مسئلہ ۱۸۶ : مسئولہ مولوی نور احمد صاحب ہزار وی از کانپور مدرسۃ البنات
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد اہل محلہ پر تنگ ہے اور اس کے گرداگردجگہ نہیں مل سکتی یا مل سکتی ہے لیکن لوگوں میں اس قدر طاقت نہیں کہ وہ اتنا روپیہ دے سکیں اور پھر مسجد بنوادیں کیونکہ روپیہ بہت خرچ ہوتا ہے اور وہ طاقت نہیں رکھتے اوروہ دوسری جگہ مسجد وسیع تیار کرسکتے ہیں بشرطیکہ پہلی مسجد کی لکڑی وغیرہ دوسری مسجد میں لگادیں وگرنہ دوسری بھی بمشکل تمام نہیں ہوسکتی، کیا اس صورت میں اہل محلہ دوسری جگہ نئی مسجد اپنے محلہ میں پہلی مسجد کے سامان سے اور زوائد روپیہ لگا کر بناسکتے ہیں یا نہ؟اگر بناسکتے ہیں تو پہلی مسجد کی جگہ کی کس طور سے حفاظت رکھی جائے؟مدلل و مبرہن طور پر تحریر و بیان فرمایا جائے۔
الجواب: مسجد جب تک مسجد ہے قرآن عظیم کی نص قطعی،ہمارے ائمہ کرام کے اجماع سے اسے ویران کرنا سخت حرام وکبیرہ ہے،
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
ومن اظلم ممن منع مسجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعی فی خرابھا اولٰئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم۱؎۔
اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کو ان میں نام الٰہی کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے، ایسوں کو ان میں جانا ہی نہ پہنچتا تھا مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کےلئے آخرت میں بڑا عذاب۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۱۴)
ہمارے ائمہ کرام نے بلا خلاف تصریح فرمائی کہ مسجد اگر تنگی کرے اور اس کے قریب اگر کسی شخص کی زمین ہو اور وہ دینے پر راضی نہ ہوتو بحکم سلطان بے اس کی مرضی کے لے کر مسجد میں داخل کر لی جائے اور مالک کو بازار کے بھاؤ سے قیمت دے دی جائے
کما نص علیہ فی البزازیۃ والفتح والبحر والدروغیرہا
(جیسا کہ اس پر بزازیہ، فتح، بحر اور دروغیرہ میں نص فرمائی گئی۔ت) اگر تنگی کی وجہ سے یہ مسجد ویران کرکے دوسری جگہ بنالینا جائز ہوتا تو جبر ہر گز حلال نہ ہوتا اور وہ صورت کہ سوال میں فرض کی گئی اس کی بنا خود ہی متزلزل ہے جب وہ دوسری مسجد اس سے بڑی بناسکتے ہیں اگرچہ اس میں اس کے عملے سے بھی مدد لینا چاہتے ہیں تو مہربانی فرماکر بڑی نہیں ایک چھوٹی مسجد دوسری بنالیں کہ دونوں مسجدیں مل کر حاجت پوری کردیں، کس نے واجب کیا ہے کہ سب ایک ہی مسجد میں نماز پڑھیں،غرض جو اﷲ سے ڈرے اور اس کی حرمتوں کی تعظیم کرے اﷲ اس کے لئے آسانی کی راہ نکال دیتا ہے اور جو بے پروائی کرے تو اﷲ تمام جہان سے بے پروا ہے،
ومن یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا۲؎
جو اﷲ تعالٰی سے ڈرے تو وہ اس کے لئے راہ بنادیتا ہے
(۲؎القرآن الکریم ۶۵ /۲)
ومن یتول فان اﷲ ھوالغنی الحمید۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اور جو منہ پھیرے تو اﷲ تعالٰی ہی بے نیاز اور ستو دہ صفات ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۲۴)
مسئلہ۱۸۷تا۱۸۹: مسئولہ قاضی سید احمد علی مدنی مہتمم مدرسہ اسلامیہ از بمبئی بھنڈی بازار ۲ربیع الاول ۱۳۳۲ھ
(۱)کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ایسی صورت میں کہ ایک درگا ہ شریف کے قریب ایک مسجد واقع ہے، مسجد کے متولی صاحب نے درگاہ شریف کی زمین جبراًدبالی، اس کو شامل مسجد کرنا چاہتے ہیں، متولی درگاہ نے روکا کہ شرع شریف میں ایسا کرنا جائز نہیں ہے، مگر نہیں مانتے، سوایسا کرنا جائز ہے؟
