مسئلہ۱۹۴تا۱۹۵: از علی گڑھ محلہ مدار دروازہ مرسلہ عمر احمد سودا گر پارچہ بنارسی ۴ربیع الاول ۱۳۳۲ھ
(۱) ایک مسجد ہے جو زمین سے ۳ گز اونچی ہے اور اونچائی ٹھوس ہے اور صحن مسجد کا کل چوڑائی میں ۱۳ فٹ ہے جس میں ۵فٹ چوڑائی میں زینہ اور جوتیوں کی جگہ سقاوا اور غسل خانہ ہے اور ۸ فٹ جگہ میں نماز ہوتی ہے، اس مسجد میں کنواں نہیں ہے، سقہ سقا وے میں پانی باجرت ڈالتا ہے، اور نہ کوئی آمدنی مسجد کی ہے جو تیل وغیرہ میں صرف ہو، اس مسجد سے ۷۴ قدم کے فاصلہ پر ایک اور مسجد ہے اس کے دس قدم پر ایک کنواں ہے گویا اس مسجد سے ۸۴ قدم پر ہوا۔ زیدکہتا ہے کہ صحن مسجد جوٹھوس ہے اس کو شہید کافی کرکے اس میں دو دکانیں نکالی جائیں اس کی چھت صحن مسجد ہوجائے گا، اور وہ تیل بتی کو اس کی آمدنی کافی ہوگی۔ عمرو کہتا ہے کہ یہ ناجائز ہے کیونکہ صحن مسجد تحت الثرٰی تک حکم مسجد رکھتا ہے، اگر دکانیں سابق سے بنائی جاتیں تو درست تھیں، عمرو کی رائے ہے کہ ۵فٹ جگہ جس میں زینہ وغیرہ ہے اس میں کنواں وزینہ وغیرہ بن سکتا ہے اور ایک چھوٹی دکان بھی نکل آئے گی اور صحن بھی برقرار رہے گا اس میں مردہ کو زیادہ ثواب ہوگا کیونکہ نمازیوں کو پانی کی تکلیف جاتی رہے گی۔ کیا حکم شریعت ہے اور کیا کرنا چاہئے؟
(۲)کنوا ں بننے کی حالت میں زمین سے ۴گز اونچا ہوکر مسجد میں ملے گا، زید کہتا ہے کہ زمین پر بھی ایک کھڑکی رکھی جائے جس سے عوام پانی بھریں اور مسجد کو اوپر سے پانی ملے۔ عمرو کہتا ہے کہ اوپر ہی رکھنا چاہئے کیونکہ نیچے کھڑکی رکھنے سے ہندو بھی پانی بھریں گے شاید ہندو کا پانی بھرناناجائز ہو۔ شریعت کا کیاحکم ہے اور کس میں زیادہ ثواب ہے؟
الجواب: دکانیں بنانے کی اجازت نہیں ہے، اگر پہلے سے ہوتیں حرج نہ تھا اب نہیں بن سکتیں،
کما نص علیہ فی النوازل والتجنیس والخانیۃ والمحیط السرخسی وتھذیب الواقعات والاسعاف والبحر والنھر والھندیۃ وغیرہا۔
جیسا کہ اس پر نوازل ، تجنیس، خانیہ، محیط سرخسی تہذیب الواقعات، اسعاف، بحر، نہر اورہندیہ وغیرمیں نص فرمائی گئی (ت)
۸۴قدم کا فاصلہ کچھ ایسا دور نہیں، اگر بغیر کنویں کے کارروائی چل سکے یونہی چلنے دیں اوراگر نہ چل سکے اور اس کی وجہ سے ویرانی مسجد کا احتمال قوی ہوتو اس پانچ فٹ میں ایک کنارہ کو کنواں بنالیں۔
(۲) نیچے کھڑکی نہ رکھیں کہ مسجد کے کنویں میں ہندو کی شرکت سخت معیوب ہے ان کی نجاست سے کنویں کی طہارت ہمیشہ معرض خطر شدید میں رہے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۹۶: ازشیر پورڈاکخانہ خاص تحصیل پورن پور ضلع پیلی بھیت مرسلہ ظہیرالدین ۲۲ربیع الاول شریف ۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک چھوٹے موضع میں ایک مسجد قدامت سے تھی اور عرصہ دس بارہ سال سے ایک دوسری مسجد اورتیار ہوگئی اور اب دونوں مسجدیں چھپرپوش اور بوسیدہ حالت میں ہیں اب مسلمانوں کی یہ رائے ہے کہ بجائے دومسجدوں کے ایک مسجد پختہ چندہ سے تعمیر کرائی جائے اور ایک مدرسہ کے واسطے دے دی جائے۔ اس کی بابت شرع کیا حکم دیتی ہے؟ اور سرمایہ بہت قلیل ہے جس سے دونوں مسجدیں تیار نہیں ہوسکتی ہیں، لہذا آپ بموجب شرع احکام صادر فرمائے۔
الجواب: مسجدوں کا پختہ کرنا فرض نہیں، اور ان کا آباد رکھنا فرض ہے، مسجد نہ مدرسہ کو دی جاسکتی ہے نہ دوسرے کام میں صرف ہوسکتی ہے، یہ سب ناجائز وحرام ہے۔
عالمگیری میں ہے:
لایجوز تغییر الوقف عن ھیأتہ۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
وقف کی ہیئت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الرابع عشر فی المتفرقات نورانی کتب خانہ پشاور ۲/ ۴۹)
