Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
66 - 112
مسئلہ۲۰۷: مرسلہ نثار احمد زمیندا ر ساکن موضع پال نگر ڈاکخانہ امر یہ ضلع پیلی بھیت  ۴ربیع الاول شریف۱۳۳۳ھ

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، نحمدہ ونصلی علٰی رسولہ الکریم۔
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں، ایک موضع جس میں پانچ چار گھر مسلمانوں کے اور پندرہ بیس گھر اہل ہنود کے ہیں، اور قدیم الایام سے ایک مسجد تعمیر خام خس پوش موجود ہے، کسی وقت میں یہ مسجد مسلمانوں کی آبادی کے اندر واقع تھی اور اس کے گرد ونواح میں مسلمان آباد تھے،رفتہ رفتہ تغیر وتبدل ہوتے ہوتے مسلمانوں کی آبادی اس مقام سے ہٹتی گئی اب صورت یہ ہے کہ مسجد کے گردو نواح کوئی مسلمان کا گھر نہیں ہے اور وہ مسجد بالکل مسلمانوں کی آبادی سے ایک جانب ہنود کی آبادی کے ساتھ متصل ہے اور ہمیشہ خراب و خستہ اور ویران پڑی رہتی ہے اور عرصہ دس بیس سال سے نہ وہ آباد ہوئی اور نہ آبادی کی امید ہے، اب بفضلہ تعالٰی اہل اسلام میں سے ایک شخص کو خداوند تعالٰی نے توفیق عطا فرمائی ہے وہ مسجد پختہ بنانا چاہتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ آیایہ مسجد پختہ اسی مسجد قدیم کی تعمیر کی جائے کہ جو ایک مدت دراز سے غیر آباد اور نہ آئندہ آبادی کی امید ہے، یا یہ کہ اس کو کسی طرح محفوظ محدود کرکے دوسری جگہ مسلمانوں کی آبادی کے درمیان میں مسجد پختہ تعمیر کی جائے کہ جس سے اس مسجد پختہ جدید میں نمازیوں کا پہنچنا بھی آسان ہو اور مسجد آباد رہے۔بینواتوجروا۔
الجواب

حتی الامکان مسجد کا آباد کرنا فرض ہے اور ویران کرنا حرام۔
اﷲ تعالٰی فرماتا ہے:
ومن اظلم ممن منع مسجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۱؎۔
  اور اس شخص سے بڑاظالم کون ہے جو اﷲ تعالٰی کی مسجدوں میں اس کا نام لینے سے روکتا ہے اور ان کی بربادی کی کوشش کرتا ہے(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
ہندوستان کی آبادی کا قاعدہ یہ ہے شہر ہو یا گاؤں کہ مکانات قریب قریب ہوتے ہیں، بیس پچیس گھر کا گاؤں اتنے فاصلہ کی آبادی نہ رکھے گا کہ مسلمانوں کو مسجد قدیم تک جانا دشوار ہو، تو جو صاحب پختہ بنانا چاہتے ہیں اسی کو پختہ کریں اور آباد کریں جدا مسجد بنانے میں نفل کاثواب پائیں گے اور اس مسجد کے آباد کرنے میں فرض کاثواب

نفل کے ثواب کو فرض کے ثواب سے کچھ نسبت نہیں ہوسکتی،
بڑے گاؤں میں جو لوگ رہتے آبادی میں ہیں اور ان کی کاشت کے نمبر گاؤں کے دھری پر ہیں روزانہ جوتنے،کاٹنے، کے لئے دو دو میل جاتے آتے ہیں اپنے رب کے فرض ادا کرنے کو دس قدم آگے جانا کیا دشواری ہے، اصل حکم یہ ہے، اگر عمل اس پر واقعی ناممکن ہو تو وجوہ دشواری سے مفصل اطلاع دیں اگر معقول ہوئیں تو چارہ کار بتایا جائے گا ۔واللہ تعالی اعلم
مسئلہ۲۰۸، ۲۰۹ : مسئولہ حاجی محمد رمضان  وابراہیم پیر زادہ وغیرہما انصاری سکنہائے قصبہ پالی مارواڑ کیریہ محلہ ناڈی ۴ذو القعدۃ ۱۳۳۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ قصبہ پالی مارواڑ محلہ ناڈی میں فقیر ٹونڈے شاہ نے اپنے مکان میں ایک چھوٹی سے مسجد خاص اپنے ہی واسطے نماز پڑھنے کےلئے بنوالی اور تازیست خود اسی میں وہ نماز پڑھتا رہاعام لوگوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی۔ جب ٹونڈے شاہ لاوارث مر گیا تو اس مکان کا قبالہ یعنی پٹہ سرکارراج مارواڑی نے بصیغہ لاوارثی بنام حاجی اعظم شاہ صاحب مرحوم کر دیا جس کا مضمون یہ ہے کہ ٹونڈے شاہ تو، نااولاد گیا لہذا اس کے مکان کاپٹہ یعنی قبالہ حاجی اعظم شاہ صاحب کے نام کردیا گیا ہے۔ سواب اس مکان پر قابض اور متصرف حاجی اعظم شاہ کی اولاد رہے گی کسی دوسرے کا کوئی حق اور ملکیت اس مکان پر نہیں ہے، چنانچہ تخمیناً سو برس عرصہ ہو ا آج تک اولاد حاجی اعظم شاہ صاحب مرحوم اس مکان پر قابض اور متصرف ہے، تھوڑا عرصہ ہوا کہ چند اشخاص ناحق شناس نے عدالت میں مسجد کو اپنے قبضہ وتصرف میں لانے کی غرض سے دعوٰی کیا مگر بروئے پٹہ سرکار کے عدالت نے حق اور ملکیت اس مکان اور مسجد پر اولاد حاجی اعظم شاہ مرحوم ہی کا بدستور قدیم قائم رکھا ،اب وہی اشخاص مذکورین اولاد حاجی اعظم شاہ مرحوم کو تنگ کرتے ہیں کہ یا تو مسجد کو چھوڑدو اور نہیں تو تم کو اسلام سے خارج کرادیں گے۔ لہذا اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اگر اس مسجد کو اولاد حاجی اعظم شاہ صاحب مرحوم سے جبراً لے لی جائے تو اس مسجد میں نماز عندالشرع صحیح ودرست ہوگی یاکیا؟

دوم اگر اولاد حاجی اعظم صاحب مرحوم مسجد کو نہ چھوڑیں تو مخالفین ان کو اسلام سے خارج بحکم شرع شریف کرسکتے ہیں یا کیا؟

اور یہ امر بھی واضح رہے کہ مسجد متنازعہ عام مسلمانوں پر وقف نہ ہونے کی وجہ سے سرکارراج مار واڑ نے اس کا پٹہ بصیغہ لاوارثی بنام حاجی اعظم شاہ صاحب مرحوم کردیا ہے، اور جو مسجدیں کہ عام مسلمانوں پر وقف کی گئی ہیں ان کایہ سرکار راج مار واڑ بصیغہ لاوارث نہیں کرتی ہیں، لہذا امید وار کہ اس صورت میں جوامر حق ہو ارشاد فرمائیں اور عنداﷲ وعندالناس ماجور ومشکور ہوں، فقط۔
الجواب:  اس سوال میں چند باتیں معلوم ہونے کی ضرورت ہے:

(۱) وہ مسجد مکان کے اندر کس حیثیت سے ہے؟

(۲) مسجد تک راستہ مکان کی زمین مملوک میں ہے یاکس طرح ہے؟

(۳) ٹونڈے شاہ کے وقت میں اور بھی لوگ اس میں نماز پرھتے تھے یا تنہا وہ پڑھتے تھے اگر اور لوگ بھی پڑھتے تھے تو کون اس محلہ کے یا عام راہ گیر یا کیا؟

(۴) اس مسجد کی ہیأت کیا ہے، اس میں محراب،منبر، برجیاں، منارے وغیرہ ہیں یانہیں؟ بہتر ہوکہ اس مسجد اور مکان کا شارع عام تک پورا مفصل واضح نقشہ بناکر بھیجئے۔

(۵) اس کا کیا ثبوت ہے کہ ٹونڈے شاہ نے وہ مسجد خاص اپنے لئے بنائی اور کسی کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی؟

ان باتوں کا مفصل جواب اسی ورق کی پشت پر مع نقشہ لکھ کر یہ ورق واپس کیجئے تو جواب دیا جائے ان شاء اﷲ تعالٰی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۱۰: مسئولہ یعقو ب علی نقشبندی قادری مقام کٹہری ضلع گوڑگاؤں ڈاکخانہ دھنیہ اسٹیشن مالوسانہ ۴ذوالقعدہ ۱۳۳۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں یعنی مسجدمیں تیل خرچ سے زائد قریب تیس آثار کے جو عرصہ سے جمع ہے اس تیل کو فروخت کرکے قیمت اس کی اخراجات مسجدمیں لائی جائے یا یہ کہ اس کو محتاجوں میں تقسیم کیا جائے؟
الجواب: اگر مسجد کے لئے روزانہ تیل دوسری جگہ سے آتا ہے مسجد کو خریدنا نہیں ہوتا جس کے باعث یہ تیل مسجد میں کام آنے کی امید نہیں یا اس کی حفاظت میں وقت ضائع ہونے کا اندیشہ ہے تو اسے متولی واکثر متدین اہل محلہ امانت یا دیانت واعلان کے ساتھ بیچ کر اخراجات مسجد میں صر ف کردیں، محتاجوں میں تقسیم کرنا جائز نہیں۔وھو تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۱۱تا۲۱۲: بروز سہ شنبہ ۸محرم الحرام ۱۳۳۴ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں کہ:

اولا ایک مسجد کے ایک پہلو میں فرش صحن کے نیچے دکانات کے آثار تھے، مگر ان کی چھت کی بلندی

صحن مسجد کی عام سطح سے کہیں ممتاز نہیں تھی یعنی دکانات کی چھت اور مسجد کا بقیہ صحن سب ایک سطح مستوی تھی اور یہ کل رقبہ ایک فصیل سے محاط تھا، اس فصیل کے اندر اندر کل اراضی مسجد اور مصلی تھی اب وہ دکانات دوبارہ تعمیر ہوئیں، فصل گرادی گئی، صحن مسجد کا وہ جز جو دکانات کی چھت بنا ہوا تھا دکانات میں ڈال دیا گیا، اور وہ اتنی اونچی پائی گئیں کہ بقیہ صحن سے ایک قد آدم سے زیادہ بلند ہیں۔ اس چھت کے پرنالے مکانات کے پچھیت پر یعنی صحن مسجد میں اتارے گئے اورصحن مسجد کے کنارے پر پچھیت کی جڑ میں ایک عرض محدود کردیا گیا جس پر وہ پرنالے گرتے ہیں اور اس نالے میں بھی لوگ وضو کرنے لگے، اس چھت سے ملحق ایک بالاخانہ اور چھت کل کو ایک مکان کی حیثیت سے کرایہ پر اٹھادیا گیا تاکہ مسجد کی آمدنی میں اضافہ ہو، سوال یہ ہے کہ اب یہ چھت مسجد کے حکم میں ہے یا خارج از مسجد؟ اور اس پر ایسے تصرفات جائز ہیں یانہیں جو مسجد پر ناجائز ہوتے ہیں، مثلاً بود وباش رکھنا نجاست ڈالنا وغیرہ اور مذکورہ بالا پر نالے اور نالی قابل قائم رکھنے کے ہیں یانہیں؟

ثانیاً ایک مسجد کےصحن کا ایک جز مصلی کاٹ کر موڑ پر سے محدود کردیا گیا بدیں غرض کہ نمازی اس جگہ جو تا اتاراکریں ، یہ تصرف اور اس جگہ جوتے اتارنا جائز ہیں یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

 وہ چھت مسجد ہے اسے مسجد سے توڑ کر دکان میں ڈال دینا ایک حرام اور اسے بالاخانہ حجرہ کا صحن وگزر گاہ کردینا دوسرا حرام، اور اسے کرایہ پر اٹھا دینا تیسرا حرام، اور اس کی آبچک کے لئے مسجد کا ایک اور حصہ توڑلیا محدود کردینا اور اس میں وضو ہونا چوتھا حرام۔ غرض یہ افعال حرام در حرام حرام درحرام ہیں۔ فرض ہے کہ ان تمام تصرفات باطلہ کو رد کرکے مسجد مثل سابق کردیں۔ 

درمختار میں ہے:
لوبنی فوقہ بیتاللامام لایضر لانہ من المصالح امالوتمت المسجدیۃ ثم ارادہ البناء منع ولو قال عنیت ذلک لم یصدق تاتارخانیہ فاذاکان ھذافی الواقف فکیف لغیرہ فیجب ھدمہ ولو علی جدارالمسجد ولایجوز اخذالاجرۃ منہ ولاان یجعل شیئامنہ مستغلا ولاسکنی بزازیۃ ۱؎۔
اگر واقف نے مسجد کی چھت پرا مام کاحجرہ بنادیا تو جائز ہے کیونکہ یہ مصالح مسجد میں سے ہے مگر تمام مسجدیت کے بعد اگر وہ ایسا کرنا چاہے تو اسے منع کیا جائیگا اگرچہ وہ کہے کہ میں نے شروع سے اس کی نیت کی تھی اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی ،تاتارخانیہ ،تو جب خود واقف کا حکم یہ ہے تو غیر واقف کو ایسا کرنے کا اختیار کیسے ہوسکتا ہے چنانچہ اس عمارت کو گرانا واجب ہے اگرچہ وہ دیوار مسجد پر  بنائی گئی ہو اور اس کی اجرت لینا یا اس میں سے کسی حصہ کو ذریعہ آمدن یا رہائش گاہ بناناجائز نہیں، بزازیہ (ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الوقف     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۷۹)
اسی طرح دوسرے سوال میں جو تصرف کیا گیا اور مسجد کے ایک حصہ کو مسجد سے خارج کردیا گیا اور اسے جوتا اتارنے کی جگہ بنایایہ بھی تصرف باطل ومردود وحرام ہے، اوقاف میں تبدیل وتغیر کی اجازت نہیں
لایجوز تغییر الوقف عن ھیأتہ۲؎
 (وقت کی ہیئت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں۔ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف     الباب الرابع عشر فی المتفرقات     نورانی کتب خانہ پشاور     ۲/ ۴۹۰)
مسجد کے بجمیع جہات حقوق العباد سے منقطع ہے
قال اﷲ تعالٰی وان المسٰجد ﷲ ۳؎
 (اﷲ تعالٰی فرماتا ہے کہ بیشک مسجدیں اﷲ عزوجل کی ہیں۔ت) یہاں بھی وہی حکم ہے کہ فوراً فوراً اس ظلم کی منڈیر کو دور کرکے زمین مسجد شامل مسجد کریں۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳؎ القرآن الکریم ۷۲/ ۱۸)
Flag Counter