Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
55 - 112
مسئلہ۱۷۱: از گونڈہ محلہ گنج مکان مولوی نوازش احمد صاحب مرسلہ حافظ محمد اسحاق صاحب ۲۳ذیقعدہ ۱۳۳۱ھ
مسجد قدیم کہنہ کو شہید کرکے اسی مقام پر یا کچھ فاصلہ سے ہٹ کر دوسری جگہ مسجد جدید کوئی بنوادے تو اس بارے میں شرعاً کیاحکم ہے؟
الجواب

مسجد کو اس لئے شہید کرنا کہ وہ جگہ ترک کردیں گے اور دوسری جگہ مسجد بنائیں گے مطلقاً حرام ہے
قال تعالٰی:
ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیہا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۲؎۔
اس سے بڑاظالم کون ہے جو اﷲ تعالٰی کی مسجدوں میں اس کا ذکر کرنے سے روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے(ت)
(۲؎ القرآن الکریم۲/ ۱۱۴)
اور اگر اس لئے شہید کی کہ یہیں ازسر نو اس کی تعمیر کرائے تو اگر یہ امر بے حاجت وبلاوجہ صحیح شرعی ہےتو لغو وعبث وبے حرمتی مسجد وتضییع مال ہے اور یہ سب ناجائز ہے۔
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان اﷲ تعالٰی کرہ لکم ثلثا قیل وقال وکثرۃ السوال واضاعۃ المال۱؎،
وقال تعالٰی
ولاتبذر تبذیرا ان المبذرین کانوااخوان الشیطین۲؎۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک اﷲ تعالٰی نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند بنایا: قیل وقال، کثرت سوال اور مال کو ضائع کرنا۔ اور اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا کہ فضول خرچی مت کرو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے  شیطانوں کے بھائی ہیں(ت)
(۱؎ صحیح مسلم     کتاب الاقضیۃ     باب النہی عن کثرۃ المسائل     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۷۵)                (۲؎ القرآن الکریم    ۱۷/ ۲۷۔۲۶)
ہدایہ میں ہے:
العبث حرام۳؎
 (فضول خرچی کرنا حرام ہے۔ت)
 (۳؎ الہدایۃ     کتاب الصلٰوۃ     باب مایفسد الصلٰوۃ     المکتبۃ العربیۃ کراچی     ۱/ ۱۱۸)
اور اگر بمصلحت شرعی ہے مثلاً اگر اس میں اور زمین شامل کرکے توسیع کیجائے گی یا بنا کمزور ہوگئی ہے محکم بنائی جائے گی تواصل بانی مسجد ورنہ اہل محلہ کو اس میں اختیار ہے
کما فی الھندیۃ والدر المختار وغیرہما
 (جیسا کہ ہندیہ اور درمختاروغیرہ میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۷۲: ازعلی گڑھ سوسائٹی کارڈن مسئولہ حمیدالدین خاں بی اے ۲۵ذیقعدہ ۱۳۳۱ھ معرفت سید برکت علی صاحب:
معظمی زاد عنایتہ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ تعالٰی وبرکاتہ !
تھوڑا عرصہ ہوا جب مجھے آپ کے ہمراہ جناب مولٰنا صاحب قبلہ سے شرف قدم بوسی حاصل ہوا تھا اس روز میں نے مولٰنا صاحب کی خدمت میں یہ عرض کیا تھا کہ ایک صاحب نے مسجدکے متعلق چند کتب احادیث کی اسناد پر یہ مواد جمع کیاہے کہ راستہ کی فراخی کے لئے مسجد میں سے کچھ حصہ بشرط گنجائش لینا جائز ہے جس میں آنجناب مولٰنا صاحب قبلہ نے یہ فرمایا تھا کہ وہ غلطی پر ہیں بلکہ اس مسئلہ کا منشا بحالت ہجوم مسجد کے کسی حصہ میں سے گزرنے کا جواز ہے اس پر میں نے ان صاحب کو انکی غلطی پر بذریعہ خط متنبہ کیا عرصہ کے بعد ان کا جواب آیا افسوس ہے کہ وہ اپنی جائے قیام پر نہیں ہیں اس وجہ سے ان کے پاس وہ ان کا رسالہ اور وہ کتب جن سے مواد جمع کیا تھا موجود نہ تھیں مگر جو انہوں نے مجھے اپنی یادداشت سے لکھا بجنسہٖ نقل کرکے ارسال خدمت کررہا ہوں۔ نام کتاب جس میں سے مواد حاصل کیا:
