Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
59 - 112
جواب از دار الافتاء
وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
جواب استفسارات باعث مشکوری ہے طرح و جرح منظور نہیں بلکہ انکشاف حق جس کے لئے ہر مسلمان کو مستعد رہنا چاہئے، لاسیما اہل علم، جوابات نہ تو کافی ہیں نہ مفید براءت اگرچہ مجھ سے صرف برتقدیر صدق مستفتی جواب چاہا گیا اور منصب افتا کی اتنی ہی ذمہ داری تھی کہ صورت مستفسرہ پر جواب دے دیا جاتا مگر میں نے ایک مدت تک تعویق کی، اخبارات منگا کردیکھے کہ نظر بواقعات اس کارروائی کی کوئی صحیح تاویل پیدا ہوسکے مگر افسوس کہ جتنا خوض و تفتیش سے کام لیا اس کی شناعت ہی بڑھتی گئی، ناچار جواب خلاف احباب دینا پڑا کہ اظہار حق لازم تھا، عالم مذکور سے مراسم قدیم حفظ حرمت اسلام ورفع غلط فہمی عوام پر بحمداﷲتعالٰی غالب نہ آسکتے تھے کہ ہمارے رب عزوجل نے فرمایا:
یایھا الذین اٰمنوا کونوا قوامین بالقسط شھداء ﷲ ولو علٰی انفسکم۱؎۔
اے ایمان والو! انصاف پر خوب قائم ہوجاؤ اﷲ کےلئے گواہی دیتے چاہے اس میں تمہارا اپنا نقصان ہو۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۳۵)
بلکہ حقیقۃً حق دوستی یہی ہے کہ غلطی پر متنبہ کیا جائے۔
حدیث میں ارشاد ہوا:
اُنصُر اَخاکَ ظالِمًا او مظلوما قالوایارسول اﷲ وکیف ذٰلک قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اِن یک ظالما فارددہ عن ظلمہ واِن یک مظلوما فانصرہ۲؎، رواہ الدارمی وابن عساکر عن جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
اپنے بھائی کی مدد کر و چاہے وہ ظالم ہو یامظلوم، صحابہ نے عرض کیا:یا رسول اﷲ صلی تعالٰی علیہ وسلم یہ کیسے۔حضور نے فرمایا: ظالم ہونے کی صورت میں اسے ظلم سے روک دو اور مظلوم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کرو۔ اسے دارمی اور ابن عساکر نے جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا۔(ت)
 (۲؎ صحیح البخاری    کتاب الاکراہ    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۱۰۲۷)

( صحیح مسلم)

( سنن الدارمی         باب ۴۰انصراخاک الخ    نشر السنۃ ملتان     ۲/ ۲۲۰)

( مختصر تاریخ دمشق     ترجمہ ۲۹ حسن بن فرج    دارالفکر بیروت    ۷/ ۵۹)

( تہذیب تاریخ دمشق     ترجمہ ۲۹ حسن بن فرج  داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۲۴۱)
لہذا امید واثق ہے کہ جواب سوال میں اظہار حق سنگ راہ مراسم قدیمہ نہ ہوگا اور زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہمارے قدیمی دوست عالم نے اسی معاملہ پر ایک تقریر کی ابتداء میں (جو روزانہ زمیندار ۲۱ذی الحجہ میں چھپی) یوں داد حق جوئی دی کہ''میں ان لوگوں کا دل سے اور خدا کی قسم دل سے مشکور ہوتا ہوں جو میرے عیوب مجھ سے خواہ لوگوں سے کہہ کر میرے اوپر مربیانہ شفقت کا احسان رکھتے ہیں، یہ لوگ میرے محسن ہیں'' جب بیان عیوب اور وہ بھی ابتداءً اس درجہ موجب شکر گزاری ہے تو بیان مسئلہ شرعیہ میں اظہار حق اور وہ بھی بعد سوال مراسم قدیمہ میں کیاخلل انداز ہوسکتا ہے۔ وباﷲالتوفیق۔
جواب استفسار اول پر نظر
 (۱) [ف:قبضہ زمین کی بحث ]
اس سوال کے جواب میں کہ عالم نے مصالحت کیا کی، تین باتوں پر صلح ہونی بتائی گئی ازانجملہ اصل معاملہ کی نسبت یہ ہے کہ مسجد کی زمین پر گورنمنٹ مسلمانوں کو قبضہ دلادے کسی بات پر مصالحت ہونا فریقین میں اس کا طے ہوکر قرار پانا ہے، اگر یہ امر قرار پاتا تو اسی کے مطابق وقوع میں آتا مگر ایسا نہ ہوا جو اب ایڈریس میں گورنمنٹ کے لفظ جو روزانہ ہمدرد ۱۶/اکتوبر میں چھپے صاف یہ ہیں: میں اس امر کو کچھ بھی وقیع اور اہم خیال نہیں کرتا کہ وہ زمین جس پر وہ دالان تعمیر ہوگا کس کے قبضہ میں رہے گی ع
ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا
 (یہ تفاوت دیکھ کہ راستہ کہاں ہے اور تو کہاں)
 (۲) ہاں اس پر چھتا بناکر چھت پر قبضہ اور زمین کو سڑک کردینا ٹھہرا ہے کیا چھت اور زمین دو مترادف لفظ ہیں یا چھت کا قبضہ زمین پر بھی قبضہ ہوتا ہے، علو وسفل کے مسائل جو عام کتب فقہیہ میں مذکور ہیں ملحوظ نظر رہیں جواب ایڈریس مذکور میں ہے کامل غور کے بعد میں اس فیصلہ پر پہنچا ہوں کہ آٹھ فٹ بلند ایک چھتا اور اس پر دالان تعمیر کردیا جائے نیچے ایک سڑک نکل آئے جس سے عمارت میں مداخلت نہ ہو۔
 (۳) عالم نے اس مصالحت میں زمین پر قبضہ مسلمانان سے صرف مسلمانوں کا خالص قبضہ مراد لیا یا قبضہ عام خلائق کے ضمن میں عامہ کے ساتھ انہیں بھی ایک حق دیا جانا،برتقدیر دوم یہ درخواست کتنی بیمعنے تھی

زمین سڑک میں ڈال لینے پر بھی عام کے ساتھ مسلمانوں کو حق مرور رہتا گورنمنٹ نے کس دن کہا تھا کہ یہ سڑک خاص کفار کے لئے بنے گی کوئی مسلمان اس پر نہ چل سکے گا۔ برتقدیر اول کون سا خاص قبضہ مسلمانوں کو ملنا ٹھہرا کہ جبکہ جواب ایڈریس مذکور کے صاف لفظ یہ ہیں: یہ ضروری ہے کہ عام پبلک اور نمازی اسے بطور سڑک استعمال کرنے کے مجاز ہوں۔
 (۴) قبضہ زمین کا حال جواب استفسار میں خود ہی کھول دیا کہ قبضہ دلادے کے بعد متصلاً کہا اگر جبراً گورنمنٹ اس کے مرور کو مشترک کرتی ہے تو خلاف احکام اسلامیہ ہے اس سے مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا موقع موقع اس کے لئے کوشاں رہیں گے۔ صاف کھل گیا کہ قبضہ ہوا پر ٹھہرا ہے زمین مرور مشترک کےلئے چھوڑی ہے جسے دوسرے لفظوں میں شارع عام یا سڑک کہئے اس کا مطالبہ دور آئندہ پر اٹھا رکھنا بتایا ہے حالانکہ یہی یہاں اہم مسئلہ بلکہ تمام اصل معاملہ تھا اسی کو نظر انداز کرنا اور عالم کی مصالحت سمجھنا کس قدر عجیب ہے مصالحت رفع نزاع ہے نہ کہ اصل مبناء و منشاء نزاع مہمل و معطل اور دور آیندہ کی امید موہوم پر محول نہ ایقائے نزاع ہے نہ قطع ورفع۔ ہاں اگر اس کے معنی یہ تھے کہ عالم نے مسجد سے دست برداری دی جیساکہ مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی وغیرہ نے اس کارروائی سے سمجھا اور پسند کیا تو ضرور قطع نزاع ہوئی اگرچہ باز دعوٰی دینا شرعاً مفہوم صلح میں آنا دشوار ہو خیر ایں ہم بر علم۔ مگر بعد کے الفاظ کہ مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا موقع موقع اس کے لئے کوشاں رہیں گے اس تاویل کو بھی نہیں چلنے دیتے تو اسے مصالحت مشہور کرنا مسلمانوں اور گورنمنٹ دونوں کو غلط بات باور کرانا ہوا۔
 (۵) [ف:مصالحت خلاف حکم اسلام پر کی اور گورنمنٹ پر بھی بدگمانی کی]
جب عالم کو اعتراف ہے کہ یہ کارروائی خلاف احکام اسلامیہ ہے تو اس پرمصالحت کرنا کیونکر رواہو سکتا گورنمنٹ برسر مصالحت و دلجوئی تھی نہ برسر ضد وجبر وتعدی، اس وقت کیوں نہ دکھا یا گیا کہ یہ طریقہ خلاف احکام اسلامیہ ہے اس میں مذہبی دست اندازی ہے جس سے گورنمنٹ ہمیشہ دور رہنا چاہتی ہے، طے ہوتا تو اس وقت بسہولت ہوتا، نہ ہوتا تو عالم بری الذمہ تھا، نہ یہ کہ اس وقت اصل معاملہ پس پشت ڈال کر بالائی باتوں پر صلح کرلیں اور اصل میں یہ دشواریاں ڈالیں کہ تم لوگ صلح کرکے پھرتے ہوتم نائب سلطنت کے فیصلہ سے اور ایسے بے بہا فیصلہ سے اب سرتابی کرتے ہو، تم شکریہ کے جلسے اور روشنیاں کرکے پھر شکایت و منازعت پر اترتے ہو، نادر شاہی زمانہ گزر چکا تھا کہ چہلی کا سابم درکنار اینٹ پھینکنے پر بے شمار سر اڑجاتے، مکانوں کی اینٹ سے اینٹ بج جاتی نہ کہ بم چلےاور کا رگرپڑے اور بے تحقیق کسی سے مواخذہ نہ ہو، آج حفظ حقوق مذہبی کا اس سے بہتر کیا موقع تھا، یہاں دلی کمزوری سے کام لینا موجودہ آزمودہ گورنمنٹ کو خواہی نخواہی نادر شاہی ضد اور ہٹ کا پتلا سمجھ کر ایسی عظیم حرمت دینی کو پامالی کےلئے چھوڑدینا کیونکر صواب ہوسکتا ہے۔
 (۶) تمام دنیاوی سلطنتوں کا قاعدہ کہ اپنے قانون کی رو سے جس فعل کو جرم بغاوت سمجھیں اسے سب سے زیادہ سنگین بلکہ ناقابل معافی جانتی ہیں ان کے یہاں انتہائی رسوخ والاوہ ہے کہ جسے انہوں نے باغی سمجھ کر اسیر کیا ہو اس کی رہائی کی سفارش کرسکے نہ کہ ان جبروتی شرائط کے ساتھ کہ کسی کو قیدیوں سے معافی مانگنے کی حاجت نہ ہو، معافی مانگنی کیسی، خود یہ امر ثابت نہ ہو کہ یہ لوگ مجرم تھے، یہ تو شائد شخصی سلطنتوں میں صرف محبوب خاص سلطان کی مجال ہو جو ایاز ومحمود کی نسبت رکھے اگر ایسا درجہ اختصاص حاصل ہواتھا تو اسے حفظ حرمت اسلام میں صرف کرنا تھا جس پر باقی اور متفرع ہوئے تھے نہ کہ قیدیوں کے بارے میں یہ فضول وزائد شرائط اور خاص حرمت دینی سے اغماض کیا، یہ ؂
ہر چہ شاہ آں کہ او گوید    حیف باشد کہ جز نکو گوید
 (بادشاہ جس شخص کی بات مانتا ہے اگر وہ اچھی بات کے علاوہ کہے تو ظلم ہے)

کا مصداق نہ ہوگا۔
 (۷) [ف:معاملہ میں پیچیدگیاں ڈال دی گئیں]
اس اغماض نے اصل مقصد میں جو پیچیدگیاں دشواریاں پیدا کیں ان کی شرح طول چاہتی ہے ادنٰی بات یہ ہے کہ قوم کے قلوب اس پر مطمئن ہوگئے تو سرے سے دعوٰی ہی گیا، چارہ جوئی کون کرے اخباروں میں بکثرت مضامین اسپر اطمینان کے شائع ہوئے، ازاں جملہ نواب مشتاق حسین صاحب امروہی کی بسیط تحریر کہ روہیل کھنڈ گزٹ بریلی یکم نومبر۱۹۱۳ء میں شائع ہوئی جس میں وہ عالم موصوف ہی کی ایک تحریر کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں جناب کی اس تحریر کے بعد اس مسئلہ کے مذہبی پہلو کے تحفظ سے ہم کو بالکل مطمئن ہوجانا چاہئے، اسی کی ابتدامیں ہے مسلمان پبلک نے بھی اس فیصلہ کی نسبت اپنا اطمینان ظاہر کیا۔ اس پر ایڈیٹر اخبار مذکور نے لکھا مولانا قبلہ نے اپنی تحریرمیں نہایت اچھی طرح ثابت کردیا کہ مذہبی نقطہ خیال سے شرائط تصفیہ نہایت مناسب ہیں روزانہ زمیندار ۱۵/ذی القعدہ ۱۳۳۱ھ نے لکھاخدا کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ مسجد کے منہدم حصہ کا تصفیہ مسلمانوں کی منشا کے مطابق ہوگیا ہے۔ نیز لکھا وہ مسلمانوں کے لئے بالکل قابل اطمینان ہے۔ روہیلکھنڈگزٹ کے پرچہ مذکور نے سکرٹری ونائب سکرٹری مسلم لیگ مراد آباد کی ایک مراسلت میں نقل کیا متشرع علمائے اسلام نے فقہ پر کامل غور کرکے یہ فتوٰی دے دیا کہ شرعاً اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر بالخصوص عالم مذکور کا اطمینان دلانا لکھ کر کہا پس علمائے کرام کے اطمینان کے بعد مذہبی پہلو سے تصفیہ پر نکتہ چینی اور بے اطمینانی ظاہر کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں۔ پھر نواب صاحب موصوف کی اسپیچ(SPEECH) سے نقل کیا ہمارے تمام اکابر قوم و علمائے کرام اس پر اظہار مسرت کررہے ہیں۔ اس قسم کے مضامین اگر جمع کئے جائیں ورقوں میں آئیں تمام اقطار ہند  میں شہروں شہروں جو جو ریز ولیوشن (RESOLUTION)اظہار مسرت واطمینان کے پاس ہوئے روشنیاں ہوئیں ان کے بیانوں سے اخباروں کے کالم گونج رہے ہیں ان تمام واقعات کو اس سے کس قدر تناقض ہے کہ مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا موقع موقع اس کے لئے کوشاں رہیں گے۔
 (۸) جب عالم کا قول وہ ہے کہ یہ کارروائی خلاف احکام اسلامیہ ہے، اور اس عالم ہی کے اعتماد پر افراد قوم اسے بالکل بمطابق احکام اسلام سمجھ لئے اور وہ الفاظ شائع کررہے ہیں جن کا خفیف نمونہ گزرا تو عالم کا اس پر سکوت، معلوم نہیں کیا معنی رکھتا ہے۔
 (۹) اس سے بھی زیادہ تعجب خیز وہ الفاظ ہیں جو خود عالم کی طرف سے شائع کئے گئے ہیں تقریر مذکور نواب صاحب امروہی میں ہے: ۱۹/اکتوبر کو جو تار جناب ممدوح نے خود میرے نام ارسال کیا ہے اس میں تصفیہ کانپور کی بابت حسب ذیل الفاظ تحریر فرماتے ہیں: میں معاملات کانپور کے تصفیہ کو پسند کرتا ہوں۔ تقریر مذکور اراکین مسلم لیگ مراد آباد میں عالم مذکور کی نسبت ہے: حضرت مولانا قبلہ نے اس فیصلہ سے اطمینان بذریعہ اخبارات پبلک کودلایا ہے۔ فیصلہ کو خلاف احکام اسلامیہ جاننا اور پھر اسے پسند کرنا اس پر اطمینان دلانا کیونکر جمع ہوا، اور اطمینان دلانا اور وہ بیان کہ اس پر اطمینان نہ ہوگا کس قدر متخالف ہیں۔
 (۱۰) اوروں کی نقل ونسبت کونہ دیکھئے، خود عالم کی تقریر جس کا عنوان یہ ہے:''مسجد کانپور کے فیصلہ پر ایک نظر''جو ہمدرد ۱۹/اکتوبر اورزمیندار ۲۱ذی القعدہ میں شائع ہوئی اس میں فرمایا ہے: یہ مجلس سرور ہے ہم کو نہایت مسرت سے یہ عرض کرنا ہے کہ مسلمانان ہند کو اطمینان اور دل جمعی نصیب ہوئی اسی میں ہے: اول کے تینوں دفعات حسب دلخواہ طے ہوگئے۔ اسی میں ہے: ہمارے حسب دلخواہ مصالحت کرالی۔ اسی میں ہے: کل کا واقعہ نہایت مسرت خیز ہے اور اسلامی تاریخ کے زریں ایام سے کل کا روز ہے۔ اسی میں ہے: ہر طرح اسلام (عہ) کا احترام قائم رکھا۔
عہ:  پھر خداجانے کون سی بات خلاف احکام اسلامیہ ہوئی۱۲
ﷲ انصاف عوام ان لفظوں کو سن کر کیوں نہ اطمینان کریں اور وہ بیانات وواقعات کہ نمبر ۴ میں گزرے کیوں نہ صادر ہوں اور وہ وعدہ بے اطمینانی کہ حسب بیان سائل نفس مصالحت میں تھا کیوں نہ نسیاً منسیاً ہو، گورنمنٹ نہ تو مسلمان ہے نہ اسلامی شرع کی عالم، جب عالم خود ہی خلاف اسلامیہ کہہ کر پھر اسے حسب دلخواہ وموجب دلجمعی واطمینان ونہایت مسرت خیز اور اسلامی تاریخ کا زریں دن کہے تو گورنمنٹ کا کیا قصور اور عوام پر کیا الزام۔
 (۱۱) ان تمام صاف الفاظ سے گزرکیجئے تو عالم مذکور کا تار۱۶/اکتوبر جو ہمدرد و دبدبہ سکندری ۲۰/اکتوبروغیرہ میں شائع ہوا، اس میں اولا فرماکر کہ یہ بات اگرچہ قابل تعریف نہیں ہے۔اخیر میں یہی فرمایا ہے کہ یہ تصفیہ اصلی مفہوم کے لحاظ سے قابل اطمینان ہے۔ جب عالم کے نزدیک فیصلہ خلاف احکام اسلامیہ ہے تو احکام اسلامیہ سے بڑھ کر اور کون سا اصلی مفہوم ہے جس کے لحاظ سے قابل اطمینان ہے۔
 (۱۲) باایں ہمہ عالم مذکورنے تحریر جمیع جزئیات میں کوئی دقیقہ دورازکار اس سعی بے سود کا اٹھا نہ رکھا کہ اس کارروائی کو جیسے بنے کشاں کشاں مطابق احکام اسلامیہ کر دکھائیں، بہر حال تصویر کے دونوں رخ تاریک ہیں
نسأل اﷲالعفو والعافیۃ
 (ہم اﷲ تعالٰی سے فضل وعا فیت کا سوال کرتے ہیں۔ت)
 [ف:روایت امام محمد مطابق مذہب جمہور ہے]
خط کہ اس سوال کے ساتھ یہاں بھیجا اس میں روایت سیدنا امام محمد رحمہ اﷲتعالٰی کا ذکر ہے اور یہ کہ اس عالم نے بضرورت اپنی رائے میں اسی کو اختیار کیا ہے گوبخیال تحفظ مساجد ہمیشہ اتباع جمہور رہاہے یہ سخت غلط فہمی ہے یہاں روایت امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ ہر گز خلاف جمہور نہیں وہ وہی فرمارہے ہیں جو جمہور ائمہ نے فرمایا ہے انکی روایت میں ایک حرف بھی قول جمہور سے زائد نہیں۔ نہ ہر گز اس روایت خواہ کسی قول کسی روایت کا یہ مطلب ہے نہ ہوسکتا ہے کہ مسجد کے کسی حصہ کو سڑک میں ڈال لینا روا ہے، یہ تمام ائمہ کے اجماع سے حرام قطعی و مناقض ارشاد خدا ہے، روایات ائمہ درکناراقوال مشائخ مذہب بھی نظر توفیق میں یہاں مختلف نہیں ہر ایک اپنے محمل پر صحیح وبجا ہے اور بالفرض اختلاف  ہے تو نہایت خفیف جو قطعی تحفظ کلی ہر حصہ مسجد پر اجماع کے بعد صرف ایک زائد بات میں ہوا ہے جس سے حفظ جملہ اراضی مساجد پر معاذاﷲ کوئی اثر نہیں پڑسکتا ہم بتوفیق اﷲ تعالٰی ان مباحث جلیلہ کو ایک مستقل فتوے میں رنگ ایضاح دیں گے۔
 [ف:فقاہت کے کیا معنی ہیں]
فقہ یہ نہیں کہ کسی جزئیہ کے متعلق کتاب سے عبارت نکال کر اس کا لفظی ترجمہ سمجھ لیا جائے یوں تو ہراعرابی ہر بدوی فقیہ ہوتا کہ ان کی مادری زبان عربی ہے بلکہ فقہ بعد ملاحظہ اصول مقررہ و ضوابط محررہ ووجوہ تکلم وطرق تفاہم وتنیقح مناط و لحاظ انضباط ومواضع یسر واحتیاط وتجنب تفریط وافراط وفرق روایات ظاہرہ ونادرہ وتمیز درآیات غامضہ وظاہر ومنطوق ومفہوم وصریح ومحتمل وقول بعض وجمہور ومرسل ومعلل ووزن الفاظ مفتین وسیر مراتب ناقلین وعرف عام وخاص وعادات بلاد واشخاص وحال زمان ومکان واحوال رعایا و سلطان وحفظ مصالح دین ودفع مفاسد ین وعلم وجوہ تجریح واسباب ترجیح ومناہج توفیق ومدارک تطبیق ومسالک تخصیص ومناسک تقیید ومشارع قیود وشوارع مقصود وجمع کلام ونقد مرام فہم مراد کانام ہے کہ تطلع تام واطلاع عام ونظر دقیق وفکر عمیق وطول خدمت علم و ممارست فن وتیقظ وافی وذہن صافی معتاد تحقیق مؤید بتوفیق کاکام ہے، اور حقیقۃً وہ نہیں مگر ایک نور کہ رب عزوجل بمحض کرم اپنے بندہ کے قلب میں القا فرماتا ہے:
وما یلقٰھا الاالذین صبر واوما یلقٰہا الاذوحظ عظیم۱؎۔
اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صابروں کو،اور اسے نہیں پاتامگر بڑے نصیب والا۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴۱/ ۳۵)
صدہا مسائل میں اضطراب شدید نظر آتا ہے کہ ناواقف دیکھ کر گھبراجاتا ہے مگر صاحب توفیق جب ان میں نظر کو جولان دیتا اور دامن ائمہ کرام مضبوط تھام کر راہ تنقیح لیتا ہے توفیق ربانی ایک سررشتہ اس کے ہاتھ رکھتی ہے جو ایک سچا سا نچا ہوجاتا ہے کہ ہر فرع خود بخود اپنے محمل پر ڈھلتی ہے اور تمام تخالف کی بدلیاں چھنٹ کر اصل مراد کی صاف شفاف چاندنی نکلتی ہے اس وقت کھل جاتا ہے کہ اقوال سخت مختلف نظرآتے تھے حقیقۃً سب ایک ہی بات فرماتے تھے، الحمد ﷲ فتاوائے فقیر میں اس کی بکثرت نظیریں ملیں گی
وﷲ الحمد تحدیثا بنعمۃ اﷲ وما توفیقی الا باﷲ، وصلی اﷲ تعالٰی علی من امدنا بعلمہ  وایدنا بنعمہ وعلٰی اٰلہ وصحبہ وبارک وسلم اٰمین والحمدﷲ رب العٰلمین۔
 (۱۳)[ف:اس مصالحت کی تین نظیریں]
کیا کوئی ہند وروارکھے گا کہ اس کا شوالہ توڑ کر سڑک کردیا جائے جس پر عام مسلمانوں اور گوشت کے ٹکڑے لے کر قصاب گزرا کریں اوراس  پر ایک چھجا یا چھتا بنے وہ ہندووں کے قبضے میں رہے کیا وہ اسے زمین شوالہ پر اپنا قبضہ سمجھے گاکیا وہ اس کارروائی کو حسب دلخواہ موجب اطمینان اور اس دن کو نہایت مسرت خیز اور ہندو دھرم کی تاریخ کا زریں دن اور ہر طرح اس کا احترام قائم رکھنا کہے گا، لیکن ایک اسلامی عالم نے مسجد کے ساتھ یہ کارروائی کی اور اس کی نسبت ان تمام الفاظ سے مدح سرائی کی
فاعتبروایٰاولی الابصار۔
 (۱۴)کیا اگر شوالہ کے ساتھ مسلمان ایسا کرتے تو گورنمنٹ ان پر مداخلت مذہبی اور توہین مذہب کاجرم قائم نہ کرتی ضرور کرتی، کیا گورنمنٹ اپنے لئے مذہبی دست اندازی وتوہین مذہب جائزرکھتی ہے ہر گز نہیں، مگر جب اسلامی عالم ہی اسے نہایت مسرت خیز اور زریں دن اور احترام اسلام کا پورا قیام کہے تو گورنمنٹ کی کیا خطا ہے۔
 (۵) کیا اگر عالم کے مکان سکونت کے ساتھ یہ طریقہ برتا جائے کہ مکان کھود کر مسلمان یاہندو سڑک یا دنگل بنالیں اور اس پر چھت پاٹ کر ہوا دار جھرو کے عالم کے بسنے کو دیں تو عالم ان ہندو یا مسلمانوں پر نالشی نہ ہوگا کیا وہ اسے زمین مکان پر اپنا قبضہ قائم رہنا سمجھے گا کیا وہ اسے اپنے حق میں دست اندازی وتعدی نہ کہے گا
۔فاعتبروا یٰاولی الابصار۔
 (۱۶) امور مصالحت میں دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ کسی کو قیدیوں سے معافی مانگنے کی حاجت نہ ہو یہ امر ثابت نہ ہو کہ یہ لوگ مجرم تھے۔ لیکن ا س مصالحت کے بعد  جو ایڈریس پیش ہوا اس کے لفظ یہ ہیں: ہم ان لوگوں کی کارروائی کو ملامت اور نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی۔ اگر قانون کی خلاف ورزی کرنے والا قانونی مجرم نہیں تو اور کون ہے۔ پھر گورنمنٹ کا جواب روزانہ ہمدرد ۱۶/اکتوبر میں یہ ہے:اب میں ان لوگوں کی نسبت کچھ کہنا چاہتا ہوں جنہوں نے۳اگست کو بلوہ کا ارتکاب کیا۔ اسی میں ہے: گورنمنٹ کا فرض تھا کہ قیدیوں پر مقدمہ چلائے اور انہیں سزادے مگر وہ کافی سزا بھگت چکے ہیں۔ اسی میں ہے: میں ان لوگوں پر بھی رحم کرتا ہوں جنہوں نے بلوے کی اشتعالک دی اور اس طرح سے اس نقصان رسانی کے مرتکب ہوئے جواب تک ہوچکا ہے اور اس لئے کسی خاص سلوک کے مستحق نہیں رہے۔ تو ضرورمجرم  وسزا وار سزا ٹھہرکر کافی سزا بھگت کر رحم کئے گئے نہ یہ کہ ان کو مجرم قرار ہی نہ دیاجائے۔
 (۱۷) [ف:مصالحت مسجد سے دست برداری پر کی]
امور مصالحت میں تیسری بات یہ ہے: گورنمنٹ مقدمات اٹھالے مسلمان مرور کے لئے کوشاں رہیں گے البتہ مقدمات دیگر امور کے متعلق کچھ نہ کریں گے۔ اس کا حاصل طرفین سے ترک مقدمات ہے مگر مسلمانوں کے لئے دعوی مسجد کا استثنا۔ یہاں دو قسم کے دعوے تھے:دعوی دیوانی دربارہ زمین مسجدکہ مسلمان کرتے دعوی فوجداری دربارہ بلوٰی کہ گورنمنٹ کی طرف سے دائرتھا۔ مسلمانوں کو دعوی دوم میں اپنی ہی جان چھڑانی پڑی تھی نہ کہ وہ الٹے اس میں مدعی بنتے، تو ادھر سے نہ تھا مگر دعوی مسجد، اور مصالحت میں ضرور طرفین سے ترک مقدمات قرار پایا توحاصل مصالحت صرف اتنا نکلا کہ گورنمنٹ قیدیوں کو چھوڑدے مسلمان مسجد چھوڑتے ہیں،ا س سے زیادہ محض الفاظ ہیں کہ یا تو مخیلہ سے باہر ہی نہ آئے یا زبان تک آکر نا مقبول رہے، بہر حال ان کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان پر مصالحت کی ، ولہذا بعد کی عملی کارروائیاں اطمینان کے جوش اور خود عالم کی تقریریں جن کا بیان اوپر گزرا سب استثنائے مذکور کی غلطی پر دلیل ہیں اس پر صلح ہوئی ہوتی تو اپنی مجلس مؤید الاسلام کا جلسہ خالص مسرت اور نہایت مسرت کا جلسہ نہ ہوتا بلکہ مسرت ماتم آمیز کا ایک آنکھ ہنستی تو ایک روتی یہ نہ کہا جاتا کہ مسلمانان ہند کو اطمینان اور دلجمعی نصیب ہوئی۔ بلکہ یوں کہا جاتا کہ مسلمانو!فرع میں تمہاری فتح ہوئی اور اصل ہنوز باقی ہے اٹھو اور اس کے لئے انتہائی جائز کوششیں کرو۔
 (۱۸) نیز اس کے غلط ہونے کی ایک کافی دلیل وہ ہے جو ہمارے سائل فاضل نے جواب استفتاء سوم میں لکھا کہ گورنمنٹ نے قیدیوں کو بلا مقابلہ کسی امر کے چھوڑنا نہ چاہا بلکہ اس کو مشروط کیا کہ مسلمان آئندہ مقدمات نہ چلائیں۔ دیکھئے اس میں استثناء نہیں۔
 (۱۹) آگے گورنمنٹ کی دوسری شرط بتائی کہ مسلمان مسجد کی زمین پر بعینہٖ اسی طریقہ کی عمارت نہ تعمیر کریں۔یہاں نفی استثنا ہوگئی اگر مسلمانوں کو دعوی زمین کی اجازت رہتی اور ضرور ممکن کہ وہ ڈگری پاتے تو بعینہ اسی طریقے کی عمارت بنانے سے کیوں ممنوع ہوتے اس کے صاف یہی معنی ہیں کہ ایسی عمارت بنالو جس کی چھت سے کام لو اور زمین پر دعوٰی نہ کرو۔
 (۲۰) [ف:گورنمنٹ نے اسلام کو فائدہ دینا چاہا مگر مصالحت والوں نے روک دیا]
جواب ایڈریس میں ہے مجھے پورے طور پر بھروسا ہکہ مسئلہ مسجد کا جو حل میں نے کیا ہے اس سے ہندوستان کی تمام مسلمان آبادی مطمئن ہوجائے گی۔ گورنمنٹ کے یہ الفاظ اور صلح میں اس قرار داد کا بیان کہ مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا۔ دونوں ملاکر دیکھئے صاف کھل جائے گا کہ وہ استثناء نہاں خانہ خیال ہی میں تھا، یاکہا اور منظور نہ ہوا، لا جرم تمام زوائد چھنٹ کر اصل بات نکل آئی جتنے پر عالم نے مصالحت ٹھہرائی کہ گورنمنٹ ہمارے آدمی چھوڑ دے ہم نے مسجد چھوڑدی یہ وہی دلی کمزوری اور دہلی کے بم کا تجربہ دیکھ کر بھی گورنمنٹ پر ضد اور جبر کی بدگمانی سے ناشئی ہوا حالانکہ یہ بالکل وسوسہ گورنمنٹ دونوں باتوں میں مسلمانوں کے صاف موافق تھی قیدیوں کی رہائی کےلئے جواب ایڈریس کے وہ لفظ دیکھئے: میں خاص شملہ سے اس غرض سے آیا ہوں تاکہ آپ کے واسطے پیغام امن لاؤں۔ آخر میں مکر رہے:میں کانپور اسی لئے آیا ہوں تاکہ پیغام امن لاؤں۔اور مسئلہ احترام مذہبی کےلئے وہ قیمتی الفاظ پڑھئے: میرے لئے یہ بالکل غیر ضروری ہے کہ جو یقین میں نے کونسل کے اجلاس میں اس بارے میں دلائے ہیں کہ رعایا کے مذہبی عقائدکے متعلق گورنمنٹ کی پالیسی میں کوئی تغیر نہ ہو ااس کو دہراؤں اس لئے کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ ایک واقعی بات ہے۔یہ لفظ تو عام آزادی مذہبی کے متعلق تھے اور خاص مسئلہ مساجد کے متعلق سنئے:ممکن ہے کہ سڑکوں ریل نہروں کی تعمیر مذہبی عمارتوں کے ساتھ ٹکرائے لیکن آپ کو یقین رکھنا چاہئے کہ گورنمنٹ کافی توجہ سے تمام مطالبات پر غور کرے گی اور ہمیشہ کوشش کرے گی کہ مسئلہ متنازعہ اس طور حل کرے جو تمام اشخاص متعلقہ کے لئے قابل اطمینان ہو۔ ایسی صورت میں صرف امر اول سے فائدہ لینا اور امر دوم کہ وہی اصل مرام وخاص مسئلہ احترام اسلام تھا، یوں چھوڑ دینا کیونکر صواب ہوسکتاہے، نسأل اﷲ العفو والعافیۃ۔
Flag Counter