مسئلہ۲۳۵ تا ۲۴۱: ازرائل ہوٹل لکھنؤحبیب اﷲ خاں بروز شنبہ ۲۵رجب ۱۳۳۴ھ
(۱) جو شخص حافظ کسی مسجد میں واسطے امامت وحفاظت کے مقرر ہو وہ مسلمانان اہل محلہ سے جو مسجد میں نماز کوآئیں ان سے ایسی کج خلقی کا برتاؤ کرے جس کی وجہ سے مسجد میں آنا ترک کردیں اورجماعت میں خلل پڑجائے، اس کے واسطے کیا حکم ہے؟
(۲) وہ شخص حافظ جو امام ومحافظ مسجد کا ہواور مسجد میں پنجگانہ اذان نہ خود کہے نہ کہلوائے، نہ روازنہ صفائی مسجد کی کرے، اور دوسرے نمازیوں کو جو صفائی مسجدمیں کریں ان کو مسجد کی خدمت کرنے سے منع کرے اور یہ کہے کہ مسجد کی خدمت کرکے کیا مسجد میں قبضہ کرنا چاہتے ہو، اس مسجد میں ہم جو چاہیں کریں تم لوگ کچھ نہیں کرسکتے ہو۔ اس پر کیا حکم ہے؟
(۳) جو شخص حافظ امام مسجد ہو اس حق سے مسجد کے درخت اور گملے جو عرصہ دراز سے مسجد کی زیبائش ورونق کے واسطے لگائے ہوئے ہوں اٹھاکر اور اکھاڑ کر اپنے گھر کو لے جائے اور اپنا قبضہ ہر چیز پر جو مسجد میں ہو اس پر ظاہر کرے اس پر کیا حکم ہے؟
(۴) وہ حافظ جو امام مسجد ہو اورمسجد میں جو بمباپانی کا نمازیوں کے آرام اور خرچ مسجد کے واسطے لگا ہواہو اس کو اکھڑ وادے اور منع کرنے سے نہ مانے اوردوسرے مسلمان کو جو مسجد میں بمبا لگوانا چاہیں ان کو منع کرے اور نہ لگانے دے اور نمازیوں کی تکلیف پیش نظر رکھے اس پر کیا حکم ہے؟
(۵) مسجد میں مٹی کا تیل ٹین کی ڈبیہ میں جلائے جس سے مسجدمیں بدبو اور سیاہی ہو اور چھت سیاہ ہوجائے اس پر کیاحکم ہے؟
(۶) موسم گرما میں نمازی صحن مسجدمیں نماز پڑھنے کو چٹائی بچھانے کی خواہش کریں اور محافظ مسجد چٹائی حجرہ میں بندکردے بچھانے کونہ دے اور نمازی باہم چندہ کرکے بخیال رفع تکلیف وآسائش نمازیوں کے چٹائی منگا کر بچھانا چاہیں تو ان کو نہ بچھانے دے اور کہے کہ جو کوئی اس مسجدمیں چٹائی رکھے گا تو ہم اس چٹائی کو باہر مسجد کے پھینک دیں گے جس کی خوشی ہو اندر مسجد کے یا صحن مسجد میں بحالت موجودہ خواہ گرداہویا کچھ ہو نماز پڑھے یانہ پڑھے اپنی چٹائی نہیں بچھا سکتا ہے، کیا مسجد میں چٹائی بچھا کر مسجد پر نمازی اپنا قبضہ کرناچاہتے ہیں جن کے بزرگوں کی مسجد بنوائی ہوئی ہے ان کی طرف سے ہم مقرر ہیں ہم چاہیں چٹائی مسجدمیں ڈالیں یانہ ڈالیں دوسروں کو ڈالنے کا اختیار ومجاز نہیں ہے، اس پر کیا حکم ہےـ؟
(۷) جو حافظ امام مسجد ہو اور اس طرح کا عمل مذکورہ بالاکرے جس سے نمازیوں کو تکلیف ہو اور
جماعت میں خلل پڑے اور ان کی وجہ سے مسجد میں آنا چھوڑدیں اور وہ شخص مسجد کو اپنا مقبوضہ خیال کرے وہ شخص امام رہنے کے قابل ہے یانہیں؟اور اس کے پیچھے نماز جائز ہے یانہیں؟اور اس کو خطاب کرنا چاہئے؟اور اس پر حد شرع کیا ہے؟فقط۔
الجواب
