Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
62 - 112
متعلق جواب استفسار پنجم
 (۴۲)[مصالحت اس پر کی کہ مسجد مسجد کیا بلکہ وقف بھی نہ ٹھہرے]
عالم کی پیش کردہ دوسری تجویز جس پر فیصلہ ہوا تقریر مذکورعالم میں صرف ان لفظو ں سے ہے: اس وقت میں نے یہ صورت پیش کی کہ سردست ہم کو دالان کی چھت پرقبضہ دے دیں الخ، اس میں کہیں کسی کی ملک نہ ہونے کا تذکرہ نہیں مگر سائل نے اسے ان لفظوں سے بیان کیا تھا کہ بعد رد وقدح عالم کی رائے سے طے پایا ہے کہ سردست ملک اس زمین پر کسی کی ثابت نہ کی جائے کیوں کہ مسلمانوں کے نزدیک یہ وقف ہے قبضہ زمین پر مسلمانوں کا دلایا جائے، اس پر یہ استفسار پنجم تھا کہ یہ کسی کی ملک ثابت نہ ہونے کی قرار داد صرف عالم کے متخیلہ میں رہا یا باتفاق فریقین طے ہوا اس کا یہ جواب ہے کہ زمین کی ملکیت گورنمنٹ اپنی ہی سمجھتی تھی ممبر سے عالم نے صاف کہہ دیا اور کہلوالیا کہ ملک وقف میں کسی کےلئے نہیں ہوتی اور اسی واسطے ہم اپنے لئے بھی ثابت کرنے کے درپے نہیں۔ اس جواب میں بہت خلط مبحث ہے۔ملک کا اطلاق دو معنی پر آتا ہے اول اختصاص مانع کہ ابتداءً اس کے لئے قدرت تصرف شرعی ثابت کرے اور اس کے غیر کو بے اس کی اجازت کے تصرف سے مانع ہو جیسے زید کا مکان زید کی ملک ہے،
فتح القدیر میں ہے:
الملک ھو قدرۃ یثبتھا الشارع ابتداء علی التصرف فخرج نحوالوکیل۱؎۔
ملکیت وہ قدرت ہے جسے شارع نے تصرف کے لئے ابتداءً ثابت کیا ہو تووکیل  جیسے تصرف خارج ہوگئے(ت)
 (۱؎ فتح القدیر    کتاب البیوع     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۵۶)
اشباہ میں ہے:
وعرفہ فی الحاوی القدسی بانہ الاختصاص الحاجز۲؎۔
اورحاوی قدسی نے اس کی تعریف یوں کی ہے وہ اختصاص جو دوسرے کی مداخلت سے مانع ہو۔(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث     القول فی الملک    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۰۲)
باینمعنی تمام اوقاف علی الصحیح المفتی بہ اور خصوصا مساجد باجماع امت اﷲ عزوجل کے سوا کسی کی ملک نہیں،
قال اﷲ تعالٰی وان المسٰجدﷲ۳؎
 (اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اور یہ کہ مسجدیں اﷲ ہی کی ہیں۔ت)
 (۳؎ القرآن الکریم۷۲/ ۱۸)
دوم بمعنی قدرت تصرف شرعی، عنایہ میں ہے:
الملک ھو القدرۃ علی التصرف فی المحل شرعا۱؎
 (ملکیت،یہ محل تصرف شرعی کی قدرت ہے۔ت) بایں معنی متولی کو مالک اوقاف کہہ سکتے ہیں۔
 (۱؎ العنایۃ علی ٰ ہامش فتح القدیر     کتاب البیوع     مکتبۃ نوریہ رضویہ سکھر     ۵/ ۴۵۵)
خزانۃ المفتین وفتاوی عالمگیریہ میں ہے:
لوادعی المحدود لنفسہ ثم ادعی انہ وقف الصحیح من الجواب ان کان دعوی الوقفیۃ بسبب التولیۃ یحتمل التوفیق لان فی العادۃ یضاف الیہ باعتبارولایۃ التصرف والخصومۃ۲؎۔
