فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف ) |
مسئلہ ۲۱۳: مرسلہ سعید الرحمٰن ناظم اتحاد ومنتظم کمیٹی جامع مسجد پیلی بھیت ۸محرم الحرام ۱۳۳۴ھ چہارشنبہ
کیاحکم ہے شریعت غراکامسائل مندرجہ ذیل میں، جواب شافی سے مطمئن ومعز ز فرمایا جائے: (۱) مسجد میں اپنے لئے سوال کرنا، کسی معذور، بیوہ یا کسی مسجد یا خاص اسی مسجد کی ضروریات کےلئے کسی قومی یا مذہبی ضرورت کےلئے چندہ وخیرات مسجد میں مانگنا جائز ہے یانہیں؟ (۲) جو مکان و زمین وغیرہ کہ وقف ہے یعنی کسی مسجد ومدرسہ کی ضروریات کےلئے وقف کی گئی ہے مرور ایام یا کسی اور وجہ سے ا س میں ایساتغیر واقع ہوگیا ہے کہ اس کو رکھنے میں فی الجملہ نقصان ہے اس کو اس نیت سے کہ آئندہ اور نقصان ہوگا فروخت کرکے اس کی قیمت اس مسجد ومدرسہ میں داخل کرنا یا بجائے اس کے اس سے زیادہ نفع کی کوئی چیز اس مسجد و مدرسہ کےلئے خریدنا درست ہے یا نہیں؟نیز مستعمل وبیکار چیزیں نیلام کرنا یا فروخت کرنا کیسا ہے؟ (۳) مقامی حالت کا اندازہ کرکے کسی مسجد وغیرہ کے انتظام ونگہداشت کےلئے چند مسلمانوں کو منتخب کرکے دوسرے لوگوں کو جو اس انتظام کےلئے مخصوص نہیں کئے گئے ہیں روکنا کہ وہ بطور خود مسجد میں دست اندازی نہ کریں جس سے مقررہ انتظام میں ابتری وبرہمی پیدا ہونے کا خیال ہے یابغیر امتیاز کے ہر شخص کو وعظ کہنے کی اجازت دینا درست ہے یانہیں؟
الجواب (۱) مسجد میں اپنے لئے مانگنا جائز نہیں اور اسے دینے سے بھی علماء نے منع فرمایاہے یہاں تک کہ امام اسمٰعیل زاہد رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا جو مسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے اسے چاہئے کہ ستر پیسے اﷲ تعالٰی کے نام پر اور دے کہ اس پیسہ کا کفارہ ہوں، اور کسی دوسرے کےلئے مانگایا مسجد خواہ کسی اور ضرورت دینی کےلئے چندہ کرنا جائز اور سنت سے ثابت ہے۔ (۲) وقف کو بیع کی اجازت نہیں ہوسکتی جب تک واقف نے استبدال کی شرط نہ لگائی ہو، فی الجملہ نقصان یا آئندہ اس کا احتمال اس کی اجازت کا کفیل نہیں ہوسکتا، مسجد کی مستعمل چیزیں مثلاً چٹائیاں، دریاں، لوٹے صرف مستعمل ہونے کی وجہ سے بیچنے کے کوئی معنی نہیں،اور ایسی اشیاء میں سے جو بیکار ہوجائے وہ دینے والے کی طرف واپس ہوجاتی ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔ (۳) بغیر امتیار وعظ کی اجازت دینا جائزنہیں اور روکنا واجب ہے،ان کا انتظام اگر صحیح ومطابق شرع وموافق مصالح مسجد ہوتودوسروں کو اس میں دست اندازی کی وجہ نہیں اور وہ روکے جاسکتے ہیں اور اگر ان کا انتظام خلاف شرع ہوتو ہر مسلمان اس میں دست اندازی کرسکتا ہے اور اس کے روکنے کا حق کسی کو نہیں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۱۶: آہود ملک مارواڑ متصل ایر پتوار پیر محمد امیر الدین روزیک شنبہ ۱۲محرم الحرام ۱۳۳۴ھ پیش امام میں کون کون صفت ہونی چاہئے؟ آیا کہ مسجد کا تیل وہ گھڑے وروٹی وغیرہ فروخت کرنا جب ان لڑکوں سے مارپیٹ کرروٹی منگانا وہ روکھی لائیں تو ان کو مارنا اور جمعے کے روز بھی لڑکوں کو اسی واسط بلوانا کہ میری ریاض کی روٹیوں میں فرق نہ پڑ جائے اور مسافر بھوکا رہے تو رہے مگر روٹی شکر وہاں نافروخت ہوئے تو دوسری موضع جاکر فروخت کرنا اور پانی کے گھڑے جو مسجد میں وضو کے واسطے موہلے والے لے کر آئیں تو امام اپنےمکان پر پانی پہنچا دے وضووالے تکلیف اٹھاتے اور مسافر وغیرہ سب تکلیف اٹھاتے تو ایسےامام کا رہنا جائز ہے یانہیں؟اور ہی ساتھ والے ہوکر یہ بات کرے تو جائز ہے؟
الجواب امام مسجد صحیح العقیدہ، صحیح الطہارۃ، صحیح القرأت، غیر فاسق معلن، عالم احکام نماز وطہارت ہونا چاہئے جس میں کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے جماعت کی قلت ونفرت پیدا ہو، مسجد کے گھڑے اپنے لئے فروخت کرنا حرام ہے اور مسجد کا تیل اگر دینے والوں کی اجازت ہو کہ جو خرچ سے بچے اسے امام یامؤذن یا مسجد کا خادم لے لیا کرے تو وہ بچا ہوا جمع کرکے بیچنا جائز ہے، مسجد کی روٹی دینے والے نے جسے دی تھی اگر بطور تملیک دی تھی تو اس کو بیچنے کا اختیارہے اور اگر بطور اباحت دی جیسے کھانا سامنے لاکر رکھتے ہیں کہ جتنا پیٹ میں آئے کھا لو اسے صرف کھاناجا ئز ہے بیچنا یا دوسرے کو دیناحرام۔ جبراً روٹی منگانا حرام ہے مگر جب کہ وہی نوکری کی اجرت قرار پائی ہو، اور اس کےلئے لڑکوں کو مارنا جائزنہیں مگر جب کہ وہی اس واجب شدہ روٹی کے لانے میں قصور کرتے ہوں اور مارنا ہاتھ سے ہو نہ کہ لکڑی سے، اور تین بار سے زائد نہ ہو، اور منہ پر نہ ہو۔اور جمعہ کو بھی روٹی منگا سکتا ہے جب کہ وہ اجرت میں ٹھہری ہو۔ اور روٹی کہ اس کی ملک ہوجائے اسے اس کے بیچنے کا اختیار ہے خواہ وہاں بیچے یا دوسری جگہ۔جو پانی مسجد میں وضو کے لئے رکھا گیا اسے اپنے گھر لے جانا جائز نہیں اگرچہ کسی کو تکلیف نہ ہو اور تکلیف ہو تو دو ہرا حرام ۔ جو باتیں ان میں ناجائز بتائی گئی ہیں جو امام ان کاارتکاب کرے اور باز نہ آئے اسے امام نہ رکھنا چاہئے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۱۷ تا ۲۱۹: ابوتراب محمد اسمعیل موضع پنچم سینگ ڈاکخانہ جعفر گنج،چہارشنبہ ۸صفر المظفر ۱۳۳۴ھ ماقولکم رحمکم اﷲتعالٰی اس مسئلہ میں کہ گاؤں میں چار کنارہ پر چار مساجد مدت بیس بائیس برس سے جاری ہیں اور ہر مسجد میں تخمیناً بیس یا پچیس آدمی نمازجمعہ کی پڑھتے چلے آئے ہیں اور ان چارمساجد میں سے ایک قدیم ہے لیکن وہ بھی موضع کے ایک کنارہ پر واقع ہے اب کوئی عالم صاحب بنظر ہدایت واصلاح دین ودنیا ورضائے خداورسول اہل موضع کو بلا کر کہے کہ بحسب حدیث نبوی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
اتبعو السواد الاعظم وید اﷲ فوق الجماعۃ۱؎۔
سواد اعظم کی پیروی کرو اور اﷲ تعالٰی کا دست رحمت جماعت پر ہوتا ہے(ت)
(۱؎ المستدرک للحاکم کتاب العلم دارالفکر بیروت ۱/ ۱۱۵و۱۱۶)
ان چاروں جماعت کو اکٹھا کرکے نماز جمعہ کی بطور اکمل واشرف ادا کیا کرو۔اہل موضع بالاتفاق بایں شرط اس بات میں راضی ہوئے کہ گاؤں کے بیچا بیچ میں جامع مسجد ہو، بعدہ مسجد قدیم والے کچھ پس وپیش کرنے لگے کہ یہاں سب کیوں نہیں آتے مسجد قدیم کو کس طرح توڑوں مابقی تین مساجد والے بوجہ حرج مسافت وبعد مسجد قدیم کے اسمیں راضی نہیں۔ اس سوال میں یہ تین باتیں ضرورت طلب ہیں: (۱) اول، عالم صاحب مذکورۃ الصدر کو ان چاروں مسجدوں کے ٹین وستونوں کواکھیڑ کے موضع کے بیچ میں ایک مسجد جامع بناکر چاروں جماعت کو لے کے اس مسجد جامع میں نماز جمعہ کی پڑھنی جائز ہے یا نہیں، اور وہ عالم اس امر میں مستحق ثواب ہوگا یاعذاب؟ (۲) دوم ، ان چاروں مسجدوں کا متروکہ بیٹ یعنی جاگیوں کا کیاحکم؟ (۳) سوم ، مسجد قدیم والے کاعذر مذکورہ مکتوبہ ازروئے شرع شریف ودین منیف مسموع یا غیر مسموع مستحسن یا غیر مستحسن؟بینواتوجروا۔
الجواب سائل نے گاؤں کے لفظ سے تعبیر کیا، اگر وہ واقع میں گاؤں ہے شہر یا قصبہ نہیں جب تو سرے سے مبنائے سوال باطل ہے کہ گاؤں میں جمعہ جائزنہیں،اور اگر گاؤں سے بستی مراد ہے اور وہ بستی کم از کم قصبہ ہے، جب یہ حرام ہے کہ اور مسجدوں کو برباد کرکے جامع مسجد بنائی جائے، نہ ان مسجدوں کے ٹین وستون اس کی طرف منتقل ہوسکتے ہیں۔
ردالمحتار میں ہے:
لایجوز نقلہ ولانقل مالہ الی مسجداٰخر۱؎۔
مسجد اور اس کے مال کود وسری مسجد کی طرف منتقل کرنا جائزنہیں(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۳۷۱)
نہ ان مسجدوں کی زمینوں کاکسی دوسرے تصرف میں لانا حلال ہوسکتا ہے،جو ایساکرے گاسخت ظالم ومستحق سخت عذاب ہوگا۔
قال اﷲ تعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲان یذکر فیہا اسمہ وسعی فی خرابھا۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اﷲ تعالٰی کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے منع کرتا ہے اور ان کی بربادی کی کوشش کرتا ہے(ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
اور جب کہ بعد مسافت کی وجہ سے حرج ہے تو لوگ مجبور نہیں کئے جاسکتے کہ جمعہ ایک ہی جگہ پڑھیں کہ مذہب صحیح معتمد مفتی بہ میں شہر میں تعدد جمعہ مطلقاً جائز ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۲۲۰ : مسئولہ حاجی کریم نور محمد جنرل مرچنٹ انوار ملوک ناگپور شہر ناگپور ۹صفر المظفر۱۳۳۴ھ مسجد کا جو پیسہ جمع ہے اسے کسی منفعت پر خرید وفروخت تجارت کرسکتے ہیں، مسجد کے جمع مال افزود کےلئے؟
الجواب: تجارت میں نفع نقصان دونوں کا احتمال ہے اور کارکنوں میں امین و خائن دونوں طرح کے ہوتے ہیں اور مال وقف میں شرط واقف سے زیادت کی اجازت نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