Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
75 - 112
 (۴) حرام ہے، اور جتنے دنوں اس نے اپنے تصرف میں رکھا اتنے دنوں کا کرایہ جو حصہ وقف کا نرخ بازار سے ہوا اتنا تاوان اس پر لازم ہوگا کہ وقف کے لئے ادا کرے اور اپنا روپیہ لگا کر جو کچھ اس نے بنایا اگر وہ کوئی مالیت نہیں رکھتا وہ وقف کا مفت قرار پائے گا۔ اور اگر مالیت ہے تو وہی حکم ہے کہ اگر اس کا اکھیڑ نا وقف کو مضر نہیں جتنا اس نے زیادہ کیا اکھیڑ کر پھینک دیا جائے گا وہ اپناعملہ اٹھا کر لے جائے اور اگر اس کے بنانے میں اس نے وقف کی کوئی دیوار منہدم کی تھی تو اس پر لازم ہوگا کہ اپنے صرف سے وہ دیوار ویسی ہی بنادے اور اگر ویسی نہ بن سکتی ہو، بنی ہوئی دیوار کی قیمت ادا کرے اور اگر اکھیڑ نا وقف کو مضر ہے تو نظر کریں گے کہ اگر یہ عملہ اکھیڑ اجاتا تو کس قیمت کا رہ جاتا، اتنی قیمت مال مسجد سے اسے دیں گے، اگر فی الحال اس درخت یا اس عملہ کی قیمت مسجد کے پاس نہیں تو یہ یا اور کوئی زمین متعلق مسجد یا دیگر اسباب مسجد کرایہ پر چلاکر اس کرایہ سے قیمت ادا کرینگے اس کےلئے اگر برس درکار ہوں اسے تقاضے کا اختیار نہیں کہ ظلم اس کی طرف سے ہے، یہ سب اس حال میں ہے کہ وہ عمارت اس شخص کی ٹھہرے یعنی متولی تھا تو بناتے وقت گواہ کرلئے تھے کہ اپنے لئے بناتاہوں یا غیر تھا تو یہ اقرار نہ کیا کہ مسجد کے لئے بناتا ہوں ورنہ وہ عمارت خود ہی ملک وقف ہے اور یہ جو ہم نے قیمت لگانے میں اکھڑے ہوئے عملہ کا لحاظ کرنا کہا اس بنا پر ہے کہ غالباً بعد انہدام عملہ کی قیمت گھٹ جاتی ہے، اور اگر حالت موجودہ ہی قیمت حالت ہدم سے کم ہوتو یہی کم لازم آئیگی۔
عقود الدریہ جلد اول ص۱۵۶:
اذاثبت کونہ وقفا وجبت الاجرۃ لہ فی تلک المدۃ لان منافع الوقف مضمونۃ علی المفتی بہ۱؎۔
جب اس کا وقف ہونا ثابت ہوگیا تو اس کی اجرت واجب ہے کیونکہ مفتی بہ قول کے مطابق منافع وقف پر ضمان لازم  ہوتا ہے(ت)
(۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ     کتاب الوقف الباب الثانی     ارگ بازار قندھار افغانستان     ۱/ ۱۷۹)
اشباہ والنظائر مع الغمز صفحہ۳۰۰:
من ھدم حائط غیرہ یضمن نقصانھا ولایؤمر بعمارتھا الافی حائط المسجد کما فی کراھۃ الخانیۃ۲؎۔
جس نے غیر کی دیوار گرادی اس کے نقصان کا ضامن ہوگا مگر اس کی تعمیر کا حکم اس کو نہیں دیاجائے گا سوائے دیوار مسجد (کہ اس کی تعمیر کا حکم دیا جائیگا)جیسا کہ خانیہ میں کتاب الکراہۃ میں ہے(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الغصب     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۹۷)
ردالمحتار جلد پنجم ص۱۷۶:
فی شرح البیری اما الوقف فقد قال فی الذخیرۃ اذاغصب الدار الموقوفۃ فھدم بناء الدار للقیم ان یضمنہ قیمہ البناء اذا لم یقدر الغاصب علی ردھا ویضمن قیمۃ البناء مبنیا، لان الغصب وردھکذااھ ومقتضاہ انہ اذاامکنہ ردالبناء کما کان وجب ولم یفصل فیہ بین المسجد وغیرہ من الوقف، ولذاقال البیری فیما سبق وھذا فی غیرالوقف وفی فتاوی قاری الھدایۃ استاجر دارا وقفا فھدمھا وجعلھا طاحونا، الزم بھدمہ واعادتہ الی الصفۃ الاولٰی اھ فظھران لافرق بین المسجد وغیرہ من الوقف بخلاف الملک اھ مختصرا۱؎۔
شرح بیری میں ہے لیکن وقف تو اس کے بارے میں ذخیرہ میں فرمایا کہ اگر کسی نے وقف شدہ گھر غصب کیا اور اس کی دیوار گرادی تو ناظر وقف کو اختیار ہے کہ وہ اس کو عمارت کی قیمت کا ضامن ٹھہرائے اگر غاصب اس کی تعمیر پر قادر نہ ہو اور تعمیر شدہ عمارت کی قیمت کاضامن ٹھہرایا جائے گا کیونمکہ غصب اسی پر واقع ہوا اھ اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جب غاصب سابقہ حالت پر عمارت بنانے پر قادر ہو تو ایسا کرنا واجب ہے اور اس حکم میں مسجد اور دوسرے وقف میں کوئی فرق نہیں اسی واسطے بیری نے ماقبل میں کہا کہ یہ غیر وقف کا حکم ہے، فتاوٰی قاری الہدایہ میں ہے کہ ایک شخص نے وقفی گھر کرایہ پر لیا اور اس کو گراکر آٹا پیسنے کی چکی بنالی تو اس پر لازم قرار دیا جائے گا کہ وہ چکی کو گراکر مکان کو پہلی حالت پر لوٹائے اھ تو ظاہر ہوا کہ اس حکم میں کوئی فرق نہیں ہوگا چاہے وقف بصورت مسجد ہویا غیر مسجد بخلاف ملک کے اھ اختصاراً(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب الغصب     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/ ۱۱۵)
عقودالدریہ جلد ۱ص۱۵۹:
غصب ارض وقف وزاد فیہا زیادۃ من عند نفسہ وان کانت شیئا لیس بمال ولالہ حکم المال تو خذمنہ بلاشیئ، ان کانت مالا قائما نحوالغراس والبناء امرالقاضی الغاصب برفعہ وقلعہ، الااذاکان یضر بالوقف فانہ یمنع عنہ لوارادان یفعل ویضمن القیم اوالقاضی قیمۃ ذٰلک من غلۃ الواقف ان کانت والا یؤاجر الوقف ویؤتی من اجرتہ عمادیۃ۱؎ومثلہ فی الفصولین من ۱۳
کسی نے وقف کا احاطہ غصب کرکے اپنی طرف سے اس میں کچھ اضافہ کردیا، اگر تو وہ اضافہ مال یا حکم مال کے قبیلہ سے نہیں تو بلاعوض اس سے واپس لیا جائے گا اور اگر وہ اضافہ ایسا مال ہے جو زمین کے ساتھ قائم ہے جیسے درخت اور عمارت تو قاضی غاصب کو حکم دے گا کہ وہ اس کو اکھاڑے جبکہ اکھاڑنے سے وقف کو نقصان نہ پہنچتا ہو اور اگر نقصان پہنچتا ہے تو پھر اس کوکھاڑنے سے روکاجائیگا اگر وہ اکھاڑنے کا ارادہ کرے، اور متولی یا قاضی اس اضافے کی قیمت کے ضامن ہوں گے اگر وقف کی کوئی آمدنی ہے تو اس سے ضمان دیں گے ورنہ وقف کوکرایہ پردے کر اس کی اجرت سے ضمان ادا کرینگے، عمادیہ۔ اور اسی کی مثل فصولین میں ہے(ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ    کتاب الوقف     الباب الثانی ارگ بازار قندھار افغانستان     ۱/ ۸۳۔۱۸۲)
 (۵) جبکہ امام التزام امامت نہیں کرتا کبھی وقت بے وقت آجاتاہے اور حرف بھی صاف مسموع نہیں ہوتے، اور مسائل کابیان ہے کہ وہ دیندار متقی بھی نہیں، تو نہ خدمت پوری کرتا ہے نہ خدمت کے مناسب ہے، ضرور مستحق معزولی ہے، بلکہ دوامراخیراگر نہ بھی ہوتے توصرف پہلی بات اسے تنخواہ مقرر لینا اور مال مسجد سے دینا دونوں کے حرام کرنے کو کافی ہے،
درمختار کتاب الوقف فروع فصل نہر الفائق سے:
فیجب علیہ خدمۃ وظیفۃ اوترکھا لمن یعمل والااثم۲؎۔
اپنے وظیفہ کی خدمت کرنا اس پر واجب ہے یا اس شخص کے لئے چھوڑ دے جو یہ خدمت کرے ورنہ گنہگار ہوگا۔(ت)
(۲؎ درمختار        کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۹۰)
جتنی مدتوں وہ کبھی کبھی آیا اور تنخواہ پوری دی گئی حساب کرکے اوقات حاضری کی تنخواہ مجرا کرنا لازم ہے، اس پر فرض ہے کہ واپس دے، اور متولی پر فرض ہے کہ واپس لے۔
فتاوٰی خیریہ جلد ۱صفحہ ۱۷۳:
سئل فی رجل بیدہ وظیفۃ امامۃ علی مسجد کل یوم بعثمانی وقد تناول جمیع المعلوم من قیم الوقف والحال انہ کان ام فی بعض الاوقات دون بعض فھل لایستحق المعلوم الابمقدار ماباشر والباقی یرجع علیہ بہ ویکون موفرالجھۃ الوقف اجاب الذی تحصل من کلام البحر ان مقتضی کلام الخصاف انہ لایستحق الابمقدار ماباشر، وبہ صرح ابن وھبان فی المسافر للحج اوصلۃ الرحم حیث قال لاینعزل ولایستحق المعلوم مدۃ سفرہ مع انھا فرضان۱؎۔
ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس کے ہاتھ میں کسی مسجد کی امامت کا وظیفہ تھا بحساب ایک عثمانی (روپیہ) یومیہ، اور اس نے متولی سے تمام تنخواہ اکٹھی وصول کرلی جبکہ صورت حال یہ ہے کہ وہ بعض اوقات امامت کراتا رہا اور بعض اوقات غیر حاضر رہتا تو کیا وہ صرف انہی دنوں کی تنخواہ کا مستحق ہے جن میں اس نے امامت کرائی اور باقی دنوں کی تنخواہ متولی اس سے واپس لے گا اور اس طرح وہ جہت وقف کا پورا حق اداکرنے والا ہوگا، تو جواب دیا کہ کلام بحر سے جو حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خصاف کے کلام کا تقاضا یہی ہے کہ جن دنوں کی امامت اس نے کرائی صرف  انہی دنوں کی اجرت کا مستحق ہے۔ ابن وھبان نے اسی کی تصریح فرمائی، حج یا صلہ رحمی کےلئے سفر میں جہاں انہوں نے فرمایا کہ وہ معزول نہ ہوگا اور نہ مدت سفر کی تنخواہ کا مستحق ہوگا باوجودیکہ یہ دونوں چیزیں فرض ہیں(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ     کتاب الوقف    دارالمعرفۃ بیروت    ۱/ ۱۸۸)
بلکہ انصافاً وہ متولی یا مہتمم کہ اس حالت پر اسے پوری تنخواہ دیتا رہا وہ بھی مستحق عزل ہے کہ بلا استحقاق دینے سے مال مسجد پر متعدی ہے۔
 (۶) حدیث میں ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جنبوامساجد کم صبیانکم ومجانینکم ورفع اصواتکم۲؎۔ رواہ ابن ماجۃ عن واثلۃ بن الاسقع وعبدالرزاق فی مصنفہ بسند امثل منہ عن معاذ بن جبل رضی اﷲ عنہما۔
اپنی مسجدوں کو بچوں اور مجنونوں اور آوازیں بلند کرنے سے محفوظ رکھو۔ (اس کو ابن ماجہ نے بروایت واثلہ بن اسقع رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور اس سے زیادہ بہتر سند کے ساتھ امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف میں بروایت حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔ت)
(۲؎ سنن ابن ماجہ     ابواب المساجد    باب مایکرہ فی المساجد    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۵۵)
اگر نجاست کا ظن غالب ہوتو انہیں مسجد میں آنے دینا حرام اور حالت محتمل ومشکوک ہوتو مکروہ۔
اشباہ مع الغمز صفحہ ۳۸۰ودرمختار اواخر مکروہات الصلوٰۃ:
یحرم ادخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسھم والافیکرہ۳؎۔
اگر بچوں اور پاگلوں کے مسجد کو نجس کرنے کا گمان غالب ہوتو انہیں مسجد میں داخل کرنا حرام ورنہ مکروہ ہے۔(ت)
 (۳؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ     باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۹۳)
یونہی اگر بچے بلکہ بوڑھے بھی بے تمیز، نامہذب ہوں غل مچائیں، بے حرمتی کریں، مسجد میں نہ آنے دئے جائیں، درمختار محل مذکور:
یحرم فیہ السوال ویکرہ الاعطاء و انشاد ضالۃ وشعرالامافیہ ذکر ورفع صوت بذکر الالمتفقھۃ ویمنع منہ کل مؤذولو بلسانہ۱؎۔
مسجد میں سوال کرنا حرام اور سائل کو مسجد میں دینا مکروہ ہے، اوراسی طرح گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان کرنا۔ اور ایسے اشعار پڑھنا جن میں ذکر نہ ہو، اور فقہ کی تعلیم و تعلم کے علاوہ آواز بلند کرنا مکروہ ہے، اور کل ایذا دینے والے کو مسجد سے منع کیا جائیگا اگرچہ زبان سے ایذا پہنچاتا ہو۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ     باب مایفسد الصلوٰۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۹۴۔۹۳)
اور اگر ایسے نہ ہوں تو انہیں مسجد میں غیر اوقات نماز میں پڑھانا مضائقہ نہیں رکھتا جب کہ معلم بلاتنخواہ محض لوجہ اﷲ پڑھاتا ہو ورنہ ہر گز جائز نہیں اگرچہ جوان اور بوڑھے ہی پڑھیں کہ اب یہ اور پیشوں کی طرح دنیا کمانا ہے اور مسجد میں اس کی اجازت نہیں۔
فتاوٰی عالمگیری جلد ۵ص۱۲۲:
لوجلس المعلم فی المسجد والوراق یکتب فان کان المعلم یعلم للحسبۃ والوراق یکتب لنفسہ فلاباس بہ لانہ قربۃ وان کان بالاجرۃ یکرہ الاان تقع لہما الضرورۃ کذافی محیط السرخسی۲؎۔
اگر معلم مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دیتا ہے اور کاتب مسجد میں بیٹھ کر لکھتا ہے اگر تو معلم ثواب کی نیت سے ایسا کرتا ہےاور کاتب اپنے لئے لکھتا ہے نہ کہ اجرت پر تو حرج نہیں کیونکہ یہ قربت وعبادت ہے،اور اگر اجرت کےلئے ہے تو بلاضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے، امام سرخسی کی محیط میں بھی ایسا ہی ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس فی آداب المسجد والقبلۃ     نورانی کتب خانہ پشاور     ۵/ ۳۲۱)
اشباہ والنظائر صفحہ ۳۸۱:
 تکرہ الصناعۃ فیہ من خیاطۃ وکتابۃ باجر و تعلیم صبیان باجر لا بغیرہ الالحفظ المسجد۳؎ فی روایۃ۳؎۔
مسجد میں سلائی یا کتابت کا پیشہ اجرت پر کرنا اور اجرت لے کر بچوں کو پڑھانا مکروہ ہے جبکہ بلااجرت ہوتو حرج نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حفاظت مسجد کیلئے بغیر اجرت پر بھی ایسا کرنے کی اجازت ہے(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث القول فی احکام المسجد         ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۱)
غمز العیون ص۳۸۱:
فی الفتح معلم الصبیان القراٰن کالکاتب ان باجر لایجوز وحسبۃ لاباس بہ انتہی، وفی شرح الجامع الصغیر للتمرتا شی لایجوز تعلیم الصبیان القراٰن فی المسجد للمروی جنبوامجانینکم وصبیانکم مساجد کم انتہی وھو صریح فی عدم الجواز سواء کان باجر اولا اھ۱؎اقول:  والتوفیق مااشرنا الیہ ان لوکانوا غیرما مونین علی المسجد لم یجز مطلقا والاجاز حسبۃً لاباجر والدلیل علیہ استدلالہ بالحدیث وقد قرنوافیہ بالمجانین فالمراد فی الحدیث من لایعقل اولایؤمن علیہ وفی فرع التمرتاشی غیرالمأمونین خاصۃ اذمن لایعقل لایعلم، واﷲ سبحٰنہ اعلم۔
قرآن کی تعلیم دینے والا کاتب کی طرح ہے اگر اجرت پر ہوتو ناجائز اور نیت ثواب سے ہوتو جائز ہے انتہی، تمر تاشی کی شرح جامع صغیر میں ہے کہ بچوں کو مسجد میں تعلیم قرآن جائز نہیں کیونکہ مروی ہے کہ اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں اور پاگلوں سے محفوظ رکھو انتہی، یہ عدم جواز میں صریح ہے چاہے اجرت پر ہو یا بلا اجرت اھاقول : (میں کہتا ہوں) کہ تطبیق جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا یہ ہے کہ اگر مسجد(کی طہارت واحترام) کے سلسلہ میں ان پر بھروسا نہیں تو مطلقاًناجائز ہے ورنہ بنیت اجروثواب جائز اور اجرت پر ناجائز ہے اور اس پر دلیل اس حدیث سے استدلال ہے کہ اس میں بچوں کے ذکر کے ساتھ پاگلوں کا ذکر ہے لہذا حدیث میں بچوں سے مراد وہ ہیں جو بے عقل ہو یا ان پر (آداب مسجد کے سلسلہ میں) بھروسا نہ کیا جاسکتا ہو۔ فرع تمر تاشی میں بطور خاص غیر مامون(بے بھروسا) کا ذکر ہے(نہ کہ بے عقل کا) کیونکہ جسے عقل نہیں وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتا۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ غمز العیون البصائر الاشباہ والنظائر     الفن الثالث    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۱)
Flag Counter