اشباہ والنظائر مصنفہ امام ابراہیم باب فوائد شتی ص۴۰۴و۴۰۵مطبو عہ ۱۲۸۳ھ مطبع نظامی یا مصطفائی کانپور۔
عبارت خط: جو حوالہ میں نے آپ کو لکھا تھا وہ اس طرح ہے:
لو ضاق الطریق علی المارۃ والمسجد واسع فلہم ان یوسعوا الطریق من المسجد۔
اگر راستہ گزرنے والوں کے لئے تنگ ہو اور مسجد وسیع ہوتو انہیں مسجد کا کچھ حصہ لے کر راستہ میں توسیع کرنے کا اختیار ہے(ت)    اور دوسری جگہ :
 ماضاق المرور ولوکان مسجدا واسعا یجوزانھدامہ۔
    جب گزرنا دشوار ہو اور مسجد وسیع ہوتو اس کا انہدام جائز ہے(ت)    قریب قریب ایسی ہی عبارت جو مجھے کل او راچھی طرح یا دنہیں ہے، عبارت بالااشباہ والنظائر میں صاف لکھی ہے اور صاحب ردالمحتار نے اسی کو مرجح اور معتمد لکھا ہے حکم بالا میں مسجد کے متعلق ہے فناء مسجد یعنی وضو خانہ، حجرہ، غسل خانہ میں تو بحث ہی فضول ہے۔ یہ عبارت انہوں نے مجھے لکھ کر بھیجی ہے غالباً یہ کتاب آنجناب مولانا صاحب کے وسیع کتب خانہ میں ضرور موجودگی ہوگی اور اس کو دیکھ کر آں جناب ضرور اس کی صحت اور موقع پر غور فرماسکیں گے والسلام۔
دیگر گزارش یہ ہے کہ جناب مولانا صاحب قبلہ کے فیصلہ سے مجھے بھی مطلع فرمائیں تو باعث کمال عنایت ہوگا علاوہ اضافہ معلومات مجھے ان حضرت کو بھی لکھنے کا موقع مل سکے گا میراپتہ حسب ذیل ہوگا:

محمد حمید الدین خاں بی اے، سوسائٹی کارڈن علی گڑھ
الجواب

استغفر اﷲ العظیم ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم الحکیم،
نہ کتاب مستطاب اشباہ والنظائر کے مصنف امام ابراہیم نہ اشباہ میں معاذاﷲ کہیں ان کا پتہ کہ
لوکان مسجدا واسعا یجوز انھدامہ
 (اگر مسجد وسیع ہوتو اس کا انہدام جائز ہے۔ت) نہ کوئی مسلمان ایسا کہہ سکے نہ کوئی عربی دان ایسی عبارت لکھے نہ کہ علامہ زین بن نجیم مصری مصنف اشباہ ان کی نسبت یہ محض تہمت ہے یا نرا اشتباہ۔ کسی شخص کے اپنے تخیل میں یہ لفظ پیدا ہوئے ہوں گے جس کی عربیت فاسد اور معنی باطل، کوئی آدمی ابراہیم نامی وہاں موجود یا مخیل ہوگا اور کتاب اشباہ کہیں رکھی ہوگی سب تصورات جمع ہوکر یہ یاد رہا کہ امام ابراہیم نے اشباہ میں ایسا لکھا اگرچہ نظر بواقع وہی مثال ہے کہ ؎
چہ خوش گفتست سعدی در زلیخا    الاایھا الساقی ادر کاسا ونا ولھا
 (کیا خوب کہا سعدی نے زلیخا میں،خبردار اے ساقی!جام کو گردش دے اور عطا کر۔ت)
بلکہ اس سے بھی ہزار درجہ بدتر ہے کہ اگرچہ نہ کتاب زلیخا شیخ سعدی رحمۃ اﷲ تعالٰی کی تصنیف نہ مصرع دوم ان کا، نہ اس کتاب کا، مگر آخر ہے تو ایک عارف کا قول بخلاف اس کے کہ مسجد ڈھانے کی حلت اور اشباہ کی طرف اس کی نسبت، افسوس کہ ناقل نے جس کتاب کے صفحہ۴۰۴ سے پہلی عبارت نقل کی اس سے گیارہ ہی ورق اوپر صفحہ۳۸۱میں اس کے معنی کی صریح تشریح نہ دیکھی کہ
"لایجوز اتخاذ طریق فیہ للمرور یعنی بان یکون لہ بابان فاکثر فیدخل من ھذا ویخرج من ھذا"۱؎
یعنی مسجد میں راستہ بناناجو ناجائزہے اور عذر کی صورت میں جس کی اجازت دی گئی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد کے دو یا زیادہ دروازے ہوں ایک سے داخل ہوکر دوسرے سے نکل جائے۔
(۱؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الثالث، القول فی احکام المسجد   ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۱)
بحمد اﷲ تعالٰی اس یعنی نے معنی کو صاف کردیا اورجب خود اسی کتاب میں جو عبارت تھی نظر نہ آئی اور جو نہ تھی وہ متشکل ہوگئی تو اس کی کیا شکایت کہ خود انہیں امام مصنف اشباہ کی دوسری جلیل وعظیم کتاب بحرالرائق نہ دیکھی جس میں انہوں نے صاف طور پر واضح کردیا ہے کہ مسجد کو راستہ بنانے سے یہی مراد ہے کہ مسجد بحال خود قائم و برقرار  رہے اور کسی کام کے لئے اس میں ہوکر نکل جائے او رصریح تصریح فرمادی ہے کہ یہ ناپاک مرد یا عورت کے لئے حلال نہیں، نہ اس میں گھوڑا یا بیل وغیرہ جانور لے جاسکتے ہیں،
عبارت یہ ہے بحرالرائق مطبع مصر جلد پنجم ص۲۷۶:
ومعنی قولہ کعکسہ انہ اذاجعل فی المسجد ممرافانہ یجوز لتعارف اھل الامصار فی الجوامع وجاز لکل واحد ان یمرفیہ حتی الکافر الا الجنب والحائض والنفساء لماعرف فی موضعہ ولیس لھم ان یدخلوا فیہ الدواب۱؎۔
یعنی مسجد کے کسی حصہ کو راستہ بنانے سے مرادیہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں ہوکر مرور کےلئے جگہ ٹھہرالے تو رواہے کہ شہروں کی جامع مسجدوں میں اس کا عام رواج ہو رہا ہے اور اس میں ہو کر ہر شخص کو گزرجانے کی اجازت ہوگی یہاں تک کہ کافر کو مگر جنابت والے مرد و عورت اور حیض والی عورت اور نفاس والی ان میں کسی کو وہاں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوسکتی کہ مسجد میں ان کا جانا حرام ہونا اپنی جگہ یعنی کتاب الطہارۃ میں معلوم ہوچکا ہے اور یہ بھی انہیں اختیار نہیں کہ اس جگہ جانور لے جائیں(ت)
(۱؎ بحرالرائق کتاب الوقف فصل لما اختص المسجد باحکام     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۵/ ۲۵۵)
بعینہ اسی طرح تبیین الحقائق امام فخر الدین زیلعی ودرر الحکام ودرمختار وفتاوی عالمگیریہ وغیرہا میں ہے۔اس ارشاد علماء کو ایمان کی نگاہ سے دیکھنے والے پر آفتاب کی طرح روشن ہوجائے گا کہ مسجد کو راستہ بنانے کے معنی خود انہوں نے کیاارشاد فرمائے اور کیا مراد بتائی، اور یہ کہ معاذاﷲ مسجد توڑ کر سڑک میں ڈال لو جس میں آدمی، جنب، حائض، نفسا، گھوڑے، گدھے، غلیظ کی گاڑیاں سب گزریں اور سب کا حق مساوی ہو اور کسی کو منع نہ کرسکو نہ وہاں منڈھی ڈال کر بیٹھ سکو کہ جو آدمی گزرے اس سے پوچھو تجھے نہانے کی حاجت تو نہیں، جو عورت گزرے اس سے دریافت کرو تجھے حیض تو نہیں، اور جوایسا کرے بھی تو مجنون کہلائے اور فائدہ کچھ نہیں کہ کسی کو روک سکو اور روکو تو روز فساد ہو استغفراﷲ کیا ایسی بے معنی بیہودہ بات علماء نے اپنی مراد بتائی یا یہ کہ مسجد اپنے حال پر قائم و برقرار رہے اس کے تمام آداب بدستور فرض و مقرر ہیں نہ اسمیں کوئی جانور جاسکے، نہ جنب، نہ حائض، نہ نفاس والی، اور ان کے علاوہ اور آدمی ہوکر گزرجائے، یہ بھی پیش نظر رہے کہ وہ جس امر کی اجازت دے رہے ہیں اسے صاف بتارہے ہیں کہ عام شہروں کی جامع مسجد وں میں اس کا رواج ہے، اب یہ دیکھ لیجئے کہ جامع مسجدوں کا عام دستور کیا ہے، آیا یہ کہ مسجدیں توڑ کر سڑک میں ڈال لی جاتی ہیں، حاشا کوئی اندھا بھی ایسا نہیں کہہ سکتا تو بس جتنی بات کا عام شہروں کی جامع مسجدوں میں رواج چلاآتا ہے اسی کی وہ اجازت دے رہے ہیں اور وہی ان کی مراد ہے اس سے زیادہ باطل وایجاد ہے
واﷲ یقول الحق ویھدی السبیل وھو حسبی ونعم الوکیل
 (اﷲ تعالٰی حق فرماتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ ہی مجھے کافی اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter