Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
57 - 112
رسالہ

ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبدالباری۱۳۳۱ھ(عہ)

(عبدالباری کی مصالحت میں چھپی ہوئی(خرابی) کااظہار)
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
عہ :  مسجد کانپور کے متعلق ایک نہایت ضروری فتوٰی، جس کا سوال لکھنؤ فرنگی محل سے آیا اور دارالافتاء نے جواب دیا اور بکمال وضوح ثابت کیا کہ مولوی صاحب نے جو فیصلہ مسجد مچھلی بازار کانپور کے متعلق دیا وہ سراسر مخالف احکام اسلام ہے، اس پر مسلمانوں کومطمئن ہونا سخت گناہ وحرام ہے، ہر طبقہ کے مسلمانوں پر فرض ہے کہ دربارہ حفظ حقوق مذہبی گورنمنٹ کی نامبدل پالیسی سے نفع لیں اور اپنے اپنے منصب کے لائق جائز چارہ جوئی میں پوری کوشش کریں مولوی صاحب کی یہ شخصی کارروائی اگر مقبول ٹھہر گئی تو ہمیشہ کے لئے مساجد ہند پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا اور ہر مسلمان کہ جائز کوشش کرسکتا تھا اور نہ کی اس کے وبال میں ماخوذ ہوگا''مسجد کانپور کے فیصلہ پر ایک نظر'' کا بھی اس میں رد بلیغ ہے۔

نوٹ: علامہ امجد علی صاحب اعظمی نے ''قامع الواھیات من جامع الجزئیات۱۳۳۱ھ''کے نام سے اس پر ایک عربی تذییل تحریر فرمائی ہے جو کہ مولوی صاحب فیصلہ کنندہ کی اس چھ ورقی عربی تحریر بنام ''جامع جزئیات فقہ'' جو اس نے اس فیصلہ کو مطابق شرع بنانے میں تحریر فرمائی تھی کے رد میں ہے اعلٰیحضرات احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ نے اس رسالہ میں پچاس دلائل قاہرہ پیش کئے  جبکہ علامہ امجد علی صاحب اعظمی نے مزید دو سو دلائل پیش کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ فیصلہ مطابق شرع نہیں ہے اور نہ ہی مسجد توڑ کر راستہ بنالینا روا ہے۔
مسئلہ ۱۸۵: از لکھنؤفرنگی محل مرسلہ مولوی سلامت اﷲ صاحب نائب منصرم مجلس موید الاسلام ۳۰ذیقعدہ ۱۳۳۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ __________گورنمنٹ کے حکام کابیان ہے کہ جزء متنازعہ مسجد کانپورخارج از مسجد ہے اور اس کو بعض ٹرسٹیان نے ہم کودے دیا تھا، اس بناء پر انہوں نے اس کو منہدم کردیا، اس کے چند دنوں کے بعد بغیر اجازت چند لوگوں نے اس زمین پر جس کو میونسپلٹی نے اپنے قبضہ میں کرلیا تھا تعمیر کرنا شروع کیا اس وجہ سے پولیس نے رو کا اور فیما بین لڑائی ہوگئی کچھ مسلمان قتل کئے گئے کچھ مسلمان جن میں بے قصور بھی ہیں قید کئے گئے گورنمنٹ نے اپنے طرز عمل سے باور کرادیا کہ وہ کسی طرح قیدیوں کو نہ چھوڑے گی اور اس زمین کو جس پر میونسپلٹی نے قبضہ کرلیا ہے مسلمانوں کو واپس نہ دے گی، بعد چندے اس نے مراحم خسروانہ کے لحاظ سے یا اپنے ملکی فوائد کے اعتبار سے اس امر کی خواہش کی کہ تصفیہ ایسا ہوجائے کہ مسلمان قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے اور اس زمین پر چھتا پاٹ کے مسجد میں شامل کردیاجائے اس کو چند معتبر حضرات کے روبرو اس نے پیش کیا ایک عالم نے اس امر کی کوشش کی کہ وہ زمین جس کو اکثر مسلمان جزء مسجد کہتے ہیں محفوظ مسجد کےکام میں رہ جائے ایک مخلص کی صورت یہ نکالی کہ ادھر ہی مسجد کا دروازہ کر دیاجائے وہ زمین اس دروازہ مسجد کے کام آئے گورنمنٹ کے ممبران متعینہ نے اس امر کو نہیں مانا کہ زمین پر قبضہ مسلمانوں کا ہو بلکہ صاف کہہ دیا کہ یہ کسی طرح ممکن نہیں، بعد ردوقدح کے اس عالم کی رائے سے یہ طے پایا کہ سردست ملک اس زمین پر کسی کی نہ ثابت کی جائے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک یہ وقف ہے قبضہ زمین پر مسلمانوں کا دلا یا جائے حق آسائش حقیقۃً مسلمانوں کوحاصل ہے، اگر ظلماً یا تشدداً گورنمنٹ عام اجازت گزر کی دے تو ہم اس کی وجہ سے قطع مصالحت نہ کریں گے بلکہ صورت بنا اس کی میونسپلٹی کے سپرد کردیا جائے جس میں بہ غلبہ آراقوی امید ہے کہ موافق قوانین اسلام تصفیہ ہوجائے، وائسرائے نے بھی تاکید کردی کہ بننے کے وقت مسلمانوں کی خوشی اور ان کے قواعد کا لحاظ کیا جائے۔ سوال طلب یہ امر ہے کہ جس عالم نے بدیں تفصیل مصالحت کی ممانعت نہیں کی اور منازعت کو قطع کردیا وہ خاطی ہے یا مصیب، اورمسلمانوں کو آئین امن عام کے اندر رہ کے استحقاق کی چارہ جوئی کرنی چاہئے اس عالم کی رائے ہے یا جوش وہنگامہ دکھانا اور خلل اندازی امن عامہ کرنا شرعاً ضروری ہے اور جو امر دوم کی کوشش کرے وہ حق پر ہے یا جو امر اول کے طرز کومسلمانوں کے لئے مفیدسمجھے۔بینواتوجروا۔
جواب ازدار الافتاء
سوال بہت مجمل ہے کچھ نہ بتایا کہ:

(۱) مصالحت کیا کی۔

(۲) وہ امر جس پر مصالحت کی تجویز گورنمنٹ تھا جسے عالم مذکور نے قبول کیا یا اس عالم نے پیش کیا اور اسے گورنمنٹ نے مان لیا۔

(۳) گورنمنٹ نے خود ہی مراحم خسر وانہ کے لحاظ سے یا ملکی فوائد کے اعتبار سے قیدیوں کو آزاد کیا جیساکہ عبارت سوال سے ظاہر ہے اس کے بعد کی منازعت سوال میں مذکور نہیں کہ کیا تھی اور عالم مذکور نے کیا اور کس طرح قطع کی۔

(۴) بعد اس کے کہ ممبران متعینہ گورنمنٹ نے زمین پر مسلمانوں کا قبضہ ہر گز نہ مانا اور صاف کہہ دیا کہ یہ کسی طرح ممکن نہیں جیسا کہ سائل کا بیان ہے پھر عالم مذکور کی رائے سے یہ کیونکہ طے پایا کہ قبضہ زمین پر مسلمانوں کو دلایا جائے، آیا صرف عالم مذکور کاا پنے خیال میں ایک مفہوم متخیل کرنا یا یہ کہ بعد رد وقدح عالم نے ممبران گورنمنٹ سے یہ امر طے کرالیا۔

(۵) نیز اس کی رائے سے طے پانا کہ سردست ا س زمین پر کسی کی ملک ثابت نہ کی جائے مفہوم تھا کہ اس کے اپنے ذہن میں رہا یا گورنمنٹ نے عالم مذکور کی رائے سے اسے طے کیا۔

(۶) سردست کے معنی کیالئے اور وہ بھی عالم مذکور کے خیال میں رہے یا گورنمنٹ سے طے کرلئے۔

(۷) عالم مذکور کو گورنمنٹ نے حکماً مجبور کیا تھا یا مسلمانوں نے اپنی طرف سے مامور کیا تھا وہ بطور خود گیا تھا۔

جب تک ان سب باتوں کی تفصیل معلوم نہ ہو ایک نہایت مجمل گول بات کا جواب کیا دیا جائے۔ہاں اتنا امر واضح وروشن ہے کہ فتنہ پردازی اور امن عام میں خلل اندازی اور مسلمانوں کو بلا اور اسلام کو توہین کےلئے پیش کرنا ہر گز نہ شرعاً جائز ہے نہ عقلاً ٹھیک۔
قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے:
والفتنۃ اشد من القتل۱؎
 (فتنہ وفساد قتل سے بھی سخت ہے۔ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۹۱ )
اور فرماتا ہے:
لاتلقوابایدیکم الی التھلکۃ۲؎
 (اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ت)
( ۲؎ القرآن الکریم ۲/ ۱۹۵)
نہ یہی کسی طرح روا ہے کہ کسی حکم مخالف شرع کو بلاجبر واکراہ خود ایک امرطے شدہ قرار دے کر جائز چارہ جوئی کا دروازہ بندکر یں یا اس میں دشواری ڈالیں اور آئندہ کے لیے بھی اسے نظیر بنائیں بلکہ حدود سلامت روی کے اندر رہ کر گورنمنٹ پر اس امر کا خلاف قوانین اسلام ہونا ظاہر کریں اور گورنمنٹ کا مستمرقانون کہ مذہبی دست اندازی نہ کرے گی یا د دلا کر بلاضرر واضرار فائدہ پائیں جو اس طریق پر چلے مصیب ہے اور جو ان دو طریقوں میں سے کسی پر چلے وہ خاطی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter