Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
7 - 112
مسئلہ۲۰:مسئولہ عزیز الحسن قادری رضوی ازقصبہ پھپھوند ضلع اٹاوہ محلہ اونچا ٹیلہ۱۲ذیقعدہ ۱۳۳۵ھ
ہندہ سنی حنفی پابند صوم وصلوٰۃ جو پندرہ بیس برس ہوئے کہ اپنے مادری پیشہ کسب سے توبہ کرچکی، اپنی مقبوضہ کل جائداد واملاک جو اس کی ماں اور نانی کی متروکہ اور ان کو ان کے آشناؤں کی ہبہ کی ہوئی ہے مدرسہ دینیہ کی تعلیم میں یا اسکے یتیم ومفلس طلبہ کی خوردونوش کی صرف میں لانے کی غرض سے وقف کرنا چاہتی ہے، پس سوال حضرات مفتیان شرع شریف سے یہ ہے کہ منتظمین مدرسہ کو یہ جائداد اپنے قبضہ میں لاکر اس کے محاصل کو ہندہ کی خواہش کے موافق صرف میں لاناشرعاً جائز ہے یانہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب

جو روپیہ بعوض زنا وغنا حاصل کیا مثل غصب حرام مطلق ہے کہ کسی طرح اس کی ملک نہیں ہوسکتا ہے وہ جائدادیں جو آشناؤں نے زانیات کو ہبہ کیں وہ ہبہ بھی محض باطل ہے وہ اصل دینے والوں کی ملک پر رہیں ان کی ملک میں نہیں آسکتیں،
قنیہ ودرمختارمیں ہے:
مایدفعہ المتعاشقان فھو رشوۃ۱؎۔
عشق بازی کرنیوالے ایک دوسرے کو جو دیں وہ رشوت ہے(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃبحوالہ القنیۃ    کتاب الہبۃ     الباب الحادی عشر فی المتفرقات    ۴/ ۴۰۳)
ہاں جو جائداد زانیہ نے خریدی ہو اور اس کے شراء میں عقدونقد  دونوں  زرِ حرام پر جمع نہ ہوئے ہوں مثلاً روپیہ پیشگی دے کر کہا کہ اس روپے کے عوض جائداد دے دے بائع نے اس کے عوض بیع کردی یہ تو حرام پر عقد ہوا، اور وہی روپیہ زرِ ثمن میں دیا گیا یہ حرام کا نقد ہوا دونوں جمع ہوگئے اس صورت میں بھی وہ جائداد ان کی ملک نہ ہوگی ہاں اگر زرحرام پر عقد ونقد دونوں جمع نہ ہوئے ہوں مثلاً جائداد خریدی اس وقت ثمن کی تعین خاص مال حرام سے نہ تھی نہ وہ دکھایا گیا نہ پیشگی دیا گیا مطلق روپے کے بدلے خریدی تو یہ جائداد اس خریدنے والے کی ملک صحیح وحلال ہوجائے گی اب زرثمن اس حرام مال سے ادا کیا گیا تو یہ گناہ ہو ااور بائع کو اس کا لینا حرام تھا مگر جائداد اس کی ملک میں آگئی، اسی طرح جو کچھ ان کو اجرت ورشوت کے علاوہ ناچ گانے میں بطور انعام دیا جاتا ہےجسے''بیل''کہتے ہیں وہ ان پر حرام نہیں
کما نص علیہ فی الھندیۃ
 (جیسا کہ فتاوٰی ہندیہ میں اس پر نص کی گئی ہے۔ت) غرض جن صورتوں میں جائداد اس کی ملک ہے اسے وقف کرسکتی ہے مہتممان مدرسہ اسے لے سکتے ہیں اور جس صورت میں جائداد اس کی ملک نہیں وہ اسے وقف نہیں کرسکتی نہ اس کے وقف کئے وقف ہو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جائداد کسی فقیر محتاج مسلمان کو ہبہ کرکے قبضہ کرادے اگرچہ اپنے کسی عزیز قریب مثل ماں بہن وغیرہ کو، اور وہ وقف کردے یا یہ اس سے خرید کر اگرچہ ایک پیسے کو یا اس سے اپنے نام ہبہ کراکے قبضہ میں کرکے خود وقف کردے اب یہ وقف صحیح ہوگا اور مدرسہ میں اس کاصرف حلال۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۱: ازنگینہ ضلع بجنور متصل مسجد کھجور والی، مکان حکیم مبارک حسین صاحب مرسلہ صوفی حاجی محمد ابراہیم صاحب ۴ رمضان المبارک۱۳۳۶ھ
جنازہ کے اوپر جو چادر نئی ڈالی جاتی ہے اگر پرانی ڈالی جائے تو جائز ہے یانہیں؟اگر کل برادری کے مردوں کے اوپر ایک ہی چادر بنا کر ڈالتے رہا کریں تو جائز ہے یانہیں؟ اس کی قیمت مردہ کے گھر سے یعنی قلیل قیمت لے کر مقبرہ قبرستان یا مدرسہ میں لگانی جائز ہے یانہیں؟ اور چادر مذکور اونی یاسوتی بیش قیمت جائز ہے یانہیں؟
الجواب

نئی ہو یا پرانی یکساں ہے، ہاں مسکین پر تصدق کی نیت ہو تو نئی اولی، اور اگر ایک ہی چادر معین رکھیں کہ ہر جنازے پر وہی ڈالی جائے پھر رکھ چھوڑی جائے اس میں بھی حرج نہیں بلکہ اس کے لئے کپڑا وقف کرسکتے ہیں،
درمختار میں ہے :
صح وقف قدر وجنازۃ وثیابھا ۱؎۔
ہنڈیا، جنازہ اور اس کے کپڑے کا وقف صحیح ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار   کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۰)
طحطاوی وردالمحتار میں ہے:
جنازۃ بالکسرالنعش وثیابھا مایغطی بہ المیت وھو فی النعش۲؎۔
جنازہ کسرہ کے ساتھ چارپائی اور اس کے کپڑے جن سے میت کو ڈھانپا جائے۔(ت)
 (۲؎ردالمحتار    کتاب الوقف   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۷۵)
اور بیش قیمت بنظر زینت مکروہ ہے کہ میت محل تزئین نہیں اور خالص بہ نیت تصدق میں حرج نہیں
کجلال الھدی
 (جیسا کہ ہدی(قربانی)کے جانور کے جُھل۔ت)واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲:مسئولہ آفتاب الدین از مدرسہ منظر الاسلام
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندو زمیندار اپنی زمین مسجد کے لئے وقف کرے تو یہ وقف ہماری شریعت میں معتبر ہے یانہیں ؟ اور اس مسجد میں نماز جمعہ اور نماز پنجگانہ پڑھنا جائز ہے یانہیں؟
الجواب

مسجد کے لئے ہندو کا وقف باطل ہے لانہ لیس قربۃ فی دینہ الباطل(کیونکہ اس کے باطل دین میں کوئی قربت نہیں۔ت) اگر یونہی مسجد بنالیں گے اسمیں نماز ہوجائے گی اور جمعہ بھی ہوجائے گا اگر شہر یا فناء شہر میں ہو
اذلایشترط لھا المسجد
(کیونکہ نمازوں کے لئے مسجد شرط نہیں۔ت) مگر مسجد میں پڑھنے کا ثواب نہ ملے گا ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۲۳:ازموضع ڈیلاہی ڈاک خانہ لہریا سرائے ضلع دربھنگہ مرسلہ محمد عبدالجلیل خاں صاحب ۱۳رجب ۱۳۳۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید اپنی کچھ زمین مملوکہ کو وقف کرنا چاہتا ہے اس زمین کی آمدنی دو قسم کی ہے کچھ نقدی تحصیل ہے اور زیادہ حصہ آمدنی کا بذریعہ تاڑ وکھجور ہے یعنی جس قدر تاڑ وکھجور اس زمین میں ہیں سال بسال رعایا کے ساتھ بندوبست کئے جاتے ہیں رعایا مدت معینہ تک فائد ہ اس سے اٹھاتے ہیں اور اس مدت تک کے لئے مالک نے جو کچھ زر مقرر کیا ہے اس کو ادا کرتے ہیں، اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ زمین مذکورہ موصوفہ بصفت مسطورہ کو زید وقف شرعاًکرسکتا ہے یا نہیں؟
الجواب

زمین وقف کرسکتاہے کہ اسمیں کوئی معصیت نہیں اور تاڑ وکھجور تاڑی اور سیندھی نکالنے کے لئے اجارہ پردیں حرام وباطل ہے، وہ نہ بعد وقف جائز ہو نہ اب جائز ہے۔واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۴ تا۲۸: ازعلی گڑھ بازار موتی مسجد مرسلہ علی الدین سوداگر پارچہ    ۲۹رجب ۱۳۳۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ:
 (۱) اگر کوئی قطعہ کسی خاص شخص یا قوم کی پرورش کے لئے وقف خاص ہولیکن اس میں کچھ آمدنی ہو اور اس پر صدہا برس سے عام اہل اسلام اپنی مردے دفن کرتے ہوں جن کو ہزارہا قبور وبکثرت خطیرہ ومقبرہ ومتعدد مساجد وچاہات موجود ہوں اور ہنوز یہ عمل جاری ہو تو وہ اراضی وقف عام مانی جائیگی یانہیں؟

(۲)کیااراضی موقوفہ مذکور کے کسی متولی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی مسلمان کو مردہ دفن کرنے ومسجد و چاہ وخطیرہ بنانے سے روک دے۔

(۳) اگر منجملہ تین متولیوں کے جو کسی موقوفہ قبرستان کے ہوں دو مرد متولی زید کو مردہ دفن کرنے و مسجد و چاہ تعمیر کرنے کی اجازت دے دیں اور وہ اس پر عمل کرکے مردہ دفن کرادے اور مسجد و چاہ بھی تعمیر کرادی مگر تیسری عورت متولیہ اس پر رضامند نہ ہوتو کیا دو مرد متولیوں کی اجازت کافی مانی جائے گی؟

(۴)کیا تیسری متولیہ کو جواجازت میں شامل نہیں ہے شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ مقبرہ و مسجد و چاہ تعمیر شدہ کو تڑوادے۔

(۵)کیا موقوفہ قبرستان میں کوئی شخص بہ اجازت متولیوں کے منجملہ تین کے مردہ دفن کرنے و مسجد و چاہ تعمیر کرنے کےلئے کوئی خاص حصہ مخصوص کرسکتا ہے اور تیسری متولیہ جو اجازت میں شامل نہیں ہے وہ مخصوص کرنے کی مانع ہوسکتی ہے یا نہیں؟
الجواب

جبکہ صدہا سال سے عام مسلمان بلا نکیر اس زمین میں مساجد و چاہ وقبور بناتے آئے ہیں تو وہ ضرور وقف عام ہے، کس دلیل سے کہا جاتا ہے کہ کسی قوم خاص پر وقف تھا، ایسی حالت میں کسی متولی کو اختیار نہیں کہ سنی مسلمان کو اس میں دفن کرنے یا مسجد یا کُنواں بنانے سے روکے خواہ یہ روکنے والا مرد ہو یا عورت ہو، اور اگردلیل شرعی سے ثابت ہوکہ حقیقۃً وہ زمین کسی قوم خاص پر وقف ہے اورعام لوگوں نے صدہا سال سے اسمیں ظالمانہ و غاصبانہ تصرفات کررکھے ہیں جس کی امید ہرگز کسی طرح نہیں تو البتہ ہر متولی اس میں خلاف اغراض وقف تصرف کرنے سے ہر شخص کوروک سکتاہے اگرچہ یہ متولی عورت ہواگر دس مردمتولی اس کی اجازت دے چکے ہوں کہ خلاف اغراض وقف اجازت باطل ہے اور اجازت دینے والا خائن ہے جسے معزول کرنا لازم،واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter