Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
71 - 112
مسئلہ۲۴۶: از شہر مظفر پور محلہ کلیانی حکیم ظہور الحق شنبہ ۱۸شوال المعظم۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس صورت میں کہ ایک محلہ میں شہر کے ایک مسجد پختہ مدت دراز سے قائم ہے اور کوئی معتبر شخص نہیں کہتا ہے کہ یہ مسجد زرحلال یا حرام سے کس طرح روپیہ سے بنی ہے اور بنانے والا کون ہے۔ مگر بعض اشخاص غیر معتبر کہتے ہیں کہ یہ مسجدایک عورت کی بنوائی ہوئی ہے جس نے ایک ملازم سرکاری سے عقدکیا تھا اور بعد عقد کے ظروف گلی کے بیچنے کا پیشہ کرتی تھی اور اپنی ظروف فروشی کے حلال روپیہ سے اس نے یہ مسجد بنوائی ہے چنانچہ قبر اس عورت کی صحن مسجد کے دالان میں موجود ہے اب مرمت وغیرہ مسجد مذکور ہ کی مسلمانان محلہ کے خرچ واہتمام سے ہوتی ہے اور برابرنماز پنجگانہ جماعت سے اس میں ہوتی ہے اور ایک شخص بمشورہ مسلمانا ن محلہ ان دنوں اس کا متولی ہے اور اذان دیتا ہے اور نمازیں پڑھاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ مسجدہماری نانی کی بنوائی ہوئی ہے مگر عندالناس یہ شخص شریف النسب نہیں ہے، پس اس صورت میں ا س مسجد کو مسجدکاحکم دیا جائے گا یانہیں؟اور نمازیں اس میں جائز ہوں گی یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: مسجد ضرور مسجد ہے اور اس میں نمازیں بے شک جائز اور بنانے والے کا شریف النسب نہ ہونااگرثابت بھی ہوتو کوئی حرج نہیں۔ بانی کی شرافت نسب کوئی شرط مسجد نہیں۔
قال اﷲ تعالٰی انما یعمر مسٰجداﷲ من اٰمن باﷲ ۱؎الاٰیۃ۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: مسجدیں تو وہی لوگ تعمیر کرتے ہیں جو اﷲ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۸)
اور جب زر حرام سے ہونا معلوم نہیں تو شبہ ووہم کو دخل دینا بے معنی ہے۔
فتاوٰی عالمگیریہ میں فتاوٰی ذخیرہ سے ہے امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا:
بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینہٖ ۱؎واﷲتعالٰی اعلم۔
  ہم اسی کو اخذ کرتے ہیں جب تک ہمیں کسی معین شیئ کے حرام ہونے کا یقین نہ ہوجائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الکراہیۃ  الباب الثانی فی الہدایا الخ   نورانی کتب خانہ پشاور     ۵/ ۳۴۲)
مسئلہ۲۴۷ تا ۲۵۰ : ازبریلی بازار صندل خاں مسئولہ نواب نثار احمد خاں صاحب یکشنبہ ۱۹شوال ۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان صورتوں میں کہ:
 (۱) دو شخصوں نے ایک چاہ ومسجد بخیال آرام وآسائش ادائے نماز اپنی کے تعمیر کرائی اوروقف نہ کی، نیز دیگر مکانات بھی اس میں پہلے بنانے والے کے ملحق مسجد واقع تھے اور اب بھی ہیں، بنانے والے کے ورثاء ہمیشہ سے یکے بعد دیگرے انتظام مسجد کرتے چلے آنے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں مگر اس میں دیگر اشخاص نماز ادا کرنے لگے، اب چند اہل محلہ ان مکانات وغیرہ کو متعلق مسجد خیال کرکے اس کی آمدنی اپنی رائے سے صرف و خرد برد کرنا چاہتے ہیں اور وارثان ہر دو اشخاص جن کے مورثوں نے مسجد و چاہ تعمیر کراکر وقف نہ کی وہ ان کے خرد برد سے آمدنی کو باز رکھناچاہتے ہیں پس عندالشرع ایسے شخص غیر تعلقدار اپنی رائے سے آمدنی مسجد صرف وخرد برد کرسکتے ہیں یانہیں؟ انتظام کس کی رائے سے ہونا چاہئے اور کس کی رائے سے نہ ہونا مناسب ہے، آیا غیر شخص کی رائے یا ان مورثوں کے ورثاء کے ہاتھ سے جنہوں نے مسجد وچاہ تعمیر کرایا ہے، اور اب بھی حسب ضرورت خرچ مسجد وامام وغیرہ ہی کرتے ہیں، صورت بالا میں مسجد بلاایماء بنوانے والے کے وقف سمجھی جائیگی یا نہیں اور بلاایماء بنوانے والے کے یا اس کے ورثاء کے غیر اشخاص کے ادائے نماز میں کوئی سقم واقع ہوگا یانہیں؟

