Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
72 - 112
مسئلہ۲۵۷: ازکالاکاکر    ضلع پرتاب گڈھ     ۲۲صفر ۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید مسلمان نے ایک مسجدکی بنا ایسی جگہ ڈالی ہے جہاں کبھی مسجد نہ تھی اور وہاں کے ہنود باشندے مسجد کے بننے کو روکتے، لیکن زید مسلمان نے اپنی خوشامد سے مسجد کی بنیاد قائم کردی لیکن اسی مقام کا عمرو خود اس امر کی کوشش اہلکاروں زمینداروں سے کی اور ملازم زمیندار کو اس موقع پر لاحاضرکیا کہ اس مسجد کی بنیاد میرے گھر کی طرف چھ انگل بڑھی ہوئی ہے، اس مسجدکی دیوار چھ انگل ادھر بنانی چاہئے لیکن باقی مسجد زید نے اپنی خوشی سے اور خوشامد کے باعث اپنی منزل مقصود کو پہنچے اور جب عمرو مسلمان اپنے مقصد کو نہ پہنچا تو ایک ہندو کو ورغلا کر اس امر پر آمادہ کیا کہ مسجد کی دیوار تیرے مکان کی دیوار کی طرف بڑھا کر اٹھائی جارہی ہے تو روک دے ورنہ تجھ کو اس مسجد کی دیوار کی وجہ سے نقصان ہوگا لیکن زید مسلمان نے اپنی چالاکی سے بمقابلہ ہندو اور عمرو مسلمان قائم ہی کردی اور عمرو مسلمان کی کچھ نہ چلی، ایسے شخص کے ساتھ ازروئے حکم خداورسول کیا برتاؤ رکھا جائے اور اس کے یہاں کا کھانا پینا چاہئے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

سائل نے نہ بتایا کہ واقع زید نے چھ انگل ملک عمرو زمین میں شامل کرکے اسے مسجد کرنا چاہا ہے یاواقع میں ایسا نہیں اور عمرو کا دعوٰی جھوٹا ہے اگر فی الواقع صورت اولٰی ہے تو مسجد مسجد نہیں،اور عمرو نے جو کچھ برتاؤ برتے اس صورت میں اس پر الزام نہیں اور ایسا توبلاشبہ عمرو بدخواہ مسجد اور سخت سے سخت ظالموں میں ہے،
قال اﷲ تعالٰی عزوجل ومن اظلم ممن منع مسجداﷲ ان یذکرفیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم۱؎۔
اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کو ان میں یاد الٰہی ہونے سے روکے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے، ایسوں کو نہیں پہنچتا تھاکہ اس میں جاتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اورآخرت میں بڑاعذاب۔

اس حالت میں اس کے ساتھ کھانا پینا،میل جول نہ چاہئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
مسئلہ ۲۵۸: مرسلہ محمد حسن فاروقی ضلع پورنیہ ڈاکخانہ اسلام پور بھوجا گاؤں۲۲صفر۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد زمانہ دراز سے قائم تھی جس کو زید نے توڑ کر جگہ سابق سے دوسری جگہ پر یعنی دس بارہ ہاتھ یا ایک رسی کے فاصلہ پربنادی ہے اور اس مسجد کی جو لکڑی پرانی ہوگئی تھی اسکو اپنا کھانا پکانے میں جلادی ہے تو کیا مسجد ایک جگہ سے توڑ کر دوسری جگہ بنادینا اور اس کی لکڑی کو اپنے تصرف میں لانا درست ہے یانہیں؟

دوسرے یہ کہ جس جگہ پر وہ مسجد پہلی قائم تھی بعد توڑدینے مسجد کے وہ جگہ جہاں پر وہ مسجد تھی ویسا ہی خالی پڑی رہے یا کہ اگر کوئی چیز پیدا ہوتو بوئی جائے۔
الجواب

یہ فعل کہ زید نے کیاحرام محض ہے،مسجد نہ توڑی جاسکتی ہے نہ بدلی جاسکتی ہے، نہ اس کی لکڑی وغیرہ کوئی چیز اپنے مصرف میں لائی جاسکتی ہے،
قال اﷲتعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا اولٰئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲکی مسجدوں کو ان میں یاد الٰہی ہونے سے روکے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے، ایسوں کو نہیں پہنچتا کہ اس میں جاتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کےلئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑاعذاب۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
ردالمحتار میں ہے:
لایجوز نقلہ ولانقل مالہ الی مسجد اٰخر۲؎۔
مسجد اور اس کے مال کو دوسری مسجد میں منتقل کرنا جائز نہیں(ت)
(۲؎ ردالمحتار    کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۱)
نہ اس میں کچھ بونا یا اور کوئی تصرف کسی طرح حلال ہوسکے بلکہ زید پر فرض ہے کہ اسے بدستورپہلی طرح بنادے۔
فان الضمان فی بناء الوقف باعادتہ کما کان بخلاف سائر الابنیۃ۱؎کما فی الدر وغیرہ۔
عمارت وقف میں ضمان یہ ہے کہ اس کو پہلے کی طرح دوبارہ بنائے بخلاف دیگر عمارات کے ضمان کے، جیسا کہ دروغیرہ میں ہے(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الوکالۃ     ادارۃ القرآن کراچی   ۲/ ۹۷)

(ردالمحتار         کتاب الغصب     مطبوعہ بیروت    ۵/ ۱۱۵)
یہ دوسری مسجد جو اس نے بنائی اگر اپنی زمین میں بنائی اور اسے مسجد کردیا تو یہ بھی مسجد ہوگئی اس کا بھی باقی رکھنا فرض ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۵۹: مرسلہ سعادت خاں نابینا مسجد ندی قصبہ مہد پورریاست اندور ملک مالوہ یکم ربیع الاول ۱۳۳۵ھ

مسجدکے احاطہ کے اندر درختوں میں سے یا مسجد کی ملک کے درختوں میں سے کسی درخت کا پھل یا پھول بلاادائے قیمت کھانا یا لینا جائز ہے یانہیں؟
الجواب : اگر وہ پیڑ مسجد پر وقف ہیں تو بلاادائے قیمت جائز نہیں ورنہ مالک کی اجازت درکار ہے اگرچہ اسی قدر کہ اس نے اسی غرض سے لگائے ہوں کہ جو مسجد میں ہوں ان سے تمتع کرے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۶۰: مرسلہ محمد نصیر الحق امام مسجد مالدہ محلہ بی بی گاؤں۲۲ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک قدیم جامع مسجد نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے جگہ میں اضافہ کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی ایک قطعہ زمین اسی مسجد کی ملحق ایک مسلمان زمیندار کا تھا اور اس کو زمیندار نے ایک شخص کے ساتھ مدامی بندوبست کچھ خزانہ معینہ پر کردیا تھا خزانہ باقی رہنے کی وجہ سے زمیندار نے نالش کرکے اس زمین کو نیلام کرایا، اس کو ایک مسلمان نے خریدلیا، اور اس خریدار نے ایک حصہ اس زمین کا وقف کرکے مسجد کے ساتھ ملحق کردیا، کیا وہ حصہ ملحقہ مسجد کے حکم میں ہوایانہیں؟یہاں کے بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسجد کے حکم میں نہیں ہوا حالانکہ خریدار اس زمین پر ہر قسم کے تصرف کرنے کا مجاز ہے، زمیندار کو بجز زر خزانہ معینہ کے نہ تو حق انتزاع رکھاہے نہ اپنی حقیت زمینداری کے باعث اس زمین پر کسی قسم کا تصرف کرسکتا ہے، اگر زمیندار اسی قطعہ زمین میں مسجد یا کنواں یا مسافر خانہ بلامرضی خریدار کے بنانا چاہے تو بالکل نہیں بناسکتا اور خریدار کو یہ سارے حقوق حاصل ہیں، ایسی صورت میں جو حکم شرع شریف ہو بحوالہ کتب وعبارت تحریر کیا جائے۔ بینواتوجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں وہ وقف صحیح اور وہ قطعہ مسجد ہوگیا۔
ردالمحتار میں ہے:
الصحیح الصحۃ ای اذاکانت الارض محتکرۃ کما علمت، وعن ھذا قال فی انفع الوسائل انہ لوبنی فی الارض الموقوفۃ المستاجرۃ مسجد اانہ یجوز، قال واذاجاز فعلی من یکون حکرہ، والظاہر انہ یکون علی المستاجر مادامت المدۃ باقیۃ، فاذاانقضت ینبغی ان یکون من بیت مال الخراج واخواتہ ومصالح المسلمین۱؎اھ فاذا کان ھدافی ارض مستاجرۃ وما جعل مسجداغیربناء مجرد فماظنک بارض مشتراۃ وقد جعلت ھی مسجدا فالحکراذا لم یمنع ثم فھھنا بالاولٰی۔ واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
صحیح حکم صحت ہی ہے جبکہ زمین محتکرہ ہو(یعنی وہ زمین موقوف جس کی اجرت بطور ماہانہ یا سالانہ مقرر ہوگئی ہو) جیسا کہ تو جان چکا ہے اسی بنیا د پر انفع الوسائل میں فرمایا کہ اگر اجرت پر لی ہوئی زمین موقوف میں کسی نے مسجد بنادی تو جائز ہے اور جب جائز ہوگئی تو حکر کس پر ہوگی اور ظاہر یہ ہے کہ جب تک مدت اجارہ باقی ہے مستاجر پر ہوگی اور اختتام مدت کے بعد خراج وغیرہ مصالح مسلمین کےلئے بنائے ہوئے بیت المال پر ہوگی اھ توجب یہ حکم مستاجرہ زمین کا ہے اور اس میں بنائی گئی مسجد عمارت کے علاوہ کچھ نہیں تو خریدی ہوئی زمین کے بارے میں تیرا کیاخیال ہے درانحالیکہ اسے مسجد بنادیا گیا ہوتو حکر جب وہاں مانع نہیں تو یہاں بدرجہ اولی مانع نہ ہوگا۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۹۱)
مسئلہ ۲۶۱تا۲۶۲: مرسلہ حافظ عبدالستارصاحب  مچھلی بازار کانپور ۱۲جمادی الاول ۱۳۳۵ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کانپورکی ایک مسجد میں پاخانہ متعلق مسجد واقع ہے اور ایک کمرہ متعلق مسجدہے اس کی نالیان پانی بہنے کی اور پاخانہ کی سنڈ اس کمانے کا راستہ سرکاری گلی میں جانب پچھم ہمیشہ سے جاری تھا، میونسپل بورڈ نے جانب پچھم اور دکھن کے مکانات توسیع سڑک کے لئے لے کر راستہ بطور سڑک بنالیا اور وہ گلی جانب پچھم کی کالعدم کردی اور مسجد کے پچھم کی بقایا زمین بعد نکالے جانے سڑک کے فروخت کردی، اب میونسپل بورڈ متولی مسجد کو حکم دیتا ہے کہ جس قدر جگہ جانب پچھم پاخانہ سنڈ اس کمانے کو اور نالیاں جاری رکھنے کو درکارہے جانب دکھن میونسپل بورڈ دیتا ہے، متولی مسجد سنڈاس  کا رخ دوسری طرف پھیرے اور نالیاں بھی اس طرف سے جاری رکھی جائیں، اگر متولی کے پاس روپیہ مسجد کانہ موجود ہو تو صرف رضا مندی دے دی جائے تاکہ میونسپل بورڈ اپنے صرفہ سے نالیاں اور سنڈا س  بنادے اور کسی قسم کا حرج مسجد کا نہ ہونے پائے۔

 (۱) کیا متولی شرع کے مطابق ایسی رضامندی دے سکتا ہے کہ سرکار کی طرف سے بنائی جائے۔

(۲) کیا پچھم کی طرف سے جو نالیاں یا سنڈ اس کمانے کا دروازہ ہے اس کے بدلے جانب دکھن سرکاری زمین لے کر مسجد کی آمدنی سے متولی اس کو درست کراسکتا ہے اگر مسجد کی آمدنی نہیں صرف کرسکتا ہے تو چندہ کرکے اس کام کو انجام دے سکتا ہے۔
الجواب: صورت مذکورہ میں جیسا کہ عبارت سوال سے ظاہر ہے زمین وقف میں کوئی تبدیل نہیں، صرف رخ پھیرنا ہے اور کمانے کاراستہ اور پانی کا نکاس پہلے بھی زمین وقف میں تھا اس تبدیل کا جواز جائے تامل نہیں، مگرمسجد کی آمدنی مصالح مسجدکےلئے ہوتی ہے اور یہ کام مصالح شارع عام کے لئے ہے مصلحت مسجد اس سے متعلق نہیں، لہذا آمدنی مسجد اس میں صرف نہیں ہوسکتی۔ چندہ کا اختیار ہے اور اس میں حرج نہیں کہ میونسپلٹی کی سڑکوں کے مصالح اس سے متعلق ہیں اپنے صرف سے بنادے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter