مسلمان کو دے اور اسے وصول کرنے کااختیار دے تو اب وہ روپیہ اس مسلمان کا ہے اسے مسجد میں لگادینے میں کوئی حرج نہیں اور اگر وہ کسی مسلمان کونہ دے بلکہ یہی کہے کہ وہ وصول کرکے میری طرف سے مسجد میں لگادو تو نہ لیا جائے
حدیث میں فرمایا:
انی نھیت عن زبد المشرکین۱؎
 (مجھے مشرکوں کی داد ودہش سے منع کردیا گیا ہے۔ت)
 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب السیر     باب ماجاء فی قبول ہدایا المشرکین     امین کمپنی دہلی         ۱/ ۱۹۱)
نیز فرمایا:
انا لا نستعین بمشرک۱؎
 (بیشک ہم کسی مشرک سے مدد طلب نہیں کرتے۔ت) واﷲتعالٰی اعلم۔
 (۱؎ سنن ابوداؤد     کتاب الجہاد         باب فی المشرک یسہم لہ    آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۱۹)

(سنن ابن ماجہ        ابواب الجہاد        ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۰۸)

(المصنف لابن ابی شیبہ     کتاب الجہاد         باب فی الاستعانۃ بالمشرکین    ادارۃ القرآن کراچی۱۲/ ۳۹۵)
مسئلہ ۲۷۵: ازموضع سرنیا ضلع بریلی مرسلہ شیخ امیر علی صاحب قادری رضوی۲۹ربیع الآخر۱۳۳۶ھ

کنواں سر راہ ہے اس سے سب قوم پانی پیتی ہے، ہندومسلمان۔ اور مسجد بھی قریب ہے، مسجدکے خرچ میں اسی کنویں کا پانی آتا ہے، اس وقت وہ کنواں مرمت کرنے کے لائق ہے، اگر ہندو اس کی مرمت کرائے تو کچھ حرج ہے یانہیں؟
الجواب: سائل نے بیان کیا کہ وہ کنواں مسجد کا نہیں، نہ وہاں کوئی آبادی ہے، مسافر لوگ مسجد میں نماز پڑھتے، کنواں راہ گیروں کے لئے ہے، ہندو اس کی مرمت کرانا چاہتا ہے کرائے، جبکہ وہ اس کی وجہ سے کوئی استحقاق اپنا ایسا نہ کرے کہ وضو وغسل میں مزاحم ہوسکے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۷۶: ازسہسرام ضلع گیامرسلہ حکیم سراج الدین احمدصاحب ۳جمادی الآخرہ۱۳۳۶ھ

فر ق درمیان فضائل مسجد ومدارس کے کیاہیں؟حضور آقائے نامدار رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی کوئی مدرسہ تعمیر کیا تھا یانہیں؟
الجواب: حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی مدرسہ تعمیر نہ فرمایا، نہ صدر اول میں کوئی عمارت بنام مدرسہ بنانے کا دستور تھا۔ ان کی مساجد ان کی مجالس یہی مدارس ہوتی تھیں۔ ہاں تعلیم علم دین ضرور فرض ہے اسی لئے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت ہوتی ہے۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انما بعثت معلما۲؎۔ حضور انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے معلم بناکربھیجا گیا۔(ت)
(۲؎ سنن ابن ماجہ    باب فضل العلماء الخ    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۲۰)
وقال صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم انما انالکم بمنزلۃ الوالد اعلمکم۱؎۔
حضور اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:میں تمہارے لئے بمنزلہ والدکے ہوں تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔(ت)
 (۱ ؎ سنن ابوداؤد     کتاب الطہارۃ     باب کراہیۃ استقبال القبلۃ    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/ ۳)
وقال عزوجل یعلمھم الکتٰب والحکمۃ۲؎۔
اﷲ عزوجل نے فرمایاکہ وہ (نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم) ان لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۲۹)
مساجد کی تعمیر واجب ہے اور مدرسہ کے نام سے کسی عمارت کا بنانا واجب نہیں، ہاں تعلیم علم دین واجب ہے اورمدرسہ بنانا بدعت مستحبہ تعمیر مسجد کی فضیلت بیشمار ہے،
نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من بنی ﷲ مسجدا بنی اﷲ لہ بیتا فی الجنۃ۳؎ وفی روایۃ من درویاقوت۴؎۔
جو  اﷲ عزوجل کے لئے مسجد بنائے اس کے لئے اﷲعزوجل جنت میں موتیوں اور یاقوت کا گھر بنائے۔
(۳؎ سنن ابن ماجہ     ابواب المساجد     باب من بنی ﷲ مسجداً     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ص۵۴)

(مسند احمد بن حنبل    مروی از مسند عبداﷲ بن عباس     دارالفکر بیروت    ۱/ ۲۴۱)

(۴؎ المعجم الاوسط    حدیث ۵۰۵۵    مکتبۃ المعارف الریاض    ۶/ ۲۷)
Flag Counter