(۲) اگر کوئی شخص امام مسجد مثلا طالب علم یا دیگر اہل محلہ سے مسجد میں اگر جھگڑا کرے اور تحکمانہ برتاؤ کرے ایسی باتیں کرے جس میں کہ تمام اہل محلہ وامام مسجد نالاں ہوکر مسجد میں آنا ترک کردیں تو ایسے شخص کو مسجد میں آنے دیا جائے یانہیں؟ باوجود مدد کرنے زر نقد وروٹی وغیرہ کے، اس پر اور اس کے ہم خیال وغیرہ پر کیا حکم شرع ہے؟

(۳)کانٹا ولوٹا ورسی وغیرہ سامان مسجد سوائے اپنے یا اپنے میل کے اشخاص کے کسی دوسرے شخص کو دینا پسند نہ کرے، او اگر لیں توجھگڑا کرے تو ایسے شخص پر کیا حکم شرع ہے؟

(۴) عالم پانی بھرنے والوں کو جو چاہ مسجدمیں بھریں برا کہے اور روکے برخلاف اپنے میل کے اشخاص کے، تو ایسے شخص پر کیا حکم شرع ہے؟
الجواب

(۱) مسجداگر صورت مسجد پر بنائی اور راستہ اس کا شارع عام تک جدا کردیا اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت دی تو بلاشبہ وہ مسجد ہوگئی اوراس کا یہ کہنا کہ بانی نے وقف نہ کی قابل قبول نہیں، یونہی اگر کنواں بناکر متعلق مسجد کردیا اس میں نماز وارثان بانی کی محتاج اجازت نہیں، ہاں اگر بہ ثبوت شرعی ثابت ہوکہ بانی نے کہا تھا یہ مسجد میں اپنے لئے بناتا ہوں وقف نہیں کرتا، یا اس کا راستہ اسی کی ملک میں ہوکر ہو 

اور اس نے مسجد کے لئے راہ جدانہ کی تو وہ مسجد نہ ہوئی اگرچہ صورت اخیرہ میں اس نے یہ بھی کہہ دیا ہو کہ میں نے اس کو وقف کیا، یوں اس میں نماز مسجد کا ثواب نہیں، نہ بے اجازت مالکان دوسرا پڑھ سکتاہے، رہے دیگر املاک متصل مسجد ثبوت شرعی سے ان کا مسجد پر وقف ہونا درکار ہے بے اس کے کوئی ان میں تصرف نہیں کرسکتا وہ وارثوں کی ملک ہے ان کو اختیار ہے۔

(۲) جو شخص ناحق فتنہ اٹھاتا ہو اور اس کے سبب لوگ مسجد میں آنا ترک کردیں اسے مسجد سے روکنا جائز ہے جبکہ باعث اثارت فتنہ نہ ہو، 

درمختارمیں ہے:
ویمنع منہ کل موذ ولو بلسانہ۱؎۔
مسجد سے ہر موذی کو روکا جائے گا اگرچہ وہ زبانی ایذا پہنچاتا ہو(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ     باب مایفسد الصلوٰۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۹۴)
اور اگر وہ کسی امر ضروری حق کی طرف بلاتا ہو اور لوگ اپنی جہالت کے سبب سے اس سے ناراض ہوں تو وبال انہیں پر ہے نہ کہ اس پر۔
 (۳) مال وقف پر کوئی اپنا قبضہ نہیں کرسکتا، اگر ایسا کرے اور نمازیوں کو مسجد کی اشیاء سے انتفاع نہ کرنے دے تو وہ بھی موذی اور قابل اخراج۔

(۴) کنویں پر سے کسی مسلمان کے روکنے کا کسی کو حق نہیں، جب تک کوئی خاص وجہ شرعی نہ ہو اور جو ایسا فساد کرتا ہو بطرز مناسب اس کا انسداد واجب ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۱ تا ۲۵۳: ازالہ آباد مدرسہ سبحانیہ محمد نصیر الدین محلہ سرائے گڈھا پنجشنبہ ۲۳شوال ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد شاہی زمانہ کی لب سڑک تھی اس میں ایک درجہ پچھم جانب گنبد دار تھا اور مسجد کے پورب ودکھن جانب دکانات ہیں جن کی چھت مسجد کے فرش صحن سے، اب مسجد ہذا کی از سر نو تعمیر اس طور پر کی گئی کہ پچھم کی جانب بجائے ایک درجے قائم کئے گئے اور دکانات کی بھی چھت پر عمارت بنائی گئی جس کے ہر چہار طرف بڑے بڑے دروازے جواب بنائے گئے اور مسجد کی کرسی بھی اتنی بلند کی گئی کہ دکانوں کی چھت فرش مسجد سے برابر ہوگئی صرف چھ انگشت بمقدار درسہ دکانات کی چھت سے فرش مسجد اونچی ہے مسجد ہی کی طرف سے اس چھت پرآمد ورفت ہے، رمضان المبارک کے جمعوں میں اس قدر لوگوں کی کثرت ہوتی تھی کہ لوگ مسجد میں نہیں سماتے تھے سڑکوں پر صف قائم کرنے کی نوبت آتی تھی۔ اس ضرورت سے مسجد دو منزلہ بنائی گئی، مسجد کے اندر کے درجہ چھت پر ایک درجہ گنبدی بنایا گیا

اور اس برابر آگے کا درجہ اور تمام صحن مع عمارت بالائے سقف دکانات پاٹ دیا گیا گویا کہ نیچے اوپر دو مسجدیں ہوگئیں نیچے کی مسجد مع صحن و اپنے حوالی کے پٹی ہوئی ہوگئی اور اوپر ایک درجہ پٹا ہواگنبدی اور اس کے ساتھ بہت بڑا صحن کھلا ہوا نکل آیا اور اوپر کے درجہ کے سامنے جو صحن ہے وہ محاذات مسجد سے دکھن جانب بڑھا ہو ا ہے کیونکہ دکانات کی چھت کی عمارت کی سقف بھی شامل کر لی گئی ہے ۔اب دریافت طلب امریہ ہے کہ اوپر کی مسجدکا جو صحن بغرض وسعت دکھن کی طرف بالائے سقف دکانات بڑھا ہواہے وہ مسجد ہے یانہیں؟

دوم یہ کہ دکانات مذکورہ کی چھت پریا اس کے بالائے عمارت کے سقف پر معتکف جاسکتا ہے یانہیں؟