(۱) اس صورت میں وہ گنہگار و مستحق عذاب ہے کج خلقی وغیرہ تو بڑی بات ہے سیدنا معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنی مسجد میں ایک بار نماز عشاء کی قرأت طویل کی وہ ایک مقتدی کوناگوار ہوئی، اس کا حال حضور میں عرض کیا گیا اس پر ایسا غضب فرمایا کہ ایسی شان جلال کم دیکھی گئی تھی ا ور معاذ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا:
افتان انت یامعاذ، افتان انت یا معاذ، افتان انت یا معاذ۱؎۔
اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو، کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو،کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو۔
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الادب قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۹۰۲)
(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ، باب القراۃ فی العشاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۸۷)
(سنن نسائی کتاب الامامۃ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۱/ ۱۳۳)
(سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تخفیف الصلوٰۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۱۱۵)
(۲) اذان سنت مؤکدہ اور شعار اسلام ہے اور بغیر اس کے جماعت مکروہ، یہاں تک کہ اگر امام مسجد آہستہ اذان کہلوا کرجماعت پڑھ جائے وہ جماعت اولٰی نہ ہوگی، بعد کو جو لوگ آئیں انہیں حکم کہ اعلان کے ساتھ اذان کہیں اور پھر ازسرنوجماعت کریں، اس کا تارک اور لوگوں کو اس سے منع کرنے والا صریح گمراہ وفاسق ہے، یونہی مسجد کی تنظیف کابھی شرع میں حکم ہے۔ سنن ابوداؤد میں ہے:
امر النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم ببناء المسجد فی الدور وان تنظف وتطیب۲؎۔
نبی اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے گھروں میں مساجد بنانے اور انہیں پاک وصاف رکھنے کا حکم دیا ہے (ت) جو نہ خود کرے اور نہ اوروں کو کرنے دے مسجد کا بدخواہ ہے۔
(۲؎سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب اتخاذ المساجد فی الدور آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۶۶)
(۳) مسجد میں پیڑ بونا ممنوع ہے اور ان کا اکھاڑ ناجائز مگر اس کے لگائے ہوئے نہیں تو اپنے گھر لے جانے کا کوئی معنی نہیں۔قبضہ اگر مسجد کی اشیاء پر متولیانہ ظاہر کرے تو حرج نہیں جبکہ متولی ہو اور مالکانہ ہو تو حرام۔
(۴) مسجد ہی کے دو معنے ہیں ایک یہ کہ فنائے مسجد یعنی اس کے متعلق زمین اس کا بلاوجہ شرعی زائل کرنا اور نمازیوں کو تکلیف پہنچانا شرعاً ممنوع ہے، دوسرے یہ کہ عین مسجد میں اگر قبل تمام مسجدیت واقف نے لگایا تو باقی رکھا جائے گا اور اس کا ازالہ بھی ممنوع ہے اور اگر بعدتمام مسجدیت بانی نے خواہ اور کسی نے لگایا تو وہ لگانا حرام اور اکھاڑدینا واجب۔
(۵) یہ حرام ہے اور اس کا ازالہ فرض، اور کرنے والا مسجد کا بدخواہ، اور دربارہ الٰہی کے ساتھ گستاخ۔
(۶) اس پر استحقاق لعنت ہے اور وہ خود ہی مسجد پر قبضہ مالکانہ کرنا چاہتا ہے دوسروں پر جھوٹا الزام رکھتا ہے۔
(۷) شنائع مذکورہ کے مرتکب فاسق معلن کو امام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی منع، اور پڑھ لی تو پھیرنا واجب، اور مسجد پر سے اس قبضہ ظالمانہ کا اٹھا دینا لازم، اور شرعاً وہ ہر اس تعزیر کا مستحق ہے جو سلطان اسلام تجویز فرماتا ہو، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۴۲: مسئولہ سیٹھ آدم جی بردردولت اعلٰیحضرت یکم شعبان ۱۳۳۴ھ
(۱) مسجد میں چراغ تمام شب جلانا چاہئے یا یا جہاں تک نمازیوں کی آمد ورفت ہو وہاں تک؟
(۲) محراب مسجد کو یادیوار قبلہ نقش ونگار اور سونے کا پانی چڑھانا اور رنگ دینا مکروہ ہے یانہیں؟فقط۔
الجواب
(۱) وہاں کے عرف معہود پر عمل کیا جائے جہاں شب بھر روشن رہتا ہے جیسے مساجد طیبہ، مدینہ و مکہ معظمہ وبیت المقدس وہاں شب بھر روشن رکھنا چاہئے ورنہ نصف شب کے قریب تک۔
(۲) مکروہ ہے کہ باعث شغل قلب نمازیان ہے مگر واقف نے کیا ہو تو ویسا ہی کیا جائے گا اور اس میں نیت تعظیم مسجد ہوگی ۔واللہ تعالی اعلم
مسئلہ ۲۴۴: از وزیر آباد ضلع گوجرانوالا مسجد شیخ لعل نور عالم امام مسجد یکشنبہ ۱۶شعبان ۱۳۳۴ھ
بخدمت حامی سنت، قامع بدعت، عالم اہلسنت وجماعت، مرجع علمائے وفضلاء جناب مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب سلمہ اﷲتعالٰی ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ تعالٰی وبرکاتہ۔
ہماری مسجد بسبب کہنہ ہونے کے شہید کراکر ازسر نو تعمیر کرائی جارہی ہے، بعض اصحاب کا خیال ہے
کہ نیچے دکانیں اور اوپر مسجد تعمیر ہو، تاکہ دکانوں کا کرایہ مسجد کے مصالح ومصارف پر وقتاً فوقتاً خر چ ہوتا رہے، اور بعض اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ مسجد کا احاطہ تحت الثرٰی سے عرش معلی تک قابل احترام ہے دکانیں بنانے میں احترام نہیں رہتا کیونکہ مسجد کا گرداگردا بھی قابل احترام ہے۔ہاں اگر ابتداء بناء میں دکانیں بنائی جاتیں تو جائز تھا جیسا کہ لاہورمیں مسجد وزیر خاں اور سنہری مسجد۔ مجوزین کہتے ہیں کہ فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ مسجد کے اوپر امام کے لئے بالاخانہ جائز ہے، اور مسجد کا احترام جیسا کہ نیچے کے حصہ کا ویسا ہی اوپر کا، جب بالاخانہ بنانے سے احترام میں فرق نہیں آتا تو دکانیں بنانے میں کیا حرج ہے، حالانکہ فائدہ ہے۔ نیز مسجد تنگ ہوتو راہ کا کچھ حصہ اس میں ملالینا اور راہ تنگ ہوتو مسجد کا کچھ حصہ راہ میں ملادینا جائز ہے، جب ضرورت کے وقت بلالحاظ احترام ایسا تغیر وتبدل جائز ہے تو دکانیں بنانے میں بھی چونکہ مسجد کے مصلحت کی ضرورت ہے کیوں جائز نہیں ہے اور عدم جواز کی کیا وجہ ہے؟اور آج کل ضلع گوجرانوالا میں ایک مسجد شہید کراکر نیچے دکانیں بنائی گئی ہیں اکثر علماء نے فتوٰی جواز کا دے دیا ہے حتی کہ فیصلہ عدالت حکام میں بطور نظیر رکھا گیا ہے، اور فتوٰی جواز عندالعلماء مسلم ہوچکا ہے۔ غیر مقلدین جواز کے قائل ہیں مگر ہمارا اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ کتابوں میں عدم جواز ہی دیکھا ہوا ہے البتہ تذبذب وتشتت ہوگیا ہے۔ لہذا خدمت میں گذارش ہے کہ خدا کے واسطے مطابق کتاب وسنت اس مسئلہ کی تحقیق فرماکر جلد مرحمت فرمائیں تاکہ اس جھگڑے سے ہمیں نجات ملے، جواز یا عدم جواز جو حق ہو دلائل قاطعہ سے مدلل فرماکر جلد روازنہ فرمائیں کیونکہ عمارت رکی ہوئی ہے اور دیر ہونے میں حرج ہوتا ہے۔
جزاکم اﷲ فی الدنیا والآخرۃ۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں وہ دکانیں قطعی حرام اور وہ بالاخانہ بھی قطعی حرام، ہاں وقت بنائے مسجد قبل تمام مسجدیت نیچے مسجد کے لئے دکانیں یا اوپر امام کے لئے بالاخانہ بانی بنائے اور اس کے بعد اسے مسجد کرے تو جائز ہے اور اگر مسجد بناکر بنانا چاہے اگرچہ مسجدکی دیوار کا صرف اسارااس میں لے اور کہے میری پہلے سے یہ نیت تھی ہرگز قبول نہ کریں گے اور اس عمارت کوڈھادیں گے۔
درمختار میں ہے:
لو بنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح اما لوتمت المسجدیۃ ثم ارادالبناء منع ولو قال عنیت ذلک لم یصدق تاتارخانیۃ فاذا کان ھذا فی الواقف فکیف بغیرہ فیجب ھدمہ ولو علی جدارالمسجد ولایجوز اخذالاجرۃ منہ ولان یجعل شیئا منہ مستغلا ولاسکنی بزازیۃ۔۱؎
اگر واقف نے مسجد کے اوپر امام کے لئے حجرہ بنادیا تو حرج نہیں کیونکہ وہ مصالح مسجد میں سے ہے لیکن تمام مسجدیت کے بعد اگر وہ ایساکرنا چاہے تو اس کو منع کیا جائے گا، اگر وہ کہے کہ میرا شروع سے ارادہ تھا تو اس کی تصدیق نہیں کی جائیگی(تاتارخانیہ) جب خود واقف کا حکم یہ ہے تو کسی اور کو یہ اختیار کیسے ہوسکتا ہے لہذا ایسی عمارت کو گرانا واجب ہے اگرچہ صرف دیوار مسجد پر وہ استوار کی گئی ہو، اس کی اجرت لینا یا مسجد کا کوئی حصہ کرایہ کے لئے یا رہائش کے لئے مقرر کرنا جائز نہیں (بزازیہ)(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف مطبع مجتبائی دہلی ۱ / ۳۷۹)
وقت ضرورت راہ کا حصہ مسجد میں ملالینے کے یہ معنی نہیں کہ راہ بدستور راہ ہے اور اسے مسجد کرلیا جائے جس سے مخالف احترام لازم آئے بلکہ اس پارہ راہ کو جب مسجد میں شامل کرلیا جائے گا وہ تمام احکام مسجد میں ہوجائے گا اور اسے گزرگاہ بنانا ناجائز ہوگا اور مسجد کو بایں معنی راہ بنانا کہ وہ مسجدیت سے خارج اور اس کا احترام ساقط اور راہ میں شامل ہوجائے ہرگز جائز نہیں۔ مسئلہ کہ بعض کتب میں لکھا ہے اس کے معنٰی اور ہیں جس کی تفصیل وتحقیق دیکھنی ہوتو فقیر کا فتاوٰی یا ردالمحتار کا حاشیہ یارسالہ مطبوعہ "قامع الواہیات لجامع الجزئیات" ملاحظہ ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اندریں معاملہ کہ یہاں پر قریب تین سوگز کے آبادی مسلمانوں کی ہے اور یہاں کی جامع مسجد میں علاوہ نماز جمعہ کے پنج وقتی نماز جماعت کے ساتھ ادا ہوتی ہے اس میں مسافر لوگ باہر کے نمازی وغیر