مسئلہ ۲۶۳: مرسلہ منشی ابراہیم صاحب قصبہ گودھرہ ضلع پنج محل مدرسہ فیض عام ۱۶جمادی الآخر ۱۳۳۵ھ
حضرت مولانا ومقتدانا مولوی احمد رضا خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ایک فتوی تصحیح کے لئے دو سوال جواب کے لئے خدمت والا میں بھیجے تھے ان کا جواب نہیں ملا، معلوم نہیں کہ یہ مرسلہ خطوط جناب تک پہنچے یا نہیں، صاحب تفسیر بیان القرآن نے
"والذین اتخذوا مسجدا ضرارا وکفرا وتفریقا۱؎
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۰۷ )
کے تحت میں مسئلہ کرکے یہ لکھا ہے کہ بعض علماء نے کہا جو فخر وریاسے مسجد بنائی جائے اس مسجد کو مسجد کہنا نہ چاہئے ان بعض علماء پر مجھ کو کلام ہے، بعض علماء سے مراد کشاف ومدارک واحمدی وغیرہ ہیں،اور اسی بناء پر یہ جواب لکھا گیا ہے جومرسلہ خدمت والا ہے صاحب بیان کا اعتراض درست ہے یانہیں؟ کیا صاحب کشاف وغیرہ کے قول پر انکے قول کو ترجیح دی جائے گی؟جواب کا منتظر ہوں، مرسلہ سوال وجواب میں حضور کی کیا رائے ہے تحریر فرمائیں:
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک محلہ کی مسجد میں عرصہ پندرہ بیس سال سے ایک امام مقررتھا بعض لوگوں نے بعض وجوہ سے اس کو برطرف کیا، بعض لوگوں کو امام قدیم کا برطرف کرنا ناگوار معلوم ہوا، ہر چنداس فریق نے یہ چاہا کہ امام قدیم کو قائم رکھا جائے، لیکن فریق اول نے جنہوں نے امام قدیم کو برطرف کیا تھا نہ مانا، بناء بریں جھگڑے نے ترقی پکڑی یہاں تک کہ فریق اول نے جھگڑے کے اندیشہ
کی وجہ سے مسجد کے دروازہ پر پولیس کو لاکے بٹھادیا تاکہ کسی قسم کا فتنہ نہ ہونے پائے۔ فریق ثانی نے پولیس کے خوف کے مارے اس وقت نماز وہاں نہ پڑھی، دیگر مساجد میں پڑھی، اور بعد میں بھی وہ کچھ عرصہ تک دیگر مساجد میں پڑھتے رہے اس لئے کہ یہ فریق جدید امام کے پیچھے نماز پڑھنا نہیں چاہتے تھے، آخر کار ایک قدیم مسجد جو کہ ویران پڑی ہوئی تھی(اس میں کبھی کبھی نماز باجماعت ہوئی ہے) اور یہ مسجد اتنی بڑی تھی کہ جس میں سوسواسوآدمی نماز پڑھ سکیں غرضیکہ مسجد مذکور کو آباد کیااور کچھ دنوں کے بعد اس مسجد کی قدیم بناء کو گراکر او رکچھ زمین گرد سے لے کر کچھ وسعت کے ساتھ تیار کی، اب اول فریق یہ کہتا ہے کہ مسجد مذکور ملک غیر میں بنی ہے اور حسدسے بنی ہے اس وجہ سے یہ مسجد ضرار ہے۔ اور فریق ثانی یہ کہتا ہے کہ یہ مسجد وقف ہے، پس کیا یہ مسجد ضرار ہوسکتی ہے؟اور اس کی بناء کو کھود کر پھینک دیا جائے؟بینواتوجروا۔
الجواب: صورت سوال ملاحظہ ہوئی، اس مسجد کو ضرار سے علاقہ ہونے کے کیا معنی، انہوں نے مسجد کا احداث بھی تو نہ کیا بلکہ مسجد قدیم کا احیاء کیا ہے اور مسجد قدیم معاذاﷲ ویران ہوجائے حتی الوسع اس کا احیاء فرض ہے، کہاں فرض اور کہاں ضرار، اور اگر بالفرض نئی مسجد بناتے جب بھی اسے ضرار سے کوئی تعلق نہ ہوتا کہ مسجد اﷲ ہی کے لئے بنائی اور نماز ہی پڑھنی مقصود ہے نہ کہ دوسری مسجد کونقصان پہنچانا، اور جماعت المسلمین میں تفرقہ ڈالنا، اس کی تحقیق ہمارے فتاوٰی میں ہے، جو شخص بنام مسجد کوئی عمارت تیار کرے جس سے تقرب الی اﷲ مقصود نہ ہو بلکہ محض ریا وتفاخر کی نیت ہو تو وہ بیشک مسجد نہیں ہوسکتی کہ مسجد وقف ہے اور اس کا قربت مقصودہ کے لئے ہوناضرور، اور ریا وتفاخر قربت الی اﷲ نہیں بلکہ بُعدعَن اﷲ ہیں، امام نسفی صاحب مدارک نے ایسی ہی مسجد کو حکم ضرار میں فرمایا ہے، اور اگر مسجد بنائی اﷲ ہی کےلئے اور وہی مقصود ہے اگرچہ اس کے ساتھ ریا وتفاخر کا خیال آگیا تو وہ ضرور مسجد ہے اگرچہ اس کے ثواب میں کمی ہو یا نہ ملے۔ صاحب بیان القرآن کا شبہ اسی صورت پر محمول ہے