سوم یہ کہ اوپر کے مسجد پر صحن میں جب امام محراب کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو دکھن کی جانب صف بڑھ جاتی ہے ایسی حالت میں امام کچھ ہٹ کر دکھن کی جانب کھڑا ہوتا ہے کہ دونوں جانب صف برابر رہے یا خود محراب کے سامنے کھڑا ہو اور مقتدیوں کو زائد حصہ میں دکھن کی جانب کھڑ ے ہونے سے روکے اور اپنے پیچھے دونوں طرف صف برابر قائم کرنے کاحکم دے کیونکہ امام کے پیچھے دورتک بہت جگہ باقی رہتی ہے، فقط
الجواب:  اگر وہ دکانیں متعلق مسجد اور اس پر وقف ہیں اور مسلمانوں نے ان کی سقف کو داخل کرلیا تو وہ سقف بھی مسجد ہوگئی،
ولایضرکون الحوانیت تحتہ لکونھا وقفا علیہ وجاز اخذ ملک الناس کرھا بالقیمۃ عند ضیق المسجد فکیف بما ھو وقف علیہ ۱؎کما فی ردالمحتار۔
مسجد کے نیچے دکانوں کا ہونا مضر نہیں کیونکہ وہ مسجد پر وقف ہیں، اگر مسجد تنگ ہوتو لوگوں کی مملوکہ  جگہ قیمت کے بدلے جبراً لے کر مسجد میں توسیع کرنا جائز ہے تو جو مسجد پر وقف ہو اس کو شامل مسجد کرنا کیونکر جائز نہ ہوگا، جیساکہ ردالمحتار میں ہے(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۰ و ۳۸۴)
ان دکانوں کی چھت پر اور ان کی بالائی عمارت کی سقف پر معتکف جاسکتا ہے،
لانھا کانت من فناء المسجد ولاطریق فاصل بینھما فکیف وقد صارت من المسجد۔
کیونکہ وہ فناء مسجد ہے اور درمیان میں کوئی راستہ جدائی ڈالنے والا نہیں اور کیسے ناجائز ہوگا جبکہ وہ مسجد ہی کا حصہ ہوگیا ہے(ت)
اگر امام محراب کے سامنے کھڑا ہو اور اپنے توسط کے لئے صف پوری نہ کرنے دے تو گناہ وناجائز ہے۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من وصل صفا وصلہ اﷲ ومن قطع صفا قطعہ اﷲ۱؎۔
حضورانور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جو صفوں کو ملائے اﷲتعالٰی اس کو وصل عطا فرماتا ہے اور جو صفوں کو قطع کرے اﷲ تعالٰی اس کو منقطع فرماتاہے(ت)
(۱؎ سنن ابوداؤد    کتاب الصلوٰۃ    باب تسویۃ الصفوف    آفتاب عالم پریس لاہور    ۱/ ۹۷)
اور خود محراب کے سامنے کھڑا ہو اور صف پوری ہوکر ایک جانب بڑھ جائے تو مکروہ اور خلاف سنت ہے
لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم توسطواالامام۲؎۔
نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ امام درمیان میں ہو۔(ت)
(۲؎سنن ابوداؤد    کتاب الصلوٰۃ   باب مقام الامام من الصف  آفتاب عالم پریس لاہور      ۱/ ۹۹)

(السنن الکبرٰی      کتاب الصلوٰۃ   باب مقام الامام من الصف    دارصاردر بیروت    ۳/ ۱۰۴)
بلکہ یہ چاہئے کہ صف پوری کی جائے اور صف کا جہاں وسط ہو امام محراب چھوڑکر وہاں کھڑ اہواس بیرونی حصہ کے لئے یہی جگہ محراب ہے
نص علیہ فی ردالمحتار التفصیل فی فتاوٰنا
 (ردالمحتار میں (علامہ شامی) نے اس پر نص فرمائی اور تفصیل ہمارے فتاوٰی میں ہے۔ت) مگر یہ معلوم رہے کہ مسجد کی چھت پر بلاضرورت جانا منع ہے اگر تنگی کے سبب کہ نیچے کا درجہ بھر گیا اوپر نماز پڑھیں جائز ہے اور بلاضرورت مثلاً گرمی کی وجہ سے پڑھنے کی اجازت نہیں
کما نص علیہ فی الفتاوٰی عالمگیریۃ
 (جیسا کہ فتاوٰی عالمگیریہ میں اس پر نص کی گئی ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۵۴: مسئولہ شمس الدین از نصیر آباد ضلع اجمیر شریف مسجد گودام چرم دو شنبہ ۱۷ذیقعدہ ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ چند اشخاص ایک مسجد میں خلاف تہذیب وناشائستہ حرکات کرتے ہوئے مثلاً کسی وقت اس میں لڑے، گالی گلوچ تک نوبت پہنچی اور بہت شوروشغب کیا، کسی وقت مسخرہ پن کیا، ایک نے دوسرے کا تہبندکھول دیا، بعض وقت کسی کی مقعد میں انگلی کردی، کبھی مؤذن کی آواز پر ہنسے قہقہے اڑائے۔ ان سب باتوں کو دیکھ کر ایک شخص نے ناصحانہ حیثیت سے محض نصیحت اور سمجھانے کے طور کہاکہ بھائیو!مسجد خانہ خدا ہے اس کے اندر تم کویہ افعال جائز نہیں ہیں، اور غور کرو کہ مسجد کی حرمت اور تعظیم ہم پر 