(۲)کیاایسی جبراً مغصوبہ زمین پر مسجد بنانا درست ہے اور کیا اس میں نماز درست ہوگی حالانکہ متولی صاحب درگاہ برابر معترض ہوا کئے ہیں۔
(۳)کیا ایسے متولی مسجد جو خلاف شرع زمین غصب کرکے اس پر مسجد بنادے تو وہ عندالشرع قابل تدارک و گنہگار ہیں یانہیں؟جواب صحیح ازروئے کتب فقہ صاف بخشا جائے۔بینواتوجروا۔
الجواب: سوال بہت مجمل ہے کچھ نہ لکھا کہ متولی اس زمین کو مسجدمیں کس وجہ سے شامل کرنا چاہتے ہیں، آیا مسجد نمازیوں پر تنگ ہوئی ہے یہ ضرورت لاحق ہوئی ہے یا کچھ اور۔نہ یہ لکھا کہ وہ زمین درگاہ پر وقف ہے یانہیں، اورہے تو کس طرح وقف ہے جسے وقف صحیح شرعی کہا جاسکے گا یانہیں، نہ یہ لکھا کہ اس زمین کے شامل مسجد کرلینے سے درگاہ میں کیا نقصان ہوگا، اگر مسجد نے تنگی نہ کی تو متولیوں کو اس زمین کے لینے کا کوئی اختیار نہیں وہ غاصب ہوں گے اور اتنے پارہ زمین پر نمازناجائز ہوگی، اور اگر مسجد تنگ ہوگئی ہے اور اس کے اپنے متعلقات کی زمینوں سے بڑھانے کی گنجائش نہیں، تو اگر وہ زمین درگاہ وقف صحیح شرعی نہیں یا اسکے لینے سے درگاہ کو ضرر نہیں پہنچتا تو بقیمت لے سکتے ہیں ورنہ نہیں۔، واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۹۰تا۱۹۳: مسئولہ مولوی صابر علی صاحب از مدرسہ رفاہ المسلمین فرنگی محل لکھنؤ ۴ربیع الاول شریف ۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں، ایک مسجد قدیم کسی شیعہ کی تھی مگر کچھ عرصے سے ویران پڑی تھی، اسی حالت ویرانی میں چند قدم کے فاصلے پر ایک سنی نے دوسری مسجد بنوائی اور اس نئی سنی کی مسجد میں مسلمان سنی نماز پنج وقتہ پڑھنے لگے اس کے پانچ چھ برس کے بعد پرانی شیعہ کی مسجد کو ایک شخص نے ایک سنی کے ہاتھ فروخت کر ڈالا تو اس سنی نے اس کی مرمت وغیرہ کراکے پنج وقتہ اذان وجماعت کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردئے۔ اس کو بھی پانچ چھ برس کا عرصہ گزرگیا اب اس سنی مشتری مذکور نے اپنا ایک مکان مسجد کے مدرسہ اسلامیہ کے لئے وقف کردیا ہے اور مسجد مذکور میں بیٹھ کر لوگوں کو قرآن پڑھنے کی اجازت دیتا ہے، اور مسجد مذکور میں بہت سی زمین ایسی پڑی ہے جس پر جوتا پہن کے چلتے ہیں تو اس زمین پر مدرسہ کیلئے کمروں کے بنانے کی بھی اجازت دیتا ہے تو ایسی صورت میں حسب ذیل سوالات کے جوابات مرحمت ہوں:
اول : یہ دونوں مسجدیں حکم مسجد میں ہیں یانہ؟اور مسلمانوں کو دونوں مسجدوں میں نماز پڑھنے سے ثواب مسجد حاصل ہوگا یانہ؟اور اگر نہ حاصل ہوگا تو پھر اس مسجد کو کس کام میں لاسکتے ہیں؟
دوم : طلبہ مدرسہ اسلامیہ کا اس مسجد کے اندر بیٹھ کر پڑھنا جائز ہے یانہ؟
سوم : احاطہ مسجدکے اندر جو زمین صحن مسجد کے علاوہ جہاں جوتا پہن کے چلتے ہیں اس پر مدرسہ کے روپیہ سے کوئی کمرہ وغیرہ طلبہ کی تعلیم کےلئے یا دفتر مدرسہ کےلئے یا طلبہ کے رہنے کےلئے بنانا جائز اور اس میں ان کاموں میں سے کوئی کام کرنا جائز ہے یانہ؟
چہارم : مشتری مسجد کی یہ بھی تجویز ہے کہ مسجد کے اندر سے جہاں جوتا پہن کے چلتے ہیں ایک راستہ مدرسہ کےاندر جانے کا نکالا جائے کہ طلبہ وملازمین مدرسہ کو مدرسہ میں جاناآسان ہوجائے ورنہ چکر کھا کے گلیوں میں سے جانا ہوگا تو آیا یہ جائز ہے یانہیں؟جواب جلد اور مدلل فرمایا جائے۔بینواتوجروا
الجواب: وہ مسجد کہ سنی نے بنوائی تھی بلاشبہ مسجد ہے اور اس کا رکھنا فرض ہے اور اس میں نماز کا ثواب وہی ہے جو مسجد میں نماز کا ثواب ہے،روافض زمانہ مرتد ہیں
کما حققناہ فی ردالرفضۃ
(جیسا کہ ہم نے اس کی تحقیق ردالرفضہ میں بیان کی ہے۔ت) تو وہ مسجد بنانے کے اہل نہیں۔
قال اﷲ تعالٰی ماکان للمشرکین ان یعمروا مسٰجداﷲ شھدین علی انفسھم بالکفر(الٰی قولہ تعالٰی) انما یعمر مسٰجد اﷲ من اٰمن باﷲ والیوم الاٰخر۱؎۔ الاٰیۃ
اﷲ تعالٰی نے فرمایا مشرکوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اﷲ تعالٰی کی مساجد تعمیر کریں اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں(اﷲ تعالٰی کے اس ارشاد تک کہ) بیشک اﷲ تعالٰی کی مسجدیں تو وہی لوگ تعمیرکرتے ہیں جو اﷲ تعالٰی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۹/ ۱۷،۱۸)
خصوصاً بعد موت کے مرتد کے سب اوقاف باطل ہوجاتے ہیں
کما فی الدرالمختار وغیرہ
(جیساکہ درمختار وغیرہ میں ہے۔ت) تو وہ مسجد کہ سنی نے خریدی اسےمرمت وغیرہ کراکے اگر اس خیال سے نماز کے لئے دیا کہ یہ پہلے سے مسجد ہے تو وہ خیال باطل تھا اور وہ مسجد بدستور ایک مکان ہے جس میں ان تمام تصرفات مذکورہ فی السوال کا اختیار ہے، اور اگر سنی نے خرید کر از سر نو اپنی طرف سے اسے مسجد کردیا یعنی یہ سمجھ کر کہ یہ مسجد نہیں میں اسے مسجد کرتا ہوں،نہ یہ سمجھ کر کہ یہ مسجد تھی اسے کار مسجد کے لئے چھوڑتا ہوں، اس صورت میں اگر شرائے صحیح سے سنی کے لئےا س کی ملک ثابت ہوگئی تھی تو یہ بھی مسجد ہوگئی مگر یہ بہت بعید ہے اس کے لئے صرف ایک صورت ہے کہ غالباً وہ واقع نہ ہوئی ہوگی، وہ صورت یہ کہ زمین جسے رافضی نے مسجد کیا اس کے زمانہ اسلام کی ملک تھی، اس کے بعد اس نے رفض اختیار کیا، یہ مسجد بنائی اور مرگیا اور اس کے قریب و بعید وارثوں میں کوئی شخص سنی مسلمان ہے کہ وہی اس کے کسب اسلام کا وارث ہوکر اس مکان کا مالک ہے اور اس نے اس سنی کے ہاتھ بیچ ڈالا تو یہ شراء صحیح ہوا اور یہ سنی اس مکان کا مالک ہوگیا اور اب جو اس نے اسے اپنی طرف سے مسجد کیا مسجد ہوگئی، اس صورت بعیدہ پر وہ تصرفات مذکورہ سب ناجائز ہوں گے
فانہ لایجوز تغییر الوقف عما ھولہ
(کہ وقف اپنی اصلی حالت سے تبدیل کرنا جائز نہیں۔ت)
مگر طلبہ کا پڑھنا جائز جبکہ اطفال نہ ہوں اور نماز کے وقت نمازکی جگہ نہ گھیریں نہ ان کے پڑھنے سے نمازیوں کو تشویش ہو اور اگر یہ صورت نہیں بلکہ وہ مکان اس کے زمانہ رفض ہی کی ملک تھا تو یہ بیع جس شخص نے کی ہر گز مثبت ملک مشتری نہیں کہ بائع خود ہی مالک نہ تھا مرتد کے زمانہ ارتداد کی ملک اسکی موت کے بعد فیئ للمسلمین ہوجاتی ہے اس کے کسی وارث کو نہیں پہنچ سکتی اگرچہ اس کا بیٹا ہو مسلم ہو خواہ اسی کی طرح مرتد یا اور قسم کا کافر، تو جب شراء صحیح نہ ہوا تواس سنی کا اسے مسجد کرنا صحیح نہ ہوا بلکہ وہ بدستور ایک زمین عام مسلمانوں کی ہے، مسلمانوں کی مرضی سے اس میں مسلمین کی منفعت کے تصرفات کرسکتے ہیں۔
فتاوٰی عالمگیری میں مبسوط سے ہے:
المرتد اذاقتل اومات اولحق بدارالحرب فما اکتسبہ فی حال اسلامہ ھو میراث لورثۃ المسلمین اما ما اکتسبہ فی حالۃ الردۃ یکون فیئایوضع فی بیت المال۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مرتد جب قتل ہوجائے یا مرجائے یا دارالحرب سے ملحق ہوجائے تو جو کچھ اس نے حالت اسلام میں کمایا تھا وہ اس کے مسلمان وارثوں کو بطور میراث ملے گا اور جو کچھ بحالت ارتداد کما یا وہ مال غنیمت ہے جو بیت المال میں رکھا جائے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)