مسئلہ۲۰۲تا۲۰۳ : کیافرماتے ہیں علمائے عظام اس مسئلہ میں:
(۱) زید نے (مسلمان کہلائے جانے کی حالت میں) کچھ قطعہ زمین صحن مسجد اپنے مکان کی بنا مں دبالیا، بعض لوگ مانع آئے مگر نہ مانا، ایسی صورت میں زیدکے ساتھ کیا معاملہ شرعاً کیاجائے اور متولیان مسجد ودیگر اہل اسلام کو مواخذہ کا حق حاصل ہے یانہیں؟اگر ہے تو ان پر یہ حق واجب، اور ضروری ہے جس کے ترک سے عاصی ہوں گے یا کیا؟ یا زید بعوض زمین مغصوبہ بہ زر نقد بطور جرمانہ ادا کرے تو اس کا لیناجائز ہے یانہیں؟دریں صورت زید مواخذہ عنداﷲ سے بری ہوسکتا ہے؟
(۲) جو شخص ربو خوار معلن ہے زکوٰۃ بھی نہیں دیتا اس کا کیاحکم اور اس سے مخالطت و مرابطت و مواکلت مکروہ ہے کہ نہیں؟ ﷲ مصرح اورعامۃ الفہم عبارت میں جواب ارشاد فرماکر عنداﷲ ماجور و عندالناس مشکور ہوں۔
الجواب: اس صورت میں زید سخت گناہ کبیرہ وظلم شدید کا مرتکب اور اس آیہ کریمہ کی وعید کا مستوجب ہے:
ومن اظلم ممن منع مسٰجداﷲ ان یذکر فیہااسمہ وسعٰی فی خرابھا اولٰئک ماکان لھم ان یدخلو ھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃ عذاب عظیم۲؎۔
اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کو ان میں اﷲ کا نام لئے جانے سے روکے اور ان کی ویرانی میٰں سعی کرے، انہیں روانہ تھا کہ اس میں قدم رکھیں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کےلئے آخرت میں بڑاعذاب۔
(۲؎ القرآن الکریم ۲ /۱۱۴)
مسجد کا ہر ٹکڑا مسجد ہے تو جتنا پارہ زمین اس نے دبالیا اسے نماز سے روکا اور اس کی ویرانی میں ساعی ہوا اور دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم کا استحقاق لیا، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیثوں میں فرمایا ہے کہ ''جو بالشت بھر زمین ناحق دبالے گا قیامت کے دن اتنا حصہ زمین کے ساتوں طبقے توڑ کر اس کے گلے میں طوق ڈالے جائیں گے ۱؎''۔
(۱؎ صحیح البخاری باب ماجاء فی سبع ارضین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۵۴ )
ہر مسلمان خصوصاً متولیان مسجد کو اس پر حق مواخذہ حاصل ہے اور فرض ہےکہ ہر جائز چارہ جوئی اس سے زمین نکال کر شامل مسجد کرنے کے لئے حد کو پہنچائیں، جو باوصف قدرت اس سے بازرہے گا شریک عذاب ہوگا تاحد قدرت ہر گز حلال نہیں کہ اس سے کچھ روپیہ اس کے عوض لے کر چھوڑ دیں کہ یہ مسجد کا بیچنا ہوگا اور مسجد کی بیع باطل وحرام و ناممکن ہے
قال اﷲ وان المسٰجدﷲ۲؎
(اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ بے شک مساجد اﷲ عزوجل کی ہیں۔ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۷۲/ ۱۸)
اگر وہ لاکھ روپے ہر گز کے بدلے دے جب بھی لینا حرام ہے، نہ ہرگز زید کسی طرح عنداﷲ مواخذہ سے بری ہوگا جب تک زمین مسجد مسجد کو واپس نہ دے۔ زید اگر ایسا نہ کرے تو مسلمان اس سے میل جول، سلام کلام، نشست برخاست قطع کردیں۔
قال اﷲ تعالٰی واماینسینک الشیطٰن فلاتقعد بعدالذکری مع القوم الظلمین۳؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا اور اگرشیطان تجھے بھلادے تو یاد آنے پر قوم ظالمین کے ساتھ مت بیٹھ(ت)
(۳؎القرآن الکریم ۶ /۶۸)
یونہی ربوٰ خوار معلن بھی اسی آیہ کریمہ کے حکم میں داخل ہے، تفسیر احمد ی میں ہے:
والقعود مع کلھم ممتنع۴؎
(ان سب کے ساتھ مجلس کرنا ممنوع ہے۔ت) اس سے بھی قطع علاقہ چاہئے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۲۰۴: مرسلہ حاجی سیٹھ یوسف بن ابراہیم بمقام گونڈل علاقہ کاٹھیاوار ۲۷محرم الحرام ۱۳۳۳ھ چہارشنبہ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس معاملہ میں کہ بعض لوگوں نے مسجد بڑھانے یا پرانی کو نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لئے مسلمان جماعت کو روپے دئے ہیں اور کہا ہے کہ جس طور چاہیں مسجد میں خرچ کریں________مگر فی الحال مسجد میں خرچ کرنے کی ضرورت نہیں اور وہ روپے امانۃً پڑے ہیں، اب مذکورہ روپیہ بیوپارکی کمپنی میں ڈال کر ان کا نفع بڑھادیں تو جائز ہے یانہیں؟
مگر یہاں کی کمپنیوں میں لین دین سود کا ہوتا ہے تو ان کا کیاحکم ہے؟ اگراس طور وہ روپیہ بڑھ نہ سکتا ہوتو اور کوئی طریقہ ان روپوں کے بڑھنے کا ہے اور بڑھ سکتے ہیں یا نہیں یا اسی طرح سے جماعت کسی امین شخص کے پاس امانت رہنے دے اور امانت رکھنے میں چوری ہونے کاخوف ہے کہ مبادا مسجد کے روپے ضائع ہوجائیں تو ان روپوں کا مکان خرید کرکے اس کے کرایہ سے نفع اٹھایا جائے اور وقت ضرورت روپیہ وہ مکان فروخت کیا جائے،مگر ان میں جماعت والوں کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ یہ صورت نہ کرنی چاہئے اوربعض کہتے ہیں کہ اس طور کیاجائے تو ان کا حکم کیا ہے، وہ برائے مہربانی مفصل طور سے ارقام فرماکر عنداﷲ ماجور وعندالناس مشکور ہوں۔
الجواب: چندہ کے روپے چندہ دینے والوں کی ملک پر رہتے ہیں ان سے اجازت لی جائے، جو جائز بات وہ بتائیں اس پر عمل کیا جائے،
وبیان المسئلۃ وتحقیقھا فی کتاب الوقف من فتاوٰنا
(اس مسئلے کا بیان اور تحقیق ہمارے فتاوٰی کی کتاب الوقف میں ہے۔ت) ایسی کمپنی میں کہ سود کا لین دین کرتی ہو شامل کرکے بڑھانا حرام ہے اگرچہ چندہ دہندہ اجازت دیں،
فلیس لاحدان یحل ماحرم اﷲ
(کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اس چیز کو حلال قرار دے جسے اﷲ تعالٰی نے حرام فرمایا ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۰۵ تا۲۰۶ : مرسلہ محمد صابر مدرس مدرسہ دارالعلوم قصبہ مئوناتھ بھنجن ضلع اعظم گڑھ۱۸صفر ۱۳۳۳ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک قصبہ کئی سو برس سے آباد ہے وہاں کے مسلمانوں کی مردم شماری فی الحال تقریباً آٹھ ہزار ہے اور وہاں مسجدیں تخمیناً اسی کے قریب آباد ہیں، ان کے علاوہ اور بھی مساجد ہیں، وہاں کے کل مسلمان بجز چند شیعہ کے ابتدا سے حنفی المذہب متفق الخیال متحد العقائد والمسائل باہم شیر وشکر کی طرح ملے جلے رہتے تھے ان میں کسی قسم کا مذہبی جنگ وجدال وتخالف نہ تھا مگر تقریباً تیس بتیس برس سے چند لوگ (غالباً فی الحال ان کی تعداد دوڈھائی سو ہوگی) منکر مذہب، غیر مقلد ہوگئے اور باہم سخت منافرت ومخالفت پیدا ہوگئی حتی کہ بارہا فوجداری اور عدالت کی نوبت پہنچ گئی، غیر مقلدین نے اپنی عید گاہ اور جامع مسجد نئی بنوالی تھیں مگر بعض بعض ایسی ہی مسجدیں ہیں جن میں دونوں فریق نماز پڑھتے ہیں ایسی مسجدوں پر اکثر مذہبی جھگڑے ہوجایا کرتے ہیں چنانچہ ان دنوں موجودہ ۱۳۳۳ھ ۱۳ محرم کو ایک مسجد میں دونوں فریق جمع ہوگئے اور اسی میں مارپیٹ لٹھم لٹھا گھوسم گھوسا کر بیٹھے بلکہ ان کے ذریعہ سے دو فوجداریاں اور بھی ہوگئیں جس سے قصبہ میں ہلچل مچ گئی، پولیس اگر روک تھام نہ کرتی تو نہیں معلوم کیا ہوجاتا آئے دن کی مذہبی فوجداری سے دونوں فریق تنگ آگئے، اب فریقین اس امر پرراضی ہیں کہ باہم صلح کرکے جھگڑے کو
مٹادیں، چنانچہ برضامندی فریقین چند اشخاص حکم مقرر کئے گئے ہیں اور باتفاق فریقین اقرار نامہ ثالثی میں مضمون لکھا گیا ہے کہ ثالثان حسب شریعت وقانون ودیانتداری جو فیصلہ کردیں گے ہم فریقین کو منظو رہے،اب علمائے حقانی سے یہ استفسار ہے:
(۱) چونکہ تیسوں برس کے تجربہ ومشاہدہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس قصبہ میں جب دونوں فریق ایک نزاعی مسجدمیں جمع ہوجاتے ہیں تو اکثر مذہبی شرو فساد کر بیٹھتے ہیں اگر اس شرو فساد وفتنہ و پرخاش کے مٹانے کے لئے ثالثین دونوں کو الگ کردیں اور فریقین کے لئے خاص خاص مسجدیں نامزد کریں تو کیا یہ فیصلہ خلاف شریعت ہوگا؟
(۲) اگر کسی نمازی کے ذریعہ سے حفظ امن میں خلل واقع ہوتا ہو اور شروفساد کااندیشہ ہو یا عام نمازیوں کو کسی قسم کی تکلیف اوراذیت پہنچتی ہوتو ایسے شخص کو بغرض حفظ امن وانسداد شر وفساد جماعت سے روک دینا کیا شرع کے خلاف ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب
(۱) جو مساجد غیر مقلدوں کی بنائی ہوئی ہیں ان کے نامزد کردی جائیں مگر جو مساجد اہل سنت کی بنائی ہوئی ہیں ان میں سے کوئی مسجد غیر مقلدوں کے لئے خاص کردینا اور اہلسنت کوان سے ممنوع کرنا شرعاً محض ظلم و حرام ہے۔
قال اﷲ تعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکرفیہا اسمہ ۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا اس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو اﷲتعالٰی کی مساجد میں اس کا نام لینے سے روکے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
جبکہ وہ مسجدیں اہلسنت کی ہیں اور ان کی بنائی ہوئی ہیں تو ان پر قبضہ چاہنا اور اس کے لئے فتنہ اٹھانا غیر مقلدوں کا فساد ہوگا اور کوئی مجبور نہیں ہوسکتا کہ دوسرے کے شورش بے جا کے سبب اپنے حق سے دست بردار ہو فتنہ غیر مقلدوں کا انسداد اگر یوں نہ ہوسکتا ہو تو کچہریاں کھلی ہوئی ہیں اور وہ اسی واسطے رکھی گئی ہیں کہ فتنہ والوں کا دست تعدی کوتاہ کریں اور دوسروں کے حقوق پر دست درازی نہ کرنے دیں جوشخص یہ رائے یا فتوٰی دے کہ دفع فتنہ کے لئے اپنی مسجد چھوڑ دو۔ کل اگر غیر مقلدین اور مفسدین ان کی جائداد اموال متاع مکانوں پر قبضہ چاہیں، اور نہ دیجئے توفساد اٹھائیں کیا دفع فتنہ کو وہ لوگ اپنے گھر بار مال متاع اسباب جائداد سے دستبردار ہوجائیں گے ہر گز نہیں، تو وجہ کیا ہے کہ یہ آنکھوں میں دنیا کی قد رہے دل میں دنیا کی محبت ہے جگر میں دنیا کا درد ہے وہاں دفع فتنہ کو یہ تدبیر نہ سوجھے گی نہ آیات دفع فساد کے یہ معنی ذہن میں آئیں گے اور نہ دین کی قدر نہ محبت نہ درر، لہذا گھاس کی طرح کتردیں گے کہ میاں ہاں اپنی مسجدیں چھوڑدو اپنے دینی حقوق سے دست بردار ہوجاؤ کسی طرح جھگڑا تو مٹے حالانکہ اوروں کے فتنہ فساد پر اگر اپنی جائداد مکانات، مال، اسباب چھوڑدو تو صرف دنیوی نقصان ہے اور یہاں علاوہ اپنی دینی حق تلفی کے اس آیہ کریمہ کی وعیدشدید میں داخل ہونا اور حرام کا ارتکاب اور بحکم قرآن عظیم استحقاق رسوائی وخواری وعذاب ہے۔
ا ﷲتعالٰی نے فرمایا کہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بڑاعذاب ہے۔اﷲ تعالٰی کی پناہ۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
(۲) ہاں شرعاً حکم ہے کہ ایسے لوگ مسجد سے باز رکھے جائیں،
قال اﷲ تعالٰی اولٰئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ انہیں مساجد میں داخل نہیں ہونا چاہئے مگر ڈرتے ہوئے۔(ت)
(۲؎القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
درمختار میں ہے:
یمنع منہ کل مؤذولو بلسانہ۳؎۔
ہرایذا دینے والے کو مسجد سے روکا جائیگا اگرچہ وہ ایذا زبان سے پہنچائیں(ت)
(۳؎ درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۴)
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں زیر حدیث
فلایقر بن مصلانا
(وہ ہر گز ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئیں۔ت)
پھر ردالمحتار میں ہے:
والحق بالحدیث کل من اذی الناس بلسانہ وبہ افتی ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما وھو اصل فی نفی کل من یتاذی بہ ۴؎۔
اس حدیث کے ساتھ وہ شخص بھی ملحق ہے جو زبان سے لوگوں کو ایذاء پہنچاتا ہے اور حضرت عمر فاروق نے اسی پر فتوٰی دیا اور یہ اصل ہے ہر اس چیز کی نفی میں جس سے لوگوں کو ایذا ہوتی ہے(ت)
(۴؎ ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۴۴)
مگر طرفہ تحفظ کا لحاظ ضروری ہے اگر خود منع کرنے میں اندیشہ فساد ہو چارہ جوئی کرکے بند کرادیں، وباﷲ التوفیق۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