نمازی آکر ٹھہراکرتے ہیں اور دن رات وہاں پر رہتے سوتے ہیں، یہ عمل قریب عرصہ تین چار سال سے جاری ہے، اور یہ بات مسلم ہے کہ حالت خواب میں انسان کو اپنے جسم کا خیال نہیں رہ سکتا، ایسے میں اگر احتلام بھی ہوجاتا ہوتو کیا عجب ہے اس کے دفع کے لئے بہت سے کوشش کی مگر ناکامی ہوئی حتی کہ ایسا عمل کرنے میں ان کے دیکھا دیکھی قصبہ کے مسلمانان بھی پورے طور پر عادی ہوگئے ہیں، ایسی حالت دیکھنے پر منع جو کیا گیا تو جواب ملا کہ بڑے بڑے شہروں میں یہ عمل ہوتا ہے اگر منع ہوتا تو وہاں پر لوگ ایسا نہ کرتے ہم نہیں مان سکتے جب تک کہ ہم کو کسی کتاب سے یا حدیث صحیح سے اس کے عدم جواز کے بارہ میں صاف طور آگاہ نہیں کردیا جائے، علاوہ ازیں ایک حافظ صاحب نابینا ٹونگ کے رہنے والے ہیں ان کی تو یہ حالت ہے کہ صبح سے چار بجے تک حالت خواب میں رہتے ہیں، کبھی پیر قبلہ کی اور کبھی اوتر کی جانب رہتے ہیں۔ گاہ بگاہ نماز جمعہ تک کے بھی ہاتھ نہیں آتے اور یہ صاحب طلبہ خورد سالہ کو جن کو اپنے پیروں کے ناپاکی سے بچانے کا خیال تک نہیں رہتا، جامع مسجد ہی میں درس دیتے ہیں، اور طلبہ صبح سے لے کر چار بجے تک وہاں پر ہی حاضر رہتے ہیں ان منع کیا گیا کہ آپ سمجھدارہیں یہاں کا سونا اور بچوں کو اس جگہ تعلیم دینا بند کریں کیونکہ ان کے پیرنا پاکی میں آلود رہتے ہیں اور سونا مدرسہ اسلامیہ یا جس صاحب کے مکان پر رہتے ہیں یاجہاں پر علاوہ مسجد کے آپ پسند فرمائیں اختیار کریں جس سے نہایت غصہ میں آکر جواب دہ ہوئے کہ ہم نہیں مان سکتے تمہارا جو جی چاہے کرو، ایسی شکل میں ہمارے واسطے مسجد میں سونا درست ہے یانہیں؟اب قصبہ میں یہ مرض مسلمانوں میں دیکھا دیکھی زیادہ ترقی پر ہے، مسجد میں بخوبی رہتے ہیں، ایسی صورتہائے مذکورہ بالا میں ہمارے مذہب حنفی میں کیاحکم ہے؟اس کا جواب بحوالہ کتب معتبرہ بحوالہ حدیث صحیح کے نہایت شرح سے دیا جائے، فقط۔
الجواب:
صحیح راجح یہ ہے کہ معتکف کے سوا کسی کو مسجد میں سونے کی اجازت نہیں۔
مسجد میں غیر معتکف کے لئے سونا جائز نہیں الخ بعض نے مسافر کو اس حکم سے مستثنٰی کیا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ اعتکاف کی نیت کرکے حسب استطاعت اﷲ تعالٰی کا ذکرکرے اور پھر جو چاہے کرے(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۴)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۴۴)
مسجد میں ناسمجھ بچوں کے لے جانے کی ممانعت ہے،
حدیث میں ہے:
جنبوامساجدکم صبیانکم ومجانینکم۳؎۔
اپنی مساجد کو اپنے ناسمجھ بچوں اور پاگلوں سے محفوظ رکھو۔(ت)
(۳؎ سنن ابن ماجہ ابواب الصلوٰۃ باب مایکرہ فی المساجد ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۵۵)
خصوصاً اگرپڑھانے والا اجرت لے کر پڑھاتا ہوتو اور بھی زیادہ ناجائز ہے کہ اب کاردنیا ہوگیا اور دنیا کی بات کے لئے مسجد میں جانا حرام ہے نہ کہ طویل کار کے لئے۔وا ﷲ تعالٰی اعلم