مسئلہ ۲۲۱: ازبرٹس کائنا مرارا پترس ہال ونچ ایسٹ بنک مسئولہ عبدالغفور ۲۴صفر المظفر ۱۳۳۴ھ
اگر ایک شخص کہتا ہے کہ میں عالم ہوں اور مجرد مسجد ہونے کے ایک مکان میں پنجوقتی نماز اور عید کی نماز اور جمعہ کی نماز ادا کرتا ہے تو اس کا حکم کیا ہے، اور حال یہ ہے کہ اس مکان کے مالک نے عام اجازت د ے دی ہے کہ جس کی خوشی ہو وہ آکر نماز پڑھے جمعہ اور عید اور پنجوقتی کی، آیا اس مکان کو پھر اپنے تصرف میں لانا جائز ہے یانہیں، فقط۔
الجواب
اگر اس نے اس مکان کو نماز کے لئے وقف کردیاتو وہ مسجد ہی ہے اسے اس میں رہنا جائزنہیں تمام آداب مسجد لازم ہیں اور اس میں نماز کا وہی ثواب ہے جو مسجد میں ہے اور اگر صرف اتنا کہاکہ نماز پڑھنے کی اجازت دیتا ہوں مگر وقف نہیں کرتا، تو اس میں نماز جائز ضرورہے اگرچہ جمعہ وعیدین کی کہ ان کے لئے بھی مسجد شرط نہیں مگر بلا عذر شرعی عیدین میں ترک سنت اور فرائض میں ترک واجب ہے، یہ کہنا کہ میں عالم ہوں اگر کسی وقت کسی ضرورت ومصلحت شرعی کے سبب ہے تو حرج نہیں،
قال سیدنا یوسف علی نبینا الکریم وعلیہ:
انی حفیظ علیم ۱؎
(بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۵۵)
اور اگر بلاضرورت ہے تو جہل اور خود نمائی ہے خود ستائی کے لئے ہے تو سخت گناہ ہے
قال اﷲ تعالٰی لاتزکواانفسکم۲؎
(اﷲتعالٰی نے فرمایا کہ اپنی پاکیزگی مت بیان کرو۔ت)
(۲؎القرآن الکریم ۵۳ /۳۲)
حدیث میں ہے:
من قال انا عالم فھو جاھل۳؎۔واﷲتعالٰی اعلم۔
جو یہ کہے کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم(ت)
زید نے چند مسلمانوں سے کچھ روپیہ بطور چندہ مجتمع کیا یہ کہہ کر کہ اس روپیہ سے زمین مسجد بنانے کو خرید
کی جائیگی، اس نیت سے لوگوں نے چندہ دیا اور اس روپیہ سے چندہ کے ایک زمین خریدی گئی، وقت بنائے مسجد قطب نماوغیرہ سے سمت قبلہ درست کرنے میں منجملہ زمین خرید شدہ چند ہاتھ زمین بسبب کجی کے احاطہ مسجد سے باہر رہ گئی مسجد بہمہ وجوہ تیار ہوگئی اس میں جمعہ جماعت جاری ہے لیکن کسی مسلمان نے نہ زبانی اب تک ایسا کہا کہ یہ سب زمین خرید شدہ ہم نے وقف کی نہ ایسی تحریر کسی منتظم مسجد یا چندہ دہندگان کیطرف سے ہوئی، ایسے حال میں علمائے دین سے سوال ہے کہ وہ زمین احاطہ مسجد سے باہر رہ گئی ہے زمین مسجد سمجھی جائے گی اور اس کا حکم مسجد کا ہوگا یا فقط زمین موقوفہ کہی جائے گی حکم مسجدمیں نہ ہوگی، اور بہر حال اس زمین کا بیع و شراء یا اس میں تصرف مالکانہ کرنا جائز ہوگا یا ممنوع و ناجائز؟منتظم مسجد نے اس زمین کو خارج مسجد سمجھ کر ہمسایہ کے ایک مسلمان سے کچھ روپیہ لے کر اس کو دے دی اور اس روپیہ کو مسجد کے متعلق خرچ کیا اور اس مسلمان نے اس زمین سے زینہ اپنے مکان کی چھت کا بنایا اس سے عام مسلمان ناراض ہیں کہ زمین مسجد یا زمین وقف میں کیوں ایسا تصرف کیا گیا، اب اس صورت میں حکم شرع کیا ہے؟آیا وہ زینہ تڑواکر زمین واپس لے لی جائے یا اس کے عوض میں جو روپیہ وہ مسلمان دے چکا ہے اس سے وہ زمین اس کی مملوکہ ہوئی؟زینہ تڑوانے اور زمین واپس لینے کا حق شرعاً مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے اور اگر وہ مسلمان بلانالش کرنے کے عدالت حاکم وقت میں زینہ توڑنا اور زمین واپس دینا نہ چاہے تومصارف نالش ذمہ منتظم ہوگا جس نے روپیہ لے کر زینہ بنانے کی اجازت دی ہے یا عام مسلمانان کے ذریعہ وہ خرچ ہوگا۔ ہر شش سوال کا جواب عام فہم مفصل ہو دلائل ونقل عبارت مستندات درکار ہے۔ بدون اس کے تشفی عام مسلمانان وصورت رفع نزاع متصور نہیں، فقط
الجواب
اگر چندہ دینے والے سب یا ان کا وکیل ماذون بعد خریداری زمین یہ کہہ دیتا کہ اس زمین کو مسجد کیا تو وہ کل مسجد ہوجاتی اور اس میں سے کسی جزو کی بیع یا کوئی تصرف مالکانہ مطلقاً حرام ہوتا لیکن ظاہراً یہاں ایسا واقع نہ ہوا بلکہ زمین خریدی گئی کہ اس میں مسجد بنائی جائے گی اور بنانے میں تصحیح سمت کے سبب ایک حصہ چھوٹ گیا، جس قدر بنی وہی مسجد سمجھی گئی اور ا س میں نماز جاری ہوئی، حصہ متروکہ کو اگرچندہ دہندوں یا ان کے وکیل ماذون نے وقف علی المسجد کردیا تو اب بھی اس کی بیع ناجائز ہوئی مگر سوال سے اس صورت کاوقوع بھی ظاہر نہیں ہوتا، صرف اتنا ہوا کہ وہ چندہ دے کر اس روپے اور زمین سے بے تعلق ہوگئے اور یہ ملک سے خارج ہونے کا موجب جب تک وقف شرع نہ پایا جائے یہ بیع اور اس روپے کا مسجدمیں صرف کرنا اگر اجازت مالکان سے تھا یا بعد وقوع انہوں نے اجازت دے دی تو دونوں تصرف صحیح ہوگئے، اور اگر مشتری کی خریداری اور زینہ بنالینے کو ایک کافی زمانہ گزرا اور مالکوں نے تعرض نہ کیا تو یہ بھی اجازت سمجھی جائے گی، فقط، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۲۳ تا ۲۲۵ : ازمقام قاضی کیری ڈاکخانہ نویسی ضلع بھاگلپور بمکان شیخ شمس الدین صاحب ۱۶ربیع الاول ۱۳۳۴ھ روز شنبہ۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجد خام تخمیناً بیس برس سے تھی بمشورہ مسلمان موضع پختہ بنانے کی رائے ہوئی، جس وقت نیو دیوار کھودی گئی قبر نکلی، دریافت کرنے سے جو ضعیف موضع تھے معلوم ہوا ان سے کہ ہم نے اپنے والد وغیرہ سے سنا ہے کہ یہ سب قبرستان ہے بلکہ کل بستی قبرستان پر آباد ہے، اکثر مکانوں میں بھی قبر نکلتی ہے، نماز اس میں جائز ہے یانہیں؟اور یہ مسجدکسی صرف میں آسکتی ہے یا پرتی میدان رہے گا، میدان رہنے میں ممکن ہے زمیندار کسی کو دے دے پھر اس کی حفاظت کی کیا صورت کی جائے؟
(۲) اس موضع کا مالک ایک کافرراجہ ہے وہ حتی الامکان دوسری جگہ مسجد بنانے سے مانع ہوگا اور یہاں رعیت کواختیاربیع وفروخت ہے راجہ کچھ نہیں کرسکتاہے صرف مالگزاری کا مستحق ہے اگر خلاف مرضی راجہ دوسری جگہ مسجد بنائی جائے تو مالگزاری جو مقرر ہے نہیں چھوڑے گا، پس اس صورت میں جبکہ مالگزاری برابر زمیندار لیتا رہا حکم میں مسجد کے ہوگا یانہیں؟ بصورت عدم جواز جو مسجد اس طرح بنی ہوکیا حکم ہے، منہدم کردیں یا کیاکریں؟
(۳) جب کہ کل موضع قبرستان پر آباد ہے توجو لوگ نماز گھر میں پڑھیں جائز ہوگی یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب
یہ خبرکہ یہ سب قبرستان ہے بلکہ کل بستی قبرستان پر آباد ہے بہت بعید وشنیع امر کی خبر، اور خود اپنے مخبروں کی بے اعتباری ورد شہادت پر دلیل روشن ہے، جن اشخاص نے ایسا بیان کیا اگر بے نمازی ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا فسق وردشہادت درکار، اور اگر نمازی ہیں تو قبروں پر نماز حرام ہے، یہ حرام خصوصاً علی الدوام کرکے بھی فاسق ومردود الشہاد ۃ ہوئے بلکہ سب بستی قبروں پر آباد ہے تو مقابر پر چلنا پھر نا، سونا، بیٹھنا، پاخانہ پیشاب کرنا کس نے حلال کیا۔ دانستہ مدام ان کے ارتکاب سے بھی فسق ظاہر، بہر حال خبرمردود ونامسموع ہے بلکہ بالفرض اگر یہ لوگ ان محرمات کے ارتکاب سے خود محفوظ بھی ہوتے تو اور مسلمان کو ان میں مبتلا دیکھ کر مدتوں یہ شہادت ادا نہ کرنا اور اب بتانا یہ خود کیافسق کے لئے کافی نہیں۔
اشباہ ودرمختار وغیرہما میں ہے:
یجب الاداء بلا طلب لوالشھادۃ فی حقوق اﷲ تعالٰی ومتی اخر شاہد الحسبۃ شہادتہ بلاعذر فسق فترد۱؎۔
بغیر طلب اداء شہادت واجب ہے اگر وہ شہادت حقوق اﷲ سے متعلق ہو اور شاہد حسبہ نے بلاعذر شہادت میں تاخیر کی تو وہ فاسق ہوگا اور اس کی گواہی مردود ہوگی(حسبہ وہ ہے جس سے ثواب آخرت کی توقع ہو)۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۰)
غرض ان کے کہنے پر کچھ نظر نہ کی جائے، مسجد بنائی جائے اوراگر قبریں نکلیں تو وہ ضرور مسجد ہے اور اس میں نماز جائز اور اس کی حفاظت واجب۔ قبر جو نکلی ہے اوراس پر نمازنہ پڑھیں، نہ اس کی طرف پڑھیں، اس کے برابر آگے داہنے بائیں پڑھنے میں حرج نہیں بلکہ اگرقبر کسی مقبول بندے کی ہے تو اس کی قربت سے نماز میں اور برکت آئے گی،
کما فی اللمعات ومجمع البحاروکثیر من الاسفار وقدبیناہ فی فتاوٰنا۔
جیسا کہ لمعات، مجمع البحار اور متعدد کتب جلیلہ میں ہے اور تحقیق ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کو تفصیلاً بیان کردیا ہے (ت)
قبر کے شرقی جانب آدھ گز بلند ایک اینٹ کا سترہ قائم رکھیں پھر اس طرف بھی نماز جائز ہوجائیگی،اور اگر ان لوگوں کا اس مسجد کی نسبت بیان صحیح نکلے کہ جابجا قبور برآمد ہون تو وہ بیشک مسجد نہیں ۔
وقف کو دوبارہ وقف نہیں کیا جاسکتا اورقبور کو مسجدیں بنانا حلال نہیں اور نہ ہی قبور پر نماز پڑھنا مباح ہے(ت)
اس صورت میں دوسری جگہ مسجد بنانی لازم، اور راجہ اگر مالگزاری نہ چھوڑے تو اس سے مسجد میں کچھ خلل نہ آئے گا
فان غایتہ الظلم والظلم لایبطل الحق
(کیونکہ نتیجۃً یہ ظلم ہے اور ظلم حق کو باطل نہیں کرتا۔ت)
اورپچھلی صورت میں پہلی عمارت کہ حقیقۃ مسجد نہیں ضرور منہدم کردی جائے کہ بوجہ قبور اس میں نماز جائز نہیں اور صورت مسجد باقی رہے گی تو ناواقف کو دھوکا دے گی وہ اس میں نماز پڑھے گا نماز بھی خراب ہوگی اور قبور پر چڑھنے سے ان کی بھی بے حرمتی ہوگی۔ یہ دو سوالوں کا جواب ہوا۔ تیسرے کی بنا اس پر ہے کہ وہ کل موضع قبرستان پر آباد مان لیا جائے اور ہم اوپر ثابت کرچکے کہ یہ خبر مدفوع ونامسموع ہے۔ اگرتسلیم کی جائے تو نہ صرف نماز وہاں چلنا پھرنا، رہنا، بسنا، پاخانہ،پیشاب سب حرام ہوجائے گا
کما بیناہ فی الامر باحترام المقابر
(جیسا کہ ہم رسالہ "الامر باحترام المقابر" میں بیان کرچکے ہیں۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