اور تم پر اور ہر مسلمان پر ہر وقت ضروری اور فرض ہے، تو ان لوگوں نے اس کی بات کو نصیحت اور خیر خواہی نہ سمجھ کر تعصب اور نفسانیت تصور کرکے خلاف منشاء ناصح کے جواب دیا، اس پر ناصح مذکور نے کہا کہ مسجد نماز اور ذکر خدا کے لئے گئی ہے بیہودہ باتوں کے لئے نہیں ہے۔ مسخرہ پن کرنا چاہتے ہوتو دوسری مسجد تلاش کرو۔ اس بات پر اکڑ گئے کہ تم نے مسجد پر مالکانہ دعوی کیا اور ہم کو مسجد سے نکال دیا اور اب دوسری مسجد بنانا چاہتے ہیں اور مسجد اول کی ویرانی اور جماعت کم ہوجانے کا کچھ خیال نہیں کرتے، کیا باوجود تخریب مسجد اول اورتقلیل جماعت ان کو مسجد ثانی بنانا جائز ہے؟یادوسری مسجد ضرار کہلائے گی؟فقط۔
الجواب: اگر یہ واقعی اسی طرح ہے اور ان کی نیت فاسد ہے تو ضروردوسری مسجد بنانے کی ان کی اجازت نہیں، بوجہ فساد نیت وہ مسجد حکم ضرار میں ہوگی۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۵۵ تا ۲۵۶: مرسلہ عبدالغنی، حاجی کریم بخش صاحب از مقام کمپ ڈیسہ علاقہ ریاست پالن پور۸صفر ۱۳۳۵ھ
حضرات علمائے دین کی خدمت میں مسائل شرعی دریافت طلب پیش ہیں:

مسئلہ اول: قدیمی جامع مسجد کو ترک کرکے دوسری مسجد کو مسجد جامع قرار دے سکتے ہیں  یانہیں؟اور قدیمی جامع مسجد ترک کرنے کا سبب یہ ہے کہ اس کی نسبت یہ اندیشہ ہے کہ کچھ عرصہ میں خود بخود منہدم ہوجائے کیونکہ اس کے دو جانب برساتی نالے فراخ ہوتے جاتے ہیں اور مسلمان اس قدر مقدرت نہیں رکھتے کہ نالوں کو پٹوا کر مسجد کو محفوظ کرسکیں اور اس کے علاوہ ان نالوں کو سوائے سرکار انگریزی کے دوسرے شخص کو بندکرانے کا مجاز بھی نہیں، اور جس مسجد کو مسجد جامع قرار دینا چاہتے ہیں وہ جامع مسجد سے محکم اور فراخ بھی ہے، تو ایسی صورت میں دوسری مسجد کو جامع قرار دینا جائز ہے یانہیں؟

دوسرا مسئلہ:کسی ایسے ہندو یا انگریز حاکم کا روپیہ جو اسلام کی طرف قلبی توجہ رکھتا ہو مسجد میں لگانا جائز ہے یانہیں؟فقط
الجواب

(۱) جائز ہے، اور اس مسجد اول کی محافظت تاحدقدرت فرض ہے۔

(۲) ایسی ضرورت کی حالت میں جیسی اوپر مذکور ہوئی کہ مسجد شہید ہوجائیگی اور مسلمانوں میں طاقت نہیں جائز ہے
لان الضرورات تبیح المحظورات۱؎
 (کیونکہ مجبوریاں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الاول    القاعدۃ الخامسہ     ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۱۱۸)
Flag Counter