Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
61 - 112
متعلق جواب استفسارسوم
اس کے فقرے فقرے کا رد اوپر گزر چکا، گورنمنٹ نے خود خواہش تصفیہ کی، بہت اچھا کیا، مگر تصفیہ میں یہ تجویز جوخود عالم کے اقرار سے حرام اور بلاشبہہ ہتک حرمت اسلام ہے، عالم نے آپ ہی پیش کی بہت برا کیا، پھر اسے نہایت مسرت خیز و زریں روز وغیرہ وغیرہ کہا او ر سخت برا کیا۔
 (۳۷) [اس تجویز نے کیا دیا اور کیا لیا اس کا موازنہ]
نہ کہ قیدیوں کو بلا مقابلہ کسی امر کے چھوڑدینا چاہا، جواب ایڈریس میں کسی مقابلہ کا اشارہ تک نہیں، لکھنو کے ایک انگریزی اخبار میں ہے کہ بلا شرط چھوڑاگیا، ممکن ہے کہ باہم خفیہ گفتگو میں ذکر شرط آیا ہو، اب سوال یہ ہے وہ شرط کیا تھی اور جزا کے ساتھ ہم قیمت تھی یابہت گراں، ہمارے سائل فاضل کا بیان ہے کہ بلکہ اس کو مشروط کیا کہ مسلمان آئندہ مقدمات نہ چلائیں، یعنی زمین مسجد سے دست بردار ہوجائیں(دیکھو ہمارے بیانات میں نمبر ۱۷تا۲۰)اور مسجد کی زمین پر بعینہ اسی طریقہ کی عمارت نہ تعمیر کریں یعنی جس سے وہ مسجد کےلئے محفوظ رہے اور سڑک کے کام میں نہ آسکے ورنہ عمارت کی کسی ہیأت معینہ سے بحث کے کوئی معنی نہیں تو حاصل شرط مسجد کی مسجدیت کا ابطال اور اس کی زمین کا سڑک میں استعمال اور اس کی حرمت کا اسقاط وابتذال تھا، اسی کی پابندی سے عالم نے یہ اخیر ناشدنی تجویز نکالی جو منظور ہو کر نظیر ہوگئی اور جس نے ہمیشہ کے لئے تمام مساجد ہند کی حرمت بیچ ڈالی۔ اب اس کا اور جزایعنی رہائی ملزمان کا موازنہ کرلیجئے خاص اشخاص کی قید ضرر خاص تھا اور وہ بھی جسمانی اور وہ بھی منقطع اور مساجد کی بیحرمتی وابطال مسجدیت اور اس کے خود پیش کرنے پھر منظور کرانے، پھر اس پر اظہار رضاومسرت سے ہمیشہ کےلئے اس کا نظیر بننا کتنا سخت ضرر عام تھا اور وہ بھی دینی اور وہ بھی مستمر، اسی کو عالم نے خود کہا تھا

کہ شعار اسلام کے ہتک ہونے میں کسی کو شبہہ نہ رہا، ایک مسجد کا ضرر ضرر عام ہے کہ مسجد عام مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے، نہ کسی خاص کی، اور ضرر عام ضرر خاص سے اقوی، اسی پر مبنی ہے فتح القدیر وبحرالرائق ودرر وغرر وتنویر الابصار ودرمختار وغیرہا معتمدات اسفار کا مسئلہ کہ
 مسجدضاق وبجنبہ ارض لرجل ۱؎الخ
 (جب مسجد تنگ ہوجائے اور اس کے پہلو میں ایک شخص کی زمین ہو۔ت)
 (۱؎ فتح القدیر     کتاب الوقف     فصل اختص المسجد باحکام     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۵/ ۴۴۵)

( بحرالرائق     کتاب الوقف       فصل فی احکام المسجد    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۵/ ۲۵۵)

( الدررالحکام شرع غرر الاحکام     کتاب الوقف    مطبعۃاحمد کامل    ۲/ ۱۳۶)
جب صرف نمازیوں پر جگہ کی تنگی ایسا ضرر مہم سمجھی گئی تو مسجد کی مسجدیت کا ابطال شعار اسلام کا وہ ہتک وابتذال اور پھر نہ ایک مسجد کے بلکہ قاعدہ مستمرہ مساجد کیلئے کس درجہ اشد واشنع ضررعام مسلمین وضررنفس اسلام ودین ہے عقل ونقل وعرف وشرع کا قاعدہ تو وہ تھا کہ ضرر عام سے بچنے کو ضرر خاص کا تحمل کرتے ہیں،
اشباہ والنظائر میں ہے:
یتحمل الضرر الخاص لاجل دفع الضرر العام۲؎۔
عام ضررسے بچنے کے لئے خاص ضرر کو اپنایا جاسکتاہے۔ت)
 (۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الاول    تنبیہ یحتمل ضرر الخاص لاجل دفع ضرر العام  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۱/ ۱۲۱)
یہاں چند روزہ خفیف ضرر خاص چند اشخاص سے بچنے کو اتنا عظیم ضرر عام واضراراسلام مستمر ومدام گوارا کیا،
اب سوا اس کے کیا کہئے کہ
یالیت قومی یعلمون۳؎
 (کسی طرح میری قوم جانتی۔ت)
 (۳؎ القرآن الکریم ۳۶/ ۲۶)
 (۳۸) عموم وخصوص ضرر سے قطع نظرآخر اتنا تو عالم کو بھی اقرار ہے کہ اس میں ہتک حرمت اسلام ہے پھر کون سی شریعت ہے کہ بعض اشخاص کو قید سے چھڑانے کے لئے مسجدیں بھینٹ چڑھانا اور ان کی حرمتیں پامال کرانا اور اس پامالی کو نظیر مستمر بنانا حلال ہے، زید کا باپ بیمار تھا اور بھائی کو زکام، ایک بڑاڈاکٹر جس کے ہاتھ میں اﷲ عزوجل نے ان بیماریوں کا یقینی علاج رکھا تھا دور سے اسے سن کرآیا، اور آیا بھی کیسا، یہ کہتا آیا میں تمہارے لئے پیام شفا لایا ہوں اور خاص تصریحاً برادر وپدر دونوں کا نام لے کر کہا کہ اسے بھی دوادوں گا اور اس کا بھی خاص توجہ سے پورا اطمینان بخش معالجہ کروں گا، بااینہمہ زید نے اپنے وہم خواہ کسی کمپوڈر کے کہنے سے یہ خیال دل میں پکا لیا کہ باپ جب تک زندہ ہے بھائی کو دوانہ دی جائیگی، لہذا بھائی کازکام جانے کےلئے باپ کو قتل کردیا، ایسی صورت کو کیا کہیں گے، یا نہ سہی یہی فرض کرلیجئے کہ ڈاکٹر نے وہ کچھ کہہ کر خود بھائی کے علاج کو باپ کی موت پر مشروط کردیا، کیا اس صورت میں بھائی کازکام کھونے کو باپ کا قتل رواہے۔
 (۳۹) استفسار یہ نہ تھا کہ ملزم شرط پر چھوٹے یا بلا شرط، جس کا یہ جواب دیا گیا، بلکہ سوال یہ تھا کہ ان کی آزادی کے بعد اور کیا منازعت رہ گئی تھی جسے عالم نے قطع کیا اور کیونکر قطع کی، یہاں بھی بعض اصحاب نے استفسارات کو دیکھ کر کہا تھا کہ ان کی حکمت سمجھ میں نہ آئی کس کس غرض سے یہ امور دریافت کئےہیں ہمارے استفسار دوم کی حکمت اوپر معلوم ہوچکی، اس سوم کا فائدہ یہ تھا کہ یہاں دو ہی نزاعیں تھیں، گورنمنٹ کا ملزموں پر دعوٰی، مسلمانوں کو زمین پر دعوٰی۔ گورنمنٹ نے عالم سے مصالحت کی، مصالحت یک طرفہ تو تھی نہیں اور رہائی ملزمان کوئی فعل مشترک نہ تھاکہ فریقین نے کیا، اور طرفین سے قطع نزاع متحقق ہوا،وہ تو تنہا فعل گورنمنٹ تھا کہ خود ہی وہ اسے بجالائی اور اپنی طرف سے قطع نزاع کی، اس کے بعد دوسری نزاع کیا تھی کہ ادھر سے قطع کی گئی، لاجرم اس کا جواب یہی تھا کہ گورنمنٹ نے قیدی چھوڑے مسلمانوں نے مسجد چھوڑی، ولہذا سائل فاضل نے استفسار دوم کی طرح سوم کے جواب سے بھی پہلو تہی کی اور وہ زائد بات لکھ کر اس گول مبہم پر قناعت فرمائی کہ گورنمنٹ اور مسلمانوں سے مقدمات اور اس کے ضمن میں باہم کشیدگی ومنازعت تھی جس کو عالم نے قطع کردیا۔ سوال تھا منازعت کیا تھی کیونکر قطع کی؟جواب ہوا کہ تھی اور قطع کی غرض یہاں کے بعض اصحاب فائدہ استفسارات نہ سمجھیں مگر سائل فاضل نے خوب سمجھا اور اپنی احتیاط کا حق ادا کیا۔
متعلق جواب استفسار چہارم
قبضہ کی کافی بحث اوپر گزری کہ زمین پر قبضہ دینا نہ ٹھہرا بلکہ ہواپر۔
 (۴۰)[زعم حصول قبضہ کا رد]
رہا ممبروں کا کہنا ہم عمارت کی اجازت دیں گے جو قانوناً وعرفاً قبضہ ہے اگرچہ گورنر جنرل لفط قبضہ کو اپنی زبان سے نہ کہیں، شرعاً راستہ  پر چھجا نکالنے چھتا پاٹنے کاہر شخص کواختیار ہے اگر کوچہ غیر نافذہ ہو تو سب اہل کوچہ کی اجازت سے، اور شارع عام ہوتو سلطان کی اجازت سے بلکہ بلااجازت سلطان بھی نکالنے سے گنہگار نہ ہوگا اگرچہ مزاحمت کے بعد تار دینا واجب ہوگا۔
عالمگیری میں ہے:
ان اراد احداث الظلۃ فی سکۃ غیر نافذۃ یعتبر فیہ الاذن من اھل السکۃ وھل یباح احداث الظلۃ علی طریق العامۃ ذکر الطحاوی انہ یباح ولایاثم قبل ان یخاصمہ احدوبعد المخاصمۃ لایباح الاحداث والانتفاع ویاثم بترک الظلۃ کذافی الفصول العمادیۃ، ولیس لاحد من اھل الدرب الذی ھو غیر نا فذ ان یشرع کنیفا ولامیزابا باذن جمیع اھل الدرب اضر ذلک بھم اولم یضرھکذا فی الخلاصۃ۱؎۔
اگر کوئی بندگلی میں چھتہ بنانا چاہے تو گلی والوں کی اجازت معتبر ہوگی، اور کیا شارع عام پر کوئی چھتہ بناسکتا ہے، تو امام طحاوی نے مباح کہا ہے اور اس وقت تک گنہگار نہ ہوگا جب تک کوئی مخاصمت نہ کرے اور مخاصمت کے  بعد نہ بنانا مباح ہوگااور نہ ہی اس سے انتفاع جائز ہوگا اور اس کو باقی رکھنے سے گنہگارہو گا، جیساکہ فصول عمادیہ میں ہے، اور کسی کوتنگ بندگلی میں کوڑا ڈالنا اور پر نالہ لگانا گلی والوں کی اجازت کے بغیر جائز نہیں خواہ گلی والوں کو ضرر ہو یا نہ ہو، خلاصہ میں یونہی ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الجنایات    الباب الحادی عشر فی جنایۃ الحائط     نورانی کتب خانہ پشاور      ۶/ ۴۰)
اور غالباً انگریزی قانون میں بھی چونگی اجازت سے ایسا ہوسکتا ہے اسے کوئی عاقل راہ یا سڑک کی زمین پر قبضہ نہ کہے گا اور دور کیوں جائیے لکھنو میں بام نشینان بازار کی کثرت سنی جاتی ہے شرعاً عرفاً قانوناً کسی طرح وہ دکانوں پرقابض نہیں۔
 (۴۱) جواب ایڈریس کا وہ جملہ کہ میں اس کو کچھ وقیع والم نہیں خیال کرتا کہ زمین کس کے قبضہ میں رہے گی، اس کے سمجھنے میں بہت غلطی کی گئی بحث قبضہ وقیع نہیں یعنی فضول ہے اس کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ قبضہ کسی خاص کا ہو،  اس سے ہمیں غرض نہیں۔ دوسرے یہ کہ ہم کسی خاص قبضہ کو ہر گز روا نہ رکھیں گے، لہذا اس کی بحث فضول ہے، وہ بات کہ اگرچہ گورنر جنرل لفط قبضہ کو اپنی زبان سے نہ کہیں معنی اول بتاتی ہے حالانکہ مراد قطعاً معنی ثانی میں ہے کہ اس کے متصل ہی، جواب ایڈریس میں ہے مگر یہ ضرور ی ہے کہ عام پبلک اور نمازی  اسے بطور سڑک کے استعمال کرنے کے مجا ز ہوں یعنی قبضہ عام ہونا ضروری ہے خصوصیت کی بحث لایعنی ہے، تو ذکر نفی قبضہ کو نفی ذکر قبضہ پر حمل کرناصریح مغالطہ یا کھلی غلطی ہے۔ممبر متعینہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہی قبضہ ہے یعنی ا ور میں نے مان لیا کہ سالبہ مراد ف موجبہ ہے ایسا قبضہ عالم صاحب یا کوئی مسلمان ممبر صاحب اپنے گھر کے لئے بھی گواراکریں گے یا یہ خاص اﷲ عزجلالہ کے گھر کے لئے ہے غرضکہ قبضہ خود ممبر متعینہ کی زبان سے طے کرالیا۔ جی نہیں بلکہ خود اپنی زبان سے قبضہ کا قضیہ طے کردیا کہ چھت ہماری اور مسجد کی زمین پر سڑک جاری،
لاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔
Flag Counter