اگر پہلے محدود رقبہ کا دعوٰی اپنے لئے کیا پھر وقف ہونے کا دعوٰی کیا توصحیح جواب یہ ہے کہ اگر وقف کادعوٰی تولیت کی بناء پر کیا تو پھر اس کے دونوں دعووں میں موافقت پیدا کی جاسکتی ہے کیونکہ عادتاً وقف متولی کی طرف تصرف اور منازعت میں منسوب ہوتاہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب السادس فی الدعوی الخ     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۳۱)
یہ دونوں معنی خود اسی جواب استفسار میں موجود،اول کہا: ملک وقف میں کسی کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کے متصل ہی اپنے مشیر قانونی کا قول نقل کیا کہ ہماری ملک غصب سے نہیں چلی گئی۔ظاہر ہے کہ گورنمنٹ ہر گز کسی وقت اس حصہ مسجد میں اپنی ملک بمعنی اول کی مدعی نہ ہوئی اس پر یہ کبھی نہ کہا گیا کہ یہ گورنمنٹی زمین ہے تم نے اسے مسجد کرلیا تھا اب گورنمنٹ اسے واپس لیتی ہے بلکہ دعوی اگر تھا تو اختیار تصرف کا اس کی نفی امر طے شدہ میں نہ ہرگز عالم نے کی نہ ممبر سے کہلوالی نہ صاف ناصاف بلکہ صاف صاف اس کے اثبات پر فیصلہ ہواکہ یہ امر ضروری ہے کہ عام پبلک الخ۔
(۴۳) ہر قوم اپنی اصطلاح پر کلام کرتی اورسمجھتی ہے قانون اور اہل قانون کی اصطلاح میں زمین مسجد یا وقف مسجد کو ملک مسجد کہتے ہیں بلکہ اس اصطلاح کا پتا شرع مطہر میں بھی ہے۔
واقعات حسامیہ و خزانۃ المفتین وفتاوٰی ہندیہ میں ہے:
لایمکن تصحیحہ تملیکا بالھبۃ للمسجد فاثبات الملک للمسجد علی ھذا الوجہ صحیح ۳؎۔
مسجد کو ہبہ کرنے سے تملیک کی تصحیح ممکن نہیں جبکہ اس طریقہ سے مسجد کے لئے ملکیت کا اثبات صحیح ہے (ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف     الباب الحادی عشر فے المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۶۰)
تویہ طے کرنا ملک اس زمین پر کسی کی نہ ثابت کی جائے یہ طے کرنا ہے اسے مسجد کی شے نہ مانا جائے اور اب یہ کہنا ضرورصحیح  ہے کہ چنانچہ گورنمنٹ نے ایسا ہی کیا۔
متعلق جواب استفسار ششم
 (۴۴) یہاں''سردست'' کے معنی جس حکمت کے لئے دریافت کئے تھے وہ کار گر ہوئی بتانا پڑا کہ سردست کے معنی ممبر متعینہ سے صاف کہہ دئے گئے کہ ہم تخلیص شرکت مرور کے لئے ہمیشہ چارہ جوئی کرتے رہیں گے، یعنی اس وقت ہماری یا مسجد کی ملک ثابت ہوجائے گی فی الحال کسی کی نہ رکھو تو صاف کھل گیا کہ ملک سے وہی معنی مراد لئے جو اصطلاح قانون ہے یا معنی دوم بہر حال مطلب یہ ہواکہ فی الحال زمین مسجد کو وقف نہ ٹھہرایا جائے آئندہ ہم کوشش کرینگے کہ وقف قرار پائے ایک اسلامی عالم کہ الٰہی گھر کی حمایت کی حمایت کو چلا ہو اس کے لئے اس سے زیادہ شنیع بات اور کیا ہوگی کہ اپنے منہ سے مسجد درکنار سرے سے فی الحال اسے وقف ہی نہ ٹھہرانے کی تجویز پیش کرے۔ رہی آئندہ کی کوشش اس کا مفصل حال اوپر گزرا کہ یہ محض نہا ں خانہ خیال میں رہا یا کہا اور منظور نہ ہو اا س کا قرارداد ہر گز نہ ہوا اور جوکچھ برائے گفتن تھا تصفیہ ہوتے ہی اسے خود ہی منسوخ و ممسوح کردیا اور اس کا خیال تک مسلمانوں کے دلوں سے چھیل ڈالنے کا پور اذمہ لیا فاعتبروایٰاولی الابصارممبر متعینہ نے یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ جب قانون بن جائے گا تو خواہ نخواہ یہ مسئلہ بھی طے ہوجائے گا۔ جی مسئلہ تو ابھی طے ہوگیا اور وہی قانون کےلئے مادہ ہوگیا دیکھو نمبر۲۶تا۳۰ہم اس وقت اس خواہش کوپورا نہیں کرسکتے یعنی مسجد کو مسجد بالائے طاق وقف بھی نہیں مان سکتے۔ یہ ہے جو عالم نے طے کیا ہے۔
فاناﷲ وانا الیہ رٰجعون۔
متعلق جواب استفسار ہفتم
 (۴۵) [یہ مصالحت ایک شخصی کارروائی ہے اور اس کے روشن ثبوت ]
یہا ں تک بعض استفسار وں کے منشا کو سائل فاضل نے سمجھ لیا اور جواب سے اعراض یاابہام کی طرف عدول کیا جیسے استفسار دوم وسوم اور باقی میں جواب صحیح کی راہ ہی نہ تھی ان میں طریق اعتذار لیا اور بن نہ پڑا۔ اس ہفتم میں بظاہر منشاء سوال خیال میں نہ آیا، منشایہ تھا کہ عالم نے جس بات پر فیصلہ کیا قطعاً اسی کے اقرار سے خلاف احکام وہتک حرمت اسلام ہے۔ اب الزام کے لئے تین صورتیں ہیں: ایک معافی وہ صورت جبر واکراہ شرعی ہے، یہ استفسار کی شق اول تھی کہ عالم کو گورنمنٹ نے حکماً مجبو ر کیا۔ دوم اشترک کہ الزام تام ہے مگر نہ صرف عالم بلکہ عام مسلمانان ذی تعلق پر جبکہ انہوں نے اس کارروائی کے لئے عالم کو وکیل بناکر بھیجا ہو یہ دوسری شق تھی کہ یا مسلمانوں نے اپنی طرف سے مامور کیا اور اس میں عالم کا نفع یہ تھا کہ اگرچہ کبیرہ شدیدہ واقع ہوا مگر اوروں کو عالم پر سخت شنیع ملامتیں کرنے کا (جن کی شکایت اس سوال کے ساتھ خط میں آئی) موقع نہ ہوگا کہ وہ خود بھی اسی بلا میں مبتلاہیں۔ سوم عالم ومن معہ کا انفراد اور اضرار اسلام میں استبداد، یہ تیسری شق تھی کہ یا وہ بطور خود گیا، اس کے جواب میں دو شق اخیر کی صراحۃً اور اول کی ضمناً نفی کی کہ عالم کو عام مسلمانوں نے طلب نہ کیا نہ وہ از خود گیا بلکہ مقدمہ کانپور کے کارکنوں نے باصرار بلایا، یہاں سے ظاہر کہ وہ کارکن عام مسلمانوں کے صحیح نائب مناب نہ تھے ورنہ ان کا بلانا عام مسلمانوں کا طلب کرنا کیوں نہ ہوتا اور جب ایسے نہ تھے اور معاملہ عام مسلمانوں کا تھا نہ کہ تنہا ان خاص کا، تو خاص کے بلائے پر جانا عام کا قائم مقام کیونکر کردے گا، تو مآل وہی ہوا کہ خود گیا۔
(۴۶) بالفرض وہ کارکن عام مسلمین کے صحیح قائم مقام تھے یا خود عام مسلمانوں نے عالم کو بھیجا تو کیا انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اصل معاملہ پر پانی پھیر دینا فیصلہ پر ایک نظر میں مسلمانوں سے گفتگو اور عالموں سے مشورہ تک توصرف تدبیر اول تھی بھیجنے والوں نے اسی کے لئے بھیجا تھاجب ممبر نے اسے نامنظور کیا عالم کی وکالت ختم ہوچکی، اسے اپنی رائے سے ایسی تدبیر حرام وخلاف احکام وہتک اسلام نکالنے اور اسے مسلمانوں کے سر ڈالنے کا کیا اختیار تھا، لاجرم اشتراک ہرگز نہیں بلکہ اضرار اسلام میں استبداد ہے پھر ملامت مسلمانان کی شکایت کیوں؎
تنکی المحب وتشکو وھی ظالمۃ     کالقوس تصمی الرمایاوھی مرنان
 (محب کو ہلاک کرتی ہے اور شکایت کرتی ہے حالانکہ خود ظالم ہے کمان کی طرح کہ تیر ہلاک کریں اور یہ جنبش دے)
 (۴۷) عالم نے خود ممبر سے یہ کہہ کر کہ میرا کام مسئلہ بتادینے کاہے خداکے گھر کا معاملہ ہے میرا گھر نہیں الخ اور تقریر عالم میں ہے احکام مذہبی میں کچھ نہیں دخل دے سکتا اگر رضامندی نہیں ہوتی حکام کو اختیار ہے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا، اپنی وکالت کو ختم کردیا تھا، پھر خودرائی کا اسے کیا اختیار تھا اس کا عذر یہ بتایا ہے کہ مگر ممبر متعینہ نے کہا ہم کو تمہاری رائے پر اعتماد ہے ہم علماء کی مجلس جمع نہ کریں گے تم اپنی رائے کہہ دو۔ الحمد ﷲ ظاہر ہوگیا کہ اب یہاں سے عام مسلمانوں کا وکیل نہ تھا بلکہ فریق ثانی کا جس نے اس پر اعتماد کیا، تو اس کی یہ کارروائی ہر گز مسلمانوں کی نہیں ٹھہرسکتی بلکہ ایک وکیل گورنمنٹ بلکہ ایک وکیل ممبر کی کارروائی ہے جس کا اثر صرف ممبر کی ذات تک محدود ہے۔
 (۴۸) علماء سے مشورہ نہ لینے کو ممبر کے سر رکھا جاتا ہے مگر فیصلہ پر ایک نظر کی تقریر تو صاف کہہ رہی ہے کہ عالم خود ہی اس سے بازرہا اور بالقصد اس سے انحراف اور اپنی رائے پر توکل کیا تقریر مذکور میں ہے

میں نے چاہاکہ عام طور پر علماسے مشورہ لوں مگر مجھے اخفائے راز کی ذمہ داری اس سے مانع ہوئی اپنا ذاتی خانگی معاملہ ہوتا تو ایک بات تھی عام مسلمانوں کا معاملہ اور انہیں سے اخفاء گورنمنٹ کا اگر کوئی راز تھا تو کیا ضرورتھا  کہ گورنمنٹ کا نام لیا جاتا اس کا کوئی خفیہ ارادہ ظاہر کیا جا تا دربارہ مسئلہ علما ء سے استشارہ کہ فلاں صورت کا کیا حکم ہے کون سا افشائے راز تھا شرعی مسئلہ اورخاص حرمت اسلام سے متعلق اور عام مسلمانوں سے اس کا تعلق اور راز کی کوٹھری میں بند۔
بحمداﷲ یہ توصاف ہوگیا کہ ایک شخص کی شخصی کارروائی ہے جس میں نہ عام مسلمان شریک نہ علماء کو خبر، ایسی کارروائی جس قابل ہے ظاہر ہے۔