مسئلہ۱۹۷: ۲۰ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ : علمائے دین شرع متین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ مسجد کافرش اور لکڑیاں جو خراب ہوجاتی ہیں سوامسجد کے اور کسی کام میں تصرف کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں؟ آخر کیا کرنا چاہئے؟ تحریر فرما کر مشرف فرمائیں۔فقط
الجواب: فرش جو خراب ہوجائے کہ مسجد کے کام کا نہ رہے جس نے وہ فرش مسجد کو دیا تھا وہ اس کا مالک ہوجائے گا جو چاہے کرے اور اگر مسجد ہی کے مال سے تھا تو متولی بیچ کر مسجد کے جس کام میں چاہے
لگادے اور مسجد کی لکڑیاں یعنی چوکھٹ، کواڑ، کڑی، تختہ، یہ بیچ کر خاص عمارت مسجد کے کام میں صرف ہو۔لوٹے، رسی چراغ، بتی، فرش چٹائی کے کام میں نہیں لگاسکتے، پھر ان چیزوں کی بیع کافر کے ہاتھ نہ ہو بلکہ مسلمان کے ہاتھ۔ اور مسلمان ان کو بے ادبی کی جگہ استعمال نہ کرے۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ۱۹۸ تا ۲۰۱: مرسلہ مولوی عبدالمطلب صاحب از بانٹوہ کاٹھیاوار۳۰ربیع الثانی ۱۳۳۲ھ
چہ می فرمایند علمائے دین اندریں مسئلہ:
(۱) ایک شخص مرگیا اور اپنی عورت اور ایک لڑکی اور باقی وارث چھوڑے اور اس متوفی کی عورت نے وارثوں کے حق کو تلف کرکے ایک مسجد تعمیر کرائی اور جس زمین پر اس نے مسجد تعمیر کرائی ہے وہ زمین نیز وراثت میں داخل ہے تو اس میں نماز پڑھنا اور اس کو مسجد کہنا شرعاًدرست ہے یانہ؟
(۲) اور اگر اب بعضے وارث انہیں میں سے اپنے حق کو معاف کردیں اور بعضے نہ کریں تو نماز پڑھنا اس مسجد میں درست ہوجائے گا یانہ؟
(۳) اور اگر وہ وارث جانتے ہیں کہ اب جو پیسہ تھا وہ مسجد میں خرچ ہوگیا اب ہمیں ملنے والا نہیں ہے اور لوگوں کی شرم سے معاف کردیں تو درست ہے؟
(۴) اور اگر شرع حکم دے کہ نماز اس میں درست نہیں ہے تو اس میں رہنا گھر بناکر یا کرایہ وغیرہ پر دینا درست ہوگا ؟ بحوالہ کتب معتبرہ جواب سے سرفراز کریں۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں باجماع مسلمین وہ ہرگز مسجد نہیں بلکہ ایک زمین ہے بدستور اپنے مالکوں کی ملک پرباقی، کہ جب یہ عورت تنہا اس کی مالک نہیں جیساکہ بیان سائل ہے تو وہ ساری زمین اس کے وقف کئے سے وقف نہیں ہوسکتی،
لان شرط الوقف الملک ۱؎کما فی الھندیۃ وغیرہا
(کیونکہ شرط وقف یہ ہے کہ وہ واقف کی ملک ہو جیسا کہ ہندیہ وغیرہ میں ہے۔ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب الوقف الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور۲/ ۵۳۔۳۵۲)
نہ یہ ممکن کہ اس میں سے اس کے حصہ کو مسجد ٹھہرادیں باقی ملک دیگر ورثہ سمجھیں کہ جب وہ غیر منقسم ہے تو اس کا حصہ متعین نہیں اور مسجد بالاجماع مشاع نہیں ہوسکتی۔
لان من شرطہ انقطاع حقوق العباد عن جمیع جوانبہ فضلا عن نفسہ۲؎ کما فی الھدایۃ وغیرہا۔
کیونکہ شرائط وقف میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس کی تمام جوانب حقوق العباد سے منقطع ہو چہ جائیکہ خود وقف جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں ہے۔
(۲ ؎ الہدایۃ کتاب الوقف المکتبۃ العربیہ کراچی ۲ /۶۲۵)
قال تعالٰی وان المسٰجدﷲ۱؎۔
اللہ تعالی نے فرمایا کہ بیشک مسجدیں اﷲ عزوجل کی ہیں(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۷۲ /۱۸ )
ہاں اگر باقی ورثہ سب عاقل بالغ ہوں اور سب بالاتفاق اس وقت مسجدیت کو جائز کردیں تو اب جائز ہوجائے گی اور کسی کی شرم سے ایسا کرنا مانع صحت نہ ہوگا
فان الحیاء لیس باکراہ
(کیونکہ حیاء جبر واکراہ نہیں ہے۔ت) جب تک ایسا نہ کریں کہ وہ ایک مکان ہے کہ مالکوں کو اس میں رہنا بسنا کرایہ پر دینا سب جائز ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