Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
58 - 112
مسئلہ    :   باردوم ازلکھنؤ فرنگی محل مرسلہ مولوی صاحب موصوف سوم ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ
مولٰنا المعظم دام بالمجد والکرم والسلام علیکم،
استفتا موصول ہوا مشکور فرمایا، گوہم کو اصل مسئلہ کے متعلق جناب کی رائے سے آگاہی ہوگئی مگر جناب کے استفسارات کے باعث ضرور ہوا کہ امور مستفسرہ کا جواب دیاجائے ان کو مفصل لکھ کر ارسال کرتا ہوں امید کہ اب جواب شافی عام لوگوں کے فائدہ کی غرض سے تحریر فرمایا جائے۔
امور مستفسرہ مع تصریح
س(۱) مصالحت کیا کی؟
ج(۱) عالم نے مصالحت یہ کی کہ گو رنمنٹ مقدمات اٹھالے اور کسی کو قیدیوں سے معافی مانگنے کی حاجت نہ ہو، 

یہ امر ثابت نہ ہو کہ یہ لوگ مجرم تھے، مسجد کی زمین پر گورنمنٹ اپنی ملکیت ثابت نہ کرے مسلمانوں کو اس پر قبضہ دلادے اگر جبراً گورنمنٹ اس کے مرور کو مشترک کرتی ہے تو وہ حاکم ہے خلاف احکام اسلامیہ ہے اس سے مسلمانوں کو اطمینان نہ ہوگا اور موقع موقع اس کےلئے کوشاں رہیں گے البتہ مقدمات دیگر امور کے متعلق دربارہ ہنگامہ کانپور مسلمان کچھ نہ کرینگے۔
س(۲) وہ امر جس پر مصالحت کی تجویز گورنمنٹ تھا جسے عالم مذکور نے قبول کیا یا اس عالم نے پیش کیا اور اسے گورنمنٹ نے مان لیا۔
ج(۲) گورنمنٹ نے خود مصالحت کی خواہش کی اس امر پر کہ مسلمانوں کے اوپر جو مقدمات ہیں گورنمنٹ کی طرف سے اور مسلمانوں کو جو گورنمنٹ سے دعا وی ہیں ان کے بارے میں کوئی سمجھوتا ہوجائے تاکہ گورنمنٹ کو مسلمانوں سے بدظنی اور مسلمانوں کو گورنمنٹ سے بے اعتباری نہ ہو اور بے چینی دفع ہو۔
س(۳) گورنمنٹ نے خود ہی مراحم خسر وانہ کے لحاظ سے یا ملکی فوائد کے اعتبار سے قیدیوں کو آزاد کیا جیسا کہ عبارت سوال سے ظاہر ہے اس کے بعد کی منازعت سوال میں مذکور نہیں کہ کیا تھی اور عالم مذکور نے کیا اور کس طرح قطع کی۔
ج(۳) گورنمنٹ نے لحاظ مراحم خسروانہ یا باعتبار فوائد ملکی خود خواہش تصفیہ کی کی نہ کہ قیدیوں کو بلامقابلہ کسی امر کے چھوڑدینا چاہا کہ اس کو مشروط کیا کہ مسلمان آئندہ مقدمات نہ چلائیں اور مسجد کی 

زمین پربعینہٖ اسی طریقہ کی عمارت نہ تعمیر کریں، گورنمنٹ سے اور مسلمانوں سے مقدمات اور اس کے ضمن میں باہم کشیدگی ومنازعت تھی جس کو کہ عالم مذکور نے قطع کردیا۔
س(۴) بعد اس کے کہ ممبران متعینہ گورنمنٹ نے زمین پر مسلمانوں کاقبضہ ہرگز نہ مانا اور صاف کہہ دیا کہ یہ کسی طرح ممکن نہیں جیسا کہ سائل کا بیان ہے پھر عالم مذکور کی رائے سے یہ کیونکر طے پایا کہ قبضہ زمین پر مسلمانوں کو دلایا جائے آیا صرف عالم مذکور کا اپنے خیال میں ایک مفہوم متخیل کرنا یا یہ کہ بعد رد وقدح عالم نے ممبران گورنمنٹ سے یہ امرطے کرالیا۔
ج(۴) گورنمنٹ کے متعینہ ممبروں نے ابتداءً مسجد کی زمین پر کسی قسم کا قبضہ دینے سے انکار کیا عالم کی انتہائی جدوجہد سے اس نے کہا کہ ہم عمارت کی اجازت دیں گے جو قانوناً وعرفاً قبضہ ہے اگرچہ گورنر جنرل لفظ قبضہ کو اپنی ز بان سے نہ کہیں یہ عالم کامتخیلہ نہیں بلکہ ممبر متعینہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ یہی قبضہ ہے غرضکہ قبضہ خود ممبر متعینہ کی زبان سے طے کرالیا۔
س(۵) نیز اس کی رائے سے طے پانا کہ سر دست اس زمین پر کسی کی ملک نہ ثابت کی جائے ایک مفہوم تھا کہ اس کے اپنے ذہن میں رہا یا گورنمنٹ نے عالم مذکور کی رائے سے اسے طے کیا۔
ج(۵) زمین کی ملکیت جو گورنمنٹ اپنی ہی سمجھتی تھی اس کے بارے میں صرف عالم کا تخیلہ نہ تھا بلکہ ممبر متعینہ سے اس نے صاف صاف کہہ دیا اور کہلوالیا تھا کہ ملک وقف میں کسی کےلئے ثابت نہیں ہوتی اس واسطے ہم اپنے لئے بھی ثابت کرنے کے درپے نہیں ہیں بلکہ مشیر قانونی نے بھی یہی کہا کہ ہماری ملک غصب سے چلی نہیں گئی کہ ہم اپنی ملک کے ثابت کرنے کو کہیں بلکہ ہم اسی قدر چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ اپنے لئے ملک ثابت نہ کرے چنانچہ گورنمنٹ نے ایسا ہی کیا۔
س(۶)''سردست'' کے معنی کیا لئے اور وہ بھی عالم مذکور کے خیال میں رہے یا گورنمنٹ سے طے کئے۔
ج (۶) سردست کے معنی ممبر متعینہ سے صاف کہہ دئے گئے کہ ہم تخلیص شراکت مرور کے لئے ہمیشہ چارہ جوئی کرتے رہیں گے اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوں گے جب تک کہ گورنمنٹ مسلمانوں کی خواہش پوری نہ کردے بلکہ ممبر متعینہ نے یہ بھی صاف صاف کہہ دیا کہ جب قانون بن جائے گا تو خواہ نخواہ یہ مسئلہ بھی طے ہوجائے گا اس وقت جس قدر عالمگیر جوش ملک میں ہے اور اس سے اندیشہ فریقین کے لئے مشکلات کاہے وہ دفع کردیا ہے،اورہم اس وقت اس خواہش کو پورا نہیں کرسکتے ہیں ورنہ ہم کو اس میں بھی کوئی عذر نہ ہوتا۔
س(۷) عالم مذکور کو گورنمنٹ نے حکماً مجبور کیا تھا یا مسلمانوں نے اپنی طرف سے مامور کیا تھا یا وہ بطور خود

گیا تھا۔
ج(۷) عالم مذکور کو عام مسلمانوں نے طلب نہیں کیا تھا، نہ وہ ازخود گیا تھا بلکہ مقدمہ کے کارکنوں نے باصرار عالم مذکور کو خود بلایا تھا اور ممبر متعینہ نے اس سے اس معاملہ میں گفتگو شروع کی جس کے اثنا میں اس نے صاف کہہ دیا کہ میرا کام مسئلہ بتا دینے کا ہے خدا کے گھر کا معاملہ ہے میرا گھر نہیں ہے جس طرح وہ چاہے اور اس کا حکم ہو بننا چاہئے نہ کہ جس طرح میں یا آپ چاہوں علماء کو جمع کرنا چاہئے مسلمانوں کو جس سے اطمینان ہو وہ صورت اختیار کرنا چاہئے مگر ممبر متعینہ نے کہا کہ ہم کو تمہاری رائے پر اعتماد ہے ہم علماء کی مجلس نہ جمع کریں گے تم اپنی رائے کہہ دو اور ہم بالکل گفتگو منقطع کرتے ہیں اور صرف ایک گھنٹہ کی مہلت ہے چنانچہ اس عالم نے بعد سخت گفتگو کے مشورہ دیا کہ ملک سے سروکار نہ رہناچاہئے قبضہ مسلمانوں کا ثابت کردیا جائے حق مرور اگر مشترک ہو تو ہم اس کی وجہ سے اس وقت منازعت باقی رکھنا نہیں چاہتے اپنے قیدی چھڑائے لیتے ہیں اور اشتراک مرور کےلئے ہمیشہ کوشاں رہیں گے اور حسب قواعد میونسپلٹی بنوایا جائے تاکہ ہم اس سے بہترین تدبیر اپنے تحفظ جزء مسجد کی کراسکیں جس کی کامل توقع ہے، ان سب امور کا تصفیہ ممبر متعینہ سے کر دیا گیا جوایک مجمع میں مسلمانوں  کے ہو ااور ان سب باتوں کی تصدیق وہ عالم کراسکتا ہے اس نے کسی حکم مخالف شرع کو بلا جبر واکراہ خود امر طے شدہ قرار دے کر جائز چارہ جوئی کا دروازہ بند نہیں کیا بلکہ جس کو جمہور علما ناجائز کہتے تھے اس کو اس نے بھی ناجائز قرار دیا اور صاف ظاہر کردیا کہ برابر اس کی چار ہ جوئی جائز طور پر کی جائے گی کسی قسم کی دشواری نہیں پیدا کی کیونکہ بے قاعدہ حرکات کو کوئی نہیں روک سکتا اور باقاعدہ احکام اسلامیہ کی چارہ جائی ہر وقت ہوسکتی ہے دیوانی کے مقدمات ہر طرح کے دائر کئے جاسکتے ہیں اور آئندہ کے لئے نظیرتو درکنار ایک مختتم قانون تحفظ معابد کا بنایا جانا قرار دلوادیا گیا ہے جس سے خود حسب تصریح ممبر متعینہ اس متنازعہ فیہ حصہ کا بھی مسلمانوں کے موافق ہونا متوقع ہے اس عالم کی رائے ہے کہ یہ قبضہ وحق مشترک مرور قابل اطمینان نہیں بلکہ حدود و سلامت روی کے اندر رہ کر گورنمنٹ پر اس امر کا خلاف قوانین اسلامیہ ہونا ظاہر کریں اور گورنمنٹ کا مستمر قانون کہ مذہبی دست اندازی نہ کرے گی یاد دلاکر بلاضرر واضرار فائدہ پائیں اس صورت میں عالم مصیب ہے یانہیں، امید ہے برتقدیر صدق مستفتی جواب صاف عطا فرمایا جائے۔
Flag Counter