 (۴۹) آگے ممبر کا قول لکھا ہم بالکل گفتگو منقطع کرتے ہیں اور صرف ایک گھنٹے کی مہلت ہے یہاں یہ بتایا جاتا ہے کہ جلدی کی اور مہلت نہ دی اور گھبرالیا اس لئے ہم نے مسجد نہ ایک مسجد بلکہ ہندوستان کی سب مسجدیں نذرکردیں،اس عذر کی خوبی ظاہرہے نزاع میں فریق ثانی سب کچھ کرتا ہے گھبرالینے پر گھبراجانا کیوں ہوامہلت کے جواب میں کیوں نہ انہیں سے مشورہ لینے کے لئے کافی مہلت ملنا ضرور ہے ورنہ گورنمنٹ کواختیار ہے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا، یہ کہہ کر دیکھا تو ہوتا کہ آشتی خواہ گورنمنٹ کیا کہتی، حرمت اسلام کیسی برقرار رہتی، حفظ حقوق مذہب میں گورنمنٹ کی نامبدل پالیسی کیا کچھ نفع پہنچاتی، وہ امن جس کا پیام ہی لے کر گورنمنٹ کا آنا ہوا تھا کیسا کچھ مبارک رنگ دکھاتی، اسی لئے تو حدیث میں ارشاد ہوا:
التأنی من الرحمٰن والعجلۃ من الشیطان۱؎۔ والعیاذ باﷲ العزیز المستعان۔
تاخیر رحمان کی طرف سے ہوتی ہے اورعجلت شیطان کی طرف سے، اﷲ تعالی غالب مدد گار کی پناہ۔(ت)

اس کے بعد جو کچھ کہا گیاا س کے فقرے فقرے کا رد اوپر آگیا وباﷲ التوفیق۔
 (۱؎ جامع الترمذی     ابواب البر    باب ماجاء فی التأنی     امین کمپنی دہلی         ۲/ ۲۲)

(کنز العمال     حدیث ۵۶۷۵    موسسۃ الرسالہ بیروت    ۳/ ۱۰۱)
 (۵۰) غرض الزامات شرعیہ قطعیہ یقینا قائم ہیں اور بشدت قائم، کبائر شدیدہ عدیدہ کے ارتکاب قطعاً لازم ہیں اور بقوت لازم۔ اس سب پر ظلم بر ظلم برأت کی فکر وکاوش اور اس کارروائی ہتک حرمت اسلام کو صحیح وصواب بنانے کی کوشش ہے حاشا حق طلبی کی یہ راہ نہیں؎
دانم نرسی بکعبہ اے پشت براہ    کیں راہ کہ تو میروی بہ انگلستان ست
 (اے مسافرمجھے معلوم ہے کہ توکعبہ نہیں پہنچے گا کیونکہ جس راستہ پر توچل رہا ہے وہ انگلستان کا ہے) 

نسأل اﷲ العفو والعافیۃ۔
بلکہ سبیل نجات اس میں منحصر کہ
اولاً عالم اور جو جو مسلم اس کارروائی میں شریک تھے سب اس شنیع وسخت فظیع کبیرہ خمیر صدہا حرام وہتک حرمت اسلام سے بصدق دل توبہ کریں رب المساجد جل جلالہ کے حضور خاک مذلت پرناک رگڑیں، اپنے سروں پر خال اڑائیں، سربرہنہ بادل گریاں وچشم بریاں اس کے حبیب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن پکڑ کر دست ضراعت پھیلائیں اور ہر ایک کہے: اللّٰھم انی اتوب الیک منھا لاارجع الیھا ابدا الٰہی! میں ان تمام حرکات شنیعہ سے تیری طرف توبہ کرتا ہوں اب ایسا نہ کروں گا۔

ثانیاً بکثرت اخباروں اشتہاروں میں صاف صاف بلا تاویل اپنے جرائم کا اعتراف اور اپنی توبہ اور اس کارروائی کی شناعت کی خوب اشاعت کریں کہ جس طرح عالم کے اعتماد پر عوام میں اسکی خوبی کا دند (شور) ہند کے گوشہ گوشہ میں مچا یوں ہی بچہ بچہ کے کان تک عالم کی توبہ اور اس کی شناعت کا اعلان پہنچے،
حدیث میں ارشاد ہوا:
اذاعملت سیئۃ فاحدث عندھا توبۃ السربالسروالعلانیۃ بالعلانیۃ۱؎۔ رواہ الامام احمد فی کتاب الزھد والطبرانی فی الکبیر والبیھقی فی الشعب بسند حسن جید عن معاذ بن جبل رضی اﷲتعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲعلیہ وسلم۔
جب تو برائی کرے تو اسی وقت توبہ کر، مخفی کی مخفی اور علانیہ کی علانیہ۔ اس کوامام احمد نے کتاب الزہد میں اور طبرانی نے کبیر میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں حسن جید سند کے ساتھ حضرت معاذبن جبل رضی اﷲ عنہ سے انہوں نے نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے بیان کیا۔(ت)
(۱؎ الزہد لامام احمد بن حنبل     دارالدیان التراث القاہرۃ     ص۳۵)
ثالثاً گورنمنٹ کو جو ایساعظیم مسئلہ غلط باور کرایا ہے جس سے ہمیشہ کےلئے مسجدوں کو سخت خطرہ کا سامنا ہے اپنی تمام ہستی ساری حیثیت پوری کوشش ہمگین طاقت اس کے رفع میں صرف کریں اور شرعی دلائل، فقہی مسائل، ائمہ کے ارشاد، علماء کے فتاوٰی بیش از بیش جمع کرکے یقین دلاویں کہ وہ کارروائی جو پہلے ہم نے بتائی محض باطل وحرام وہتک حرمت اسلام تھی کسی مسجد کی کوئی زمین ہرگز ہرگز راستہ، سڑک، ریل نہر غرض کسی دوسرے کام کے لئے نہیں کی جاسکتی، مسجد حقیقۃً زمین کانام ہے۔چھت اس کا بدل نہیں ہوسکتی نہ ہر گز کسی دوسری زمین یا دس( ۱۰) لاکھ روپے گز قیمت خواہ کسی شے سے اس کا بدلنا روا ہوسکے، اگر ایسا نہ کیا تو یہ مسجد اوراس کے سوا جب کبھی کسی مسجد کو عالم اور اس کے ساتھی مسلمانوں کی اس کارروائی سے صدمہ پہنچے گاہمیشہ ہمیشہ تا بقائے دنیا اس کی ایک ایک بیحرمتی کاروزانہ گناہ عظیم ان کے نامہ اعمال میں ثبت ہوا کرے گا اﷲ کی پناہ اس حالت سے کہ قبرمیں ہڈیاں بھی نہ رہیں اور ہر ہر لمحہ پر ،
من اظلم ممن منع مسٰجداﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۱؎۔
اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کو روکے ان میں نام خدا لئے جانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔(ت)  کا وبال عظیم دنیا سے قبر اور قبر سے حشرتک پیچھا نہ چھوڑے،
(۱؎ القرآن الکریم   ۲/ ۱۱۴)
اور یہ عذرمسموع نہ ہوگا کہ ہمیں اس کام کے لئے آدمی نہیں ملتے جیسا کہ یہاں خط میں لکھ کر بھیجا کام آپ کا بگاڑا ہوا ہے آپ پر اس کی تلافی فرض ہے اگرچہ کوئی ساتھ نہ دے، بگاڑنے کوآپ تھے بنانے کو کوئی اور آئے، اس وقت کا استبداد کہ نہ علماء سے پوچھنا نہ مسلمانوں سے کہنا اب بھی کام لائیے اور اپنی عاقبت بنائیے اور خدمت کعبہ کی الٹی بانگی مٹاکر سیدھی دکھائیے، راہ یہ ہے اور توفیق اﷲ عزوجل کی طرف سے،ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔اس میں اپنی ذلت نہ سمجھئے اﷲ عزوجل کے نزدیک عزت کہ اس کی طرف رجوع لائے اس کے گھر کی بیحرمتی کرانے سے باز آئے،
