Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
56 - 112
مسئلہ۱۷۳ تا ۱۸۱: مسئولہ محمد علاؤالدین صاحب مالگذار رئیس تحصیل ملتائی ضلع بیتول ملک متوسطہ ۲۵محرم الحرام۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین دریں مسئلہ کہ اس مختصر قصبہ ملتائی میں قریب سوسال سے ایک مسجد کمترین کے بزرگوں کی تعمیر کرائی ہوئی موجود ہے جس میں نماز پنجگانہ وجمعہ ہواکرتاہے یہاں مسلمانوں کی آبادی بہت کم ہے قریب ستر پچھتر مکان ہوں گے ان میں بھی صوم وصلٰوۃ کے پابند صرف معدودے چند اشخاص ہیں تاہم تفرقہ انداز نفوس موجودہیں امسال رمضان شریف میں روزہ جلدافطار کرنے کی کٹ حجتی پر یعنی متولی مسجد کے یوم غیم میں کچھ دیر کرکے روزہ افطار کرنے کی تنبیہ پر زید وبکر وخالدوعمرو نے مسجد قدیمی سے کنارہ کشی اختیار کرکے اور دس بیس آدمیوں کو ورغلا کر مسجد میں تراویح پڑھنے وقرآن شریف سننے سے جو حافظ صاحب نماز تراویح میں پڑھتے تھے خودبھی باز رہے اور دیگر لوگوں کو بھی باز رکھا اور ترک جماعت کرکے ایک دوسری جگہ نماز پنجگانہ وتراویح ونمازجمعہ پڑھنے لگے اور اپنی ضد وتفرقہ اندازی کی غرض سے اور چند جاہل مسلمانوں کو اکسا و ورغلا کر اپنا ہم خیال بناکر جابجا سے چندہ وصول کرکے ایک دوسری مسجد تعمیر کرنے کی فکر کر رہے ہیں بلکہ ایک ویرانی خانگی مسجد کو جو ایک خاندان کےلئے مخصوص تھی جس میں اب کوئی علامت مسجد کی باقی نہیں نہ دیوار ودر ثابت ہیں نہ منبر وغیرہ کا نشان  نظر آتا ہے پچاس ساٹھ برس سے بالکل ویران پڑی ہوئی ہے اسی کوباجازت اس کے متولیوں کے از سر نو تعمیر کراکر مسجد حال کو ویران کرنے کی نیت سے اس مسجد سے بالکل کنارہ کش ہو بیٹھے ہیں اور اس اپنی منافقانہ وکافرانہ حرکت وضد کو قرین ثواب و جائز قرار دے کر اسی پر اڑے ہوئے ہیں کہ ہم دوسری مسجد بنا کر رہیں گے حالانکہ سب کے سب علم دین سے محض نابلد وجاہل مطلق ہیں کہ آیہ کریمہ قرآن پاک پ۱۱ رکوع ۲ میں جو اس قسم کی مسجد ضرار کے بارہ میں احکام الٰہی صاف روشن ہیں اس کا ترجمہ دیکھ کر اس کے معنی الٹے سمجھتے ہیں کہ یہ یہود ونصارٰی سے متعلق ہے انہیں کے لئے نازل ہوئی ہے لہذا ان کے منافقانہ تفرقہ اندازی سے باز رہنے کےلئے حسب ذیل امور کیلئے علمائے دین موجودہ حال لکھنو کے مواہیر سے مثبتہ فتوی درکار ہے اور رفع شر کے لئے ایسے فتوے کی اشد ضرورت ہے، اﷲ جل شانہ نے آپ صاحبوں کو علمی فضیلت دی ہے، نہایت عاجزی سے ملتجی ہوں کہ براہ عنایت وتحصیل ثواب فتوٰی مسندہ جلد ارسال فرماکر عنداﷲ وعندالناس مشکور ہوں گے۔
 (۱) کیا مذکورہ بالا اشخاص ایک مسجدقدیمی کی ضد پر موجودہ حال وآبادی سے قریب ومتصل ہے اور اس میں پوری گنجائش نمازیوں کی کافی طور سے ہوتی ہے اور جس میں عرصہ قریب سوسال سے نماز پنجگانہ وجمعہ ادا ہوتی ہے بلکہ مذکورہ بالااشخاص وبستی کے مسلمان صرف ایک مسجد کو بھی پورے طور سے آباد نہیں رکھ سکتے ہیں باہم نفاق ڈالنے کی نیت سے بلا ضرورت دوسری مسجد تعمیرکرانا اور چند انجان مسلمانوں کو ترغیب دے کر اس قدیمی مسجد سے باز رکھنا اور اپنی ایک جداگانہ جماعت قائم کرنا یہ فعل ان کا منافقانہ داخل کفر ونارواہے یا نہیں؟

(۲) دیگر بے شر وبے لوث مسلمانوں کےلئے ان کے ہاتھ کا ذبیحہ درست ہے یاکیا؟

(۳) ان سے راہ ورسم، سلام مسنون یا ان میں سے بطور قاضی کے کسی کا نکاح پڑھانا جائز یا کیا:

(۴) مسجد ضرار جوایک مسجد کی ضد پر بنائے فساد قائم کی جائے اس کے گرادینے ومنہدم کرنے کا حکم ہے یانہیں؟

(۵)کیا ایسا شخص مذکورہ بالا جو ایسے شرو نفاق کا بانی مبانی ہو امامت کے قابل ہوسکتا ہے ؟کیا اس کی امامت جائز ہےـ؟

(۶)کیا ایسی مسجدکی تعمیر کے لئے جس کی بناضدونفاق  پر ہواور جو ضرار کی تعریف میں داخل ہو کچھ چندہ دینا یا دیگر طریقہ سے مدد دینا جائزہے؟

(۷) کیا ذابح بقر وغنم کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہے یعنی جو شخص اجرت لے کر ذبیحہ کرتا ہو وہ امامت کرسکتا ہے یانہیں؟

(۸)کیانماز جمعہ ایسی جگہ جہاں مسلمانوں کے ستر پچھتر مکان ہوں اور نمازی بمشکل تیس چالیس جمع ہوتے ہوں نمازجمعہ دو جگہ ہوسکتی ہے؟

(۹) جو شخص بستی وقوم میں ہر طرح معزز و رئیس ہو اور وہ متولی مسجد بھی ہو اس کے خلاف برگشتہ ہو کر معمولی حیثیث کے مسلمان کا ایسا شرپیدا کرنے کا طرز عمل جائز ہے ؟
بینواتوجروایا اولی الابصار۔
الجواب

(۱) اگر فی الواقع ان کی نیت جماعت مسلمین کی تفریق اور مسجد قدیم کی تخریب ہو تو ضرور وہ مرتکب سخت کبیرہ ہیں اور اس تقریر پر ان کی مسجد مسجد ضرار ہوگی مگر اتنی بات پر حکم تکفیر ناممکن ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

(۲) جب ان پر حکم کفر نہیں تو ان کے ہاتھ کاذبیحہ کیوں نادرست ہوگا؟

(۳) جو لوگ اس تقدیر پر فساق ومرتکب کبائر ہیں ان سے ابتدابہ سلام ناجائز ہے اور بغرض زجر وتنبیہ ترک راہ ورسم بہتر ہے اور جب راہ ورسم نہ ہوگی تو اپنی شادیوں میں بلانا اور نکاح پڑھوانا بھی نہ ہوگا لیکن اگر وہ نکاح پڑھائیں تو اس نکاح میں کوئی جرم لازم نہ آئے گا۔

(۴) ضرور ہے مگر جبکہ ضرار ہونا یقینا ثابت ہو۔ دو جماعتوں میں رنجش ہوئی اور ایک جماعت دوسری کی

مسجد میں بخوف فتنہ آنا نہ چاہے اور مسجد میں نماز پڑھنا ضرور، لہذا وہ اپنی مسجد بنائے تو اسے مسجد ضرار نہیں کہہ سکتے، مسجد ضرار اسی صورت میں ہوگی کہ اس  سے مقصود مسجد کو ضرر دینا اور جماعت مسلمین میں تفرقہ ڈالنا ہو، نیت امر باطن ہے محض قیاسات وقرائن کا لحاظ کرکے ایسی سخت بات کا حکم نہیں دے سکتے خصوصاً اس حالت میں جبکہ وہ جدامسجد بنانا نہیں چاہتے بلکہ جو مسجد پہلے موجودتھی اس کا احیاء چاہتے ہیں۔

(۵) ایسے شخص کو امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی، جبکہ صورت واقعہ یہ ہوجو سائل نے ذکر کی۔ واﷲتعالٰی اعلم۔

(۶) اگر امر مذکور ثابت ہو تو اس میں کسی طرح مدد دینا جائز نہیں۔

(۷) یہ مسئلہ لوگوں میں غلط مشہور ہے ذبح بقر کوئی جرم نہیں، نہ اس پر اجرت لینا ممنوع، تو اس وجہ سے امامت میں کیاحرج ہوسکتا ہے۔

(۸) نماز جمعہ کے شرائط سے ایک شرط یہ ہے کہ خود سلطان اسلام پڑھائے یا اس کا نائب یا اس کا ماذون اور جہاں یہ نہ ہوں وہاں بضرورت مسلمانوں کا کسی کو امام مقرر کرلینا معتبر رکھا ہے ایسی بستی میں جبکہ جمعہ قائم ہے اور ایک امام مقرر کر دہ مسلمین موجود ہے تو بلاوجہ شرعی چند شخصوں کا دوسرے کو امام جمعہ مقرر کرنا صحیح نہ ہوگا اور وہاں نماز جمعہ ادا نہ ہوسکے گی۔

(۹) شر پیدا کرنا کسی کو کسی کے مقابل جائز نہیں اور دینی معظم کی بلاوجہ شرعی مخالفت اور پر شر ہے ہاں جو فقط دنیوی وجاہت رکھتا ہو اسے معزز اور اس کے مقابل اور مسلمانوں کو معمولی مسلمان کہنا یہ بھی جائز نہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۸۲: مسئولہ سید کمال الدین احمد صاحب جعفری وکیل ہائیکورٹ الہ آباد ۲۹محرم ۱۳۳۲ھ
عید گاہ  یا مسجد میں وعظ یا چندہ اسلامی مذہبی کاموں کے لئے کرنا عام مسلمانوں کو جائز ہے اور متولی کو اس کے روکنے کا حق ہے یانہیں؟
الجواب

مسجد میں کارخیر کےلئے چندہ کرناجائز ہے جبکہ شور وچپقلش نہ ہو خود احادیث صحیحہ سے اس کا جواز ثابت ہے، مسجد میں وعظ کی بھی اجازت ہے جبکہ واعظ عالم دین سنی صحیح العقیدہ ہو اور نماز کا وقت نہ ہو، ان دونوں باتوں کو کہ منکرات سے خالی ہوں متولی یاکوئی منع نہیں کرسکتا ہے، ہاں اگر چندہ امر شر کے لئے ہو اگرچہ اسے کیسے ہی امر خیر کہا جائے جیسے نیچریوں کے کالج یا وہابیوں کے مدرسہ کے لئے یااس میں شور وغل ہو

یاواعظ بدمذہب یا بے علم یا روایات موضوع کا بیان کرنے والا ہو یا لوگ نماز پڑھ رہے ہوں اور اس نے وعظ شروع کردیاکہ ان کی نماز میں خلل آتا ہو تو ایسی صورت میں متولی اور ہر مسلمان کو روک دینے کا اختیار ہے واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸۳:ازموضع منصور پور متصل ڈاکخانہ قصبہ شیش گڈھ تحصیل بہیٹری ضلع بریلی مرسلہ محمد شاہ خاں ۳۰محرم ۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک دیوار شمال وجنوب کی ہے اس کی بنیاد سے ملا کر کسی قدر اونچائی مثل چبوترہ قائم کیا گیا اور اس دیوار پر چھپر رکھواکر وہ جگہ نماز کے واسطے مخصوص کردی گئی چنانچہ جگہ مذکور پر بلانا غہ اذان ونماز ایک مدت سے ہورہی ہے یہاں تک کہ نماز جمعہ بھی ہوتی ہے منبر لکڑی کا برائے خطبہ جگہ معینہ پر موجود ہے، بایں صورت فرمائے کہ اس کو مسجد کیا جائے یا کیا؟
الجواب

مالک زمین نے اگر کہا کہ میں نے اس کو مسجد کردیا اور اس میں نماز پڑھ لی گئی تو وہ مسجد ہوگئی اگرچہ اس میں عمارت اصلا نہ ہو خالی ہو، یونہی اگر اس کے کلام سے مسجد کردینے پر دلالت پائی گئی مثلاً کہا میں نے یہ زمین مسلمانوں کی نماز کےلئے کردی کہ ہمیشہ اس میں نماز ہواکرے جب بھی مسجد ہوجائیگی اور اگر ایک مدت خاص کی تحدید کی مثلاً سال دو سال نماز پڑھنے کے لئے دیتا ہوں تو مسجد نہ ہوگی، اور اگر زبان سے لفظ نہ ہمیشہ کا کہا نہ کسی وقت محدود کا تو دل میں اگر نیت ہمیشہ کی ہے مسجد ہوگئی ورنہ نہیں،
عالمگیری میں ہے:
رجل لہ ساحۃ لابناء فیہا امر قوما ان یصلوافیہا بجماعۃ، فھذاعلی ثلثۃ اوجہ احدھا اما ان امرھم بالصلٰوۃ فیہا ابدانصا بان قال صلوافیہا ابدا، اوامرھم بالصلٰوۃ مطلقاً ونوی الابد، ففی ھٰذین الوجھین صارت الساحۃ مسجدالومات لایورث عنہ، واما ان وقت الامر بالیوم اوالشھر او السنۃ ففی ھذاالوجہ لایصیر الساحۃ مسجد الومات یورث عنہ۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
ایک شخص کی خالی زمین پڑی ہوئی تھی جس میں کوئی عمارت نہیں اس نے لوگوں کو اس زمین میں باجماعت نماز پڑھنے کو کہا تو اس کی تین صورتیں ہیں(پہلی یہ کہ) اس نے امر نماز کی تابید کی تصریح کی ہو بایں طور کہ یوں کہا ہو کہ تم اس میں ہمیشہ نماز پڑھا کرو، یا(دوسری صورت یہ کہ) اس نے انہیں مطلقاً نماز پڑھنے کو کہا اور نیت ہمیشگی کی کرلی ان دونوں صورتوں میں وہ زمین مسجد ہوگئی اور اس کے مرنے کے بعد اس میں میراث جاری نہ ہوگی اور (تیسری صورت یہ ہے کہ) اگر اس نے امر نماز کو دن، مہینے یا سال سے مقیدکیا تو اس صورت میں وہ زمین مسجد نہ ہوگی اور اس کے مرنے کے بعد اس میں میراث جاری ہوگی۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف     الباب الحادی عشر فی المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۵)
مسئلہ۱۸۴: مسئولہ عبدالرحیم وکریم احمد صاحبان متولیان مسجد مچھلی بازار کان پور ۲۱صفر ۱۳۳۲ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو روپیہ مسجد مچھلی بازار کان پورفنڈ میں تین عنوانوں سے آیا ہے:

(۱)کچھ تو امدا د مجروحین ومقتولین کےلئے۔

(۲)کچھ مقدمہ مسجد کےلئے۔

(۳) کچھ حفاظت اور تعمیر حصہ منہدمہ مسجد کی غرض سے۔

اب بعد ختم ہوجانے مقدمہ کے اس کا صحیح مصرف از روئے شرع شریف کیاہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

امداد مجروحین ومقتولین مقدمہ ختم ہونے سے ختم نہیں ہوجاتی، امداد مقتولین سے ان کی بیواؤں اور یتیموں کی امدا دمراد ہے ار وہ ہنوز باقی ہیں، مقدمہ اگر ختم ہوا تو ماخوذین کا نہ مسجد کا کہ اس کا جو فیصلہ مولوی صاحب کنندہ نے کیامحض باطل و خلاف شرع ہے مسلمانوں کو اس پر سکوت جائزنہیں، فرض ہے کہ اپنے تحفظ حقوق مذہبی کےلئے گورنمنٹ سے جائز چارہ جوئی کوانتہا تک پہنچائیں۔ اس کے مصارف میں یہ روپیہ اٹھائیں اس کا روشن بیان "ابانۃ المتواری فی مصالحۃ عبدالباری" میں ہے جو اصل رسالہ چھپ گیا اور زمیندارمیں بھی شائع ہوچکا اور اس کا ذیل زیر طبع ہے، واﷲتعالٰی اعلم۔
Flag Counter