Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
6 - 112
مسئلہ۱۵: مسئولہ حاجی سیٹھ محمد اعظم صاحب از راند یرمتصل سورت مہتمم مدرسہ برباولی ۱۶شعبان ۱۳۳۴ھ
جناب مولانا صاحب! آپ نے جو جواب روانہ فرمایا بندہ کو بتاریخ ۲۵مئی بروز جمعرات کو ملابہت خوب ہے مگر دریافت طلب یہ ہے کہ مسجد کی آمد سے جو ملکیت خرید کی گئی ہو وہ بھی در وقف گنی جائے کہ نہیں اور جب وہ وقف گنی جائے اس کے بیع کرنے کو حاکم کی منظوری کی ضرورت ہے کہ نہیں کیونکہ جو خرید نے والا ہو وہ کیا جانتا ہے کہ یہ وقف شدہ ملکیت کی آمد سے خرید کرکے وقف کی ہوئی ہے لہذا جو حاکم کی منظوری ہوتو کسی طور کا خوف نہ رہے نہ خریدنے والے کو نہ بیچنے والے کو، اور نہ غبن وتلف کا کوئی اندیشہ باقی رہے اور بعد میں کوئی مہتمم کو کسی طرح کا کوئی الزام نہ دے سکے اور نہ کوئی رائے لے تو بالکل خراب ہوتا ہے وہ تو مسجد کے روپوں سے مدرسہ کھولنا جواز بتاتے ہیں اور دبانے کے خیال سے ان کو یعنی اہل دول کے رائے بموجب فتوٰی دیتے ہیں۔
الجواب الملفوظ

متولی نے زر وقف سے جو زمین یا جائداد وقف کے لئے خریدی وہ وقف نہیں ہوجاتی اس کی بیع جائز ہے کتابوں میں جزئیہ کی تصریح ہے ہاں بیع کے لئے ایسا ذریعہ اطمینان ضرور ہے جس میں کسی کے تغلب کا احتمال نہ رہے قاضی شرع تو یہاں کوئی نہیں اہل محلہ وعالم دیندار و مسلمانان متدین کی دینداری سے یہ کام ہو،
درمختار میں ہے:
ۤاشتری المتولی بمال الوقف داراللوقف لاتلحق بالمنازل الموقوفۃ و یجوز بیعھا فی الاصح۱؎واﷲ تعالٰی اعلم۔
متولی نے وقف مال سے کوئی مکان وقف طور پر خریدا تویہ مکان وقف شدہ جائداد شمار نہ ہوگا اصح قول میں اس کو فروخت کرنا جائز ہوگا، واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۹)
مسئلہ۱۶: بحضور عظیم البرکت اعلٰیحضرت مدظلہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، آج غریب اﷲ صاحب

تشریف لائے ہیں فرماتے ہیں کہ مسماۃ سمی طوائف جس کی عمر اس وقت تخمیناً ۵۰ برس کی ہے ۱۶ برس ہوئے میاں ناصر صاحب کی مرید ہوکر تائب ہوئی، کرایہ دکانات سے گزر کرتی ہے، خواہش اس کی یہ ہے کہ جائداد تیس چالیس روپیہ ماہانہ کے وقف کرنا چاہتی ہے اورحج کو جانا چاہتی ہے، جس جائداد کا تاحیات خود اور بعد کو مدرسہ مالک ہے اس میں حضور کیا فرماتے ہیں؟کمترین قادرعلی محرر مدرسہ۴جمادی الآخر۱۳۳۸ھ
الجواب

وہ جائداد اگر اس کی اس حرام کمائی کی ہے تو اس کا طریقہ صرف یہی ہوسکتا ہے کہ وہ کسی محتاج پر تصدق کرے اور وہ محتاج بعد قبضہ اپنی طرف سے یوں وقف کرے کہ تاحیات سمی اس سے مستفید ہو اس کے بعد مدرسہ اور اس کے لئے دفع اعتراض مخالفین کے واسطے ضرور ہے کہ پہلے وہ ایک ہبہ نامہ اس محتاج کے نام تصدیق کرائے جس کا یہ مضمون ہو کہ یہ جائداد وجہ حرام سے ہے اور اب میں نے توبہ کی ہے اور شرع مطہر اس کے تصدق کا حکم فرماتی ہے لہذا میں نے فلاں کو بطور تصدق اس کا مالک مستقل کیا اور پوراقبضہ اسے دے دیا، اسکے بعد وہ محتاج وقف نامہ تصدیق کرائے کہ ازانجاکہ مسماۃ فلانہ نے امتثال حکم شرع کےلئے یہ جائداد بطور تصدق میری ملک کردی اور میں نے قبضہ کرلیا اور اب یہ مال شرعاً طیب ہوگیا، میں چاہتا ہوں کہ اسے کارخیر میں صرف کرکے ثواب حاصل کروں اور مسماۃ کو بھی فائدہ پہنچاؤں لہذا میں نے اسے تاحیات مسماۃ اس پر اور اس کے بعد مسجد مدرسہ پر وقف صحیح شرعی کی، باقی عبارتیں کاغذ میں حسب دستور ہوں۔
مسئلہ۱۷: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے ۲۹جنوری۱۹۱۷ء کو اپنی کل جائداد جس پر بارکفالت بھی تھا باظہار بار کفالت وقف عنداﷲ کی اور وقف نامہ تحریر کرکے اس میں متولی اپنی زوجہ کو لکھایا بعدہ ۳۱جنوری۱۹۱۷ء کو ایک تتمہ متعلق وقف نامہ مذکور بخیال اس کے کہ زمینداری جو وقف نامہ میں وقف تھی اس کی نمبرداری کے لئے خواستگار دوسرا شریک ہوکیونکہ عورت بموجب قانون انگریزی بمقابلہ مرد کے نمبر دار نہیں ہوسکتی ہے تتمہ مذکور لکھا اور اس میں عبارت حسب ذیل درج کی:

چونکہ میں نے بذریعہ دستاویز وقف نامہ مورخہ۲۹جنوری۱۹۱۷ء کو اس کل جائداد منقولہ وغیر منقولہ دس بارہ روپیہ کو وقف کرکے تکمیل دستاویز مذکور کے بذریعہ تحریر ورجسٹری کے کرادی ہے اس دستاویز میں سہو کامل

سے کسی سبب یہ بات لکھنے سے باقی رہ گئی ہے کہ تمام جائداد مندرجہ وقف نامہ متذکرہ بالا کی بابت میں شرائط کی پابندی اسمیں درج ہے اس کا عمل درآمد اور پابندی شرائط میرے مرنے کے بعد عمل پذیر ہوگی جب تک میں مقر بقید حیات زندہ ہوں اس وقت تک میں مقرمالکانہ قابض اور متصرف رہوں گا مع تتمہ دستاویز وقف نامہ مورخہ ۲۹جنوری ۱۹۱۷ء کی بابت لکھ دیا کہ سند ہو، بعدہ وہ ۱۸دسمبر۱۹۱۹ء کو ایک تتمہ دوسرا اور لکھا اور اس میں حسب ذیل عبارت تحریر کی کہ تتمہ دستاویز مورخہ ۳۱جنوری ۱۹۱۷ء جوبابت دستاویز مورخہ ۲۹جنوری۱۹۱۷ء کے لکھایاتھا اس تتمہ دستاویز کے سطر ج کے آخر میں لفظ مقر کے بعد بوجہ سہوکتابت کے عبارت ذیل تحریر ہونے سے رہ گئی ہے وہ عبارت ذیل مذکور تتمہ مذکور یعنی دستاویز تتمہ مذکور مورخہ ۳۱جنوری ۱۹۱۷ء مذکور کا جزومتصورہوکر پڑھی جاوے:

''واقف منتظم بشرائط مندرجہ وقف نامہ بحیثیت متولی ۲۹جنوری۱۹۱۷ء''
لہذا یہ تتمہ بطور دستاویز تتمہ ۳۱جنوری ۱۹۱۷ء متصورہو، اس کے بعد پسر واقف نے کل جائداد واقف پر ۱۹۱۹ء میں قبضہ متولی سابق کودے دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ وقف نامہ جائز ہے یانہیں اور وقف اگرجائز ہے تو وہ ۱۹۱۹ء کے تتمہ سے مانا جائے گایا ۱۹۱۷ء کے وقف نامہ سے اورتتموں سے تو کوئی اثر وقف پر نہیں پڑتا۔ دوسرا سوال یہ ہےکہ درمیانی امور کے بابت واقف بحیثیت متولی مانا جائے گا یا مالک کی حیثیت اس کی ہو گی تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقف کردے اور متولی کو قبضہ نہ دے اور خود ہی واقف اپنا قبضہ رکھے تو اس حالت میں کیا وقف ناجائز ہے یاجائز؟
الجواب

وقف صحیح ہوگیا اور پہلا تتمہ جس کا حاصل یہ ہے کہ وقف کا عملدرآمد اس کے مرنے کے بعد ہوگی زندگی بھر وہ مالکانہ قابض رہے مردود ہے وقف صحیح ہوجانے کے بعد اس میں کسی تبدیلی کا اصلاً اختیار نہیں اور دوسرا تتمہ جس کاحاصل یہ ہے کہ وقف نامہ میں جسے متولی کیا تھا اس کی جگہ خود متولی رہنا چاہتا ہے یہ اس کے اختیار کی بات ہے اسے معزول کرکے آپ متولی ہوسکتا ہے۔
درمختار میں ہے:
للواقف عزل الناظر مطلقا بہ یفتی۱؎۔
مطلقاً واقف کو یہ جائز ہے کہ وہ نگران کو معزول کردے، اسی پر فتوٰی ہے(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الوقف    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۸۹)
ردالمحتار میں ہے:
ای سواء کان بجنحۃ اولا وسواء کان شرط لہ العزل اولا۱؎۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
یعنی نگران کا جرم ہو یا نہ ہواور معزولی کی شرط ہویانہ ہوبرابر ہے۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۴۱۲)
مسئلہ۱۸: ازمقام چند وسی ضلع مراد آباد محلہ سنبھل دروازہ مسئولہ عبداﷲ لوہار
چہ میفرمایند علمائے دین دریں مسئلہ،
زید نے ایک منزل دکان واقع چندوسی پر گنہ بلاری میں ۱۹۰۴ء میں فی سبیل اﷲ وقف کی، اور یہ وقف نامہ رجسٹری شدہ تحریر کردیا ہے، اس کے دو ماہ بعد ایک وصیت نامہ زید نے اور تحریر کردیا کہ میرا ارداہ بیت اﷲ شریف جانے کا ہے اگر میں زندہ واپس آگیا تو میں مالک ہوں اور بعد انتقال میرے کے میری عورت مسماۃ عدیا اور میرا پوتا علی حسین مالک ہے۔ زید کا انتقال بیت اﷲ شریف جاتے وقت راستہ میں ہوگیا اور اس کے بعد پوتا علی حسین بھی مرگیا تو اس کی بیوی عدی باقی رہی اس نے یہ جائداد کفالت کردی، کفالت کے ایک سال بعد عدی عورت کا بھی انتقال ہوگیا تو اس کے پوتے علی حسین کے والد امر نے یہ جائداد بیع کردی اور اس کا روپیہ اسی نے صرف کرلیا اور چودھری محلہ ہے انہوں نے بیع نامہ پر دستخط کردئے اور اس کے بعدخریدار نے اسکو تعمیر کرلیا، خریدار کو وقت بیع اور وقت تعمیر کے یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ جائداد فی سبیل اﷲ وقف ہے، اہل محلہ کو جب معلوم ہوا کہ اس میں کا ایک شخص کہ جس کی وقف نامہ پر گواہی نہیں ملا اور اسی نے کہا کہ تو کوشش کرکے عدالت سے اس کی نقولیں حاصل کرینگے تو معلوم ہوگا اور مالک خریدار کا یہ بیان ہے کہ میرا روپیہ بیع وتعمیر کا دلوایا جائے تو میں قبضہ چھوڑ دوں گا، اور اب امر جس نے فروخت کیا ہے وہ کہتا ہے کہ میں مالک تھا فروخت کردیا۔ اب ہماری شریعت مطہرہ کا اس بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب

جب وہ دکان وقف ہوچکی تھی تو اس کی نسبت زید کو وصیت کرنے کا کوئی اختیار نہ تھا، نہ عورت کو مکفول کرنے کا نہ عمرو کو اس کے بیچنے کا، یہ سب باطل محض، مشتری پر فرض ہے کہ اسے فوراً چھوڑدے اپنا روپیہ عمرو سے لے لے، روپے نہ ملنے تک قبضہ رکھنے کا مشتری کو کوئی اختیار نہیں، ایک منٹ کے لئے قابض رہنا اس پر حرام ہے اس نے جدید کرلی ہے تو اسے اکھیڑ لے، اور اگر مسلمان اسے عملے کی قیمت اداکرے، عملہ وقف کے لئے کرلیں تو بہتر۔ واﷲتعالٰی اعلم ۔
مسئلہ۱۹:ازبریلی موضع بلیا کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ ایک شخص موضع بلیا میں امام باڑے کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میرامکان ہے، اور اس میں بیل باندھنے لگا، اور زمیندار خود کہتے ہیں کہ تم لوگ اپنا تیو ہار کرو، لیکن ان لوگوں نے زمیندار کو ۷۵روپیہ دے کر اس کو اپنے بس میں کرلیا اور وہ کہتے ہیں کہ ہم دینداری کے شریک نہیں۔ ان کا کیا انتظام کیاجائے؟
الجواب

امام باڑہ وقف نہیں ہوسکتا وہ جس نے بنایا اسی کی ملک ہے اسے اختیار ہے اس میں جو چاہے کرے، وہ نہ رہا تو اس کے وارثوں کی ملک ہے انہیں اختیار ہے، اور تعزیہ داری کو اگر کسی نے دینداری کہا اور اس نے اس کی شرکت سے انکار کیا تو کچھ بیجانہ کیا کہ تعزیہ داری ناجائز ہے اس میں شرکت جائزنہیں۔ یہی اس سوال سے ظاہر ہے اور وہ معنی کہ میں اسلام کے شریک نہیں مسلمان ہرگز مراد نہ لے گا، ہاں اگرثابت ہوجائے کہ کسی کلمہ گو نے اسلام کی شرکت سے انکار کیا تو ضرورکافر ہوجائے گا مگر یہ معنی یہاں سے مفہوم نہیں۔واﷲتعالٰی اعلم۔
Flag Counter