Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
69 - 112
مسئلہ۲۲۶: ازڈھاکہ محلہ مولوی بازار کوٹھی نمبر۱۱مسئولہ برکات احمد سوداگر ۱/ربیع الثانی ۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اندر اس مسئلہ کے، مسجد پختہ چندہ جمع کرکے بنانا کیسا ہے اور چندہ دینے والوں کو اس کا اجر کیا ملے گا؟والسلام سنت اسلام۔
الجواب: صحیح حدیث میں نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
من بنی ﷲمسجدا زاد فی روایۃ ولو کمفحص قطاۃ بنی اﷲ لہ بیتا فی الجنۃ۱؎زادفی روایۃ من در ویاقوت۲؎۔
  جو اﷲعزوجل کے لئے مسجد بنائے اگرچہ ایک چھوٹی سی چڑیا کے گھونسلے کے برابر، اﷲ عزوجل اس کے لئے جنت میں موتی اور یا قوت کا محل تیار فرمائے گا۔
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل     مروی ازمسند عبداﷲبن عباس رضی اﷲ عنہما     دارالفکر بیروت    ۱/ ۲۴۱)

(سنن ابن ماجہ         ابواب المساجد     باب من بنی ﷲ مسجدا    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ص۵۴)

(۲؎ المعجم الاوسط     حدیث ۵۰۵۵    مکتبۃ المعارف الریاض    ۶/ ۲۷)
اور اس میں ہر وہ شخص جو کسی قدر چندہ سے شریک ہوا، داخل ہے۔ ساری مسجد بنانے پر یہ ثواب موقوف نہیں۔ مدینہ طیبہ میں خود حضوراقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے بنائی، پھر امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالٰی عنہ نے اس میں زیادت فرمائی، پھر امیر المومنین عثمان غنی رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے جب اس کی تعمیر میں افزائش فرمائی، ا س پر یہی حدیث روایت کی۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲۷: روز شنبہ ۱۰ربیع الثانی ۱۳۳۴ھ:  کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مکان خس پوش پیش مسجد وملکیت مسجد واقع ہے اس کو توڑ کر اراضی مسجد میں شامل کرلیا جائے اور امورات نیک مثل نماز جنازہ وغیرہ کے واسطے محدود کردیا جائے، دوسرے ہر شخص کو وقت آمدورفت مسجد کواڑ دروازہ مسجد بھیڑ کر آنا جانا چاہئے یا نہیں؟پس صورت مسئولہ میں حکم شرع شریف کا کیا ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب: جائز ہے اگر خلاف شرط واقف نہ ہو، مسجد کے کواڑ کبھی نہ بھیڑے جائیں گے بعد فراغت نمازعشاء جبکہ کسی کے آنے کی امید نہ رہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲۸: مسئولہ عبدالرب مرامجہلیا احاطہ امریا ضلع پیلی بھیت ۶ربیع الآخر ۱۳۳۴ھ

گرد مسجد کس قدر زمین  جنت ہے پیمائش مہرے گرتین فٹ والے کی لکھی جائے، فقط۔
الجواب: مسجد کی نسبت ایک حدیث روایت کی جاتی ہے روز قیامت تمام مساجد کی زمین جمع کرکے داخل جنت کی جائے گی،
تذھب الارضون کلھا یوم القٰیمۃ الاالمساجد فانھا ینضم بعضھا الی بعض۱؎ قال الشراح ای فتصیر بقعۃ فی الجنۃ۲؎۔
قیامت کے دن تمام زمینیں ختم ہوجائینگی سوائے مساجد کی زمینوں کے کہ ان میں سے بعض کو بعض کے ساتھ ملادیا جائے گا یعنی اکٹھا کردیاجائے گا۔ شارحین حدیث نے فرمایا کہ وہ جنت کا حصہ بنادی جائیں گی۔(ت)
 (۱؎ المعجم الاوسط         حدیث ۴۰۲۱        مکتبۃ المعارف الریاض     ۵/ ۱۸) 

(۲؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر      تحت مذکورہ         مکتبۃ الامام الشافعی الریاض    ۱/ ۴۴۶)
اور یہ تو صحیح حدیث میں ارشاد ہوا کہ:
اذامررتم بریاض الجنۃ فارتعوا قیل وما ریاض الجنۃ یارسول اﷲقال المساجد قیل وما الرتع قال سبحٰن اﷲ والحمد ﷲ ولاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبر۳؎۔ رواہ الترمذی وغیرہ عن ابی ھریرۃ رضی اﷲعنہ۔
یعنی نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنت کی کیاریوں پر گزروتو ان میں چرو ان کا میوہ کھاؤ، عرض کی گئی یا رسول اﷲجنت کی کیاریاں کیاہیں؟فرمایا مسجدیں۔ عرض کی گئی وہ چرنا کیا ہے؟فرمایا یہ کہنا "سبحان اﷲ والحمد اﷲ ولاالٰہ الااﷲواﷲ اکبر"(اس کو ترمذی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۳؎ جامع الترمذی     ابواب الدعوات    امین کمپنی دہلی         ۲/ ۱۸۹)
مگر یہ حدیث محتمل تاویل ہے اور پہلی روایت میں سخت تعلیل ہے اور مسجد کے قریب اصلاً کسی حصہ کا جنت سے ہونا واردنہیں۔واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲۹: مرسلہ سید محمد حسین علی قاضی سید پور علاقہ اندور محلہ جمال پورہ اور نگہ ۲۲ربیع الثانی ۱۳۳۴ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد پرانی ہے اور اس کو بنانے کےلئے اس کا پرانا سامان لکڑی وغیرہ نکالا کچھ سامان تو اس میں لگ گیا اور کچھ سامان لکڑی بچ رہے اب اس کو کس کام میں لانا چاہئے اور اس میں بہت سی لکڑی ایسی ہے کہ وہ جلانے کے سوا اور کچھ کام میں نہیں آسکتی ہے سو اس لکڑی کا جلانا جائز اور درست ہے یانہیں؟اور باقی جو کہ اچھی لکڑی ہے اس کودوسرے شخص معتبر کے ہاتھ فروخت کرنا جائز اور درست ہے یانہیں؟خلاصہ جواب تحریر فرمائے گا۔
الجواب: مسجد کا عملہ جوبچ رہے اگر کسی دوسرے وقت مسجد کے کام میں آنے کا ہو اور رکھنے سے بگڑے نہیں تو محفوظ رکھیں ورنہ بیع کردیں اور اس کے دام مسجد کی عمار ت ہی میں لگائیں لوٹے، بوریہ،تیل بتی وغیرہ میں صرف نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کام متولی اور دیانت دار اہل محلہ کی زیر نگرانی ہو۔ بیع کسی ادب والے مسلمان کے ہاتھ ہو کہ وہ اسے کسی بے جا یا ناپاک جگہ نہ لگائے۔ لکڑی کہ جلنے کے سوا کسی کام کی نہ رہی سقایہ مسجد کے صرف میں لائیں اور اگر بیع کردیں تو خریدنے والا بھی اسکو جلاسکتا ہے مگر اپلے کی معیت سے بچائیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۳۰: مرسلہ اسمٰعیل خاں کا رندہ موضع ریونڈہ ڈاکخانہ مونڈہ تحصیل وضلع مراد آباد ۲۳جمادی الاولٰی ۱۳۳۴ھ  

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص گانے بجانے کاکام کرتا ہے اور فونو گراف باجا بھرنے پر بھی اجرت تنخواہ پاتا ہے اور کوئی ہندو جو زمینداربھی ہے اور سود وغیرہ کی آمدنی بھی اس کو ہوتی ہے ایسے ایسے دونوں قسم کے اشخا ص کے روپیہ سے مسجد کا وضوخانہ بنانا یا مسجد پر کلس چڑھانا شرعیہ قاعدہ سے جائز ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: جو مال بعینہ حرام ہو وہ ان کاموں کے لئے لینا بھی حرام ہے، اور جس کی نسبت یہ معلوم نہ ہو کہ یہ خاص مال حرام ہے اس کے لینے میں مضائقہ نہیں واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۳۱تا۲۳۳ : ازراند یر ضلع سورت مسئولہ محمداعظم ناخدابروز شنبہ ۱۷رجب۱۳۳۴ھ
ماقولکم اندریں صورت کہ مسجد کے نقد روپے پچیس ہزار (۲۵۰۰۰) جمع یعنی موجود تھے اور اسی روپے سے مسجدکی تعمیر کرنے والوں نے یعنی اہل محلہ نے ٹھہراؤ یعنی مقرر کیا ہوا تھا مگر نصف کام ہو کر روپے تمام ہوگئے لہذا مسجد کی آمد کے لئے جو ملکیت واقف نے وقف کی ہوئی ہوں اس کی آمد سے دوسری ملکیت زیادہ کی ہوں یعنی آمد سے دوسری ملکیت خرید کی ہو ان کومتولی یعنی مہتمم مسجد اہل محلہ کی صلاح سے فروخت کرکے مسجد کو تمام کردے یا بستی کے مسلمانوں کو بھی کمیٹی کرکے صلاح لے اور حاکم وقت کی منظوری درکار ہے کہ نہیں بروقت نہ ہونے قاضی کے، اور واقف کی کوئی شرط یا لکھا ن ایسا نہیں ہے جسے کوئی بیچ سکے۔

دیگر سوال: مسجدکی تعمیر کی کوئی ضرورت نہ ہواور مسجد کے خرچ واخراجات سے آمد بہت زائد ہوتو کیا متولی یعنی مہتمم مسجد اہل محلہ سے اجازت لے کر کے مدرسہ اس فاضل آمدنی سے کھول سکتا ہے کہ نہیں؟یا مہتمم مسجد اہل محلہ سے اجازت لے کر یا اہل بستی کے مسلمانوں کی کمیٹی کرکے ان کی رائے لے کر کے مدرسہ کھولے اور حاکم وقف کے حکم کی منظوری ملانا ضروری ہے کہ نہیں؟کیونکہ واقف کی نیت فقط یہ تھی کہ میرے وقف شدہ ملکیت کی آمدنی مسجدمیں خرچ ہو اور کوئی دلیل نہیں کہ مدرسہ کھولیں تو اس وقت میں حاکم وقت کی منظوری کی ضرورت ہوگی کہ نہیں بروقت نہ ہونے قاضی شرع کے، فقط۔

سوال سوم: بنابرازیں زائد آمدنی اس مسجد کی سے دوسری مسجد میں خرچ کرسکتے ہیں کہ نہیں فقط۔
الجواب

(۱) وہ کہ واقف نے مسجد پر وقف کیاہے اسے کوئی نہیں بیچ سکتا، نہ متولی، نہ اہل محلہ، نہ حاکم، نہ کوئی، ہاں اس کی آمدنی سے جو جائداد متولی نے وقف کے لئے خریدی وہ مسجد کےلئے بیع ہوسکتی ہے۔ متولی اور اہل محلہ اور سنی دیندار عالم اور دیانتدارمسلمانوں کے مشورہ سے جس میں غبن اور تغلب کا احتمال نہ رہے۔

(۲) جب کہ واقف نے صرف مسجد کے لئے وقف کیا تو وہ مسجد ہی میں صرف ہوگا اس سے مدرسہ نہیں کھول سکتے، نہ خود، نہ باجازت حاکم۔

(۳) نہیں کرسکتے۔واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۲۳۴: مرسلہ محمد ابراہیم ڈاک خانہ کنکشیر ہائی اسکول ضلع فرید پور     رجب ۱۳۳۴ھ

مسجد کے پرانے اسباب یعنی خام اور ٹین اور بانس وغیرہ اپنے گھر کے کاروبار میں لگاسکتا ہے یانہیں؟اگرلگاسکے تو کس کام اور کس طور لگایاجائے؟
الجواب: ستون اور ٹین کہ مثل سقف تھا اور بانس کہ سقف میں تھے اسی طرح کڑیاں اور اینٹیں، غرض جو اجزائے عمارت مسجد ہوں وہ اگر حاجت مسجد سے زائد ہوجائیں اور دوبارہ ان کے اعادہ کی امید نہ رہے تو متولی ومتدین اہل محلہ کی اجتماعی رائے سے انہیں بیچ کر قیمت عمارت مسجد ہی کے کام میں صرف کی جائے مسجد کے بھی دوسر ے کام میں صرف نہیں ہوسکتی، خریدنے والا انہیں اپنے صرف میں لاسکتا ہے مگر بے ادبی کی جگہ سے بچائے۔واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter