Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
60 - 112
جواب استفسار دوم پر نظر
(۲۱) استفسار تو یہ تھا کہ جس امر پر صلح ہوئی وہ کس کی تجویز تھا، اس کا یہ جواب کیا ہو اکہ گورنمنٹ نے خود مصالحت کی خواہش کی اس امر پر کہ مقدمات اور دعاوی کے بارے میں کوئی سمجھوتا ہوجائے، کس نے پوچھا تھا کہ خواہش صلح کدھر سے ہوئی اس سمجھوتے ہی کوپوچھا تھا کہ کس کی رائے کا ایجاد تھا اس کا کچھ جواب نہ ہوا۔
(۲۲) [ف:فیصلہ کانپور پر ایک نظر کارد بلیغ]
سائل فاضل نے اگرچہ جواب استفسار نہ دیا مگر خود عالم کی تقریر کہ بعنوان ''فیصلہ کانپور پر ایک نظر'' ہمدرد وغیرہ میں چھپی وہ اس کے جواب کی کفیل ہے اس میں صاف اعتراف ہے کہ چھتا بناکر اس پر قبضہ ملنے اور زمین پر سڑک چلنے کی تجویز خود عالم نے اپنی طرف سے پیش کی وہی منظور ہوئی اس تجویز کا حال اوپر معلوم ہوچکا، اوریہ بھی کہ خود عالم کو اس کا خلاف احکام اسلامیہ ہونا مسلم ہے مگر عالم کی تقریر مذکور اس تجویز کی حالت اور بھی واضح کرتی ہے۔
 [ف:عالم کی پہلی تدبیر نامنظور شدہ اور اس کا صریح باطل و خلاف شرع ہونا]
تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ عالم نے پہلے تو یہ تدبیر نکالی کہ اس زمین کو مسجد کا ممربنادیں اور اس کےلئے مسجد کا دروازہ اس طرف نکالیں کہ اصل ممر مسلمانوں کےلئے ہو پھر ضمناً کوئی دوسرا بھی اس طرف سے اس طرف گزر جائے تو ہم اس کو مانع نہیں ضرورت کے وقت اجازت ہوسکتی ہے بشرطیکہ احترام اس جز کا مثل احترام دیگر اجزائے مسجد کے قائم رہے،ا ور غالباً اسی تحفظ و احترام کے لئے یہ چاہاتھا کہ اس حصہ زمین کو سڑک سے مرتفع بنایا جائے یعنی تاکہ پیدل کے سوااوروں کا گزرنہ ہو۔ اس تدبیر میں عالم کی نظر اس مسئلہ پر تھی کہ راستہ جب پیدل پر تنگی کرے تو بضرورت مسجد میں ہوکر لوگ ادھر گزرسکتے ہیں یوں کہ مسجد بحال خود برقرار رہے اس میں کوئی فرق اصلاًنہ آئے ولہذا شرط ہے کہ یہ مسجد میں ہوکر نکل جانے والے جنب وحائص ونفسانہ ہوں نہ اس میں جانور لیجائیں کہ مسجد میں ان کا جانا اور ان کا لے جانا حرام ہے۔
 [ف:مسئلہ ممر فی المسجد کی جلیل تحقیق اور یہ کہ وہ سلطنت اسلامیہ کے ساتھ خاص ہے ]
اقول: یہ گزر اصالۃً مسلمانوں کےلئے ہے کہ مسجدوں سے کافروں کو کیا علاقہ،
الاتری الی تعلیلہم بانھما للمسلمین۱؎ کما فی الدرالمختار وغیرہ من معتمدات الاسفار۔
ان کایہ علت بیان کرنا آپ نے نہ دیکھا کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہے، جیسا کہ درمختار وغیرہ معتبر کتب میں ہے(ت)
(۱؎درمختار، کتاب الوقف     ۱/ ۳۸۲  )
مگر جبکہ راستہ پیدل تنگ ہے اور گزر کی حاجت کافر کو بھی ہے اور کافر ذمی بلکہ مستامن بھی تابع مسلم ہے تو بالتبع ضمناًاسے بھی منع نہ کریں گے۔
وکم من شیئ یثبت ضمنا ولا یثبت قصداًوھذا معنی قول العلماء حتی الکافر۲؎ فظھر الجواب عما اعتراض بہ العلامۃ الطحطاوی علی جعلہ غایۃ ۳؎وﷲ الحمد ولاحاجۃ الی مااجاب بہ العلامۃ الشامی وﷲ الحمد وظھر الجواب عما ظن العلامۃ شیخی زادہ فی مجمع الانھر من التعارض بین تعلیلیھم بان کلیہما للمسلمین وبین قولھم حتی الکافر۴؂ وﷲالحمد۔
کئی چیزیں ضمناً ثابت ہوتی اور قصداً ثابت نہیں ہوتیں اور علماء کے قول (حتی الکافر) حتی کہ کافر، کایہی معنی ہے تو علامہ طحطاوی نے اس کو غایت قرار دے کر جو اعتراض کیا ہے، اس سے اس کا جواب ظاہر ہوگیا، ﷲ الحمد، اور علامہ شامی نے جو جواب دیا اس کی بھی حاجت نہ رہی، وﷲ الحمد، نیز اس سے علامہ شیخی زادہ نے مجمع الانہر میں اپنے خیال سے فقہاء کرام کی تعلیل کہ دونوں مسلمانوں کے لئے، اور فقہاء کرام کے قول ''حتی الکافر'' میں جو تعارض سمجھا اس کا جواب بھی ظاہر ہوگیا، وﷲ الحمد(ت)
 (۲؎ درمختار کتاب الوقف     ۱/ ۳۸۲  )

(   ۳؎ طحطاوی علی الدرالمختار     کتاب الوقف دارالمعرفہ بیروت    ۱/ ۵۴۳)

(۴؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر    کتاب الوقف فصل اذبنی مسجداً داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱/ ۷۴۸)
مسئلہ تو یہاں تک بجا و صحیح یا کم از کم ایک قول پر ٹھیک تھا مگر موقع سے اسے متعلق سمجھنے میں ایک دو نہیں بکثرت خطائیں ہوئیں جن میں تین خود عالم کے تین لفظوں سے ظاہر ومبین (۱) ضمناً (۲) احترام (۳) ضرورت  ظاہر ہے کہ اگر یہ صورت ہو تی تو اولاًکفار کا گزر ہر گز ضمناً نہ ہوتا بلکہ اصالۃً  جس کا انکار صریح مکابرہ ہے اور وہ نہ صرف اس عالم کے اقرار بلکہ یقینا مراد علماء کے خلا ف ہے، زمانہ ائمہ میں مساجد تو مساجد دارالاسلام کی سڑک یا افتادہ زمین ہی پر چلنے والا کافر نہ ہوتا مگر ذمی کہ مطیع اسلام ہے یا مستامن کہ سلطان اسلام سے پناہ لے کر داخل ہوا، اور یہ دونوں تابع اسلام ہیں آخر نہ دیکھا کہ انہیں عبارات میں علماء نے مساجد کی طرح مطلق راستوں کو بھی مسلمانوں کے لئے بتایا کہ اور ہیں تو ضمنی وتابع ہیں۔
ثانیاً یہاں احترام ناممکن تھا جنب وحائض کی ممانعت پر اصلاً اختیار نہ ہوتا خصوصاً کفار کو اجازت ہوکر، اور اس ممانعت کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کرنا محض ظلم ہے، صحیح یہ ہے کہ کفار بھی مکلف بالفروع ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی:
یتساء لون عن المجرمینoماسلککم فی سقرoقالوا لم نک من المصلینoولم نک نطعم المسکینoوکنا نخوض من الخائضینoوکنا نکذب بیوم الدین۱؎o
پوچھتے ہیں مجرموں سے تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی، وہ بولے ہم نماز نہ پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہ دیتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ فکریں کرتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم۷۴/ ۴۰تا۴۶)
اور بالفرض وہ مکلف بالفروع نہ سہی ہم تو مکلف ہیں بحال جنابت وحیض مسجد میں جانا ضرور بیت اﷲ کی بیحرمتی اور دربار ملک الملوک عزوجلالہ کی بے ادبی ہے تو ہمیں کیونکر رواہوا کہ ایسی شنیع تجویز خود پیش کریں اور بیت اﷲ کی حرمت پامال کرائیں، جانور تو بالاجماع مکلف نہیں، کیامسلمان کوروا ہے کہ کتے یا سوئر بلکہ ناسمجھ بچے یا مجنون کو مسجد میں چلتا دیکھے اور چپکا بیٹھارہے کہ وہ تو مکلف ہی نہیں حاشا حفظ مسجد پر یہ تو مکلف ہے اور ترک منع اس کا گناہ ہے کہ بے ادبی مسجد پر راضی ہوا یا کم از کم ساکت رہا،
حدیث میں ارشاد ہوا:
جنبوا مساجدکم صبیانکم ومجانینکم۲؎ رواہ ابن ماجۃ وعبدالرزاق عن واثلۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
اپنی مسجدوں کو بچوں اور دیوانوں سے بچاؤ۔ (اسے ابن ماجہ اور عبدالرزاق نے واثلہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔ت)
 (۲؎ سنن ابن ماجہ     ابواب المساجد    باب مایکرہ فی المساجد    ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ۵۵)
جب احتمال بے ادبی پر غیر مکلفوں کو نہ روکنا خلاف حکم حدیث ہے تو مساجد کو بیحرمتی یقینی کے لئے خود پیش کرنا کس درجہ جرم شنیع وخبیث ہے۔
ثالثاً اس میں جانوروں کا نہ جانا بھی ہر گز نہ ہوتا اگرچہ کہہ دیا جاتا کہ یہ پیدل کے لئے ہے، معہود معروف یہ ہے کہ پختہ سڑک جسے گولا کہتے ہیں اصالۃً صرف بگھیوں ٹمٹموں کے لئے بنتی ہے اور اس کے پہلوؤں پر جو راہ پیادوں کے لئے چھوڑ ی جاتی ہے بیل گاڑیوں، چھکڑوں، گائے بیلوں، گدھوں کےلئے وہی ہوتی ہے، ولہذا ان میں سے جو چیز سڑک پر چل رہی ہے او رکوئی بگھی آجائے تو ان سب کو اسی پیادہ کی راہ میں ہٹنا ہوتا ہے ان کا استحقاق اسی میں سمجھا جاتا ہے اور معروف مثل مشروط ہے تو پیدل کے لئے کہنے کے یہ معنی ہیں کہ گھوڑا گاڑی کے سوا سب کےلئے ہے، آخر نہ دیکھا کہ جب آپ نے اس زمین کو سڑک سے کچھ مرتفع رکھنا چاہا یہ منظور نہ ہوا کہ اس میں گاڑیوں کی ممانعت تھی اور چھت آٹھ فٹ بلند ٹھہری کہ پیادہ کی حاجت سے بہت زائد ہے، لطف یہ کہ آپ اب بھی اسے  زیر مسئلہ مذکورہ لانا چاہتے ہیں فاعتبرواٰیٰاولی الابصار۔
رابعاً بفرض غلط اگر ممانعت ہوتی تو سواریوں کے لئے مگر گائے، بکری،بھیڑ کے گلے کوڑے اینٹوں کے گدھے نہ سوار ہیں نہ سواری، یہ قطعاً پیادہ ہی میں شامل رہتے۔
خامساً یہ بھی نہ سہی پیادہ گوروں اور جنٹلمینوں کے کتوں کا استثناء کیونکر ممکن تھا وہ تو ضرور پیادہ ہیں اور یہ ان کے دم کے ساتھ۔
سادساً جانے دو بھنگنیں کہ ٹوکرے لئے نکلتی ہیں وہ تو ہر طرح پیادہ آدمی ہیں ان کی ممانعت کس گھر سے آتی، تو آفتاب سے زیادہ روشن کہ یہ مسئلہ صرف اسلامی سلطنت کے ساتھ خاص ہے جہاں کفار تابع مسلمین ہوتے ہیں اور جہاں ہر طرح ہم احترام مساجد قائم رکھنے پر قادر ہیں غیر اسلامی عملداری میں اس کااجرا خود اصل مسئلہ کا ابطال اور مسجدوں کی صریح بیحرمتی وابتذال ہے۔
سابعاً یہاں ایک نکتہ جلیلہ دقیقہ اور ہے جس پر مطلع نہیں ہوتے مگر اہل توفیق
 وما یعقلھا الاالعٰلمون۱؎
(اور انہیں نہیں سمجھتے مگر علم والے۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲۹/ ۴۳ )
وہ یہ کہ مسجد میں کسی امر کا جواز اور بات ہے اور اس کا استحقاق اور۔ صورت مذکورہ علماء میں حکم جواز ہے نہ حکم استحقاق کہ مساجد توجمیع حقوق عباد سے ہمیشہ کے لئے منزہ ہیں،
قال اﷲ تعالٰی وان المسٰجد ﷲ ۲؎
 (اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اور یہ کہ مسجد یں اﷲ ہی کی ہیں۔ت)
( ۲؎ القرآن الکریم۷۲/ ۱۸)
تو حکم صرف سلطنت اسلامیہ میں چل سکتا ہے غیر اسلامی سلطنت میں جو ممر بنایا جائیگا ضرور اس میں کفار خصوصاًحکام کا مرور بطور دعوی واستحقاق ہوگا اور یہ قطعی ابطال مسجدیت وہتک حرمت اسلام وخلاف کلام ذی الجلال والاکرام ہے اگرچہ بفرض محال ہر طرح کا احترام قائم ہی رہے تو سلطنت غیر اسلامیہ کے لئے یہ مسئلہ قرار دینا صریح جہل وظلم عظیم ہے، انہیں سات وجوہ پر نظرفرمانے سے واضح ہوسکتا ہے کہ "مِن، الٰی،فی، علٰی،" کاترجمہ جان لینا فقاہت نہیں فقاہت چیزے دیگر ست۔
ایں سعادت بزور بازونیست    تانہ بخشدخدائے بخشندہ
 (یہ سعادت زور بازو سے حاصل نہیں ہوتی جب تک عطا فرمانے والا مالک عطانہ فرما ئے)
ثامناً [ف:ضرورت کی بحث]
رہی ضرورت تنگی، اس کا حال ظاہر ہے کہ پیدل تو پیدل گاڑیوں کے لئے وسیع سڑک موجود ہے،علماء نے یہاں یہی ضرورت تحریر فرمائی ہے اور یہی حکم جواز فی نفسہ کا کفیل ہے، ضرورت اکراہ شرعی نہ یہاں متحقق نہ اس میں یہ صورت صادق، اس سے جواز شے فی نفسہ نہیں ہوتا رفع اثم ہوتا ہے، وہ بھی صرف مکرہ سے، وہ بھی صرف وقت اکراہ، وہ بھی صرف اتنی بات پر جس پر اکراہ ہوا، اگر بعض اوہام الٹے چلے تو ان شاء اﷲالکریم اس وقت ان مباحث جلیلہ کی تفصیل کردی جائے گی جس سے روشن ہوگا کہ یہاں ادعائے ضرورت اکراہ کیسا جہل شدید تھا، بالجملہ یہ تدبیر بھی محض باطل و ناصواب تھی اور اتنا خود عالم کو اسی تقریر میں اقرار ہے کہ نہایت تنزل اور بقول ضعیف اور مخلص کے طور پر صورت مجوزہ ہے بہر حال وہ بھی ممبروں نے منظورنہ کی اس وقت عالم نے یہ دوسری تجویز نکالی جس پر تصفیہ ہوا کہ چھتا مسجد اور زمین سڑک۔ تقریر مذکور میں ہے: اس گفتگو میں تمام وقت صرف ہوگیا مصالحت کی امید منقطع ہوگئی اسوقت میں نے یہ صورت پیش کی کہ سردست ہم کو دالان کی چھت پر قبضہ دے دیں کہ ہم بنائیں۔ اس کے بعد ایک فقرہ دھوکا دینے والا ہے کہ اور زمین بھی دے دیں اس کو بھی ہم ہی بنائیں حسب قواعد میونسپلٹی جو تمام عمارات کے واسطے عام ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ زمین ہم کو واپس مل جائے ہم اس پر پہلی سی عمارت بنالیں، اس سے آسان ترکہ تدبیر اول میں تھا وہ تو ممبر نے مانا نہیں اس کے بعد اس کے کہنے کی کیا گنجائش ہوتی ہے اور کہا جاتا تو مانا کیوں جاتا اور یہ وہ کہا گیا جو مانا گیا کہ اس کی نسبت تقریر مذکور میں ہے: غرضیکہ تینوں دفعات حسب دلخواہ طے ہوگئے۔ پھر باریابی گورنمنٹ اور ہار پہنانے کا ذکر کرکے کہا: اس کے بعد موافق تجویز دی روزہ تینوں مقاصدہمارے حاصل ہوئے۔ یعنی جواب ایڈریس ان کے مطابق ملا تو زمین دے دیں اس کو بھی ہم ہی بنائیں، کے وہ معنی ہیں  جوجواب ایڈریس میں ہے کہ متولیوں کو ایک چھتا دار محراب بنالینی چاہئے اور ان عمارات کے نیچے بھی ایک گزرگاہ تعمیر کرلینی چاہئے جو میونسپل بورڈ کی مجوزہ تجاویز کے عین مطابق ہے۔ غرض تجویز پیش کردہ عالم کا یہ حاصل تھا کہ ہم کو ایک چھتا بنالینے دیا جائے جو مسجد ٹھہرکر ہمارے قبضہ میں رہے اور اس کے نیچے سڑک چلے اور یہ سعادت بھی ہمیں کوبخشی جائے کہ زمین مسجد پر یہ سڑک ہم ہی تعمیر کریں جو بعینہ تجویز چونگی ہے۔
[ف:تجویز دوم کی شناعتیں]
اس تجویز کا حال مجوز کا قال بتارہا ہے، تدبیر اول کہ نامنظو رہوئی اسے نہایت تنزل بتایا تھا اور نہایت کے بعدکوئی درجہ باقی نہیں رہتا تو یہ تجویز کہ اس سے بدرجہا گری ہوئی ہے کسی تنزل پر بھی دائرہ حکم شرعی  میں نہیں آسکتی بلکہ حکم کی صریح تبدیل ناقابل تاویل ہے،

تدبیر اول کو بقول ضعیف کہا تھا تو اس کے لئے کوئی ضعیف روایت بھی نہیں محض باطل وایجاد بندہ ہے تدبیر اول کو مخلص کے طور پر کہا تھا تو یہ مخلص بھی نہیں بلکہ مجلس ہے یعنی مسجد کو ہتک حرمت کے لئے پھنسانا۔ اور تقریر میں اقرار ہے کہ میں نے یہ صورت پیش کی۔ یہاں ہمارے استفسار دوم کا جواب کھلا،ایسی باطل وحرام وہتک اسلام صورت اگر ادھر سے پیش ہوتی اور عالم جبر واکراہ تام اسے تسلیم کرلیتا تو شرعاً سخت کبیرہ عظیمہ شدیدہ کا مرتکب تھا نہ کہ خود اپنی تجویز سے ایسی صورت نکالنا اور اسے پیش کرنا اس پر منظوری لینا اس کی شناعت کا کیا اندازہ ہو، نسأل اﷲالعفووالعافیۃ۔
 (۲۳) پھر یہ نہیں کہ عالم نے اس وقت کم علمی یا نا فہمی سے اس صورت کا باطل وخلاف شرع ہونا نہ سمجھا نادانی سے اس وقت مجوز ہو بیٹھا نہیں نہیں بلکہ اس وقت بھی حکم شرعی معلوم تھا تقریر مذکور میں اس تجویز کے پیش کرنے سے پہلے کا بیان ہے کہ مسجد کے دیکھنے اور وہاں کے احوال سننے سے تسلیم کر لینا پڑا کہ جز ومتنازعہ جزو مسجد ہے اس کے بعد مجھے مخلص نکالنا بہت دشوار ہو گیا میں ہر گز کسی طرح یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسلمانوں کو کسی جزو مسجد کو کسی دوسرے مصرف میں لانا جائز ہے تو دیدہ ودانستہ ارتکاب ہوا۔
 (۲۴) پھر یہی نہیں کہ اسے صرف ابتدائی درجہ کا حرام جانا ہو بلکہ وہیں تصریح ہے کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اس جزو کواصل مسئلہ سے زیادہ اس کے طرز انہدام نے اہم کردیا اور یہ واقعہ ہائلہ ۳/اگست نے تو احترام اسلام کا سوال پیداکردیا اور شعار اسلام کے ہتک ہونے میں کسی کوبھی شبہہ نہ رہا۔ یارب یہاں تک جان کر پھر ہتک اسلام کی آپ تجویز پیش کرنے کو کیا سمجھا چاہئے فانا ﷲ واناالیہ راجعون اس قول عالم کے معنی یہ ہیں کہ ہتک حرمت مسجد ضرور ہتک شعار اسلام ہے خصوصاً بحکومت کہ اس کا ہتک حرمت اسلام ہونا خود ہی واضح تر ہے جسے واقعہ ۳اگست نے سب پر ظاہرکردیا۔ اس عبارت  عالم کا یہ مطلب ہے  ورنہ اگر عالم کے نزدیک اصل معاملہ میں ہتک حرمت اسلام نہ تھی تو واقعہ ۳/اگست کہ محض بربنائے قانون شکنی تھا اسے ہتک حرمت اسلام نہ کردیتا۔ خانہ جنگی وغیرہ میں کتنے مسلمان ماخوذ وسزایاب ہوتے ہیں اسے کوئی ہتک حرمت اسلام نہیں سمجھتا کہ اصل معاملہ حرمت اسلام کا نہ تھا۔ عالم کا یہ قول یادرکھنا چاہئے کہ خود اس کے منہ اس کی کارروائی کا حاصل کھلتا ہے نسأل اﷲ العفو والعافیۃ۔
 (۲۵) پھر یہ نہیں کہ عالم اس وقت حالت اکراہ میں ہوکہ
الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان۱؎
 (مگر جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو۔ت) سے فائدہ لے سکے وہ ابھی ابھی تدبیر اول پیش کرکے زیادہ کے لئے صاف جواب دے چکا تھا تقریر مذکور میں ہے:
(۱؎ القرآن الکریم۱۶/ ۱۰۶)
میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ احکام مذہبی میں کوئی کچھ دخل نہیں دے سکتا حقیقۃً جس طرح وہ حصہ لیا گیا ہے اسی طرح واپس کیا جائے نہایت تنزل صورت مجوزہ ہے اگر اس پر بھی رضامندی نہیں ہوتی پھر حکام کو اختیار ہے میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا ہوں۔ عالم کی اس تقریر کو ہمارے سائل فاضل نے جواب استفسار ہفتم میں یوں بیان کیا: گفتگو کے اثناء میں اس نے صاف کہہ دیا کہ میرا کام مسئلہ بتادینے کا ہے خدا کے گھر کا معاملہ ہے میرا گھر نہیں ہے جس طرح وہ چاہے اور اس کا حکم ہو بننا چاہئے نہ کہ جس طرح میں یا آپ چاہوں علماء کو جمع کرنا چاہئے مسلمانوں کو جس سے اطمینان ہو وہ کرنا چاہئے۔ یہ تمام کلمات حق تھے انہیں کہہ کر پھر حق سے ایسے شدید ناحق کی طرف عدول کیوں ہوا ممبر اگر نہ مانتے اتنے ہی پر ختم کرنا فرض تھا، نہ عالم پرالزام رہتا نہ معاملہ میں یہ سخت پیچ پڑتا،مگر مشیت آڑے آئی اور عالم سے جو نہ ہونا تھا ہوا،
ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔
 (۲۶) پھر اس سے بھی اشد ظلم یہ کہ اس حرام شرع کو حسب دلخواہ اور نہایت مسرت خیز وموجب اطمینان و دلجمعی مسلمانان اور مسئلہ شرعیہ کی صورت سے بھی بہتر اور اس کے دن کو اسلامی تاریخ کا زریں دن کہا گیا اور خود شعار اسلام کاہتک بتاکر بقائے احترام اسلام کہا یہ باتیں بہت سخت تر ہیں نسأل اﷲ العفو والعافیۃ۔
 (۲۷) پھر اس کایہ شدید ضرر قاصر نہ رہابلکہ عام عوام مسلمین تک متعدی ہوا انہوں نے اس عالم ہی کے بھروسے حرام کو حلال، ماتم کو مسرت، ہتک حرمت اسلام کو اسلام کااحترام سمجھا۔
 (۲۸) ان وجوہ نے معاملہ کی گھتی بہت کری کردی اوراس نرے زبانی بیان کو کہ مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا موقع موقع کوشاں رہیں گے، کہ محض برائے گفتن تھا حرف غلط کردیا مریض جب مرض کو شفا سمجھے پھر ہوس علاج جنون ہے۔
 (۲۹) پھر اتنے ہی پر بس نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے نظیر ہوگیا اسلامی عالم جسے قومی لیڈر اور گویا تمام مسلمانان ہند کا وکیل سمجھا گیا اس کی ایجاد کی ہوئی تجویز اس کی پیش کی ہوئی تجویز، پھر گورنر جنرل کی منظور، پھر تمام اسلامی حلقوں میں اس پر اظہار مسرت وخوشی، پھر عالم کا اسے اسلامی تاریخ میں زریں دن اور بقائے احترام اسلام اور موجب دلجمعی و اطمینان ونہایت مسرت خیز کہنا اسے پتھر کی لکیر کرگیا، مسجدوں کاسڑکوں،ریلوں،نہروں سے تصادم نہ کوئی نئی بات نہ کبھی منتہی جیسا کہ خود جواب ایڈریس میں مذکور ہے مگر اس پر کتنے اطمینان بخش وہ الفاظ گورنمنٹ تھے کہ گورنمنٹ ہمیشہ کوشش کرے گی کہ مسئلہ متنازعہ کو اس طور پر حل کرے جو تمام اشخاص متعلقہ کے لئے قابل اطمینان ہو۔ عالم اور عوام کی ان  کارروائیوں نے انہیں کتنے ہی برے معنی کی طرف پھیر دیا، انہوں نے چیخ وپکار اور جلسوں روشنیوں کی بھر مار سے بتادیا کہ یہ صورت

ہمارے لئے نہایت قابل اطمینان ہے جب تصادم ہو مسجدیں توڑکر ہوا پر کر دواور نیچے سڑکیں ریلیں نہریں دوڑادو، بس مسئلہ اس طور پر حل ہوجائے گا جو تمام اشخاص متعلقہ کے لئے قابل اطمینان ہے، کیا عالم اور عوام کوکوئی منہ رہا ہے کہ اس وقت کچھ شکایت کریں یا چارہ جوئی کا نام لیں، کیا ان سے نہ کہا جائے گا کہ عقل کے ناخن لویہ وہی تو نہایت مسرت خیز وموجب اطمینان واحترام اسلام اور اسلامی تاریخ کا زریں دن ہے جسے تم آپ پیش کرکے منظورکراچکے ہو۔
 (۳۰) پھر نری نظیر ہی نہیں بلکہ جو قانون معابد بننابتایا جاتا ہے اس کے لئے کافی مادہ ہے احترام مساجد کو یہی دفعہ بس ہوگی کہ ان کا زمین پر رکھنا کچھ ادب نہیں بلکہ چھتوں پر اٹھا کر سروں سے اونچی کردی جائیں اور اصل مسجد یعنی زمین پر جو چاہیں بنائیں عالم وعوام اس اپنی ہی پیش کردہ پسندیدہ دفعہ کا دفع کہاں سے لائیں گے،افسوس کہ یہ شدید ہتک اسلام خود فرزندان اسلام کے ہاتھوں ہو اناﷲ وانا الیہ رٰجعون،یہیں سے ظاہر ہواکہ یہ جو بہلاوے دئے جاتے ہیں کہ ایک مختتم قانون تحفظ معابد کا بنایا جانا قرار دلوادیا گیا ہے جس سے حسب تصریح ممبر اس متنازع فیہ حصے کا بھی مسلمانوں کو موافق ہونا متوقع ہے، اورفیصلہ پر ایک نظر میں یہ تاکیدی حکم سنا جانا بتایا کہ اس کی تعمیر میں احکام اسلامیہ کے احترام کو ہر طرح مدنظر رکھنا چاہئے۔ سب روغن قاز کی بھی وقعت نہیں رکھتے، مانا کہ قانون ضرور بنے، مانا کہ تاکیدی حکم بیشک ہوا مگر احترام کے معنی تو آپ نے بتادئے کہ ہم اسے احترام اسلام کہتے ہیں جسے خود اپنے منہ سے ہتک حرمت اسلام کہہ چکے ہیں، بس اسی پر قانون بنوالیجئے اور اسی کی نسبت تاکیدی حکم تصور کیجئے ع
خویشتن کردہ را علاج مخواہ
 (اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں)
یارب ! معنی خود الٹے ٹھہرانا اور خالی لفظ پر عوام کو بہلانا کس لئے۔
 (۳۱) [عذر بدتر از گناہ کے رد]
طرفہ تر عذر بدتراز گناہ سنئے، تقریر مذکور میں ہے: میں نے اسلئے اس کو اپنی صورت مجوزہ (یعنی تدبیر اول نامنظور ) سے بھی بہتر خیال کیا کہ قواعد میونسپلٹی سے ممکن ہے کہ ہم کو بہتر موقع اس کے حاصل کرلینے کا ہو۔ ایسے حرام وہتک اسلام کو اپنے منہ پیش کرکے منظور کرانا اور اس امیدموہوم کو کہ ممکن ہے میونسپلٹی ہمیں واپس دے اس کے ارتکاب کی نہ صرف تجویز بلکہ تحسین کا موجب ٹھہرانا عجیب فہم بلکہ تازہ شرعیت ہے۔ کیا جیساکہ کہا جاتا  اور مراسلات کا مرید وغیرہ میں بیان ہوا ہے، یہ میونسپلٹی وہ نہیں جس نے کثرت رائے کا بھی خیال نہ کیا اور مسجد کے خلاف ہی فیصلہ دیا۔
لایلدغ المؤمن من جحرواحد مرتین۱؎۔
مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا(ت)
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب الادب    باب لایلد غ المؤمن الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۹۰۵)

(سنن الدارمی         باب لایلدغ المومن من جحر مرتین     نشر السنۃ ملتان     ۲/ ۲۲۷)
خاص گورنمنٹ، کون گورنمنٹ، وہ وہ جس نے کہا میں تمہارے لئے پیام امن لایا ہوں وہ وہ جس نے کہامذہبی باتوں کے متعلق وہی پالیسی ہے اس میں کوئی تغیر نہیں، وہ وہ جس نے کہا حقوق مساجد کا ہمیشہ لحاظ رکھا جائیگا اور سب مسلمانوں کے اطمینان کے قابل فیصلہ کیا جائےگا اسے چھوڑ کر میونسپلٹی کی رحمت پر بھروسا کرنا وہاں اپنے منہ حرمت اسلامیہ کو پامالی کے لئے خود پیش کرنا اور اس کے ازالہ کی امید چونگی سے رکھنا کس درجہ بدقسمتی ہے۔
(۳۲) میونسپلٹی اگر موافق بھی ہوتی تو فیصلہ خاص گورنمنٹ کے بعد اس سے نقض کی امید کتنی غلط امید ہے۔
 (۳۳) بفرض غلط اگرمیونسپلٹی آپ کو لکھ بھی دے کہ ہاں یہ زمین خاص مسجد کی ہے چونگی کا اس پر کچھ دعوٰی نہیں تو کیا وہ اس حکم حتمی گورنمنٹ کو بھی منسوخ کردے گی کہ یہ ضرور ہے کہ عام پبلک اور نمازی اسے بطور سڑک کے استعمال کرنے کے مجاز ہوں اور جب یہ برقرار رہا تو وہ کیا ہے جسے آپ میونسپلٹی سے خاص کرلیں گے جس کے سبب اس اپنے اقرار اشد حرام وہتک اسلام کو زائل کرلیں گے۔
(۳۴) بفرض باطل یہ بھی ممکن سہی تو ایک امید موہوم کےلئے، جس کا نہ وقوع معلوم نہ سال دس سال مدت معلوم، اس وقت ایسا حرام وہتک اسلام کو ہتک کے لئے خود پیش کرنا کس شریعت نے جائز کیاہے۔
 (۳۵) موہوم ہونے کی یہ حالت ہے کہ خود بھی اس کے حصول پر اطمینان نہیں تقریر میں عبارت مذکورہ کے متصل ہے اگر نہ ملا تو ہم مجبور ہیں ویسا ہی تصور کرینگے جیسا کہ اس وقت دہلی کی جامع مسجد میں انگریزوں  کو جوتا پہنے آنے سے روک نہیں سکتے مجبور کس نے کیا، آپ تجویز نکالو، آپ پیش کرو، آپ منظور کراؤ، آپ خوشیاں مناؤ، اور پھر مجبور کے مجبور۔ انگریزوں کا جوتا پہنے پھر نا اگر وہاں کے مسلمانوں کی خوشی سے ہے تو ان پر بھی الزام ہے اگرچہ آپ پر اشد ہے کہ کہاں نادراً گاہے ماہے کسی انگریز کا آنا اور کہاں یہ شبانہ روز کی پامالی، گوبر لید متالی، اور اگر مسلمانوں نے اس کی اجازت نہ دی تو یہ آپ کی تو خود کردہ ہے اس کا اس پر قیاس کیسا!
 (۳۶) سب جانے دیجئے امید و موہوم ومظنون سب سے گزر کر بفرض محال میونسپلٹی سے اس کا استحصال اور مرور واستعمال کا بالکلیہ زوال سب قطعی ویقینی ٹھہرالیجئے پھر الزام کیا دفع ہوا، کیا کوئی گناہ حلال ہوسکتا ہے جبکہ ایک زمانہ کے بعد اس کا زوال یقینی ہو، یوں تو شراب وزنا بھی حلال ہوجائیں گے کہ ہمیشہ کے لئے نہ وہ مستقر نہ یہ مستمر،
ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم۔
یہ ہے وہ تقریر ''مسجد کانپور کے فیصلہ پر ایک نظر'' جس پر عوام کو وہ کچھ وثوق وہ کچھ ناز ہے
واستغفراﷲالعظیم۔
الحمدﷲدواستفسار پیشین کے جواب میں یہی چھتیس نظریں کافی ووافی ہیں جن میں اس فیصلہ پر ایک نظر پر بھی پندرہ نظریں ہوگئیں، اور نہ صرف اسی قدر بلکہ مسئلہ وفیصلہ کے پہلوؤں پر کافی روشنی پڑگئی جس کے بعدعاقل کو امتیاز حق وباطل کے لئے ان شاء اﷲ العظیم زیادہ کی حاجت نہ رہی جواب باقی استفسارات کا حال بھی یہیں سے کھل گیا لہذا ان پر بالاجمال دوچار لفظ لکھ کر کلام تمام کر یں وباﷲ التوفیق۔
Flag Counter