Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۶(کتاب الشرکۃ، کتاب الوقف )
54 - 112
مسئلہ۱۶۹ : ۱۰ذی القعدۃ الحرام ۱۳۳۱ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک زمین مسجد کہ اس میں اور مسجد میں راہ وغیرہ کوئی 

فاصل نہیں، کثر ت جماعت کے وقت اس میں نماز بھی ہوتی ہے اور ایسے وضو وغیرہ ضروریات مسجد کےلئے ہے کیا متولی یا دیگر مسلمین کو یہ جائز ہے کہ اسے مسجد سے توڑ کر شارع عام میں شامل کردیں یا بالعوض خواہ بلاعوض سڑک بنانے کے لئے دے دیں اور ایسا کرنا حقوق مسجد پر دست درازی کرنا ہوگا یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

بیشک ایساکرنا حرام قطعی اور ضرور حقوق مسجد پر تعدی اور وقف مسجد میں ناحق دست اندازی ہے شرع مطہر میں بلا شرط واقف کہ اسی وقف کی مصلحت کےلئے ہو وقف کی ہیأت بدلنا بھی ناجائز ہے اگرچہ اصل مقصود باقی رہے تو بالکل مقصدوقف باطل کرکے ایک دوسرے کام کےلئے دینا کیونکر حلال ہوسکتا ہے۔
سراج وہاج وفتاوٰی عالمگیری وغیرہما میں ہے:
لایجوز تغییر الوقف عن ھیأتہ فلایجعل الدار بستانا ولاالخان حماما ولاالرباط دکانا الااذاجعل الواقف الی الناظر مایری فیہ مصلحۃ الوقف۱؎۔
وقف کی ہیئت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں، لہذا مکان کو باغ، سرائے کو حمام اور اصطبل کو دکان نہیں بنایا جائے گامگر اس وقت یہ تبدیلی ناجائز نہ ہوگی جب واقف نے خود متولی کو اختیار دیا ہو کہ مصلحت کےلئے جو تبدیلی بہتر سمجھیں کرلیں۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ  کتاب الوقف  الباب الرابع عشر فی المتفرقات    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۹۰)

( ردالمحتار        کتاب الوقف    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۳/ ۳۸۹)
فتح القدیر شرح ہدایہ وغیرہ کتب میں ہے:
الواجب ابقاء الوقف علی ماکان علیہ۔۲؎
وقف کو اپنی حالت پر باقی رکھنا واجب ہے(ت)
(۲؎ فتح القدیر         کتاب الوقف    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۵/ ۴۴۰)
خصوصاً ایسی تبدیلی جس سے خاص مسلمانوں کا حق عام آدمیوں مسلم غیر مسلم سب کے لئے ہوجائے جب وہ سڑک ہوئی تو اس میں مسلم کافر سب کا حق ہوجائے گا اور پہلے وہ صرف حق مسلماناں تھی تو کیونکر جائز ہو کہ مسلمانوں کا حق چھین کر عام کردیا جائے، کیا کوئی ہندو گواراکر سکتا ہے کہ اس کے شوالے یا مندر کا کچھ حـصہ توڑ کر مسلمانوں کو اس میں حقدار کردیاجائے تو عجب اس مسلمان سے کہ اپنے دین پر ایسے ظلم کا مرتکب ہو، یا اگر کوئی مسلمان کسی زمین، مندر یا ہندو کسی زمین مسجد کے ساتھ ایسا کرے تو گورنمنٹ اسے روا رکھے گی ہر گز نہیں بلکہ ضرور اسے اس مسلم یا ہندو کی جبر وتعدی اور مذہبی دست اندازی  قرار دے گی علی الخصوص ایسی زمین کہ اگر عین مسجد نہیں فنائے مسجد ہے۔
غنیہ میں ہے:
فناء المسجد ھوالمکان المتصل بہ لیس بینہ طریق۱؎۔
فنائے مسجد وہ مکان ہے جو مسجد کے متصل ہو اور درمیان میں راستہ نہ ہو۔(ت)
(۱؎ غنیۃ المستملی     فصل فی احکام المسجد    سہیل اکیڈمی لاہور    ص۶۱۴)
اور فنائے مسجد کی حرمت مثل مسجد ہے۔ فتاوٰی عالمگیریہ کتاب الوقف باب ۱۱میں محیط امام شمس الائمہ سرخسی سے ہے:
قیم المسجدلایجوز لہ ان یبنی حوانیت فی حد المسجد اوفی فنائہ لان المسجد اذاجعل حانوتا ومسکنا تسقط حرمتہ وھذالایجوز والفناء تبع المسجد فیکون حکمہ حکم المسجد۲؎۔
متولی کو مسجد کی حد یا مسجد کے فناء میں دکانیں بنانے کا اختیار نہیں کیونکہ مسجد کو جب دکان یا رہائش گاہ بنالیا جائے تو اس کا احترام ساقط ہوجاتا ہے جو کہ ناجائز ہے اور فنائے مسجد چونکہ مسجد کے تابع ہے لہذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو مسجد کا ہے۔(ت)
متولی کو مسجد کی حد یا مسجد کے فناء میں دکانیں بنانے کا اختیار نہیں کیونکہ مسجد کو جب دکان یا رہائش گاہ بنالیا جائے تو اس کا احترام ساقط ہوجاتا ہے جو کہ ناجائز ہے اور فنائے مسجد چونکہ مسجد کے تابع ہے لہذا اس کا حکم بھی وہی ہوگا جو مسجد کا ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر    الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۶۲)
جب فنائے مسجد میں خود مصلحت مسجد کےلئے دکان بنانا متولی مسجد کو حرام، اور مسجد کی بے ادبی اور اس کی حرمت کا ساقط کرنا ہے تو فنائے مسجد کو عام سڑک کےلئے دے دینا کس درجہ سخت حرام اور مسجد کی بے حرمتی اور اس کی عظمت کا منہدم کرنا ہوگا۔ وہ جو بعض کتب میں ہے کہ ضرورت و مجبوری کے وقت مسجد کو راستہ بناناجائز ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ بضرورت مسجد میں ہو کر دوسری طرف کو نکل جانا جائز ہے کہ مسجد میں دوسری طرف جانے کے لئے چلنا حرام ہے مگر بضرورت کہ راستہ گھراہوا ہے اور مسجد ہی میں سے ہوکر جا سکتا ہے جیسے موسم حج میں مسجد الحرام شریف میں واقع ہوتا ہے اس کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی جنب یا حائض یا نفساء کو نہیں نیز گھوڑے یا بیل گاڑی کو نہیں، ہوکر نکل جانے کیلئے بھی ان کا جانا لے جانا ہرگز جائز نہیں، نہ یہ کہ معاذاﷲ اسے مسجدیت سے خارج کرکے گزر گاہ عام کردیاجائے کہ مسلم کافر جانور پاک ناپاک سب کےلئے شارع عام ہوجائے یہ ہرگز حلال نہیں ہوسکتا۔
اشباہ والنظائر احکام المسجد میں ہے:
لایجوز اتخاذ طریق فیہ للمرور الالعذر۱؎۔
سوائے ضرورت کے مسجد میں سے گزرنے کیلئے راستہ بنانا ناجائز ہے(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث     القو ل فی احکام المسجد    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۱)
اس کی شرح غمز العیون والبصائر میں ہے:
قولہ ولایجوز اتخاذ طریقہ فیہ للمرور یعنی بان یکون لہ بابان فاکثر فیدخل من ھذا ویخرج من ھذا۲؎۔
ماتن کے قول کہ مسجد سے گزرنے کےلئے راستہ بنانا ناجائز ہے''کا معنی یہ ہے کہ مسجد کے دو یا دوسے زیادہ دروازے ہوں تو ایک دروازے سے داخل ہو کر دوسرے سے نکل جائے (ت)
(۲؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ   الفن الثالث القو ل فی احکام المسجد    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۳۱)
فتاوٰی عالمگیریہ وفتاوٰی خلاصہ میں ہے:
رجل یمر فی المسجد ویتخذ طریقا ان کان بغیر عذر لایجوز وبعذر یجوز ثم اذا جاز یصلی فی کل یوم مرۃ لا فی کل مرۃ۳؎۔
ایک شخص مسجد سے گزرتا ہے اور اس کو راستہ بناتا ہے اگر عذر ہے تو جائز ہے بلا عذر ہے تو ناجائز ہے پھر اگر اس کو گزرنا جائز ہو تو ہر روز ایک مرتبہ اس میں نماز پڑھے نہ کہ ہر بار جب بھی گزرے (ت)
(۳؎ خلاصۃ الفتاوی    کتاب الصلٰوۃ     الفصل السادس والعشرون فی المسجد مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۲۲۹)
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للامام الزیلعی وفتاوٰی ہندیہ میں ہے:
اذا جعل فی المسجد ممرافانہ یجوز لتعارف اھل الامصار فی الجوامع جاز لکل واحدان یمرفیہ حتی الکافر الا الجنب والحائض والنفساء ولیس لھم ان یدخلوافیہ الدواب۴؎۔
اگر مسجد میں سے کوئی حصہ مسلمانوں کے لئے عام راستہ گزر گاہ بنادیا جائے تو جائز ہے کیونکہ شہروں کے لوگوں میں جامع مسجدوں میں ایسا متعارف ہے اور ہر ایک کو اس راہ گزر سے گزرنے کی اجازت ہوگی حتی کہ کافرکو بھی،مگر جنبی اور حیض ونفاس والی عورتوں کو گزرنے کی اجازت نہیں اور لوگوں  کو یہ اختیار نہیں کہ اس راستے سے اپنے جانوروں کو لے کر جائیں۔(ت)
 (۴؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد        نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۷)
محیط امام برہان الدین وفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
ان اراد وا ان یجعلواشیئا من المسجد طریقا للمسلمین فقد قیل لیس لھم ذٰلک وانہ صحیح۱؎۔
اگر لوگوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کا کوئی ٹکڑا مسلمانوں کےلئے گزر گاہ بنادیں تو کہا گیا ہے کہ انہیں ایساکرنے کا اختیار نہیں، اور بیشک یہی صحیح ہے(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الوقف    الباب الحادی عشر فی المسجد    نورانی کتب خانہ پشاور    ۲/ ۴۵۷)
اسی طرح فتاوٰی امام فقیہ ابواللیث پھر فتاوٰی تاتارخانیہ وغیرہا کتب معتمدہ میں ہے۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۷۰: ازمحلہ کوٹ پرگنہ سنبھل ضلع مراد آباد مکان مولوی لئیق احمد صاحب مرسلہ مطہر حسین صاحب ۲۳ذیقعدہ ۱۳۳۱ھ
جلسہ چندہ واسطے مصارف خیر کے مساجد میں خصوصاً جامع مسجد میں جائز ہے یانہیں؟
الجواب

جائز ہے جبکہ چپقلش نہ ہو اور کوئی بات خلاف ادب مسجد نہ ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter