مسئلہ۲۶۶تا۲۷۱: از رنگون مغل اسٹریٹ پوسٹ بکس ۲۴۲مال کمپنی مرسلہ سید فضل اﷲ ولد سید غلام رسول صاحب ۱۹ربیع الاول ۱۳۳۶ھ
(۱) ایک قصبہ میں مثلاً تین مسجد آباد ہیں اور نماز جمعہ وعیدین مسجد جامع میں ادا ہوتی ہیں اور اس جامع مسجد میں تمام ضروری اشیاء مثلاً فرش، دری، چٹائی، جھومر، قنادیل، لیمپ وغیرہ اہل قصبہ چندہ فراہم کرکے خاص مسجد کے لئے خرید کرجمع رکھتے ہیں اور اسی قصبہ کے بعض تجار دوسرے ملک سے مسجد کےلئے بھیجتے رہتے ہیں اور بھیجنے والوں کے حسب منشاء وہ چیز خرید کرکے مسجد میں رکھ دی جاتی ہے یا بعض وقت خاص مال مسجد سے مذکورہ بالاچیزیں خرید کی جاتی ہیں اور یہ کل چیزیں مسجد جامع ہی میں رہتی ہیں اور بوقت ضرورت رمضان المبارک وشب قدر وشبہائے متبرکہ میں استعمال ہوتا ہے اور فرش چٹائی وغیرہ کا عیدین میں اسی مسجد میں کام آتاہے اور جملہ اسباب اسی جگہ پر رہتا ہے، نہ کرایہ پر دینے کے لئے ہے کیونکہ چندہ دینے اور لینے والوں نے خاص اس جامع مسجد ہی میں اشیائے مذکورہ کےلئے چندہ دیا ہے پس جس کو جو میسر آیا بلا قیدوشرط وبلاتصریح دے دیا، اب اہل قصبہ یا اور کوئی جس نے چندہ دیا ہو یا نہ دیا ہو خود اپنے کسی کام یا کسی تقریب میں مثلاً وعظ، مولود یا شادی وغیرہ میں مسجد کی کوئی شے مثل بتی، لیمپ وفرش،دری، چٹائی وغیرہ اپنے کام میں برتنے کےلئے کرایہ سے یا بے کرایہ سے لے جائے تو یہ مسجد کی چیزوں کا دوسری جگہ میں استعمال جائز ہے یانہیں؟
(۲) اس قصبہ میں ۲۵ سال قبل عیداضحٰی عید گاہ میں ہوا کرتی تھی اس وقت تمام فرش ومنبر وغیرہ تمام حاجت کی چیزیں ریاست سچین سے نواب صاحب کی طرف سے آیا کرتی تھیں اور اختتام نماز پر وہ وہ کل چیزیں واپس ہمراہ لے جایا کرتے، امسال جدید عید گاہ قائم ہوجانے سے عید کی نماز عید گاہ میں پڑھی اور جامع مسجد کی چٹائی وغیرہ لاکر بچھائی گئی، بعد نماز ختم جو چیز یہاں کی تھی وہاں بلا نقص پہنچا دی گئی تو یہ فعل جائز ہے یانہیں؟
(۳) مسجد کے متصل مسجد ہی کی زمین ہے اس میں کوئی آدمی خود فائدہ اٹھانے کی غرض سے درخت لگائے اور جب وہ بڑے ہوں اور پھل پھول سے بار آور ہوں تو اس وقت یہ درخت زمین کے اعتبار سے مسجد کی ملکیت میں داخل ہوں گے یا لگانے والے کے، یا مسجد کا، اور مسجد کی زمین میں اس طرح درخت لگادینے کا غیر کو حق حاصل ہے؟
(۴) مسجد کے متصل مسجد کا بوسیدہ مکان یا حجرہ ہے اس پر کوئی شخص کم یا زیادہ اپنا روپیہ لگا کر کوئی تعمیر کرے اور بلا کرایہ اپنے تصرف اور قبضہ میں لائے تو یہ فعل جائز ہے یانہیں؟
(۵) اس مسجد جامع کےلئے امام ہے مگر اوقات کی پابندی سے آکر نماز نہیں پڑھاتے کبھی وقت بے وقت آجاتے ہیں، اور اکثر اور لوگ نماز پڑھادیتے ہیں، اس لئے امام سے مسجد کی آبادی بھی نہیں ہوتی بلکہ ان کے نہ ہونے سے مسجد کی زیادہ آبادی کی امید ہے، چونکہ دانت نہ ہونے کی وجہ سے مخارج صاف اور تلفظ سامع کی سمجھ میں نہیں آتے۔ امام صاحب غریب خود عاجز محض ہیں اور دیندار متقی بھی نہیں۔ علاوہ اس کے مسجد بھی غریب ہے اور ضروری تعمیر کی محتاج ہے اس لئے مسجد کے مال سے امام صاحب کو تنخواہ دینے پر بھی لوگ راضی نہیں مگر مجبوراً، اور رعایت امام صاحب کے بزرگوں کی قدر کی وجہ سے چون وچرا سے عاجز ہیں، اس صورت میں امام صاحب کو غریب مسجد سے تنخواہ دینا جائز ہے یانہیں؟
(۶) مسجد میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے جس سے مسجد کی بے حرمتی ہوتی ہے، تمام بچے ننگے پیر آتے جاتے ہیں، اس صورت میں بچوں کو تعلیم دینی جائز ہے یانہیں؟
الجواب: استعمال مذکور حرام ہے، چندہ دہندہ کرے یا کوئی، مال وقف خود واقف کو حرام ہے کہ اپنے صرف لائے، یہاں تک کہ اگر نفس وقف غیر اہلی میں اس نے شرط کرلی ہو کہ اپنی حیات تک میں اپنے صرف میں لاسکوں گا، تو شرط باطل ہے اور تصرف حرام،
فتاوٰی خلاصہ جلد دوم ص۵۷۰:
رجل جعل فرسہ للسبیل علی ان یمسکہ مادام حیاان امسکہ للجھادلہ ذٰلک لانہ لولم یشترط کان لہ ذلک لان لجاعل السبیل ان یجاھد علیہ وان ارادہ ان ینتفع بہ غیر ذلک لم یکن لہ ذلک وصح جعلہ للسبیل۱؎۔
ایک شخص نے اپنا گھوڑا فی سبیل اﷲ وقف کیا اس شرط پر کہ جب تک وہ زندہ ہے گھوڑے کو اپنے پاس روکے رکھے گا، اگر تو اس نے جہاد کےلئے روکا ہے تو جائز ہے کیونکہ اگر وہ یہ شرط نہ بھی کرتا تب بھی اسے یہ حق تھا اس لئے اس گھوڑے کو فی سبیل اﷲ وقف کرنے والابھی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اس پر سوار ہوکر جہاد کرے، اور اگر اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ جہاد کے علاوہ کوئی ا ور نفع حاصل کرے گا تو اس کو یہ اختیار نہیں، تاہم گھوڑے کو فی سبیل اﷲ وقف کرنا صحیح ہوگیا۔(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الوقف الفصل الثالث فی صحۃ الوقف مکتبۃ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۴۱۸)
بتی کا کرایہ پر دینا تو مطلقاً حرام ہے اگرچہ بتی وقف نہ کی ہو خود اپنی ملک ہو، شرع مطہر نے عقد اجارہ اس لئے رکھاہے کہ شیئ باقی رہے اور مستاجر اس کو برت کر ختم اجارہ پر واپس دے، نہ اس لئے کہ خود اس شیئ کو خرچ و فنا کرے، اور ظاہر ہے کہ بتی جب کام میں لائی جائے گی خود اس کے اجزا فنا ہوں گے، ایسا اجارہ حرام وباطل ہے۔
الاجارۃ المذکورۃ باطلۃ غیر منتعقدۃ لما صرح بہ علماؤنا قاطبۃ من ان الاجارۃ اذا وقعت علی اتلاف الاعیان قصدا لاتنعقد ولاتفید شیئا من احکام الاجارۃ۲۔
اجارہ مذکور ہ باطل ہے منعقد نہیں ہوگا کیونکہ ہمارے تمام علماء نے تصریح فرمائی ہے کہ اجارت جب قصداً اصل کے اتلاف پر واقع ہو منعقد نہیں ہوتا اور نہ ہی احکام اجارہ میں سے کسی حکم کا فائدہ دیتا ہے(ت)
(۲؎ فتاوٰی خیریۃ کتاب الاجارۃ دارالمعرفۃ بیروت ۲/ ۱۱۷)
باقی چیزین مثلاً لیمپ، فرش، دری، چٹائی، اور یونہی بتی بھی، اگر اس سے مرادخالی شمعدان ہواگرچہ اپنی ذات میں قابل اجارہ ہیں، مملوک ہوں تو مالک اجارہ پر دے سکتا ہے کرایہ پر دینے کے لئے وقف ہوں تو متولی دے سکتا ہے مگر وہ جو مسجد پر اس کے استعمال میں آنے کےلئے وقف ہیں انہیں کرایہ پر دینا لینا حرام کہ جو چیز جس غرض کےلئے وقف کی گئی دوسری غرض کی طرف اسے پھیرنا ناجائزہے اگرچہ وہ غرض بھی وقف ہی کے لئے فائدہ کی ہو کہ شرط واقف مثل نص شارع صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم واجب الاتباع ہے۔
درمختار کتاب الوقف:
فروع قولھم شرط الواقف کنص الشارع فی وجوب العمل بہ۱؎۔
واقف کی شرط شارع علیہ الصلوٰہ والسلام کی نص کی طرح واجب العمل ہے(ت)
(۱؎درمختار فصل یراعی شرط الواقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۹۰)
ولہذا خلاصہ میں تحریر فرمایا کہ جو گھوڑا قتال مخالفین کےلئے وقف ہوا ہو ا سے کرایہ پر چلانا ممنوع وناجائز ہے، ہاں اگر مسجد کو حاجت ہو مثلاً مرمت کی ضرورت ہے اور روپیہ نہیں تو بمجبوری اس کا مال اسباب اتنے دنوں کرایہ پر دے سکتے ہیں جس میں وہ ضرورت رفع ہوجائے، جب ضرورت نہ رہے پھرناجائز ہوجائے گا۔
خلاصہ جلد ۲ص۵۷۰:
ولایؤاجر فرس السبیل الااذا احتیج الی النفقہ فیؤاجر بقدر ماینفق وھذہ المسألۃ دلیل علی ان المسجد اذا احتاج الی النفقۃ توأجر قطعۃ منہ بقدر ماینفق علیہ۲؎۔
فی سبیل اﷲ وقف شدہ گھوڑا کرایہ پر نہیں دیا جاسکتا ہاں اگر اس کے اخراجات کے لئے مجبور ی ہوتو اتنے وقت کےلئے دیا جاسکتا ہے جس سے اخراجات پورے ہوسکیں اور یہ مسئلہ دلیل ہے اس پر کہ اگر اخراجات مسجد کے سلسلہ میں حاجت ہوتو ان اخراجات ضروریہ کی فراہمی کےلئے وقف کا کوئی حصہ کچھ وقت کے لئے کرایہ پر دیا جاسکتا ہے(ت)
(۲؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الوقف الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۴۱۸)
(۲) یہ فعل ناجائز وگناہ ہے، ایک مسجد کی چیز دوسری مسجد میں بھی عاریۃ دینا جائز نہیں، نہ کہ عید گاہ میں کہ اتصال صف کے سوا اور احکام میں وہ مسجد ہی نہیں ، ولہذا جنب کو اس میں جانا منع نہیں۔
مسجد کے ناظم کو مسجد کے لئے چٹائیاں خریدنا جائز ہے تاکہ ان پر نماز پڑھی جائے اور انہیں عاریۃً دوسری مسجد کےلئے دینا جائز نہیں(ت)
(۳؎ فتاوی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ الباب الخامس فی آداب المسجد والقبلۃ نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۲۲)
درمختار علٰی ہامش ردالمحتار مطبع قسطنطنیہ جلد اول ص۶۸۷ :
المتخذ لصلاۃ جنازۃ او عید مسجد فی حق جواز الاقتداء وان انفصل الصفوف رفقا بالناس لافی حق غیرہ بہ یفتی نھایۃ فحل دخولہ لجنب وحائض کفناء مسجد ورباط ومدرسۃ۱؎۔
جناز گاہ او ر عید گاہ جواز اقتداء کے حکم میں مسجد ہے اگرچہ صفوں میں فاصلہ ہو یہ حکم لوگوں کی سہولت کےلئے ہے دیگر احکام میں وہ مثل مسجد نہیں، اسی پر فتوٰی دیا جاتا ہے نہایۃ لہذا اس میں جنبی شخص اور حیض ونفاس والی عورتوں کا داخل ہونا حلا ل ہے جیسا کہ فناء مسجد، خانقاہ اور مدرسہ کا حکم ہے(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۳)
(۳) مسجد کی زمین میں اپنے لئے درخت لگانا حرام ہے کہ وقف میں تصرف مالکانہ ہے، والواقف لایملک، پھر اگر یہ مال اس نے مسجد کے مال سے لگایا تو مسجد کا ہے اور اپنے مال سے لگایا اور یہ متولی ہے تو مسجد کا ہے مگر یہ کہ لگاتے وقت لوگوں کو گواہ کرلیا ہو کہ یہ میں اپنے لئے لگاتا ہوں، اور اگر غیر متولی ہے تو خود اس کا ہے مگر یہ کہ اقرار کرے کہ میں نے مسجد کے لئے لگایا، اب جس صورت میں پیڑ لگانے والے کا ٹھہرے اگر اس کےااکھیڑنے میں زمین وقف کا نقصان نہیں جبراً اکھڑوادیا جائے گا۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس لعرق ظالم حق۲؎
(عرق ظالم کا کوئی حق نہیں۔ت)
(۲؎ صحیح البخاری کتاب الحرث والمزارعہ باب من احیا ارضامواتا قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۱۴)
(سنن ابوداؤد کتاب الخراج باب احیاء الموات آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۸۱)
اور اگر اس میں زمین وقف کا ضرر ہوتو درخت مسجد کی ملک کرلیا جائے گا اور اندازہ کریں گے کہ اس وقت اس درخت کی قیمت زیادہ ہے اکھیڑ کر بیچنے میں کم ہوجائے گی یا جدا کرکے بیچنے میں دام زیادہ اٹھیں گے اس وقت قیمت کم آئیگی دونوں حالتوں میں جس صورت پر کم قیمت اٹھے وہ کم قیمت مسجد کے مال سے لگانے والے کو دی جائے گی۔
فتاوٰی خلاصہ جلد ۲ص۵۷۰:
فی الحاوی سئل ابو القاسم عمن غرس الوقف من مالہ ومات قال ان غرس من غلۃ للوقف فھو للوقف وان لم یذکر شیئا فان غرس بمالہ ان ذکر انہ غرس للوقف فھو لہ وان لم یذکر شیئا فھو عنہ میراث۱؎۔
حاوی میں ہے کہ ابوالقاسم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنے مال سے وقف زمین میں درخت بوئے اور پھر مرگیا تو ابوالقاسم نے فرمایا کہ اگر وقف کی آمدنی سے بوئے ہیں تب تو وقف کے لئے ہیں اگرچہ کسی شیئ کا ذکر نہ کیا ہو اور اگر اپنے مال سے بوئے اور ذکر کیا کہ یہ وقف کیلئے ہے تو وقف کیلئے ہیں اور اگر کسی شے کا ذکر نہیں کیا تو وہ اس کی میراث ہے۔(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الوقف الفصل الثالث مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۴۱۹)
ایضاً جلد مذکور ص۵۷۳:
المتولی اذابنی فی عرصۃ الوقف ان کان من مال الوقف یکون للوقف وکذامن مال نفسہ لکن بنی للوقف فان بنی لنفسہ ان اشھد کان لہ ذٰلک وان بنی ولم یذکر شیئا کان للوقف بخلاف الاجنبی۲؎۔
متولی نے مال وقف سے جب وقف زمین کے میدان میں عمارت بنادی تو وہ وقف کے لئے ہوگی یونہی اگر اس نے اپنے مال سے وقف کیلئے عمارت بنائی تب بھی وقف کے لئے ہوگی اور اگر اپنی ذات کےلئے بنائی اور اس پر گواہ کرلئے تو یہ عمارت اس کی ذات کے لئے ہوگی، اور اگر عمارت بنائی مگر کسی شے کا ذکر نہ کیا تو عمارت وقف کے لئے ہوگی بخلاف اجنبی شخص کے۔(ت)
(۲؎خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الوقف الفصل الرابع مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴/ ۴۲۳)
عقود الدریہ جلد اول ص۱۶۵:
حیث کان غرس عمر و المذکور لنفسہ بلااذن الناظر فللناظر علی الوقف تکلیفہ قلعہ ان لم یضرفان اضریتملکہ الناظر باقل القیمتین للوقف منزوعا وغیر منزوع بمال الوقف۳؎۔
اگر عمرو مذکور نے اپنی ذات کےلئے بغیر اذن متولی درخت لگائے تو متولی کو اختیار ہے کہ وہ اسے اکھاڑنے پر مجبور کرے جبکہ وقف کوضرر نہ ہو اور اگر اکھاڑنا وقف کے لیے ضرر رساں ہے تو متولی دو قیمتوں میں سے اقل قیمت کے بدلے مال وقف سے وقف کیلئے ان درختوں کا مالک بن جائے گا، دو قیمتوں سے مراد زمین میں لگے ہوئے درختوں کی قیمت اور اکھاڑے ہوئے درختوں کی قیمت ہے۔(ت)
(۳؎ العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ کتاب الوقف الباب الثانی ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۱۸۹)