والتفصیل فی فتاوٰنا
(اور تفصیل ہمارے فتاوٰی میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۶۴: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ آیا مسجد کی دیواریں ہمسایوں کے ساتھ مشترک کرنا شرعاً جائز ہے(الف) نصف لاگت دیواروں کی ہمسائے لگائیں اور نصف لاگت مسجد کا خرچ ہو(ب) کل لاگت مسجد ہو۔مسجد قدیمی کی دیوار وں پر ہمسایہ کی شہتیر رکھی ہوئی تھی اور (الف) اور نشانات اشتراک نہ تھے(ب) اور نشانا ت اشتراک تھے۔ کہنہ مسجد کو مسجد کی لاگت پر گرایا گیا اور مسجد کے
روپوں کا امین وہی ہمسایہ تھا جس کے شہتیر مسجد کی دیواروں پر تھے۔ اس نے مسجد کی لاگت سے کل دیواریں اسی طرح بنوائیں جس سے بداہۃً اشتراک معلوم ہوتا ہے یعنی اپنی طرف جالی اور الماریاں حسب مرضی خود بلارضامندی دیگر مصلیان کے رکھوالئے، کیا یہ فعل لہابیہ کا شرعاً جائز ہے۔ بصورت (الف) وبصورت(ب) کیا ان دیواروں پر ہمسایہ مذکور بالاخانہ ہائے تیار کرسکتا ہے اور بطور ملکیت خود ان دیواروں کو استعمال کرسکتا ہے، بصورت (الف) وبصورت(ب) کیا بقول لھابیہ نصف دیوار اس کی ہے نصف دیوار کی تختہ زمین چھوڑ کر ازسر نو دیواریں واحد ملکیت مسجد بلا اشتراک تحریر چڑھانا جائز ہے یا ضروری ہے کیا ایسے مشترک دیوار والی مسجد پر ''الوقف لایملک'' صادق آتا ہے اور ایسی مسجد میں نماز ادا کرنے سے ثواب جو مسجد میں ادا کرنے پر وارد ہوتا ہے ملتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
وان المسٰجدﷲ۱؎
مسجدیں خاص اﷲ کے لئے ہیں۔
(۱؎ القرآن الکریم۷۲/ ۱۸)
مسجد ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی شش جہت میں جمیع حقوق عباد سے منزہ ہو اگر اس کے کسی حصہ میں بھی ملک عبد باقی ہے تو مسجد نہ ہوگی۔
ہدایہ میں ہے:
من جعل مسجدا تحتہ سرداب، او فوقہ بیت وجعل باب المسجداالی الطریق وعزلہ عن ملکہ، فلہ ان یبیعہ وان مات یورث عنہ لانھالم یخلص ﷲ تعالٰی لبقاء حق العبد متعلقابہ۲؎۔
جس شخص نے مسجد بنائی جس کے نیچے تہ خانہ یا اوپر کوئی مکان ہے اور مسجد کا دروازہ اس نے بڑے راستہ کی طرف کردیا اور اس کو اپنی ملک سے الگ کردیا تو اس کو اختیار ہے کہ وہ اسے بیچ دے اور اس کے مرنے کے بعد اس میں میراث جاری ہوگی کیونکہ وہ خالص اﷲ تعالٰی کے لئے نہیں ہوئی اس سے حق عبد متعلق ہے۔(ت)
(۲؎ الھدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیۃ کراچی ۲/ ۶۲۴)
اسی میں ہے:
وکذٰلک ان اتخذ وسط دار مسجدا واذن للناس بالدخول فیہ، یعنی لہ ان یبیعہ ویورث عنہ لان المسجد مالایکون لاحدفیہ حق المنع (الی ان قال) فلم یصرمسجدا لانہ ابقی الطریق لنفسہ فلم یخلص ﷲ تعالٰی۱؎۔
اگر کسی نے اپنے گھر کے درمیان میں مسجد بنائی اور لوگوں کو اس میں داخل ہونے کی اجازت دے دی تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو مذکور ہوایعنی اسے فروخت کرسکتاہے اور اس کے مرنے کے بعد اس میں میراث بھی جاری ہوگی کیونکہ مسجد وہ ہوتی ہے جس سے روکنے کاحق کسی کو نہ ہو(یہاں تک کہ فرمایا ) پس )چونکہ اس نے راستہ اپنے لئے باقی رکھا ہے لہذا وہ مسجد نہ ہوئی اسلئے کہ وہ خالص اﷲ تعالٰی کے لئے نہ ہوئی۔(ت)
(۱؎ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیہ کراچی ۲/ ۶۲۵)
پس اگر اس مسجد کی دیواریں واقع میں مشترک ہیں ان میں کچھ حصہ عبد کا بھی ہے تو وہ مسجد سرے سے مسجد ہی نہیں، نہ اسمیں نماز پڑھنے سے مسجد کاثواب، وہ بانی کی ملک ایک مکان ہے جسے وہ بیچ سکتا ہے اور مرجائے تو ترکہ میں تقسیم ہوگا
کما مرعن الھدایۃ
(جیسا کہ ہدایہ سے گزرا۔ت) اور اگرواقع میں مشترک نہیں، اس متولی نے غاصبانہ اشتراک کر رکھا ہے تو فرض ہے کہ اسے تولیت سے خارج کردیں اور وہ نشانات جو اس نے اپنے اشتراک کی علامت بنائے ہیں سب مٹادیں اور شہتیر وغیرہ جو کچھ اس کا مسجد کی دیوار پر رکھا ہے سب گرادیں، اور جتنے برسوں رکھا رہا اتنے کا کرایہ دیوار مسجد کا اس سے وصول کریں، اور اب اگر کوئی عمارت دیوار مسجد پر بنانا چاہے نہ بنانے دیں، اور اگر بنالی ہو بجبر حکومت فوراً منہدم کرادیں۔
درمختار میں ہے:
وبنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح اما لوتمت المسجدیۃ ثم اراد البناء منع ولو قال عنیت ذٰلک لم یصدق تاتارخانیۃ، فاذاکان ھذافی الواقف فکیف بغیرہ فیجب ھدمہ ولو علی جدارالمسجد۲؎۔
اگر واقف نے مسجد کے اوپرامام کا حجرہ بنادیا تو جائز ہے کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے، لیکن جب مسجد تام ہوگئی اب وہ حجرہ بنانا چاہے تو اس کو نہیں بنانے دیا جائے گا، اگر وہ کہے کہ شروع سے میراارادہ تھا تو اس کی تصدیق نہیں کیجائیگی (تاتارخانیہ) جب خود واقف کا یہ حکم ہے توغیر واقف کو ایسا کرنے کا اختیار کیسے ہوسکتا ہے، لہذا اس کو گرانا واجب ہے اگرچہ فقط دیوار مسجد پر بنایا گیا ہو(ت)
(۲؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۳۷۹)
ردالمحتار میں ہے:
فی البحر لایوضع الجذع علٰی جدارالمسجد وان کان من اوقافہ اھ قلت وبہ علم حکم مایصنعہ بعض جیران المسجد من وضع جذوع علٰی جدارہ فانہ لایحل ولودفع الاجر۱؎۔
بحر میں ہے مسجد کی دیوار پر لکڑی نہیں رکھی جائیگی اگرچہ وہ اوقاف مسجد میں سے ہو اھ میں کہتاہوں اس سے مسجد کے بعض پڑوسیوں کے اس فعل کا حکم معلوم ہوگیا جو وہ دیوار مسجد پرکڑیاں رکھتے ہیں کہ یہ ان کے لئے حلال نہیں اگرچہ وہ اس کی اجرت دیں۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۱)
مسئلہ۲۶۵: از گونڈل کاٹھیاوار مرسلہ عبدالستار اسمٰعیل رضوی۸صفر ۱۳۳۶ھ
ایک مسجد میں قریب ایک صدی سے فرش پتھر کا بچھا ہو اتھا جس کو اب لوگوں نےنکال کر دوسرا فرش بچھا یا ہے، اب اس نکلے ہوئے فرش کے پتھر کو کسی اور کام میں لاسکتے ہیں یانہیں؟یا کوئی اور مسجد کے کسی کام میں استعمال کرسکتے ہیں یانہیں؟اگر اس پتھر کی ضرورت کسی اور مسجد میں بھی نہ ہواور ان کو حفاطت سے رکھنے کے لئے جگہ کی بھی تنگی ہو یاان کو سنبھال رکھنے میں اور اخراجات ہوتے ہوں تو ایسی صورت میں ان کو فروخت کرکے ان کی قیمت اس مسجد کے کام میں خرچ کرسکتے ہیں یانہیں؟
الجواب: انہیں فروخت کرکے وہ قیمت خاص اسی مسجد کے خاص عمارت میں صرف کی جائے، تیل بتی وغیر ہ میں نہیں اور اس وقت مسجد کو عمارت کی حاجت نہ ہو تو اس کی آئندہ ضرورت کے لئے محفوظ رکھی جائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