وہ فرماتا ہے:
لم یصروا علی مافعلواوھم یعلمون۲؎
 (اور اپنے کئے پر جان بوجھ کراڑ نہ جائیں۔ت)
 (  ۲؎ القرآن الکریم ۳/ ۱۳۵)
مسلمانوں کے نزدیک عزت کہ ان کے دین پر تعدی چھوڑی حفظ حقوق مـذہب کی طرف باگ موڑی، گورنمنٹ کے نزدیک عزت کہ ایسی عظیم حرمت اسلام کی پامالی جو اس کی نامبدل پالیسی کے بالکل خلاف اس کے مستمر وعدوں کے بالکل مناقض، سات کروڑ رعایا کا دل دکھانے والی روش برطانیہ کو مذہبی دست اندازی کا عیب لگانے والی تھی اٹھادی اور جو بات غلط باور کرائی تھی حق وانصاف سے بدلوادی،
والامر بیداﷲ ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ
 (معاملہ اﷲ تعالٰی کے دست قدرت میں ہے لاحول ولاقوۃ الا باﷲ۔ت) میں ان صاحبوں خصوصاً اپنے قدیمی دوست عالم کو اﷲ عزجلالہ کی پناہ دیتا ہوں اس سے کہ انہیں بات کی پچ الٹی راہ دکھائے
معاذ اﷲ
اخذتہ العزۃ بالاثم۳؎
 (اسے اور ضد چڑھے گناہ کی۔ت) کی شامت آڑے آئے،
 (۳؎ القرآن الکریم    ۲/ ۲۰۶)
اور اگر خداناکردہ ایسا ہوتو علماء پر فرض ہے کہ اس کارروائی کا خلاف شرع ومضر اسلام ہونا دلائل ساطعہ سے  واضح کریں اوہام خلاف کا رد بالغ فرمائیں، اسلامی اخباروں پر فرض ہے کہ ان تحریرات علماء کو نہایت کثرت واہتمام سے شائع کریں، ایک ایک گوشہ میں ان کی آواز پہنچائیں، اسلامی انجمنوں پر فرض ہے کہ ان کی تائید میں جلسے کریں بکثرت ریزولیوشن پاس کریں گورنمنٹ کو ان کی اطلاعیں دیں، مسلمان امراء وحکام واہل وجاہت پر فرض ہے کہ گورنمنٹ کو اس طرف پے در پے توجہ دلائیں، مسلمان قانون پیشہ پر فرض ہے کہ اس کے استغاثے منتھی کوپہنچائیں غرض ہر طبقہ کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ اپنے منصب کے لائق اس میں سعی جمیل بجالائیں، اور بے تکان اتھک جائز کوششیں کرکے اپنی مساجد کو بےحرمتی سے بچائیں، ایسا کروگے تو ضرور حضرت عزت عزجلالہ سے ان شاء اﷲ القدیر المستعان کامیاب ہوگےدنیا میں سر خرو آخرت میں مثاب ہوگے 

کہ وہ فرماتا ہے:
  وکان حقا علینا نصرالمومنین۱؎، ان اﷲ لایضیع اجرالمحسنین۲؎۔
اورہمارے ذمہ کرم پر ہے مسلمانوں کی مدد فرمانا، بیشک اﷲ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۳۰ /۴۷)(۲؎القرآن الکریم  ۹/ ۱۲۰  و  ۱۱ /۱۱۵  و  ۲ ۱/۹۰)
والحمد ﷲ رب العٰلمین، وصلی اﷲ وبارک وسلم علٰی سیدنا ومولٰنا وملجأنا وماوٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین اٰمین، واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم، کتبہ عبدہ المذنب احمد رضا البریلوی عفی عنہ بمحمد النبی الامی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
16_3.jpg
Flag Counter